Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1434ھ

ہ رسالہ

3 - 17
ماہِ شعبان کے نفل روزوں کی شرعی حیثیت
مفتی اشتیاق احمد قاسمی

آدمی کے اندر دو صفتیں پائی جاتی ہیں: ایک ”روحانیت“، دوسری ”حیوانیت“؛ پہلی صفت میں انسان ترقی کرکے فرشتوں کے مشابہ ہوجاتا ہے؛ اس لیے اسے ” مَلکیت“ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اور دوسری صفت میں اضافہ کی وجہ سے انسان عام حیوانوں کے مشابہ ہوجاتا ہے؛ اس لیے اس کو ”بہیمیت“ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ روزہ کی برکت سے حیوانیت روحانیت کے تابع ہوجاتی ہے، آدمی خواہشات کو دبا کر اللہ تعالیٰ کے احکام کا پابند ہوجاتا ہے اور متقین کی صف میں شامل ہوجاتا ہے، رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے اپنی امت میں روحانیت اور ملکیت کے بڑھانے کے لیے جہاں فرض روزوں کی تعلیم دی ہے، وہیں نفل روزے رکھے ہیں اور امت کو اس کی ترغیب وتعلیم بھی دی ہے۔

احادیث میں نفل روزوں کی ترغیب
روزہ کی وجہ سے روحانیت میں ترقی ہوتی ہے اور حیوانی وشہوانی قوت ٹوٹتی ہے؛ اس لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم فرض کے علاوہ نفلی روزے کثرت سے رکھا کرتے تھے اور صحابہٴ کرام کو اس کی ترغیب بھی دیتے تھے، ایک موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
”آدمی کے ہر اچھے عمل کا ثواب دس گنے سے سات سو گنے تک بڑھا یا جاتا ہے؛ مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ اس عام قانون سے مستثنیٰ ہے، وہ بندہ کی طرف سے خاص میرے لیے تحفہ ہے اور میں ہی (جس طرح چاہوں گا) اس کا اجر وثواب دوں گا، میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی خواہشِ نفس اور اپنا کھانا پینا چھوڑدیتا ہے (پس میں خود ہی اپنی مرضی کے مطابق اس کی قربانی اور نفس کُشی کا صلہ دوں گا) روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک ومولیٰ کی بارگاہ میں حضوری اور شرفِ باریابی کے وقت اور قسم ہے کہ روزہ دار کے منھ کی بو، اللہ کے نزدیک مشک کی خوش بو سے بھی بہتر ہے اور روزہ (دنیا میں شیطان اور نفس کے حملوں کے لیے اور آخرت میں دوزخ کی آگ سے حفاظت کے لیے) ڈھال ہے اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو اسے بیہودہ اور فحش باتیں نہیں بکنی چاہئیں اور نہ ہی شور وشغب کرنا چاہیے اور اگر کوئی دوسرا اُسے گالی دے یا جھگڑے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں“۔ (بخاری ومسلم بحوالہ معارف الحدیث: 4/105)

ایک جگہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ہر چیز کی ایک زکوٰة ہوتی ہے (جس کے نکالنے سے وہ چیز پاک ہوجاتی ہے) اور جسم کی زکوٰة روزہ رکھنا ہے۔ (ابن ماجہ ، مشکوٰة: ص:180)

حضرت ابوامامہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ: جو آدمی اللہ کے راستے میں (یعنی اللہ واسطے) ایک دن روزہ سے رہے، اس کے لیے اللہ رب العزت اس کے اور جہنم کے درمیان خندق (گڑھا) کھود دیتے ہیں، جس کی چوڑائی آسمان وزمین کے برابر ہوتی ہے۔ (حاصل یہ کہ اس بندے کا جہنم میں داخل ہونا محال ہے) (ترمذی، مشکوٰة: ص:180)

حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جو آدمی اللہ کے راستے میں (اللہ واسطے) ایک دن روزہ سے رہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے (یعنی جسم) کو جہنم سے ستر سال دور فرمادیں گے۔ (بخاری ومسلم، مشکوٰة:ص: 179)

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ: رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جو آدمی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی وخوش نودی حاصل کرنے کے لیے ایک دن روزہ سے رہے اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے اتنا دور فرمادیں گے، جتنا چوزہ ہونے کی عمر سے کھوسٹ بڈھا ہوکر مرنے تک برابر اڑنے والا کوّا دوری طے کرتا ہے۔ (مشکوٰة:181)

