عصمت انبیا پر استدلال
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)
عصمت انبیا پر قرآنی شواہد
﴿وَأَطِیْعُواْ اللّہَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ﴾․ (اٰل عمران :132)
ترجمہ: ”اور حکم مانو اللہ کا، اور رسول کا تاکہ تم پہ رحم ہو۔“
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللّہ﴾․(النساء :64)
ترجمہ:”اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا، مگر اس واسطے کہ اس کا حکم مانیں اللہ کے فرمانے سے“۔
ان آیات میں رسو ل کی مطلق اطاعت کا حکم ملا ہے ۔اگر انبیا معصوم نہ ہوتے تو ان کی مطلق اطاعت کا حکم نہ ملتا، بلکہ امرا کی اطاعت کی طرح ان کی اطاعت کا بھی ایک پیمانہ مقرر ہوتا۔جیسا کہ حدیث رسول میں ہے امیر کی اطاعت اس وقت تک ضروری ہے جب تک وہ معصیت کا حکم نہ دے ۔ اور جب معصیت کا حکم دے تو پھر اس کی اطاعتکی کوئی ضرورت نہیں۔“(السمع والطاعةحق ما لم یومربالمعصیة، فاذا امر بمعصیة فلا سمع ولاطاعة․ صحیح البخاری :رقم الحدیث:2796)
لیکن انبیاء کی اطاعت کا کوئی پیمانہ نہیں ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت قرار پائی ہے۔ ﴿مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہ﴾․ (النساء:80)
ترجمہ:”جس نے حکم مانا رسول کا اس نے حکم مانا اللہ کا۔)جو یقینا عصمت انبیاء کی واضح دلیل ہے۔
احکام خداوندی سے روگردانی کرنے والا شخص ظالم ہوتا ہے۔ اور ظالم کبھی منصب نبوت سے سرفراز نہیں ہوسکتا۔ ﴿لاَ یَنَالُ عَہْدِیْ الظَّالِمِیْنَ﴾․ (تفسیر الکبیر البقرة تحت آیة رقم:124) (نہیں پہنچے گا میرا اقرار ظالموں کو)۔
﴿وانہم عندنا لمن المصطفین الاخیار﴾ (ص:47)
ترجمہ:”اور وہ سب ہمارے نزدیک ہیں چنے ہوئے نیک لوگوں میں۔“) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں (انبیا)کو مطلقاً اخیار کے لقب سے نوازا ہے، یعنی ان کے افعال اقوال اور صفات میں خیر کا عنصر چھایا ہوا ہے۔یہ خیر کے پتلے جبھی ہوسکتے ہیں جب معصیت کے شر سے محفوظ اور معصوم ہوں، لہٰذا یہ آیت بھی عصمت انبیا کی واضح دلیل ہے۔(تفسیر کبیر،ص: تحت آیة رقم:37)
﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْل اللّٰہ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾․(الاحزاب:21)
(تمہارے لیے بھلی(مفید)تھی رسول اللہ کی چال)یعنی اللہ کے رسول عمدہ نمونہ ہیں،جنہیں دیکھ کر اطاعت الٰہی کا فریضہ انجام دیا جا سکتا ہے۔اطاعت الٰہی کا نمونہ ایسی ذات ہو سکتی ہے جو گناہوں سے پاک ہو۔
﴿مَا کَانَ لِبَشَرٍ أَن یُؤْتِیَہُ اللّہُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ یَقُولَ لِلنَّاسِ کُونُواْ عِبَاداً لِّیْ مِن دُونِ اللّہِ﴾․(اٰل عمران:79)
ترجمہ:”کسی بشر کا کام نہیں کہ اللہ اس کو دیوے کتاب اور حکمت اور پیغمبرکرے، پھر وہ کہے لوگوں کو کہ تم میرے بندے ہو جاؤ، اللہ کو چھوڑ کر“۔
ابو حیان نے اس آیت کریمہ سے عصمت انبیا پر استدلال کیا ہے کہ نبوت کے منصب جلیل پر فائز ہونے والا شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت شعاری سے بال برابر بھی تجاوز نہیں کر سکتا۔ (تفسیر البحر المحیط:اٰل عمران، تحت آیة رقم:79)۔
شیعوں کے عقیدہ عصمت آئمہ پر ایک نظر
