تشبہ بالکفار کی وضاحت اور حکم
مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
ابتدائی بات
دین اسلا م کا یہ اعجاز ہے کہ تمام ادیان میں صرف اسے ہی جامع، کامل و اکمل ہونے کا شرف حاصل ہے اور اِس دین کویہ اعزاز و سند کسی انسان کی طرف سے نہیں ملی، بلکہ احکم الحاکمین کی طرف سے اس دین کی کاملیت اور اکملیت کا ببانگ دہل اعلان کیا گیا ہے:﴿الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتي ورضیت لکم الاسلام دیناً﴾کہ دنیا کے کسی خطے میں رہنے والا، کوئی بھی انسان ہو ، کسی بھی زبان کا ہو، کسی بھی نسل کا ہو، اگر وہ اپنی زندگی کے کسی بھی شعبے کے بارے میں راہ نمائی لینا چاہتا ہو ،تواس کے لیے راہ نمائی کا سامان موجود ہے،اگر کوئی انسان اسلام میں داخل ہو کر اسلام کی راہ نمائی کے مطابق اپنی زندگی کو ترتیب دیتاہے تو ایسے شخص کو دنیا و آخرت کی کام یا بی کا مژدہ سنایا گیا ہے اور اس کے برعکس کوئی مسلمان اپنی زندگی کے معمولات کے سرانجام دینے میں اسلامی احکامات کی طرف دیکھنے کی بجائے اسلام دشمن لوگوں کی طرف دیکھتا ہے (دیکھ کر ان کے طور طریقوں کو اختیا ر کرتا ہے، یہ طور طریقے، شکل و صورت میں ہوں یا لباس میں ، کھانے میں ہو ں یا سونے میں ، معاملات میں ہوں یا معاشرت میں، اَخلاق میں ہوں یا کسی بھی طریقے میں ہوں )تو اس امر کو اسلام میں سخت ناپسند کیا گیا ہے، ایسے شخص کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے، اس شخص کے اس اندازِ زندگی اختیار کرنے کے مضرات اس کو دنیا میں بھی پہنچتے ہیں اور آخرت کے بارے میں تو سرکار دو عالم صلى الله عليه وسلم نے صاف فیصلہ سنا دیا ہے کہ” جو شخص دنیا میں کسی کی مشابہت اختیار کرے گا، کل قیامت میں اس کاحشر اسی شخص کے ساتھ ہو گا“۔اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کے کسی بھی موڑ پر ،کسی بھی کام میں غیر مسلموں کا طریقہ یا مشابہت اختیار نہ کریں، دنیا کا کوئی پیشہ ایسا نہیں ہے کہ اس پیشے سے متعلق سنتِ رسول صلى الله عليه وسلم میں ہمارے لیے راہ نمائی موجود نہ ہو، ہماری مسلمانی کا تقاضی بھی یہی ہے کہ ہم اپنے محبوب صلى الله عليه وسلم کی صورت اور سیرت سے محبت کرتے ہوئے ان کی مبارک سنتوں کو اپنی زندگی میں جگہ دے کر اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخ رُو ہوں اور اس خوف ناک دن کی رسوائیوں سے بچ سکیں۔
چناں چہ غیر مسلمین کے افعال و اعمال میں سے کس کس عمل سے، کس درجہ میں مشابہت سے بچنا ضروری ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ذیل میں ”تشبہ بالکفار“ یا ”تشبہ بغیر المسلمین“ کی تعریف سے لے کر زندگی کے تمام کاموں میں مشابہت کے احکامات کا مختصراً و مجملاً اصولی جائزہ پیش کیا جائے گا، ان اصولوں کی وجہ سے ہم اپنے آپ کوغیر مسلموں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے بچاتے ہوئے ،اپنی چوبیس گھنٹے کی زندگی کو بالکلیہ اسلام کے مطابق بنا سکتے ہیں ، بات صرف عزم ِ مصمم کر کے قدم اٹھانے کی ہے۔
تشبہ کی تعریف
تشبہ کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں، جن میں سے عام فہم اور ضروری تعریفیں ذیل میں لکھی جاتی ہیں:
تعریف اول
اپنی حقیقت ،اپنی صورت اور وجود کو چھوڑ کر دوسری قوم کی حقیقت ، اس کی صورت اور اس کے وجود میں مدغم ہو جانے کا نام تشبہ ہے۔