مذکورہ بالا تینوں روایتوں میں اللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے روزہ رکھنے کی برکت سے جہنم سے چھٹکارہ پانے کی یقینی صورت کو مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے، مطلب ایک ہی ہے؛ البتہ اسلوبِ بیان الگ ہے، آسمان وزمین کے برابر خندق کھودنے کا مطلب ہے کہ اس بندے کا جہنم میں داخل ہونا بہت مشکل ہے۔ ”ستر“ کا عدد عرب عموماً محاورے کے طور پر مبالغہ کے لیے بولا کرتے تھے، اس لیے ستر سال دوری کا مطلب ہے کہ وہ جہنم سے بہت دور ہوجائے گا۔ ”کوّا“ کی عمر بڑی لمبی ہوتی ہے، عرب میں لمبی مدت کے لیے کوے کی عمر کو کنایہ اور استعارہ کے طور پر بولتے ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ کوّا اگر اپنے چوزے پن کی حالت میں اڑنے لگے اور کھوسٹ بڈھا ہو کر مرنے تک اڑتا ہی رہے تو کتنی زیادہ مسافت طے کرے گا، اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، اسی طرح اللہ رب العزت نفل روزہ رکھنے والے کو جہنم سے اتنا دور فرمادیں گے کہ وہ واپس جہنم میں جا ہی نہیں سکتا۔

نفل روزوں میں اعتدال
اسلام اعتدال ومیانہ روی کی تعلیم دیتا ہے، نفل عبادتیں اتنی ہی محدود ہیں، جن کے ساتھ آدمی اپنے جسم وجان، عزیز وقریب اور زیردستوں کی پوری ذمہ داری کو بہ حسن وخوبی نبھا سکے، سرکارِ دوعالم صلی الله علیہ وسلم نے ہم پر شفقت کرتے ہوئے نوافل میں اعتدال کی راہ بتائی؛ اس لیے ہر مہینے میں صرف تین دن روزہ کو صوم الدہر (ہمیشہ روزہ رہنے) کے برابر بتایا اور مزید قوت وطاقت ہو تو ایک دن روزہ، ایک دن فاقہ کرکے نصف ماہ روزہ کی اجازت دی اور قرآن پاک کو مہینہ میں ایک بار ختم کرنے کی تعلیم دی اور اگر ہمت وطاقت ہو تو ہفتہ میں ایک بار ختم کی اجازت دی۔ (مشکوٰة:ص:179) اس لیے ہمیں اعتدال کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔

شعبان میں نفل روزے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نفلی روزے (کبھی) مسلسل رکھنے شروع کرتے، یہاں تک کہ ہمیں خیال ہوتا کہ اب ناغہ نہیں کریں گے اور (کبھی) بغیر روزے کے مسلسل دن گذارتے؛ یہاں تک کہ ہمیں خیال ہونے لگتا ہے کہ اب آپ صلی الله علیہ وسلم بلا روزہ ہی رہیں گے ۔ نیز فرماتی ہیں کہ: میں نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا پورا روزہ رکھتے نہیں دیکھا، اسی طرح کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (مشکوٰة: 178) بعض روایتوں میں ہے کہ شعبان کے مہینہ میں بہت کم ناغہ کرتے تھے، تقریباً پورے مہینے روزے رکھتے تھے۔ (الترغیب والترہیب: 2/117)

احادیث کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ نفلی روزوں کے سلسلے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا کوئی لگا بندھا دستور ومعمول نہیں تھا، کبھی مسلسل روزے رکھتے، کبھی مسلسل ناغہ کرتے؛ تاکہ امت کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیروی میں زحمت، مشقت اور تنگی نہ ہو، وسعت وسہولت کا راستہ کھلا رہے، ہر ایک اپنی ہمت، صحت اور نجی حالات کو دیکھ کر آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیروی کرسکے، اسی لیے کبھی آپ صلی الله علیہ وسلم ایامِ بیض (13، 14، 15 تاریخوں) کے روزے رکھتے، کبھی مہینے کے شروع میں ہی تین روزے رکھتے، کسی مہینہ میں ہفتہ، اتوار اور پیر کے روزے رکھتے تو دوسرے مہینے میں منگل، بدھ اور جمعرات کے روزے رکھتے، کبھی جمعہ کے روزے کا اہتمام کرتے، اسی طرح عاشورہ اور شوال کے چھ روزے رکھنا بھی آپ صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے۔

شعبان کے مہینے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے کثرت سے روزے رکھنے کی علماء نے کئی حکمتیں بیان کی ہیں:
چوں کہ اس مہینہ میں اللہ رب العزت کے دربار میں بندوں کے اعمال کی پیشی ہوتی ہے؛ اس لیے سرکار صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال کی پیشی ہو تو میں روزے کی حالت میں رہوں۔ یہ بات حضرت اسامہ بن زید کی روایت میں موجود ہے۔ (نیل الاوطار: 4/246)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ: پورے سال میں مرنے والوں کی فہرست اسی مہینے میں ملک الموت کے حوالے کی جاتی ہے؛ اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بارے میں ملک الموت کو احکام دیے جائیں تو اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم روزے سے ہوں۔ (معارف الحدیث: 4/155)

