تصوف قرآن وسنت کی روشنی میں
ڈاکٹر بشیر احمد رند
تصو ف کا مفہوم
تصوف کا اصل مادہ صوف ہے ،جس کا معنی ہے اون ۔ اور تصوف کا لغوی معنی ہے اون کا لباس پہننا ،جیسے تقمص کامعنی ہے قمیص پہننا ۔ ( ہجویری ابو الحسن سید علی بن عثمان : کشف المحجوب، اردو ترجمہ عبد الرحمٰن طارق، لاہور، ادارہ اسلا میات ، طبع اول 2005ع، ص 416)
لیکن صوفیا کی اصطلاح میں اس کے معنی ہیں: ا پنے اندر کا تزکیہ اور تصفیہ کرنا، یعنی اپنے نفس کو نفسانی کدورتوں ا وررذائلِ اخلاق سے پاک وصاف کرنا اور فضائلِ اخلاق سے مزین کرنا۔(چشتی پروفیسر یوسف سلیم: تاریخ تصوف،لاہور، دارالکتاب،طبع اول 2009ع، ص 115)
اور صوفیا ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنے ظاہر سے زیادہ اپنے اندر کے تزکیہ اور تصفیہ کی طرف توجہ دیتے ہیں اور دوسروں کو اسی کی دعوت دیتے ہیں۔اب لفظ صوفیا، اپنے لغوی معنی ( اون کا لباس پہننے والے )میں استعمال نہیں ہوتا، بلکہ ایسے لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اپنے اندرکے تزکیہ وتطہیر کی طرف توجہ دیتے ہیں ۔اور اب یہ لفظ ایسے ہی لوگوں کے لیے لقب کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔لیکن چوں کہ ابتدا میں ایسے لوگوں کا اکثر لباس صوف (اون) ہی ہوتا تھا ،اس وجہ سے ان پر یہ نام پڑ گیا، اگرچہ بعد میں ان کا یہ لباس نہ رہا۔(القشیری ابو القاسم عبدالکریم بن ہوازن : الرسالة القشیریہ، ترجمہ محمد عبد النصیر العلوی، لاہور مکتبہ رحمانیہ ص 416 )
تصوف کی اہمیت
حدیث کی کتابوں میں ایک حدیث ”حدیثِ جبرئیل“ کے نام سے مشہور ہے،اس میں ہے کہ ایک دن جبریل علیہ السلام انسانی شکل میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ سوالات کیے، ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ:احسان کیا ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ: احسان یہ ہے کہ تم خدا کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو ،بھلا اگر تم خدا کو دیکھ نہیں رہے، تو کم سے کم یہ یقین کرلو کہ وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔(البخاری ابو عبد الله محمد بن اسمٰعیل : صحیح البخاری ، الریاض، دار السلام للنشر والتوزیع ،طبع دوم 1999ع، ص 12 حدیث 50 )
بندہ کے دل میں اسی احسان کی کیفیت پیدا کرنے کا صوفیا کی زبان میں دوسرانام تصوف یا سلوک ہے۔تصوف در اصل بندہ کے دل میں یہی یقین اور اخلاص پیدا کرتا ہے ۔تصوف مذہب سے الگ کوئی چیز نہیں، بلکہ مذہب کی روح ہے۔جس طرح جسم روح کے بغیر مردہ لاش ہے، اسی طرح الله کی عبادت بغیر اخلاص کے بے قدر وقیمت ہے۔تصوف بندہ کے دل میں الله تعالیٰ کی ذات کی محبت پیدا کرتا ہے۔اور خدا کی محبت بندہ کو مجبور کرتی ہے کہ وہ خلق ِخدا کے ساتھ محبت کرے،کیوں کہ صوفی کی نظر میں خلقِ خدا ،خدا کا عیال ہے ۔اور کسی کے عیال کے ساتھ بھلائی عیال دار کے ساتھ بھلائی شمار ہوتی ہے خدا کی ذات کی محبت بندہ کو خداکی نافرمانی سے روکتی ہے اور بندگانِ خدا کی محبت بندہ کو ان کے حقوق غصب کرنے سے روکتی ہے۔اس لیے صوفیا حضرات کی زندگی حقوق الله اور حقوق العباد کو پوری طرح ادا کرتے ہوئے گذرتی ہے۔ظاہر ہے کہ جو چیز انسان کو الله تعالیٰ کا فرماں بردار بنائے اور اس کے بندوں کا خیرخواہ بنائے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔تصوف اور اہلِ تصوف کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا: ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں میں سے چھ کروڑ (85 فیصد)مسلمان یقیناََ اہلِ تصوف کے فیوض وبرکات کا نتیجہ ہیں۔ (حافظ محمد موسیٰ بھٹو: تصوف و اہلِ تصو ف، سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ حیدرآباد ، ص115 )