تعریف دوم
اپنی ہستی کو دوسرے کی ہستی میں فنا کر دینے کا نام تشبہ ہے۔
تعریف سوم
اپنی ہیئت اور وضع کو تبد یل کر کے دوسری قوم کی وضع اور ہیئت اختیار کر لینے کانام تشبہ ہے۔
تعریف چہارم
اپنی شانِ امتیازی چھوڑ کردوسری قوم کی شانِ امتیازی کو اختیار کر لینے کا نام تشبہ ہے۔
تعریف پنجم
اپنی اور اپنوں کی صورت وسیرت کو چھوڑ کر غیروں اور پرایوں کی صورت اور سیرت کو اپنا لینے کا نام تشبہ ہے۔ (التنبہ علی ما في التشبہ للکاندھلوي،ص: 7، مکتبہ حکیم الامت ،کراچی )
اِس لیے شریعت مطہرہ مسلم وغیر مسلم کے درمیان ایک خاص قسم کا امتیاز چاہتی ہے کہ مسلم اپنی وضع قطع میں،رہن سہن میں اور چال ڈھال میں غیر مسلم پر غالب اوراس سے ممتاز ہو،الگ سے، جداگانہ طور پرمسلم کی عبادت، معاملات اور معاشرت ہو،ظاہری علامات اس امتیاز کے لیے داڑھی اور لباس وغیرہ مقرر کی گئی کہ لباس ظاہری اور خارجی علامت ہے اور خود انسانی جسم میں داڑھی اور ختنہ کو فارق قراردیا گیا ہے۔
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے موقع بہ موقع اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم کو غیرمسلموں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ذیل میں ان میں سے کچھ احکامات ذکر کیے جاتے ہیں:۔
تشبہ با لکفا ر سے متعلق اِرشادات نبویہ علی صاحبہا ازکی التحیات
اللہ رب العزت کی طرف سے بواسطہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اُمت محمدیہ أزکی التحیات کو غیرمسلمین کفارویہود اور نصاریٰ سے دور رکھنے کی متعدد مقامات پر تلقین کی گئی، مثلاً: ﴿یآأیّھا الذین اٰمنوا لا تتخذوا الیہود والنصاریٰ أولیاء، بعضہم أولیاء بعض، ومن یّتولھم منکم، فإِنّہ منھم، إنّ اللہ لا یھدي القوم الظالمین﴾ (المآئدة: 51)
” اے ایمان والو! مت بناؤ یہود اور نصاریٰ کو دوست ،وہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے اور جو کوئی تم میں سے دوستی کرے اِن سے ،تو وہ انہی میں سے ہے ،اللہ ہدایت نہیں دیتا ظالم لوگوں کو“۔ (تفسیر عثمانی، ص: 150)
﴿یآ أیّھا الذین اٰمنوا لا تکونوا کالذین کفروا﴾․(آل عمران: 156)
اے ایمان والوتم نہ ہو (جاوٴ)ان کی طرح جو کافر ہوئے۔(تفسیر عثمانی، ص: 90)
سنن الترمذی میں ایک روایت ہے،جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”جو شخص ملت اسلامیہ کے علاوہ کسی اور امت کے ساتھ مشابہت اختیار کرے تو وہ ہم میں سے نہیں ،اِرشادفرمایا کہ تم یہود اور نصاری کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو“۔
عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ؛ أن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم قال: ”لیس منَّا من تشبَّہ بغیرنا، لا تشبَّھوا بالیھود، ولا بالنصاریٰ“․(سنن الترمذي، کتاب الاستیذان، باب ما جاء في کراھیہ إشارة الید بالسلام، رقم الحدیث: 2695)
اس حدیث کی شرح میں صاحب تحفة الأحوذی لکھتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ تم یہود و نصاریٰ کے ساتھ ان کے کسی بھی فعل میں مشابہت اختیار نہ کرو۔(تحفة الاحوذی: 7/504)
سنن ابی داوٴد میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا“․ (سنن ابو داوٴد، کتاب اللباس، باب فی لبس الشہرة، رقم الحدیث: 4030)