شیعوں کے نزدیک انبیا ورسل کے علاوہ أئمہ(شیعوں کے نظریہ امامت پر تفصیلی بحث سورة الانبیاء کی آیت﴿وجعلنا ہم ائمہ یہدون بأمرنا﴾(73) کے تحت آئے گی،ان شاء اللہ)بھی معصوم ہوتے ہیں۔ ”عصمت امام“ کا عقیدہ ،امامیہ اسماعیلہ شیعہ کے بچے بچے کی نوک زبان پر رہتا ہے ،اس لیے حوالوں کی ضرورت تو نہ تھی، تاہم اس سلسلے کے چند جملے پڑھ لیجئے۔
اصو ل کافی میں امام رضا کا ایک خطبہ منقول ہے، جس میں اماموں کے فضائل و خصائل بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
الامام المطھر من الذنوب والمبرأ عن العیوب․(اصول کافی ،کتاب الحجة،باب نادر جامع فی فضل الامام ،200/1)
امام گناہوں سے پاک اور عیوب سے مبرا ہوتا ہے، آگے اس خطبہ میں ہے۔
”فھو معصوم موید، موفق مسدد، قد امن من الخطایا والزلل،والعثار، یخصہ اللہ بذلک، لیکون حجة علی عبادہ“․ (اصول کافی ،کتاب الحجة،باب نادر جامع فی فضل الامام ،203/1)
”پس وہ معصوم ہے، اس کو تائید و توفیق حاصل ہے اور اس کو راہ مستقیم پر رکھا جاتا ہے اور وہ غلطی ولغزش سے محفوظ ہے،اللہ تعالیٰ اس کو یہ خصوصیت اس لیے عطا فرماتے ہیں کہ اس کے بندوں پر حجت ہو۔“
علامہ باقر مجلسی نے اپنی معروف و مشہور کتاب”بحار الانوار“ میں عصمت امام پر مستقل ایک باب باندھا ہے، اس باب میں”اعتقادات ”الصدوق “سے نقل کیا ہے۔
”اعتقادنا فی الأنبیاء والرسل والأئمة أنہم معصومون مطہرون من کل دنس وأنہم لایذنبون ذنبا صغیراً ولا کبیراً…“․ (بحارالانوار ،کتاب الامامہ،باب عصمة الامام ،25/211)
”انبیاء ورسل اور ائمہ کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ معصوم اور ہرگندگی سے پاک ہوتے ہیں اور ان سے کوئی چھوٹا بڑا گناہ سرزد نہیں ہو سکتا۔“
عصمت أئمہ پر شیعہ حضرات کی پہلی دلیل
شیعہ حضرات کے پاس عصمتِ ائمہ پر کوئی صریح نصّ نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ امام نبی کا نائب اور قائم مقام ہوتا ہے،نیابت کے نازک فرائض سے ایسا شخص عہدہ بر آ ہو سکتا ہے جو صفات کمال میں نبی کا ہم مثل اور معصومیت کے درجے پر فائز ہو۔
عقیدت کی دنیا میں ممکن ہے کہ اسے دلیل کا نام دیاجائے ،لیکن علم و دانش کی دنیا میں اس ناقص طرز استدلال کو دلیل کا درجہ نہیں دیا جا سکتا ۔چناں چہ امام اہل سنت مولانا عبد الشکور لکھنوی رحمہ اللہ شیعوں کی اس مایہ ناز دلیل کا جواب دیتے ہوئے تحریر ماتے ہیں ۔
یہ امام تمام کاموں میں نبی کا نائب نہیں ہوتا۔نبی کے دو کام ہیں،اول:بارگاہ الٰہی سے احکام حاصل کریں۔دوم : یہ کہ مخلوق خدا کو وہ احکام پہنچائیں ۔امام صرف دوسرے کام میں نبی کا نائب ہوتا ہے اور عصمت کی ضرورت صرف پہلے کام میں ہے۔کیوں کہ نبی نے جہاں سے احکام حاصل کیے ہیں وہ ما خذان کا ہماری نظر کے سامنے نہیں ،وہاں تک ہماری رسائی نہیں کہ ہم جانچ سکیں کہ آیا احکام لینے میں کوئی غلطی تو نہیں ہوئی ہے۔ لہذا اگر نبی معصوم نہ ہوں تو دین پر اعتبار نہ رہے گا۔