ہم اپنے اس مقالے میں تصوف کی ان باتوں کا قرآن وسنت کی روشنی میں تجزیہ کریں گے جو صوفیا حضرات کے ہاں متفق علیہ ہیں ۔
صوفیا حضرات جن باتوں پر زیادہ زور دیتے ہیں وہ یہ ہیں :
1... اللہ تعالیٰ کی محبت
2... رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت
3... تزکیہ نفس ( اپنے نفس کو فضائلِ اخلاق سے آراستہ کرنا اور رذائلِ اخلاق سے پاک کرنا)
4... برداشت اور رواداری
5... خدمت ِخلق
اب ہم ہر ایک بات کا قرآن وسنت کی روشنی میں تجزیہ کرتے ہیں :
اللہ تعالی کی محبت
صوفیا حضرات اپنی تعلیمات میں سب سے زیادہ جس چیز پر زور دیتے ہیں وہ عشق ومحبتِ خداوندی ہے ،کیوں کہ محبت ہی ایک ایسی چیزہے جو محب کو اپنے محبوب کی اطاعت پر مجبور کرتی ہے اور اس کی نا فرمانی سے روکتی ہے اور محب کے دل میں محبوب کی رضا کی خاطر ہر مصیبت و تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کی قوت وصلاحیت پیدا کرتی ہے،اور محبت ہی وہ چیز ہے جو محب کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ایسا عمل کرے جس سے محبوب راضی ہو اور ہر اس عمل وکردارسے باز رہے جس سے محبوب ناراض ہو ، چناں چہ صوفیا حضرات اگر زہد، تقویٰ،عبادت،ریاضت اور مجاہدے کرتے ہیں تو ان کا مقصد صرف اورصرف خداکی رضا حاصل کرنا ہوتا ہے۔وہ جنت کی لالچ یا جہنم کے خوف سے خدائی بندگی نہیں کرتے، چناں چہ حضرت رابعہ بصریہ اپنی ایک دعا میں فرماتی ہیں :”خدایا! اگر میں تیری بندگی جنت کے لیے کرتی ہوں تو مجھے اس سے محروم رکھنا ،اگر میں جہنم کے خوف سے تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھے اس میں جھونک دینا ،لیکن اگر میں تیری بندگی تجھے پانے کے لیے کرتی ہوں تو مجھے اپنے آپ سے محروم نہ رکھنا “۔( مرزا قلیچ بیگ:مقالات الاولیاء ،سندھ پرنٹنگ پریس ،نوشہری دروازہ، شکارپور 1927ع ،ص 15)
فراق و وصل چہ خواہی؟ رضائے دوست طلب کہ حیف باشدا زو غیرازیں تمنائے ۔ ” فراق وو صل کیا ڈھونڈتا ہے ؟محبوب کی رضا مندی ڈھونڈ کہ محبوب سے محبوب کے سوا کی تمنا ،افسوس کی بات ہے “ ( مولانا محمد زکریا: شریعت وطریقت کا تلازم ،طبع اول 1993ع ،ص102 )
شبلی تو یہاں تک فرماتے ہیں: ”الصوفی لا یریٰ فی الدارین مع اللہ غیراللہ․“ ( کشف المحجوب ص76)
” صوفی دونوں جہانوں میں اللہ تعالیٰ کی ہستی کے علاوہ اور کسی چیز کو نہیں دیکھتا۔ “
امام ربانی فرماتے ہیں :” مقربین بارگاہ الہٰی ( یعنی صوفیا حضرات ) اگر بہشت چاہتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ ان کا مقصد نفس کی لذت ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ خدا کی رضا کی جگہ ہے ، اگر وہ دوزخ سے پناہ مانگتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ اس میں رنج والم ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ خدا کے ناراضگی کی جگہ ہے ، ورنہ ان کے لیے انعام اور رنج والم دونوں برابر ہیں۔ ان کا اصل مقصود رضائے الہٰی ہے۔ (امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی: مکتوبات امام ربانی، کراچی ،دار الاشاعت ،طبع اول 2006ع ، مکتوب 35 جلد اول ص 191)