علامہ سہارن پوری لکھتے ہیں کہ مشابہت عام ہے ، خیر کے کاموں میں ہو یا شر کے کاموں میں، انجام کار وہ ان کے ساتھ ہو گا، خیر یا شر میں۔(بذل المجہود:4/59)
”مَنْ تَشَبَّہَ“ کی شرح میں ملا علی القاري لکھتے ہیں کہ:
”جو شخص مشابہت اختیار کرے کفار کی، فساق کی، فجار کی یاپھر نیک و صلحاء کی، لباس وغیرہ میں (ہو یا کسی اور صورت میں )وہ گناہ اور خیر میں ان کے ہی ساتھ ہوگا۔(مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس،رقم الحدیث:4347، 8/222،رشیدیہ)
ایک اور حدیث ِ رسول صلی الله علیہ وسلم میں ہے:
” ہم میں اور مشرکین کے درمیان فرق (کی علامت ) ٹوپیوں پر عمامہ کا باندھنا ہے“۔یعنی:ہم ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں اور مشرکین بغیر ٹوپی کے عمامہ باندھتے ہیں۔(سنن ابی داوٴد، کتاب اللباس، رقم الحدیث: 4078۔ مرقاة المفاتیح، رقم الحدیث: 4340، 8/215)
تشبہ کے بارے میں آثارِ صحابہ و تابعین
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور ِ حکومت میں جب سلطنتِ اسلامیہ کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیاتو حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو اس بات کی فکر دامن گیر ہوئی کہ مسلمانوں کے عجمیوں کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے اسلامی امتیازات میں کوئی فرق نہ آ جائے ، اس خطرے کے پیش ِ نظر آپ رضی اللہ عنہ نے ایک طرف مسلمانوں کو اس سے بچنے کی تلقین کی… تو دوسری طرف غیرمسلمین کے لیے بھی دستور قائم کیا۔
جیسا کہ حضرت ابو عثمان النہدی رحمہ اللہ کی روایت ہے کہ ہم عتبة بن فرقد کے ساتھ آذر بائیجان میں تھے کہ ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک خط بھیجا (جس میں بہت سارے احکامات و ہدایات تھیں، منجملہ ان کے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ ) ”تم اپنے آپ کو اہلِ شرک اور اہلِ کفر کے لباس اور ہیئت سے دور رکھنا“۔
عن أبي عثمان النہدي قال: ”کتب إلینا عمر بن الخطاب، و نحن بآذر بائیجان مع عتبة بن فرقد: یا عتبة ! إنہ لیس من کدِّک، ولا کدِّ أبیک، ولا کدِّ أمک، فأشبع المسلمین في رحالھم مما تشبع منہ في رحلک، وإیاکم والتنعم وزيِّ أہل الشرک ولبوس الحریر…إلخ“․(جامع الأصول، الکتاب الأول في اللباس، الفصل الرابع في الحریر، النوع الثاني، رقم الحدیث: 8343، 10 / 687،مکتبة دارالبیان)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا کہ: ”أما بعدُ! فاتزروا وارتدوا وانتعلوا…وعلیکم بلباس أبیکم إسماعیل،وإیاکم والتنعم وزيِّ العجم…وتمعددوا واخشوشنوا واخلولقوا…إلخ“․ (شعب الإیمان للبیہقي، الملابس والزيّ، رقم الحدیث: 5776،8/ 253،مکتبة الرشد)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ ”اے مسلمانو! ازار اور چادر کا استعمال رکھو اور جوتے پہنو… اور اپنے جدِ امجد اسماعیل علیہ السلام کے لباس (لنگی اور چادر)کو لازم پکڑو اور اپنے آپ کو عیش پرستی اور عجمیوں کے لباس اور ان کی وضع قطع اور ہیئت سے دور رکھو،( مبادا کہ تم لباس اور وضع قطع میں عجمیوں کے مشابہہ بن جاوٴ )…اور موٹے ، کھردرے اور پرانے لباس پہنو“۔