بخلاف امام کے کہ وہ بارگاہ احدیت سے احکام نہیں لیتا،اس پر وحی نہیں آتی ،اس کا کام صرف یہ ہے کہ نبی کے پہنچائے ہوئے احکام، یعنی قرآن و حدیث کی اشاعت و حفاظت کرے اور انہیں کی تنقیح کرتا رہے،امام کا ماخذ سب کے پیش نظر ہے اگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو اس کا علم ہو سکتا ہے اور دین میں کوئی اشتباہ پیدا نہیں ہو سکتا ۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر یہ کلیہ صحیح ہو کہ معصوم کے نائب کا بھی معصوم ہونا ضروری ہے تو چاہیے کہ تمام علمائے مجتہدین بھی معصوم ہو جائیں۔کیوں کہ بالاتفاق علمائے مجتہدین نائب نبی یا نائب امام ہیں،علمائے مجتہدین کو جانے دیجیے، خود امام اپنے زمانے میں جن کو اپنا نائب مقرر کر کے اطراف و جوانب میں روانہ کرتا ہے،ان کا معصوم ہونا ضروری ہو گا ،مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں جن جن لوگوں کو اپنی طرف سے کسی مقام کا حاکم بنایا اور ان کو اپنا نائب قرار دیا، ان سب کو معصوم کہنا چاہیے، حالاں کہ آ ج تک مخالفین(شیعہ)میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہو ا اور نہ ہو سکتا ہے۔کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نائبوں نے جو جو ظلم کیے ہیں۔کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود ہمیشہ اپنے نائبوں کے شاکی رہے ہیں اور ان کی خیانتوں پر افسوس فر مایا۔
پس اب یا تو حضرات مخالفین اپنے اجماع کے اور بداہت کے خلاف تمام علماء مجتہدین اورنُوّاب أئمہ کے معصوم ہونے کے قائل ہو جائیں۔
اور پھر اس کے بعد کھلم کھلا ختم نبوت کا انکار کرکے اس امر کا اقرار کر لیں کہ امام سب کاموں میں نائب نبی ہوتا ہے،اس پر بھی وحی اترتی ہے۔(واضح رہے کہ شیعوں کے نزدیک ائمہ پر بھی مقدس وحی کا نزول ہوتا ہے اور ان کو تحلیل و تحریم کا بھی اختیار ہوتا ہے ،شیعوں کے نظریہ امامت،پر مکمل اور مدلل بحث سورة الانبیاء کی آیت وجعلنا ہم ائمة یھدون بأمرنا:73 کی تفسیر کے ضمن میں آئے گی۔ان شاء اللہ) اور وہ اپنے وحی کے احکام کی تبلیغ کرتا ہے ،نہ قرآن و حدیث کی اور یا عصمت ائمہ کے عقیدہ کفریہ سے تائب ہو کر سچے مومن بن جائیں۔(تحفہ خلافت، امام اہل سنت مولانا عبدالشکور لکھنوی:ص:72:73)۔
عصمت ائمہ پر شیعہ حضرات کی دوسری دلیل
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّہِ وَالرَّسُولِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذَلِکَ خَیْْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیْلا﴾ (النساء:59) (اے ایمان والو!حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول اور حاکموں کا، جو تم میں سے ہوں،پھر اگر جھگڑپڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو طرف اللہ کے اور رسول کے، اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر۔)
شیعہ حضرات اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں دو دعوے کرتے ہیں۔
اس آیت کریمہ اولی الامر سے (بارہ)ائمہ مراد ہیں۔
نیز آیت کریمہ میں اللہ رسول اور امراء کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے، جو اس دعوی پر واضح دلیل ہے کہ امام بھی رسول کی طرح معصوم ہوتا ہے، بصورت دیگر ا ن تینوں کی اطاعت کا یکساں حکم نہ ہوتا۔
دوسری دلیل کا تجزیہ