شاہ بھٹائی فرماتے ہیں:
بھٹائی شاہ عبد اللطیف : شاہ جو رسالو، مرتب کلیان آدوانی ،روشنی پبلیکیشن کنڈیارو، طبع اول، 1997ع سُر سریراگ ،داستان اول ص 114
” اے موتی جیسے انسان ! اپنے اندر میں خدا کی محبت کا الاؤ جلا دے ، یہ راہ اختیار کرو توآپ کا لین دین کام یاب ہو۔“
یعنی خدا سے عشق کرنے والے اسے کبھی نہیں بھلاتے، کبھی عشق ومحبت کی آہ بھرتے ہوئے ان کی روحیں پرواز ہو جا ئیں گی۔ ( شاہ جو رسالو، سر یمن کلیان داستان 7 ص 94)
اوریہی بات قرآن وسنت کی تعلیم ہے :
چناں چہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ أَشَد وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبّاً لِّلّہ﴾․ (سورہ بقرہ: 165)
” اور جو لوگ موٴمن ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں “ ۔
ایک اور آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿قُلْ إِن کَانَ آبَاؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْْکُم مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّی یَأْتِیَ اللّہُ بِأَمْرِہِ وَاللّہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْن﴾․ ( توبہ :24)
” اے رسول(صلی الله علیہ وسلم ) !مسلمانوں سے کہ دیجیے کہ اگر تمہیں اپنے باپ دادا اور بیٹے اوربھائی اور بیویاں اور رشتے دار ا ور وہ تجارت، جس کے مندا پڑ جانے سے تم بہت ڈرتے ہو اور وہ مکانات، جنہیں تم بہت عزیز رکھتے ہو ، اگر ان میں سے کوئی چیز بھی تمہیں الله سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ پیاری ہے تو پھر انتظار کرو، یہاں تک کہ الله کا فیصلہ صادر ہو جائے اور یاد رکھو کہ الله فاسقوں کوہدایت نہیں دیا کرتا “۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”من احب لله وابغض لله، واعطٰی لله، ومنع لله فقد استکمل الایمان“․ ( الخطیب محمد بن عبدالله :” مشکوة المصابیح“ کراچی، قدیمی کتب خانہ ص 14)
” جس شخص کا یہ حال ہو کہ و ہ الله ہی کے لیے محبت کرے اور الله ہی کے لیے بغض رکھے اور الله ہی کے لیے دے اور کسی کو کچھ دینے سے الله ہی کے لیے ہاتھ روکے تو اس نے اپنے ایمان کو کا مل کر لیا “
آپ صلی الله علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے : ”اللٰھم، اجعل حبک احب الی من نفسی واھلی ومن الماء البارد،،․( ایضََا ص220)
” اے الله! مجھے ایسا کر دے کہ تیری محبت اپنی ذات اور اپنے اہل وعیال سے اور پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب ہو۔“
اور صوفیا حضرات اسی محبت کو اپنے دل میں اور اپنے مریدین کے دل میں پیدا کرنے کے لیے مجاہدے اور ریاضت کرتے اور کراتے ہیں ․
رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت
صوفیا حضرات کے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ کی پیروی کیے بغیر معرفت ِخداوندی اور نجات کا حصول نا ممکن ہے۔ چناں چہ امام ربانی شیخ احمد سرہندی ایک مکتوب میں لکھتے ہیں : ”اس نعمت ِعظمیٰ یعنی معرفت خداوندی تک پہنچنا سیدالاولین والآخرین کی اتباع سے وابستہ ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کیے بغیر فلاح ونجات ناممکن ہے ۔ “
محال است سعدی کہ راہ صفا
تواں رفت جز درپئے مصطفٰے
( شیخ احمد سرہندی : مکتوبات ، مکتوب 78 ،ج اول ، ص279)