رمضان المبارک کے قریب ہونے اور اس کے خاص انوار وبرکات سے مناسبت پیدا کرنے کے شوق میں آپ صلی الله علیہ وسلم شعبان کے مہینہ میں روزے کا اہتمام کثرت سے فرماتے تھے، جس طرح فرض نمازوں سے پہلے سنتیں پڑھتے تھے اسی طرح فرض روزے سے پہلے نفلی روزے رکھا کرتے تھے اور جس طرح فرض کے بعد سنتیں اور نفلیں پڑھتے تھے؛ اسی طرح رمضان کے بعد شوال میں چھ روزے رکھتے اور اس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے۔شعبان کے روزے میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کے عمل میں فرق۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں جیسا کہ معلوم ہوا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم شعبان کے تقریباً پورے مہینے روزہ رکھتے تھے، دوسرے مہینوں کے مقابلے میں اس مہینہ میں اہتمام زیادہ تھا، اسی طرح چوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم امت پر بڑے شفیق، روٴف اور رحیم تھے؛ اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے امت کو بتایا کہ تم میری ہمسری نہیں کرسکتے، مجھے تم سے زیادہ طاقت دی گئی ہے، اس کے علاوہ مجھے یہ بھی خصوصیت حاصل ہے (یُطْعِمْنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیَنِیْ) کہ مجھے میرے رب کھلاتے پلاتے رہتے ہیں، مجھے روحانی غذا ملتی رہتی ہے؛ اس لیے تم لوگ شعبان میں روزہ رکھ سکتے ہو؛ لیکن نصف شعبان آتے ہی روزہ سے رہنا بند کردو، پھر جب رمضان آئے تو نئی نَشاط کے ساتھ روزہ شروع کرو! (ابن ماجہ: 1/303، تحقیق مصطفی اعظمی زید مجدہ)، ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے: إذَا انْتَصَفَ شَعْبَانُ فَلاَ تَصُوْمُوْا (1/55) جب شعبان کا مہینہ آدھے پر آجائے تو روزہ نہ ررکھو! (نیز دیکھیے بلوغ المرام: 139)

خلاصہ یہ کہ پورے مہینہ یا اکثر دنوں میں روزہ سے رہنا سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت ہے، ہمارے لیے نصف شعبان تک روزہ رکھنا سنت ہے؛ لیکن اس کے بعد روزہ رکھنا خلافِ سنت ہے، محدثین نے اس ممانعت کو تنزیہی پر محمول کیا ہے، ملاعلی قاری فرماتے ہیں کہ سرکار صلی الله علیہ وسلم کا یہ حکم امت پر شفقت کے طور پر ہے، تاکہ رمضان المبارک کے فرض روزے رکھنے میں ضعف محسوس نہ ہو؛ بلکہ نشاط، چستی اورہشاش بشاش ہونے کی حالت میں رمضان کا روزہ شروع کیا جاسکے۔ (مرقات)

پندرہویں شعبان کا روزہ
پندرہویں شعبان کے روزے کے سلسلے میں ایک حدیث شریف سنن ابن ماجہ میں ہے، یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس کو پوری سند کے ساتھ ملاحظہ فرمائیے:
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ الْخلاَّلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: أنْبَأنَا ابْنُ أبِیْ سَبْرَةَ، عَنْ إبْرَاہِیْمَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُعَاوِیَةَ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ أبِیْہِ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أبِیْ طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ”إذَا کَانَتْ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوْا لَیْلَہَا وَصُوْمُوْا یَوْمَہَا، فَإنَّ اللّٰہَ یَنْزِلُ فِیْہَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ إلَی سَمَاءِ الدُّنْیَا، فَیَقُوْلُ: ألاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأغْفِرَ لَہُ! ألاَ مُسْتَرْزِقٌ فَأرْزُقَہُ! ألاَ مُبْتَلیً فَأُعَافِیَہُ! ألاَ کَذَا! ألاَ کَذَا! حَتیّٰ یَطْلَعَ الْفَجْرُ“۔(سنن ابن ماجہ، حدیث: 1384، 1/253، باب ماجاء فی لیلةِ النصف من شعبان۔ تحقیق: مولانا محمد مصطفی الأعظمی زِیدَ مجدُہ)
ترجمہ: (حافظ ابوعبداللہ محمد بن یزید قزوینی فرماتے ہیں کہ) ہم سے حسن بن علی خلال نے بیان کیا کہ ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا کہ ہمیں ابن ابی سبرہ نے خبر دی، وہ اس حدیث کو ابراہیم بن محمد سے بیان کرتے ہیں اور وہ معاویہ بن عبداللہ بن جعفر سے اور وہ اپنے والد سے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ: رسول اللہصلی الله علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا کہ: جب نصف شعبان کی رات ہوجائے تو اس کی رات کو قیام کرو( نماز پڑھو) اور اس کے دن کو روزہ رکھو؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس رات غروبِ شمس کے وقت آسمانِ دنیا پر نزولِ اجلال فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ: ہے کوئی معافی مانگنے والا کہ میں اس کو معاف کروں؛ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اس کو رزق دے دوں؛ ہے کوئی (مصیبت میں) مبتلا کہ میں اسے اس سے بچا دوں؟ ہے کوئی ایسا․․․․․․․․․․ہے کوئی ایسا․․․․․․․․․․ یہاں تک کہ صبحِ صادق طلوع ہوجاتی ہے۔