اس آیت کریمہ سے ”عصمت امام“ کا مطلب اخذ کرنا سراسر مغالطہ دینے کی کوشش ہے۔کیوں کہ اللہ ،رسول ،اور اولی الأمر (ائمہ)کی اطاعت کا حکم یکساں نہیں ہے بلکہ الله، رسول،کی اطاعت اور ائمہ کی اطاعت میں ایک بنیادی فرق ہے جو اسی آیت کے دوسرے حصے سے نمایا ں ہے ﴿فان تنازعتم فی شیٴ فردوہ الی اللہ ورسولہ﴾(پھر اگر جھگڑپڑو کسی چیز میں تو اس کورجوع کرو طرف اللہ کے اور رسول کے اگر یقین رکھتے اللہ پر، قیامت کے دن پر)امر ا اور رعیت کے مابین کھڑے ہونے والے تنازع کو ختم کرانے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا جارہا ہے ۔اگر ائمہ معصوم ہوتے تو تنازع نہ ہوتا،امت کا ہرفرد ان کے اشارہ آبرو پر سرخم تسلیم کرتا، لیکن یہاں تنازع کا سوال اس لیے پیدا ہوا ہے کہ امرا معصوم نہیں ہیں،غلطی کر سکتے ہیں،راہ حق سے بھٹک سکتے ہیں، اس لیے رجوع کا حکم امام کی طرف نہیں ہے۔
آیت کا یہ حصہ شیعوں کے نظریہ عصمت ائمہ کی پوری عمارت منہدم کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شیعوں کے خانہ ساز راویوں نے پریشان ہو کر فوراً ایک روایت گھڑلی کہ یہ آیت تحریف شدہ ہے، اصل آیت میں رعایا کا آپس میں تنازع ہو جانے کی صورت میں رجوع کا حکم تینوں (اللہ ،رسول اور اولی الأمر)کی طرف تھا۔لیکن”محرفین“نے اس آیت سے اولی الامر کا لفظ نکال دیا،چناں چہ تفسیر صافی میں اس آیت کے تحت لکھا ہے:
القمی عن الصادق قال نزل فان تنازعتم فی شیٴ فردوہ الی اللہ والی الرسول والی اولی الامر منکم، وفی الکافی والعیاشی عن الباقر: انہ تلا فی ہذہ الایة ہکذا فان خفتم تنازعاً فی امر فردوہ الی اللہ والی الرسول والی اولی الامر منکم․ قال:کذا نزلت․ وکیف یامرہم اللہ عزوجل بطاعتہ وولاة الأمر ویرخص فی تنازعتم؟(تفسیر صافی،النساء، تحت آیة رقم :59)
قمی نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ یہ آیت اس طرح نازل ہوئی تھی ( فان تنازعتم فی شیٴ فردوہ الی اللہ والی الرسول والی اولی الامر منکم)یعنی جب کسی معاملے میں تمہارا اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ ورسول اور ان امراء کی طرف لوٹاؤجو تم سے ہوں۔
”کافی“:اور” عیاشی“میں امام باقر سے روایت ہے کہ انہوں نے بھی اس آیت کو اسی طرح پڑھا… ان کے بقول یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی تھی، کیوں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی امراء کی اطاعت کا حکم بھی دے پھر ان سے تنازع کرنے کی اجازت بھی دے؟
جس مذہب کے تمام دلائل ”عقیدہ تحریف القرآن“کی کوکھ سے جنم لیتے ہوں وہاں قرآن وسنت کی کون سے دلیل کا ر گر ہو سکتی ہے۔؟(شیعہ عقیدہ تحریف القرآن کی تفصیلی بحث آگے آئے گی۔ان شاء اللہ )
ایک شبہے کا ازالہ
واضح رہے کہ قرآن کریم میں ایک جگہ پر امرا کی طرف بھی رجوع کرنے کا حکم ملتا ہے۔﴿وَإِذَا جَاء ہُمْ أَمْرٌ مِّنَ الأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِہِ وَلَوْ ردُّوہُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی أُوْلِیْ الأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنبِطُونَہُ مِنْہُمْ﴾․(النساء : 83) (اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن کی یا ڈر کی تو اس کو مشہور کردیتے ہیں اوراگر اس کو پہنچادیتے رسول تک اور اپنے حاکموں تک تو تحقیق کرتے اس کو جو اُن میں تحقیق کرنے والے ہیں۔) اس آیت میں امرا سے رجوع کا حکم دیا جارہا ہے،لیکن اس رجوع کا تعلق شرعی معاملات سے نہیں، بلکہ امن و خوف کی خبروں سے ہے، جو افواہ بن کر معاشرے میں افراتفر ی کا ماحول پیدا کرتی ہیں۔
ایسی خبروں کے متعلق ہدایت دی جارہی ہے کہ انہیں افواہ بنانے کے بجائے بارگاہ رسالت اور امرا کو باخبر کیا جائے، تاکہ وہ حقیقت حال سے واقف ہوکر آئندہ کی حکمت عملی مرتب کریں۔
