Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1434ھ

ہ رسالہ

4 - 17
اخوت اسلامی اور اس کے تقاضے
مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی

تفریق ہے حکمت افرنگ کا مقصود اسلام کا مقصود فقط ملت آدم

اخوت کی لغوی تحقیق
”اخا یخو اُخوة ً واخاوةً باب نصر ینصر“ سے ہے، بمعنی بھائی بنانا ،دوست بنانا ۔باب مفاعلہ سے موٴاخاة کا بھی یہی معنی ہے ۔

اصطلاح میں اخوت
مسلمانو ں پر ایک دوسرے کی جا ن ، مال،عزت وآبرو کی حفاظت بلا امتیا ز فرض ہے اور مذکورہ امور میں کوتاہی کرنا حرام ہے ،اسی قانون کا نام شریعت نے ”اخوت اسلامی “رکھا ہے ،جب کہ اس کی ضد عصبیت ہے او روہ مسلمانوں کا قومی ، لسانی ،صوبائی یا خاندانی بنیادوں پر باہمی دشمنی کا نام ہے ۔

اخوت کی اقسام
حضرت ابوالحسن علی ندوی نے اس کی دوقسمیں لکھی ہیں ،اول یہ کہ پوری نسل انسانی ایک آدم کی اولاد ہے اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حجة الوداع کے خطبہ میں ایسے معجزانہ الفاظ میں اس پر مہر لگادی کہ اس سے زیادہ اسلامی مساوات کا کوئی منشور نہیں ہوسکتا ۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”ان ربکم واحد ،وان اباکم واحد“ ۔ثانی قسم یہ کہ چھٹی صدی عیسوی میں ایک نئی اخوت کی بنیاد ڈالی گئی ،اس اخوت کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کاعقیدہ ،نوع انسانی کے ساتھ ہم دردی کا جذبہ ،عدل و مساوا ت کے اصول اور انسانوں کی خدمت کے عزم وارادہ پر تھی۔

اخوت ،قرآن کریم کی روشنی میں
قرآن کریم میں اخوت اسلامی کو بڑے واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ اہل ایمان کی دو گروہوں کے مابین جنگ کی صورت میں ہماری ذمہ داری قرآن کریم کی آیت :﴿وان طائفتان من الموٴمنین اقتتلوا ﴾س پر دلالت کرتی ہے کہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں اگرکسی قسم کا اختلاف پیدا ہوجائے تو مسلمانوں میں اہل فہم وارباب حل وعقد پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس مخالفت کو ختم کروانے کے لیے پوری جد وجہد کریں اور آپس میں صلح کروادیں ۔باہمی اخوت ومحبت کا جو رشتہ جذبات میں مغلوب ہوگیا اس کو زندہ کیا جائے ۔اسی لیے اگلی آیت میں تاکیداً فرمایا :﴿انما الموٴمنون اخوة﴾ اور ساتھ ہی وہ بنیا د واساس بھی ظاہر کردی گئی جس پر اخوت کی عظیم عمارت قائم ہوسکتی ہے اور وہ ہے اللہ کا خوف ۔معلوم ہو ا کہکبھی اگربھائیوں کی لڑائی ہوجائے تو اپنے دونوں بھائیوں میں اصلاح کرادیاکرو، کیوں کہ دونوں گروہ بہر حال تمہارے بھائی ہیں ۔

حضرت موسٰی وہارون علیہما السلام کے واقعہ سے استدلال
ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿واجعل لی وزیراً من اہلی ھارون اخی﴾دونوں بھائیوں نے مل کر بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کی راہ ہم وار کی اور موسٰی نے ہارون  کو اپنا نائب بھی منتخب فرمایا ۔اسی اخوت کی بنا پرمحبت کے اعلی درجات کو چھوا ۔علاوہ ازیں قرآن کریم کی بہت ساری آیات اسلامی اخوت پر دال ہیں ،جیسے :﴿ان ھٰذہ  امتکم امة واحدة ﴾․﴿واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا ﴾․

اخوت اسلامی احادیث کی روشنی میں
آپ صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات مبارکہ کا ایک بڑا ذخیرہ اس بارے میں منقول ہے ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”المسلم اخو المسلم“ ایک موقع پر فرمایا ”الموٴمن للموٴمن کالبنیان یشد بعضہ بعضاً“ ایک اور جگہ پر منقول ہے باہمی محبت اور تعلق میں اہل ایمان کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ اگر ایک عضو بیمار ہوجائے تو پورا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔

فقہائے کرام کے ہاں اخوت اسلامی کی اہمیت
اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتاہے کہ تما م فقہاء نے اس پر ایک الگ باب قائم کیا ہے جس میں ہر نوع کے مسئلہ کو مفصلاً حل کیا ہے ،مثلًا اگر صلح میں کسی جماعت کی زیادتی دیکھو اور وہ جنگ ترک کرنے پر آمادہ نہ ہو تو سب مل کر ان کی مخالفت کرو حتیٰ کہ وہ تعدی سے باز آکر اللہ کے حکم کے سامنے جھک جائے اور جنگ بند کردے ۔پھر دونوں کے درمیان حدود شرعیہ کے مطابق فیصلہ کیا جائے ۔فقہائے کرام نے تاکید فرمائی ہے کہ انصاف سے فیصلہ کیا جائے تاکہ مخالفت ہمیشہ کے لیے ختم ہو اور یہ اندیشہ نہ رہے کہ جنگ دوبارہ شروع ہوجائے ۔علاوہ ازیں کسی فریق کی طرف داری بھی نہ کی جائے۔

مدینہ منورہ میں اخوت کی مثال
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد سب سے پہلے شہر کے امن اور باشندوں کے باہم تعلقات کی طرف توجہ دی ۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے محسوس فرمایا تھا کہ مہاجرین مکہ اہل مدینہ کے لیے باعث اذیت نہ ہو نے پائیں اور ساتھ ساتھ مہاجرین ہجرت کی وجہ سے دل شکستہ نہ ہوں ،چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے تمام مہاجرین وانصار کو جمع کرکے اخوت اسلامی کا وعظ فرمایا او ر مسلمانوں کے اندر مواخات قائم کرکے نہایت خوش گوار معاشرہ تشکیل فرمایا ۔اس عہد مواخات کو انصار نے اس خلوص سے نبھایا کہ تاریخ میں کوئی دوسری نظیر تلاش نہیں کی جاسکتی ۔تمام مہاجرین کو حقیقی بھائی سمجھا اور بے دریغ مال واسباب ان کے سپر د کیا ۔بعض انصار اپنی دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق دے کر مہاجر بھائی سے اس کے نکاح کے لیے تیا ر ہوئے ۔مہاجرین نے بھی نہایت ہمت کے ساتھ مزدوریاں کیں اور اپنے پاوٴ ں پر کھڑے ہوگئے۔

صحابہ کرام کی زندگی سے اخوت کی مثال
مصعب بن عمیر کے بھائی ابوعزیز بن عمیر غزوہ بدر میں گرفتار ہوئے ۔جب ابو عزیز کے ہاتھ باندھے جانے لگے تو رسیاں باندھنے والے سے کہا کہ اس کو اچھی طرح کس کر باندھو، اس سے اچھی رقم وصول ہوگی ۔یہ بات سن کر ابو عزیز نے کہا ”آپ سے یہ توقع نہ تھی ،آپ کلمہ خیر کہتے میری سفارش کرتے، لیکن اس کے برعکس آپ نے ہاتھ مضبوطی سے باندھنے کا حکم دیا“ تومصعب بن عمیر نے فرمایا”تم اس وقت میرے بھائی نہیں ،میرا بھائی وہ ہے جو تمہارے ہاتھ میں رسی باندھ رہا ہے ،اس لیے کہ ایک نئے رشتہ نے ہم کو جوڑدیا ہے، جو خون کا رشتہ تو نہیں ،مگر اس سے بھی زیادہ عظیم اور قابل قدر ہے“۔