اس حدیث شریف میں پندرہویں شعبان کے روزے کا حکم ہے؛ مگر اس حکم کو وجوب یا سنت پر محمول نہیں کیا جاسکتا؛ اس لیے کہ یہ حدیث محدثین کے نزدیک ضعیف ہے، موضوع نہیں ہے؛ اگرچہ اس میں ایک راوی ”ابن ابی سبرہ“ ہیں، ان کے بارے میں امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین نے واضعِ حدیث ہونے کی بات کہی ہے، سنن ابن ماجہ کے حاشیہ میں حضرت مولانا محمد مصطفی الاعظمی زید مجدہ لکھتے ہیں: أسنادہ ضعیفٌ، فیہ ابنُ أبی سَبْرة، قالَ فیہ أحْمدُ بْنُ حنبلٍ وابنُ مَعِینٍ: یَضَعُ الحَدیْثَ۔ (ج:1/ص:253)
ترجمہ: اس کی سند ضعیف ہے، اس میں ابن ابی سبرہ نامی راوی ہیں، ان کے سلسلے میں امام احمد بن حنبل اور ابن معین فرماتے ہیں کہ وہ حدیث وضع کرتا تھا۔

موضوع نہ ہونے کی وجوہات
پہلی وجہ… محض ایک راوی کے اوپر وضع کے اتہام سے حدیث کو موضوع نہیں کہا جاسکتا، اگر یہ حدیث موضوع ہوتی تو حافظ منذری اس کو اپنی کتاب ”الترغیب والترہیب“ میں ذکر نہ کرتے؛ اس لیے کہ ان کے سلسلے میں علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ کوئی حدیث منذری صاحبِ ترغیب وترہیب کی تصانیف میں موجود ہے تو اس کو اطمینان سے بیان کرسکتے ہو (یعنی وہ موضوع نہیں ہوسکتی)۔ (الرحمة المرسلة فی شأن حدیث البسملة: ص:15)

دوسری وجہ… اس کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ لحاظ ہے کہ: جن حضرات نے سنن ابن ماجہ کی موضوع احادیث کی نشان دہی کی ہے ان میں اس حدیث کا ذکر نہیں ملتا، ”مَا تَمَسُّ إلیْہِ الحَاجَةُ“ میں وہ ساری احادیث مذکور ہیں۔ (محدثِ کبیر مولانا حبیب الرحمن الاعظمی بہ حوالہ ”شبِ براء ت کی شرعی حیثیت“:ص: 6)

تیسری وجہ… ابن ابی سبرہ پر جرح شدید ہے، ان کے ضعیف ہونے میں شبہ نہیں؛ تاہم بعض اہلِ علم ایسے بھی ہیں جنہوں نے ان کے بارے میں بلند کلمات کہے ہیں؛ جیسا کہ تاریخ خطیب بغدادی میں ان کے تفصیلی ترجمہ کے ضمن میں موجود ہیں، نیز شیخ محمد طاہر پٹنی نے ان کو قاضی العراق لکھا ہے، جہاں بعض محدثین نے ان کی طرف وضع کی نسبت کی ہے وہیں بعض نے محض ضعیف کہا ہے۔

لہٰذا قطعی طور پر اس حدیث کو موضوع نہیں کہا جاسکتا، ہاں! ضعیف ضرور کہا جائے گا، جس کی صراحت علامہ شوکانی نے اپنی کتاب فوائد المجموعة فی بیان الأحادیث الموضوعة (ص:20) میں کی ہے اور ضعیف روایتیں فضائل کے باب میں قابلِ قبول ہوتی ہیں۔