لہٰذا اس آیت میں خاص امور میں امیر کی طرف رجوع کرنے کے حکم سے ”عصمت امام “کا شبہ پیدا نہیں ہونا چاہیے۔
مسئلہ عصمت انبیاء علیہم السلام اور سید مودودی صاحب کی قلمی شوخیاں
مولانا مودودی صاحب کے علمی و فکری لٹریچر کی پوری سرگردانی کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ موصوف کی ذاتی خوبیاں اور صلاحیتیں لائق تحسین اور قابل اعتراف ہیں، بایں ہمہ ان کے علمی مزاج کی دو خامیاں ایسی ہیں جن سے چشم پوشی کرنا حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔
موصوف ایک صاحب طرز ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ زود نویس تھے۔ظاہر ہے کہ بہت زیادہ لکھنے کے معنی یہ ہیں کہ خیالات و افکار کی جو لہریں وادی قلب میں اتریں انہیں میزان شریعت سے گزار ے بغیر صفحہ قرطاس پر اتاردیا جائے۔
مغرب کے فلسفہ تہذیب و تمدن پر عقابی نظر اور ناقدانہ رائے رکھنے کے باوجود دینی علوم و معارف سے ان کا تعلق سطحی نوعیت کا تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کا اشہب خامہ مغربی فکروفلسفہ سے نبرد آزما ہونے کے لیے میدان کا ر زار میں اتر کر ایسی جو لانیاں دکھاتا ہے کہ زبان سے بے اختیار دادو ستائش کے کلمات نکل جاتے ہیں، لیکن جب یہی قلم مذہبی موضوعات پر اٹھتا ہے تو قدم قدم پہ ٹھوکریں کھاتا ہے، حتی کہ حریم نبوت تک پہنچ کر بھی ادب سے ناآشنا رہتا ہے۔
ان دو خامیوں سے ان کی علمی حیثیت مجروح اور ان کی تحریریں اور تقریریں تضاد بیانی کا شکار ہوگئیں۔
چناں چہ عصمت انبیائے علیہم السلام جیسا ایک سیدھا ساد ھا اور بے غبار مسئلہ بھی ان کی قلمی رنگینیوں کی زد سے نہ بچ سکا، چناں چہ ایک جگہ تو اہل سنت کی موافقت میں لکھتے ہیں ۔
”نبی اگرچہ گناہ کرنے پر قادر ہوتا ہے، لیکن بشر کی تمام صفات سے متصف ہونے کے باوجود اور جملہ انسانی جذبات، احساسات وخواہشات رکھتیہوئے بھی وہ ایسا نیک نفس اور خدا ترس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر کبھی گناہ کا قصد نہیں کرتا، اپنے ضمیر میں اپنے رب کی ایسی ایسی زبردست حجتیں اور دلیلیں رکھتا ہے، جن کے مقابلے میں خواہش نفس کبھی کامیاب نہیں ہونے پاتی اور اگر نادانستہ اس سے کوئی لغزش سرزد ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فوراً وحی جلی کے ذریعے اس کی اصلاح فرما دیتا ہے۔“ (تفہیم القرآن جلددوم، سورة یوسف تحت آیة رقم :24 طبع دوم، 1958) اب ان کی وہ تحریریں بھی پڑھیے جہاں وہ مقام نبوت کی رفعتوں سے بے نیاز ہو کر بلادھڑک لکھتے ہیں :
”نبی ہونے سے پہلے تو حضرت موسی علیہ السلام سے بھی ایک بہت بڑا گناہ ہوگیا تھا کہ انہوں نے ایک انسان کو قتل کردیا۔“(رسائل و مسائل ،حصہ اول ص:31 طبع دوم)
حضرت موسی علیہ السلام کے ہاتھوں ایک حربی کافر بلا ارادہ قتل ہو گیا تھا، حربی ہونے کی وجہ سے اس کا قتل ویسے بھی مباح تھا۔لیکن سید مودودی صاحب اسے بہت بڑا گناہ قرار دے رہے ہیں ۔
”موسی ں کی مثال اس جلد فاتح باز کی سی ہے جو اپنے اقتدار کا استحکام کیے بغیر مارچ کرتا ہواچلاجائے اور پیچھے جنگل کی آگ کی طرح مفتوحہ علاقے میں بغاو ت پھیل جائے۔“(رسالہ ترجمان القران ج29 عدد4:ص:5)
یعنی صاحب عزم پیغمبر بھی انتظامی امور سے ناواقف تھے۔(جاری)