”اے سعدی!یہ ناممکن ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی پیروی کیے بغیر خدائی معرفت اور تصفیہ قلب حاصل ہو سکے “ ۔
یہی بات قرآن مجید میں الله تعالی اس طرح ارشاد فرماتے ہیں: ﴿قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُم﴾․ ( آل عمران:31 )
” اے پیغمبر (صلی الله علیہ وسلم)! آپ ان کو بتا دیجیے کہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو ، نتیجے میں ا لله تعالی تم سے محبت کریں گے۔“
اس لیے کہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت خود خدا کی اطاعت ہے، چناں چہ ارشاد باری تعالی ٰ ہے : ﴿مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہ﴾․(النساء: 80)
”جس شخص نے خدا کے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی۔ “
کیوں کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم جو کچھ بولتے ہیں وہ وحی الہٰی ہی ہوتا ہے ، چناں چہ ارشاد باری ہے: ﴿وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْہَوَی ، إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحَی﴾ ․(النجم: 3،4)
” رسول الله صلی الله علیہ وسلم! اپنی خواہشات سے نہیں بولتے ، وہ (جو کچھ تمہیں دین کے بارے میں دے رہے ہیں ) وہ وحی الہی ہے، جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے ۔“
اس لیے ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا : ﴿ مااٰ تاکم الرسول فخذ وہ وما نھا کم عنہ فانتھوا﴾․ (الحشر)
” جو کچھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تمھیں دیں وہ لے لو اور جس سے روکیں رک جاؤ۔“
آپ صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد ات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کا اس وقت تک ایمان کامل ہی نہیں ہو سکتا، جب تک رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہر چیزسے زیادہ محبت نہ کرے اور اپنی ساری خواہشات رسول صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے تابع نہ بنادے۔ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :﴿ لایوٴمن احدکم حتٰی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین﴾۔ (صحیح بخاری ، کتاب الایمان ص 6، حدیث 15 ،القشیری ابو الحسین مسلم بن حجاج : صحیح مسلم ، الریاض ،دار السلام للنشر والتوزیع ،طبع دوم ،2000ع ص ۴۱ حدیث 169)
” آپ میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک موٴمن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے والدین اولاد اورسب لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب نہ رکھے۔ “
﴿لایوٴمن أحدکم حتٰی یکون ھواہ تبعََا لما جئت بہ﴾․ (مشکواة المصابیح ص 30)
” تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک موٴمن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہشات میرے لائے ہوئے طریقے کے مطابق نہ ہوں “
تزکیہٴ نفس
صوفیا حضرات جتنے مجاہدے، ریاضات اور عبادات کرتے ہیں یا ان کا اپنے معتقدین کو درس دیتے ہیں ان کا اصل مقصد نفس کا تزکیہ اور تطہیر ہے ۔ چناں چہ سندھ کے سدا حیات اور آفاقی شاعر، شاہ عبداللطیف بھٹائی فرماتے ہیں:
( شاہ جو رسالو: سر یمن کلیان ص 90)
شاہ صاحب فرماتے ہیں: اے دوست! چاہے ایک حرف”الف“ ہی پڑھ لو، لیکن اپنے اندر کو پاک و صاف کرلو ، اگر اندر کا تزکیہ و تطہیر نہیں کرتے تو زیادہ پڑھنے اور ورق گردانی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن و سنت کیا کہتے ہیں ؟