خلاصہ یہ کہ پندرہویں شعبان کے روزے کو نہ تو واجب وسنت کہا جاسکتا ہے، نہ ہی بدعت کہہ کر بالکل رد کیا جاسکتا ہے، بلکہ اس کو مستحب کہا جائے گا، بعض فقہاء نے مرغوبات (پسندیدہ) روزوں میں شامل کیا ہے؛ جیسا کہ فتاویٰ عالم گیری(203/1) میں ہے اور بعض نے”مستحب“ کی تعبیر اختیار فرمائی ہے؛ جیسا کہ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (500/6) اور تعلیم الاسلام مفتی کفایت اللہ صاحب (66/4) میں ہے؛ اس لیے انفرادی طور پر اگر کوئی شخص پندرہویں شعبان کا روزہ رکھے تو اس سے منع نہیں کیا جائے گا، بلکہ وہ اس کی برکات کا پانے والا کہلائے گا؛ اس لیے کہ اس کی فضیلت ایک حدیث میں مذکور ہے، جس کی سند ضعیف ہے اور فضائل میں ضعیف حدیث قابلِ قبول ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ درج ذیل کتابوں میں اس روزہ کا ذکر موجود ہے: أشِعَّةُ اللمعات (ص:588) مطبوعہ نول کشورہ لکھنوٴ، فتاوی ہندیہ (1/203)، ماثبت بالسُّنة فی أیَّامِ السَّنة (ص:80)، تحفة ا لأحوذی (2/53)، الموعظةُ الحَسَنة للنواب صدیق حسن خان (ص:162) مطبوعہ مصر 1300ھ، نصاب اہل خدماتِ شرعیہ (ص:382) منظور محکمہٴ صدارتِ عالیہ، مطبوعہ: سلطان بک ڈپو، کالی کمان حیدر آباد، دکن، فتاوی دارالعلوم دیوبند (6/500)، بہشتی زیور تیسرا حصہ (ص:10) تعلیم الاسلام حصہٴ چہارم (ص:66)

محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی نے سنن ابن ماجہ کی مذکورہ بالا حدیث کے موضوع نہ ہونے پر تفصیلی گفتگو فرمائی ہے، ملاحظہ ہو:
”پندرہویں شعبان کے روزے کے باب میں جو حدیث ابن ماجہ میں آئی ہے وہ موضوع نہیں ہے، کسی ماہر حدیث عالم نے اس کو موضوع نہیں کہا ہے، تحفة الاحوذی کی عبارت سے اس حدیث کے موضوع ہونے پر استدلال کرنا جہالت ہے، اس حدیث کے راویوں میں ابوبکر بن سبرہ ضرور ہے، اس کی نسبت بے شک یہ کہا جاتا ہے کہ وہ حدیثیں بناتا تھا؛ لیکن اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ زیر بحث حدیث اس کی بنائی ہوئی اور موضوع ہے، محض اس بنیاد پر کہ سند میں کوئی ایسا راوی موجود ہے جو حدیثیں بناتا تھا، کسی حدیث کو موضوع کہہ دینا جائز نہیں ہے، اس سے تو بس اتنا لازم آئے گا کہ حدیث سنداً ضعیف ہے، یہی وجہ ہے کہ جن حضرات نے سنن ابن ماجہ کی موضوع احادیث کی نشان دہی کی ہے ان میں اس حدیث کا ذکر نہیں ملتا، مَا تَمُسُّ إلیہ الحاجة میں وہ ساری حدیثیں مذکور ہیں، جس کا جی چاہے دیکھ لے۔

اصولِ حدیث وغیرہ کی مختلف کتابوں میں جگہ جگہ تصریح مل سکتی ہے کہ کسی حدیث کی سند میں کوئی کذّاب یا وضّاع راوی پایا جائے تو محض اتنے سے وہ حدیث موضوع نہیں ہوجائے گی، جب تک کہ دوسری کوئی دلیل اس کے موضوع ہونے پر دلالت نہ کرے، مثال کے طور پر فتح المغیث:251/1 کو ملاحظہ کیا جائے، امام سخاوی لکھتے ہیں:

”ہٰذَا مَعَ أنَّ مُجَرَّدَ تَفَرُّدِ الْکَذَّابِ بَلِ الْوَضَّاعِ، وَلَوْ کَانَ بَعْدَ الاِسْتِقْصَاءِ وَالتَّفْتِیْشِ مِنْ حَافِظٍ مُتَبَحِّرٍ تَامِ الاِسْتِقْرَاءِ، غَیْرُ مُسْتَلْزِمٍ لِذٰلِکَ، بَلْ لاَ بُدَّ مَعَہُ مِنْ اِنْضِمَامِ شَیْءٍ مِمَّا سَیَأْتِیْ“۔
ترجمہ:”محض کسی جھوٹے بلکہ وضّاعِ حدیث کا کسی حدیث میں متفرد ہونا، اگرچہ اس کا ثبوت کسی متبحر اور دیدہ ور حافظ حدیث کی تحقیق سے ہوا ہو، اس کو (یعنی حدیث کے موضوع ہونے کو) مستلزم نہیں ہے؛ بلکہ اس کے ساتھ کسی اور دلیل کا انضمام بھی ضروری ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے“۔