اکابر علمائے دیوبند کے ہاں اخوت کی اہمیت
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ علما ئے دیوبند نے اخوت کے لیے کیا کچھ نہ کیا ۔صرف اخوت اسلامی کے قیام کے لیے جد وجہد پر کئی جلدی لکھی جاسکتی ہیں،لیکن میں صرف حکیم الامت حضرت تھانوی کا ایک واقعہ مثال کے طور پر پیش کرتا ہو ں ۔حضرت تھانوی ایک جگہ تشریف لے گئے، جس کو ”کالپی“ کہتے تھے، وہاں ایک بھنگی مسلمان ہوا تھا لیکن لوگ اس سے نفرت کی وجہ سے اس کے ساتھ نہ کھاتے تھے او ر نہ پیتے تھے، لوگوں نے حضرت تھانوی سے شکایت کی ،تو آپ نے ایک لوٹا منگوایا اور پھر اس نو مسلم سے فرمایا کہٹونٹی سے منہ لگاکر پیو ،پھر خودٹونٹی سے منہ لگاکر اس بچے ہوئے پانی میں سے پیا، پھر سب لوگوں سے پانی پلوا یا اور فرمایا ” دیکھو بھائی !اس سے نفرت نہ کرنا “۔

وطن عزیز پاکستان پر ایک نظر
پاکستان کا مسئلہ صرف یہ نہیں کہ تنہا اس ملک میں اسلامی وحدت کے علم بردار ہوں، بلکہ اس وقت پوری دنیا کے سیاسی نقشے میں اسلامی وحدت کے ہم دعوے دارہیں اور اس کے لیے کوشاں ہیں۔اگر ہم وحد ت اسلامی سے دست بردار ہوجائیں گے تو ہمار املک بھی لسانی ،تہذیبی جھگڑوں اور پرانی اور علاقائی تہذیبوں کے احیا کے فتنوں سے بھر جا ئے گا ۔مثلًا یہ جذبہ کہ مسلمانو ں کی آمد سے پہلے قدیم تہذیب کو زندہ کیا جائے تو پھر اس وطن کا خداہی محافظ ہے ۔اس سے انکا ر نہیں کہ اب ا س قسم کے کئی فتنے ملک کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ اس لیے اس ملک کے مختلف عناصر ترکیبی کو جو چیز مربوط کرتی ہے،وہ ہیں وحدت ایمانی ،وحدت عقیدہ اور اخوت اسلامی ،اگر نئی وحدتیں قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو ذلت مقدر ہوگی، جیسے کہ اقبا ل نے پہلے خبردارکیا #
        بتان رنگ وبو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
        نہ ایرانی رہے باقی نہ تورانی نہ افغانی

اخوت اسلامی نہ ہونے پر وعیدیں
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو عصبیت کی طرف بلائے وہ ہم میں سے نہیں ،جو عصبیت پر لڑے وہ ہم میں سے نہیں ،جو عصبیت پر مار اجائے وہ ہم میں سے نہیں ۔قرآ ن کریم کی آیت :﴿تکن فتنة فی الارض وفساد کبیر ﴾بھی اسی بارے میں ہے ۔ہمارے لیے پناہ صرف اخوت اسلامی ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی وحدت پید اہوئی تو امت کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ طاقتیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں گی اور جاہلی عصبیت دوبارہ زندہ ہوجائے گی، جس کو اسلام نے ختم کیا تھا ۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے شاید زندگی میں کسی مسئلہ اور کسی موقع پر اتنی سخت زبان استعمال نہیں کی جو اس جاہلی عصبیت کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ۔آپ صلی الله علیہ وسلم صاحب بصیرت اور نور الٰہی سے منور تھے ،اور اقوام سابقہ کی تاریخ سے واقف، ،اس لیے عصبیت کا فتنہ سب سے بڑا فتنہ سمجھتے تھے، خلاصہ یہ کہ عصبیت ایسی آندھی ہے جس سے بڑھ کر کوئی اندھا وجود دنیا میں پید انہیں ہوا یہ کسی کی رعایت کرنے کے لیے تیا ر نہیں ۔
        اب کہاں ایثار واخوت وہ مدینے جیسی؟
        اب تو مسلم کو مسلمان سے ڈر لگتا ہے

اسلامی اخوت کے تقاضے رواداری قائم کرنے کی ضرورت
تمام مسلمانوں کو ایک جیسے حقوق دیے جائیں حتیٰ کہ غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کا نہ صرف تحفظ کیا جا ئے،بلکہ ایک ایسا پر امن معاشرہ تشکیل دیا جائے جو پورے عالم کے لیے اپنی مثال آپ ہو ۔