قرآن مجید اور تزکیہ نفس
الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک دعا نقل کی ہے : ﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیْہِمْ﴾․ ( بقرہ :129)
” اے ہمارے پروردگار !میری اولاد میں ان میں سے ہی ایک رسول بھیج ، جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کے اندر کا تزکیہ کرے۔ “
ابراہیم علیہ ا لسلام کی دعا سے ظاہر ہے کہ کسی نبی کی بعثت ، تلاوت آیات اور تعلیم کتاب وحکمت کا اصل مقصد لوگوں کے اندر کا تزکیہ ہے۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد بتاتے ہوئے الله تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ ﴾․ ( الجمعہ آیة: 2)
” الله تعالی ٰ وہ ہے جس نے نا خواندہ لوگوں میں ان میں سے ہی ایک رسول بھیجا ، جو انہیں خدائی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے ،اگر چہ وہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گم راہی میں پڑے ہوئے تھے۔ “
اس آیت سے ظاہر ہیکہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو خدائی آیات سنائیں ، ان کا تزکیہ کرے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیں۔ لیکن غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلمکی بعثت کا اصل مقصد تزکیہ ہی تھا ،کیوں کہ تلاوتِ آیات و تعلیمِ کتاب وحکمت کا اصل مقصد تو تزکیہ ہی ہے، کیوں کہ اگر تعلیم سے تزکیہ قلب و تطہیر نفس حاصل نہ ہو تو تعلیم و تعلم ، درس و تدریس سب فضول ہے ۔
جیسا کہ بھٹائی صاحب کے مذکورہ شعر سے واضح ہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد باری ہے : ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا ، وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا﴾․( الشمس: 9،10)
”بے شک وہ شخص کا م یاب ہو گیا جس نے اپنے نفس کو پاک کیا اور وہ نا کا م ونا مراد ہو گیا جس نے اپنے نفس کو مٹی آلود کر دیا“۔
تصوف جن رذائلِ اخلاق سے اپنے اندر کو پاک کرنے کی تعلیم دیتا ہے وہ یہ ہیں : بد نیتی ،نا شکری، جھوٹ ، وعدہ خلافی ، خیانت ، بددیا نتی ، غیبت وچغلی ، بہتان ، بد گوئی و بدگمانی ، خوشامد و چاپلوسی ، بخل و حرص ، ظلم ، فخر ، ریا و نمود و حرام خوری و غیرہ ۔
اور جن چیزوں سے اپنے اندر کوسنوارنے کی تعلیم دیتا ہے، وہ یہ ہیں:
اخلااصِ نیت، و رع و تقویٰ ، دیانت وامانت ، عفت و عصمت ، رحم وکرم ، عدل و انصاف ، عفو ودرگذر ، حلم و بردباری ،تواضع و خاکساری ، سخاوت و ایثار، خوش کلامی وخودداری ، استقامت و استغنا وغیرہ ۔(جیسا کہ ابو القاسم قشیری کی کتاب رسالہ قشیریہ اور علی ہجویری کی کتاب کشف المحجوب اور ابو نصر کی کتاب کتاب اللمع اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کی کتاب شاہ جو رسالو سے ظاہر ہے)
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن و سنت کا بیشترحصہ ان ہی رذائلِ اخلاق سے بچنے اور فضائلِ اخلاق سے اپنے آپ کو مزین کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔
فضائل اخلاق ورذائل اخلاق پر سید سلیمان ندوی نے سیرت النبی کی چھٹی جلد لکھی ہے، جو 413 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں انہوں نے سینکڑوں آیات و احادیث ذکر کی ہیں ۔ بلکہ اگر صرف ارکانِ اربعہ ( چار اہم عبادات ، نماز ، روزہ ، زکوٰة ، و حج ) پر غورکیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن وسنت نے ان کا مقصد ہی تزکیہٴ نفس و تطہیرِ قلب بتایا ہے۔