اسی طرح راوی کو منکَر الحدیث اور حدیث کو منکَر بھی کہا گیا ہو تب بھی اس کو موضوع کہنا جائز نہیں، حدیث لا تقولوا سورةَ البقرةِ کو امام احمد نے منکر اور اس کے راوی عبیس کو منکرالحدیث کہا ہے، اس بنا پر ابن جوزی نے اس حدیث کو موضوعات میں داخل کردیا تو حافظ ابن حجر نے اس پر سخت اعتراض کیا۔

فرماتے ہیں: أفرط ابن جوزی فی إیراد ہذا الحدیث فی الموضوعات، ولم یذکر مستندہ إلا قولَ أحمد وتضعیف عبیس، وہذا لا یقتضی الوضع․ (اللآلی المصنوعة: 239/1) ۔ (ابن جوزی نے اس حدیث کو موضوعات کی قبیل سے شمار کرکے تشدد سے کام لیا ہے اور دلیل میں سوائے حضرت امام احمد کے قول اور عبیس کی تضعیف کے اور کچھ ذکر نہیں کیا، لیکن یہ بات اس کے موضوع ہونے کو مقتضی نہیں ہے)۔

سطور بالا سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس شخص نے یہ بات کہی ہے کہ روایت فضیلت صوم شعبان میں ابوبکر بن عبداللہ راوی واضع الحدیث تھا؛ اس لیے یہ روایت موضوع ٹھہری، بالکل غلط ہے۔ ایسی جہالت کی بات کوئی عالم نہیں کہہ سکتا، مولانا عبدالرحمن مرحوم کیسے ایسی بات کہہ سکتے ہیں؟ مولانا تو اس حدیث کو پندرہویں رات کی فضیلت کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں اور اس شخص کے اوپر حجت قائم کرتے ہیں جو یہ کہتا ہے کہ شعبان کی پندرہویں رات کی فضیلت ثابت نہیں۔

تحفة الاحوذی کی عبارت بعینہ نقل کی جاتی ہے: ”منہا حدیث علی قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم: إذا کانت لیلة النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا یومہا (إلی) رواہ ابن ماجة، وفی سندہ أبوبکر بن عبداللّٰہ بن محمّد بن أبی سبرة القرشی العامری المدنی، قیل: اسمہ عبداللّٰہ، وقیل: محمّد، وقد ینسب إلی جدہ، رَمَوہ بالوضع کذا فی التقریب، وقال الذہبی فی المیزان: ضعفہ البخاری وغیرہ، وروی عبداللّٰہ وصالح ابنا أحمد عن ابیہما قال: کان یضع الحدیث، وقال النسائی: متروک۔ انتہیٰ

فہذہ الأحادیث بمجموعہا حجة علی من زعم أنہ لم یثبت فی فضیلة لیلة النصف من شعبان شیء۔ (تحفة الاحوذی: 53/2)
ترجمہ:”انھیں میں سے حضرت علی کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب شعبان کی 15 تاریخ آئے تو رات میں عبادت کرو اور دن میں روزہ رکھو( الیٰ) اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں ابوبکر بن عبداللہ بن ابی سبرة القرشی العامری المدنی ہے، اس کا نام لوگوں نے عبداللہ بتایا ہے، بعض لوگوں نے محمد بتایا ہے، اس کی نسبت عموماً ان کے دادا کی جانب ہوتی ہے، لوگوں نے اس کو وضع حدیث کا مرتکب ٹھہرایا ہے، ایسے ہی تقریب میں ہے، امام ذہبی نے میزان میں فرمایا ہے کہ امام بخاری وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور عبداللہ وصالح بن احمد بن حنبل نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ وہ حدیث گھڑتا تھا اور امام نسائی نے فرمایا کہ وہ متروک ہے، بس یہ تمام حدیثیں مجموعی اعتبار سے اس شخص کے خلاف حجت ہیں، جس نے گمان کیا ہے پندرہویں شعبان کی رات کے سلسلہ میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔“

دیکھیے مولانا مبارک پوری ابن ماجہ کی حدیث نقل کرکے اس کے راوی پر جو جرح ہے اس کو بھی نقل کرتے ہیں، اس کے باوجود اس حدیث کو دوسری ضعیف حدیثوں کے ساتھ ملا کر حجت بھی قرار دیتے ہیں، کیا موضوع حدیث کو بھی دوسری حدیث کے ساتھ ملا کر حجت بنایا جاسکتا ہے؟ یہ بات کوئی عالم نہیں کہہ سکتا۔