اور دوسری طرف اہلِ نصاریٰ اور یہود کو دارالاسلام میں رہنے کی صورت میں بہت سے اُمور کا پابند کیا، جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بہت ہی مضبوط انداز میں اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی اَقدار کی حفاظت کی گئی ہے۔
چناں چہ! فتح شام کے موقع پر نصاریٰ شام کے عہد ِ صلح کے بعد جو شرائط طے کی گئیں وہ یہ تھیں:
”…وأن نوقر المسلمین، وأن نقوم لہم من مجالسنا إن أرادوا جلوسا، ولا نتشبہ بھم فيشيء من ملابسہم في قلنسوة، ولا عمامة، ولا نعلین ولا فرق شعر، ولا نتکلم بکلامھم، ولا نتکنی بکنّاھم، ولا نرکب السروج، ولا نتقلد السیوف، ولا نتخذ شیئاً من السلاح، ولا نحملہ معنا، ولا ننقش خواتمنا بالعربیة، ولا نبیع الخمور، وأن نجزَّ مقادیم روٴوسنا، وأن نلزم زیّنا حیثما کنا، وأن نشد الزنانیر علی أوساطنا، وأن لا نظھر الصلیب علی کنائسنا، ولاکتبنا في شيء من طریق المسلمین، ولا أسواقھم، ولا نضرب في کنائسنا إلا خفیفاً وألا نرفع أصواتنا بالقرآء ة في کنائسنا في شيء من حضرة المسلمین، وأن لا نخرج شعانین، ولا بعوثاً، ولا نرفع أصواتنا مع موتانا، ولا نظھر النیران معھم في شيء من طرق المسلمین، ولا أسواقھم، ولا نجاوزھم موتانا……إلخ“․
عہد نامہ میں امان کے مطالبہ کے بعد مندرجہ ذیل شرائط کی پاس داری کا اقرار تھاکہ ”ہم (نصاریٰ شام) مسلمانوں کی تعظیم و توقیر کریں گے اور اگر مسلمان ہماری مجالس میں بیٹھنا چاہیں گے توہم ان کے لیے مجلس چھوڑ دیں گے اور ہم کسی امر میں مسلمانوں کے ساتھ تشبہ اور مشابہت اختیار نہیں کریں گے، نہ لباس میں ، نہ عمامہ میں ، نہ جوتے پہننے میں اور نہ سر کی مانگ نکالنے میں ، ہم اُن جیسا کلام نہیں کریں گے اور نہ مسلمانوں جیسا نام اور کنیت رکھیں گے اور نہ زین کی سواری کریں گے، نہ تلوار لٹکائیں گے، نہ کسی قسم کا ہتھیار بنائیں گے اور نہ اُٹھائیں گے اور نہ اپنی مہروں پر عربی نقش کندہ کروائیں گے اور سر کے اگلے حصے کے بال کٹوائیں گے اور ہم جہاں بھی رہیں گے، اپنی ہی وضع پررہیں گے اور گلوں میں زنار لٹکائیں گے اور اپنے گرجاوٴں پر صلیب کو بلند نہ کریں گے اور مسلمانوں کے کسی راستہ اور بازار میں اپنی مذہبی کتاب شائع نہیں کریں گے اور ہم گرجاوٴں میں ناقوس نہایت آہستہ آواز میں بجائیں گے اور ہم اپنے مُردوں کے ساتھ آگ لے کر نہیں جائیں گے(یہ آخری شرط مجوسیوں سے متعلق ہے)۔
حضرت عبد الرحمن بن غنم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ شرائط نامہ لکھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے ملاحظہ کرنے کے لیے رکھا، تو انہوں نے اس شرائط نامہ میں کچھ مزید اضافہ کروایا، جو یہ تھا:
”ولا نضرب أحداً من المسلمین، شرطنا لکم ذٰلک علی أنفسنا، وأھل ملتنا و قبِلْنا علیہ الأمان، فإن نحن خالفنا في شيء ممّا شرطناہ لکم، فضمناہ علی أنفسنا، فلا ذمة لنا، و قد حل لکم منا ما یحلّ من أھل المعاندة والشقاق“․(تفسیر ابن کثیر، سورة التوبة:29، 3/374، دارالاشاعت)
کہ” ہم کسی مسلمان کو ماریں گے نہیں ، یعنی تکلیف نہیں پہنچائیں گے، ہم نے انہی شرائط پر اپنے لیے اور اپنے اہلِ مذہب کے لیے امان حاصل کیا ہے، پس اگر ہم نے شرائط مذکورہ بالا میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کی تو ہمارا عہد اور امان ختم ہو جائے گا اور جو معاملہ اہلِ اسلام کے دشمنوں اور مخالفوں کے ساتھ کیا جاتا ہے وہی معاملہ ان کے ساتھ کیا جائے گا“۔