نماز کے بارے میں قرآن مجید فرماتا ہے ۔
﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکَر﴾․(العنکبوت: 45)
” بے شک نماز بے حیائی اور برے اعمال سے روکتی ہے “ ۔
اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :”من لم تنھہ صلواتہ عن الفحشاء و المنکر فلا صلواة لہ“․ ( ابن ابی حاتم )
” جس کی نماز اسے بے حیائی اور برے عمل سے نہ روکے اس کی نماز ، نماز ہی نہیں “ ۔
روزہ کے بارے میں الله تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ :﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون﴾․(بقرہ : 183)
” (تم پررو زے اس لیے فرض کیے گئے ہیں ) تا کہ تمہارے اندر تقویٰ و پرہیزگاری پیدا ہو “ ۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ”من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس لله حاجة بان یدع طعامہ وشرابہ“․ ( ابو عیسیٰ :جامع ترمذی ، دارالسلام للنشر والتوزیع ،الریا ض، طبع اول 1999ء حدیث 707)
” جس نے برے قول اور برے عمل کو نہ چھوڑا، اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی خدا کو کوئی ضرورت نہیں ۔“
زکوٰة کے بارے میں ا لله تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ صَدَقَةً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِم﴾․( توبہ: 103)
” ان کے اموال سے صدقہ ( زکوٰة ) وصول کیجیے، جس کے ذریعے ان کے اندر کی تطہیر اور تزکیہکیجیے۔ “
آپ صلی الله علیہ وسلم نے زکوٰة و صدقات کامقصد بتاتے ہوئے فرمایا : ”واتقوا الشح، فان الشح اھلک من کان قبلکم، حملھم علیٰ ان سفکوا دمائھم، واستحلوا محارمھم“․(صحیح مسلم بحوالہ مشکوة المصابیح ج اول ص 164)
”( زکواة و صدقات دیا کرو )اور نفس کی کنجوسی و بخل سے اپنے آپ کو بچاؤ،کیوں کہ بخل و کنجوسی ( نفس کا ایسارذیل خلق ہے جس ) نے تم سے پہلوں کو ہلا ک کر ڈالا کہ انہو ں نے خوں ریزیاں کیں اور حرام چیزوں کو حلال گردانا ۔“
اس سے صاف ظاہر ہے زکوٰة ، صدقات وانفاق فی سبیل الله کا اصل مقصد انسان کے اندر کا تزکیہ ہے ۔
حج کے بارے میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿فَمَن فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِیْ الْحَج﴾․ ( بقرہ:197)
” جو شخص حج کے مہینوں میں حج کی نیت کرے اسے چاہیے کہ عورتوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے ، کسی نا فرمانی کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے اپنے آپ کو بچائے۔ “
﴿وَتَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْْرَ الزَّادِ التَّقْوَی﴾․(بقرہ: 197)
” زاد راہ اپنے ساتھ لے لو ، کیوں کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے“۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ”من حج لله فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ امہ“․ (صحیح بخاری ،کتا ب الحج، حدیث 1521، صحیح مسلم، کتاب الحج، حدیث 3291 )
” جس نے خدا کی رضا کے لیے حج کیا اور اس میں اپنے آپ کو گناہ اور نا فرمانی سے بچایا وہ گناہوں سے ایسے پاک صاف ہو کر لوٹا جیسے گویا اس کی ماں نے آج اسے جنم دیا ہے “۔
اس سے صاف ظاہر ہوا کہ ارکانِ اربعہ کا اصل مقصد تزکیہ و تطہیرِ قلب ہی ہے ، جس کا صوفیا درس دیتے ہیں ۔ (جاری)