مولانا عبدالرحمن مبارک پوری نے جس طرح اس حدیث کو موضوع نہیں کہا ہے؛ بلکہ صرف ضعیف قرار دیا ہے، اسی طرح منذری نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے اور چوں کہ اس کو انہوں نے اپنی کتاب ترغیب وترہیب میں ذکر کیاہے، اس لیے وہ حسب تصریحِ سیوطی موضوع نہیں ہے، سیوطی فرماتے ہیں:

إذا علمتم بالحدیث أنہ فی تصانیف المنذری صاحب الترغیب والترہیب فأرووہ مطمئنین۔(الرحمة المرسلة فی شان حدیث البسملة: 15)
ترجمہ: جب تمہارے علم میں یہ بات آجائے کہ کوئی حدیث منذری صاحب ترغیب وترہیب کی تصنیفات میں موجود ہے تو اس کو اطمینان سے بیان کرسکتے ہو؛ یعنی یہ کہ وہ موضوع نہیں ہے۔

اب تک ہم نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ حدیث موضوع نہیں ہے اور اس کو موضوع قرار دینا جہالت ہے، ہاں وہ ضعیف ضرور ہے؛ مگر اس کا ضعف اس پر عمل کرنے سے مانع نہیں ہے۔

حافظ ابن عبدالبر نے کتاب العلم میں یہ حدیث روایت کی ہے: مَنْ بَلَغَہ عَنِ اللّٰہِ فَضْلٌ فَاخَذَ بِذٰلِکَ الْفَضْلَ الَّذِيْ بَلَغَہ أَعْطَاہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ مَا بَلَغَہ وَإنْ کَانَ الذِي حَدَّثَہ کَاذِباً۔
ترجمہ:” جس کسی کو کسی کام پر کسی ثواب کی اطلاع ملے اور وہ اس پر کار بند ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ ثواب دے دے گا، جس کی اس کو اطلاع پہنچی ہے، اگرچہ جس نے بیان کیا ہے وہ جھوٹا ہو۔“

حافظ ابن عبدالبر اس کو روایت کرکے فرماتے ہیں کہ: اس حدیث کی اسناد ضعیف ہے؛ اس لیے کہ ابومعمر عباد بن عبداللہ اس کا تنہا بیان کرنے والا ہے اور وہ متروک راوی ہے، مگر اہلِ علم اپنی جماعت کے ساتھ فضائل (ثواب کے کاموں) کے باب میں بہت ڈھیل دیتے ہیں اور ہر طرح کے راویوں سے روایت کرلیتے ہیں، وہ تو بس احکام (حلال وحرام) کی حدیثوں میں سختی سے کام لیتے ہیں۔

خطیب بغدادی نے کتاب الکفایہ میں امام احمد وغیرہ ائمہ حدیث کا قول نقل کیا ہے: إذا رَوَیْنَا فی الحلالِ والحرامِ شَدَّدْنا، وإذا رَوَیْنَا فی الفضائل تَسَاہَلْنَا․
ترجمہ: جب ہم حلال وحرام کے باب میں حدیث نقل کرتے ہیں تو پوری احتیاط سے کام لیتے ہیں اور جب فضائل کے باب میں روایت کرتے ہیں تو سہولت برتتے ہیں) اور یہی بات امام نووی اور حافظ عراقی وغیرہ نے وضاحت کے ساتھ لکھی ہے، امام نووی نے لکھا ہے:

”یجوز عند أہل الحدیث التساہلُ فی الأسانیدِ الضعیفةِ وروایةِ ما سوی الموضوع من الضعیف والعمل بہ من غیر بیان ضعفہ فی غیر صفات اللّٰہ والأحکام“․ (تدریب الراوی: 196)
ترجمہ:” اہل حدیث کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل برتنا اور موضوع کو چھوڑ کر ضعیف حدیثوں کو روایت کرنا اور ان پر عمل کرنا ان کا ضعف بیان کیے بغیر جائز ہے؛ مگر اللہ کی صفات اور احکام کی حدیثوں میں ایسا کرنا جائز نہیں ہے“۔

دستخط:
حبیب الرحمن الاعظمی
مہر:
نوٹ: نیز دیکھیے: شبِ براء ت کی شرعی حیثیت (6 تا 10)
فتویٰ حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی
مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند

بسْم اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحیم
تاریخ: 30 ستمبر1980ء بروز شنبہ
(استفتاء نمبر:1011/ب)

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
مندرجہ ذیل مسئلہ میں علمائے تحقیق کی کیا رائے ہے؟