سیاسی یا مذہبی مواخات(Agreements)
تمام جماعتیں اپنے سیاسی او ر مذہبی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں ،لیڈر بننے کے شوق میں امت کو مزید تقسیم نہ کیا جائے ،اس سے تعصب اور تفرقہ وجود میں آئے گا ۔کسی نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے جماعت بناکر امت کو تقسیم کیا اور کسی نے مذہب کے نام پر وحدت کی طرف بلانے کے لیے ۔ایک امیر الموٴمنین کا انتخاب کیا جائے اور باقی سب مسلما ن اس کے ماتحت ہو ں۔ حضرت عمر  فرماتے ہیں کہ اسلام اجتماعی زندگی کا نام ہے ۔جمہوریت کا نہیں، جمعیت کا نام ہے ۔تاریخ کو دیکھا جائے تو ہٹلر (Hitler) نے ایک باطل مقصد کے لیے تمام عیسائی دنیا کو جمع کیا اور اس میں کسی حد تک کا م یا ب بھی ہوئے ۔یوں مسلمانو ں کو اس وقت ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو صحیح رخ متعین کرنے کے بعد ملت اسلامیہ میں اخوت پید اکرکے ایک مثالی حکومت قائم کرے ۔

جمہوریت نہیں ،خلافت
جمہوریت کو چھو ڑ کر خلافت کا راستہ اپنایا جائے، جمہوریت میں افراد کی گنتی تو کی جاتی ہے ،لیکن تولا نہیں جاتا ۔ایک عالم اور شریف آدمی ووٹ کے اعتبار سے شرابی کے برابر ہے ۔جمہوریت ہی کی وجہ سے آج تمام عالم کے مسلمان کئی جماعتوں میں بٹ گئے ہیں ۔خلافت کے قیام سے خلافت عثمانیہ کی طرح سب مسلمان ایک جسم کے مانند ہوجائیں گے اور اس کے لیے اساس ایمان اور اعمال صالحہ ہیں، جیسا کہ سورة النور میں اس کی وضاحت کی گئی ہے ۔

فروعی اختلافات کی بجائے اجتماعی مفادات کو مد نظر رکھنا
فروعی مسائل کو بنیاد بناکر اختلاف نہ کیا جائے ۔اگر چار فقہی مکاتب فکر وجود میں آئے ہیں تو وہ تعصب کی وجہ سے نہیں، بلکہ اپنے اپنے اصول وقواعد کی بنیا د پر اور اجتہاد کی قوت پر ۔اگر حضرات ائمہ کر ام کی سیرت پر نظر ڈالی جائے تو اس فروعی اختلاف کے باوجود وہ ایک دوسرے کے دلدادے تھے اور ایک دوسرے کی حد درجہ عزت کرتے تھے ۔آج ہماری حالت اگر بدلے گی تو ہمیں خود ہی اس کے لیے محنت کرنی پڑے گی ۔
        خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
        نہ ہو خیال جس کو اپنی حالت بدلنے کا

اسلامی اخوت کو فروغ کیسے دیا جا ئے ؟
اول اس پر غور کیا جائے اور اس کے مختلف پہلوں کا جائزہ لیا جائے کہ لسانیت اور قو م پرستی کا پس منظر اور پیش نظر کیا رہا؟ اندرون وبیرون ملک کونسے عناصر شریک ِکار ہیں ؟اغرا ض ومقاصد کیاہیں ؟ یہ یقیناسب لائق اظہار ہیں ۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی ، علمی ،سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر لوگوں کا شعور بیدار کیا جائے ،غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے ،اخوت اسلامی کے فضائل کا ہر جگہ تذکرہ ہو اور اس کی نشرواشاعت کے لیے تمام جائز ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جائے ۔

حرف آخر
موجودہ دور کا یہ اہم ترین موضوع اب تک ہماری مکمل توجہ کا طلب گار ہے اور اس موضوع پر مستقل اور سنجیدہ کام کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے اور شایدیہی وجہ ہے کہ آج ملت اسلامیہ لسانی اختلاف کاشکار ہے۔ ہمارے جن مسلمان بھائیوں میں یہ Virus سرایت کر چکا ہے ان کی اصلاح کرنا ،یہ بھی بلامبالغہ ہمارا فرض ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی ادائیگی کرنے والا بنادے ۔ آمین
        منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
        ایک ہے سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
        حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
        کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک 
Flag Counter