ایک اورروایت جسے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے،اس میں کچھ مزید شرائط کا بھی ذکر ہے،جو ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں:
”أن لا نحدث في مدینتنا ولا في حولھا دیراً ولا کنیسةً ولا قلابة ولا صومعة راھب، ولا نجدد ما خَرِب منھا، ولا نحیي منھا ما کان في خِطَط المسلمین، وأن لا نمنع کنائسنا أن ینزلھا أحد من المسلمین في لیلٍ ولا نھارٍ، وأن نوسع أبوابھا للمارّةِ وابن السبیل، وأن ینزل مَن مرّ مِن المسلمین ثلاثة أیام نطعمھم، ولا نوٴوي في کنائسنا ولا منازلنا جاسوساً، ولا نکتم غشّاً للمسلمین، ولا نُعلِّم أولادنا القرآن، ولا نظھر شرکاً، ولا ندعو إلیہ أحداً، ولا نمنع أحداً من ذوي قرابتنا الدخول في الإسلام إن أرادوا…إلخ“ (تفسیر ابن کثیر، سورة التوبة:29، 3/ 373)
کہ” ہم اپنی آبادی میں کوئی نیا گرجا گھر نہیں بنائیں گے اور جو گرجا گھرخراب ہو جائیں گے، ان کی مرمت نہیں کروائیں گے اور جو خطہٴ زمین مسلمانوں کے لیے ہو گا، ہم اُسے آباد نہیں کریں گے اور کسی مسلمان کو دن ہو یا رات، کسی وقت بھی گرجا میں اُترنے سے نہیں روکیں گے اور اپنے گرجاوٴں کے دروازے مسافروں اور گزرنے والوں کے لیے کشادہ رکھیں گے، اور تین دن تک ان مسلمان مہمانوں کی مہمان نوازی کریں گے اور اپنے کسی گرجا اور کسی مکان میں مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنے والے کو ٹھکانہ نہیں دیں گے اور مسلمانوں کے لیے کسی غل و غش کو پوشیدہ نہیں رکھیں گے اور اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم نہیں دیں گے اور کسی شرک کی رسم کو ظاہراً اور اعلانیہ طور پر نہیں کریں گے اور نہ کسی کو شرک کی دعوت دیں گے اور نہ اپنے کسی رشتہ دار کو اسلام میں داخل ہونے سے روکیں گے“۔
مذکورہ بالا شرائط کو دیکھتے ہوئے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کے اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے کس قدر اہتمام کیا گیا، اس لیے کہ اسلام میں غیروں کے طور طریقوں کاداخل ہو جانا مسخِ اسلام اور تخریبِ اسلام ہے۔
حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”تشبہ بالغیر فی الحقیقت تخریبِ حدود اور ابطالِ ذاتیات کا نام ہے“۔ (مجموعہ رسائل حکیم الاسلام، اسلامی تہذیب وتمدن:5/485)
غیروں کے ساتھ اختلاط ، میل جول اختیار کرنے سے کس قدر سختی سے اور کن کن طریقوں سے روکا گیا، اس کا اندازہ اس مکالمے سے بخوبی ہو سکتا ہے جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوا، وہ یہ ہے:”أبوموسیٰ: قلت لعمررضي اللہ عنہ أن لي کاتباً نصرانیاً․ عمر: مالک؟ قاتلک اللہ! أما سمعت اللہ یقول: ﴿یا أیھا الذین اٰمنوا لا تتخذوا الیھود والنصاریٰ أولیاء …﴾؟ألا اتخذت حنیفاً؟
أبو موسیٰ: إن لي کتابہ ولہ دینہ․
عمر: لا أکرمھم إذا أھانھم اللہ، ولا أعزھم إذا اذلھم اللہ، ولا أدینھم إذا أقصاھم اللہ تعالیٰ“․(الفتاویٰ الکبریٰ لابن تیمیہ، مسألة عما فيالخمیس ونحوہ من البدع: 2/485، المستطرف في کل فن مستظرف: 2/ 60)
”حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے یہاں ایک نصرانی کاتب ملازم ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تجھے کیا ہو گیا؟خدا تجھے غارت کرے ! کیا تو نے اللہ کا یہ حکم نہیں سنا کہ ”یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست مت بناوٴ، کیوں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں“۔ تو نے کسی مسلمان کو ملازم کیوں نہیں رکھا؟
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جواب دیا کہ اے امیر الموٴمنین! میرے لیے اس کی کتابت ہے اور اس کے لیے اس کا اپنا دین۔ (یعنی: وہ نصرانی ہے تو کیا ہوا، مجھے تو اس کی کتابت سے غرض ہے، میرا اس کے دین سے کیا تعلق؟)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جن کی اہانت اللہ تعالیٰ نے کی ہے، میں ان کی تکریم نہیں کروں گا، جن کو اللہ تعالیٰ نے ذلیل کیا ہے میں ان کو عزت نہیں دوں گا، جن کو اللہ تعالیٰ نے دور کیا ہے میں ان کو قریب نہیں کروں گا“۔
اس پر مغز مکالمے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ:
1...جب تک کوئی اضطراری حالت داعی نہ ہو اس وقت تک اصل یہی ہے کہ غیر مسلمین سے استغاثہ اور وہ بھی ایسا کہ جس میں ان کی تکریم ہوتی ہو ، دینِ متین کی فہم حقیقی اورعقل و دانش اس کی اجازت نہیں دیتی ۔
2... یہ عذر قابلِ سماعت نہیں ہے کہ ہمیں تو ان کی صرف خدمات درکار ہیں،نہ کہ ان کا مذہب،کیوں کہ اس تحصیل ِ خدمت کے ذیل میں ان کے ساتھ معیت ہماری اس شدت اور تغلیظ کو کم کر دے گی یا محو کر دے گی، جو ایک مسلمان کا اسلامی شعار بتایا گیا ہے اور یہی قلتِ تغلیظ بالآخر مداہنت و چشم پوشی اور اعراض عن الدین کا مقدمہ بن کر کتنے ہی شرعی منکرات کی نشوونما کا ذریعہ ثابت ہو گی۔
3... حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے بعد کوئی شخص ان جیسا تدین نہیں لا سکتا، لیکن اگر کوئی شخص بالفرض لے بھی آئے تو کوئی وجہ نہیں کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو تو کفار کی خدمات حاصل کرنے سے روکا جائے اوراسے نہ روکا جائے۔
یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ ایک شخص پختہ اور راسخ الایمان بھی ہے اور اس اشتراک ِ عمل سے اس میں کوئی تزلزل بھی نہیں آسکتا، لیکن یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایسی ذمہ دار ہستی کا اشتراکِ عمل ،عامة المسلمین کے لیے کفار سے استعانت اور اختلاط کے معاملے میں شبہ کا باعث بن جائے اور عوام اپنے لیے اس فعل کوحجت شمار کریں اور اس طرح یہ اختلاط و التباس عام ہو کر ناقابلِ تدارک مفاسد کا باعث بن جائے۔
4... جس مخلوق کی اس کے خالق نے تکریم نہ کی اور ان کے لیے عزت کا کوئی شمہ گوارا نہ کیا، تواُسی خالق کے پرستاروں کی غیرت و حمیت کے خلاف ہے کہ وہ اس کے اعداء کی تکریم کریں ، وہ جسے پھٹکار دے، یہ اس سے پیار کریں۔
5... اسلام میں سیاستِ محظہ مقصود نہیں ، بلکہ محض دین مقصودہے، سیاسی الجھنیں محض تحفظ ِ دین کے لیے برداشت کی جاتی ہیں، پس اگر کوئی سیاست ہی کا شعبہ تخریب ِ دین یا مداہنت و حق پوشی کا ذریعہ بننے لگے، توبے دریغ اس کو قطع کر کے دین کی حفاظت کی جائے گی، ورنہ بصورتِ خلاف قلبِ موضوع اور انقلاب ِ ماہیت لازم آجائے گا کہ وسیلہ مقصود ہو جائے اور مقصود وسیلہ کے درجہ پر بھی نہ رہے گا۔(مجموعہ رسائل حکیم الاسلام ، اسلامی تہذیب و تمدن: 5/ 97، 98) (جاری)