شعبان کی 15/ تاریخ یعنی (شب برات) کو روزہ رکھنا ہم مستحب سمجھتے ہیں اور آج تک امت کا ایک بڑا طبقہ اس پر عمل کرتا چلا آرہا ہے؛ مگر ایک غیر مقلد عالم اس روزہ کو بدعت اور معصیت قرار دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ شعبان کی 13/ 14/ تاریخوں کے ساتھ 15/ تاریخ کو اگر ملا کر تین روزے ایام بیض کے بنالیے جائیں تو درست ہے، ورنہ صرف 15/ تاریخ کا ایک روزہ ممنوع اور بدعت ہے۔ مشکوٰة شریف: ص:115 (اصح المطابع) پر حضرت علی سے جو ان الفاظ کے ساتھ روایت آئی ہے: ”إذا کانَتْ لیلةُ النصفِ مِنْ شعبانَ فقوموا لیلَہا وصُوموا یومَہا الخ“ اور صاحب مشکوٰة نے اس روایت کو ابن ماجہ سے لیا ہے، اس روایت کو غیر مقلد عالم موضوع بتاتے ہیں اور دلیل میں ترمذی کے شارح مولانا عبدالرحمن مبارک پوری (یہ خود بھی غیر مقلد تھے) کی تصنیف ”تحفة الاحوذی“ کی (53/2) پر آئی ہوئی عبارت پیش کرتے ہیں: ”وفی سندہ أبوبکر بن عبداللّٰہ بن محمد بن أبی سبرة القرشی العامری المدنی قیل اسمہ عبداللّٰہ وقیل محمد وقد ینسب إلی جدہ رَمَوْہُ بالوضع“ اور فرماتے ہیں کہ حضرت علی والی روایت (فی فضیلة صوم شعبان) میں ابوبکر بن عبداللہ راوی واضع الحدیث تھا؛ اس لیے یہ روایت موضوع ٹھہری، پس شب برا ت کا روزہ ثابت بالحدیث نہیں ہے؛ اس لیے یہ روزہ بدعت ہے، اب دریافت طلب امور یہ ہیں کہ: شب برات کا روزہ کیا بدعت ہے؟ روایتِ مذکورہ موضوع ہے یا ضعیف؟ ضعیف اور موضوع روایتوں کا اعمال میں کیا حکم ہے؟ ابوبکر بن عبداللہ راوی کیا متفق علیہ واضع الحدیث تھے؟ تحفة الاحوذی کی تحقیق کیا صحیح ہے؟ بینوا وتوجروا، والسلام

المستفتی:    عبدالرحیم صدیقی، فاضلِ دیوبند

باسمہ سبحانہ تعالیٰ
محتری ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․زِیْدَ احترَامُہ

السّلام علیْکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ

الجواب حامداً ومصلیاً:حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث مرفوع صاحب مشکوٰة نے بحوالہ ابن ماجہ نقل کی ہے، حافظ منذری نے بھی الترغیب والترہیب میں بصیغہٴ تمریض اس کو ذکر کیا ہے۔ درمنثور میں بیہقی کی شُعَبُ الایمان کا بھی حوالہ موجود ہے، ابوبکر ابن عبداللہ بن محمد بن ابی سبرہ بالاتفاق ضعیف ہیں؛ اگرچہ اہلِ رجال نے ان کے حق میں بلند کلمات بھی لکھے ہیں، جیسا کہ تاریخ خطیب بغدادی میں ان کے تفصیلی ترجمہ کے ضمن میں موجود ہیں اور شیخ محمد طاہر پٹنی نے ان کو قاضِی العراق لکھا ہے؛ لیکن تعدیل وتوثیق کے اصطلاحی الفاظ ان کے بارہ میں نہیں ملتے، بعض نے تضعیف کی ہے، بعض نے نسبت الی الوضع بھی کی ہے۔ ابن ماجہ کی جن روایات کو موضوع قرار دیا گیا ہے، اس فہرست میں اس حدیث کو شمار نہیں کیا گیا، حدیث شریف میں ماہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کا ثبوت ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو در منثور، تفسیر سورہٴ دخان۔ پس اس روزہ کو فرض یا واجب یا سنت موٴکدہ قرار نہیں دیا جاسکتا، نہ اس کو بدعت کہا جاسکتا ہے۔ روایاتِ موضوعہ کے سلسلہ میں جو کتب احقر کے پاس ہیں، ان میں یہ روایت مذکورہ نہیں؛ پس اس کو حتمی طور پر موضوع کہنا دشوار ہے، ضعیف روایات باب الفضائل میں قابلِ قبول ہیں؛ جیسا کہ کفایہ، شرح نخبہ، تہذیب وغیرہ میں مذکورہ ہے۔

فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم
حررہ: العبد محمود غُفِرَلہ دارالعلوم دیوبند
29/11/1400ھ

مہر:  دارالافتاء دارالعلوم دیوبند
Flag Counter