Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1434ھ

ہ رسالہ

2 - 17
ماہِ شعبان اور شبِ براء ت
مولانا محمد نجیب قاسمی

اسلامی کیلنڈر کے مطابق شعبان المعظم آٹھواں مہینہ ہے، جو رجب المرجب اور رمضان المبارک کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ احادیث کی روشنی میں بلا شبہ یہ ماہ بہت سی فضیلتوں کا حامل ہے، چناں چہ رمضان کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ روزے اسی ماہ میں رکھتے تھے۔

٭...  حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ میں نے رمضان کے علاوہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکو کبھی پورے مہینے کے روزہ رکھتے نہیں دیکھا، سوائے شعبان کے کہ اس کے تقریباً پورے دنوں میں آپ روزہ رکھتے تھے۔ (بخاری، مسلم، ابو داوٴد)

اسی مضمون کی ایک روایت ام الموٴمنین حضرت ام سلمہ  سے ترمذی میں مذکور ہے۔

٭... حضرت اسامہ بن زید  فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں (نفلی) روزہ رکھتے نہیں دیکھا؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ رجب اور رمضان کے درمیان واقع ایک مہینہ ہے جس کی برکت سے لوگ غافل ہیں۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ میرے اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزہ سے ہوں۔ (نسائی، الترغیب والترھیب، ص425، مسند احمد، ابو داوٴد 2076) محدثین کی ایک بڑی جماعت کی رائے ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

٭... حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم شعبان کے تقریباً مکمل مہینے میں روزے رکھتے تھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ کو شعبان کے روزہ بہت پسند ہیں؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس سال انتقال کرنے والوں کے نام اس ماہ میں لکھ دیتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میری موت کافیصلہ اس حال میں ہو کہ میں روزہ سے ہوں۔ (رواہ ابویعلی، وہو غریب، واسنادہ حسن۔ الترغیب والترھیب، وذکر الامام الحافظ السیوطی فی ”الدر المنثور)۔

٭... بعض دیگر احادیث میں شعبان کے آخری دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے، تاکہ اس کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے رکھنے میں دشواری نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الصوم۔ مسلم، کتاب الصیام)

بالا اوراس طرح کی متعدد احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ماہ شعبان بلاشبہ بہت سی فضیلتوں کا حامل ہے اور اس ماہ کے آخری دو تین دن کے علاوہ اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ روزہ رکھنا چاہیے۔

اس ماہ کی پندرہویں رات کو شب برأت کہا جاتا ہے، جو 14 تاریخ کا سورج غروب ہونے سے شروع ہوتی ہے اور15 تاریخ کی صبح صادق تک رہتی ہے۔ شب برأت فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی نجات پانے کی رات کے ہیں۔ چوں کہ اس رات میں بے شمار گناہگاروں کی مغفرت کی جاتی ہے، اس لیے اس شب کو شب برأت کہا جاتا ہے۔

اس رات کی فضیلت کے سلسلہ میں علماء کے درمیان زمانہٴ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے، لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس رات کی فضیلت کا بالکلیہ انکار کرناصحیح نہیں ہے، کیوں کہ بعض مشہور ومعروف مفسرین (مثلاً حضرت عکرمہ )نے تو قرآن کی آیت ﴿ اِنَّآ اَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَةٍ مُّبَارَکَةٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکَیْمٍ﴾․ (سورہ الدخان 4-3) سے مراد شعبان کی پندرہویں رات (شب برأت) لی ہے اور ہر زمانے کے مشہور ومعروف مفسرین نے اپنی تفسیروں میں حضرت عکرمہ  کی تفسیر کو ذکر کیا ہے۔ اگرچہ جمہور علماء کی رائے میں اس آیت سے مراد شب قدر ہے، مگر قابل غور بات یہ ہے کہ اگر شب برأت کی کوئی حقیقت ہی نہ ہوتی تو مشہور ومعروف مفسرین اس آیت کی تفسیر میں حضرت عکرمہ  کی تفسیر کا ذکر کیوں کرتے؟ بلکہ اس کی مخالفت کرتے۔

شب برأت کی فضیلت کے متعلق تقریباً 17 صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے احادیث مروی ہیں، جن میں سے بعض صحیح ہیں،جن کی صحت کا اعتراف شیخ محمد ناصر الدین البانی جیسے محدث نے بھی کیاہے، اگرچہ دیگر احادیث کی سند میں ضعف موجود ہے، لیکن وہ کم از کم قابل استدلال ضرور ہیں اور احادیث کی اتنی بڑی تعداد کو رد کرنا درست نہیں ہے، نیز امت مسلمہ کا شروع سے اس پر معمول بھی چلا آرہا ہے۔ لہٰذا علم حدیث کے قاعدہ کے مطابق ”اگر حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہو، لیکن امت مسلمہ کا عمل اس پر چلا آرہا ہو تو اس حدیث کو بھی قوت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ قابل اعتبار قرار دی جاتی ہے“ ان احادیث پر عمل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ نیز اس باب کی احادیث مختلف سندوں کے ساتھ وارد ہوئی ہیں، اگرچہ بعض احادیث کی سند میں ضعف ہے، لیکن علم حدیث کے قاعدہ کے مطابق ایک دوسرے سے تقویت لے کر یہ احادیث حسن لغیرہ بن جاتی ہیں، جس کا اعتراف متعدد بڑے بڑے محدثین نے بھی کیا ہے۔

عقل سے بھی سوچیں کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ مختلف ملکوں اور مختلف شہروں میں رہنے والے حضرات نبی اکرم صلی الله علیہ وسلمکی طرف کسی ایک جھوٹی بات کو منسوب کرنے میں متفق ہوگئے، نیز سب نے شعبان کی 15 تاریخ کو ہی کیوں اختیار کیا؟کوئی دوسری تاریخ یا کوئی دوسرا مہینہ کیوں اختیار نہیں کیا ؟

ان احادیث سے شب برأت میں کسی مستقل عمل کو ثابت نہیں کیا جارہا ہے، بلکہ اعمال صالحہ (مثلاًنماز ِفجروعشاء کی ادائیگی، بقدر توفیق نوافل ،خاص کر نماز تہجد کی ادائیگی، قرآن کریم کی تلاوت، اللہ کا ذکر، اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی اور دعائیں) کے کرنے کی رغبت دی جارہی ہے ،جن کا تعلق ہر رات سے ہے اور ان اعمال صالحہ کا احادیث صحیحہ سے ثبوت بھی ملتا ہے،جس پر ساری امت متفق ہے۔ شب برأت بھی ایک رات ہے۔ شب برأت میں تھوڑا اہتمام کے ساتھ ان اعمال صالحہ کی ادائیگی کے لیے علماء ومحققین کی ایک بڑی جماعت کی رائے کے مطابق 17 صحابہٴ کرام سے منقول احادیث ثبوت کے لیے کافی ہیں۔

وضاحت… اگر کچھ لوگوں نے غلط رسم ورواج اس رات میں شروع کرد یے ہیں،جن میں سے بعض کا ذکر مضمون کے آخر میں آرہا ہے، تو اس کی بنیاد پر ان اعمال صالحہ کو اس رات میں کرنے سے روکا نہیں جاسکتا، بلکہ رسم ورواج کے روکنے کا اہتمام کرنا ہوگا، مثلاً عید الفطر کی رات یا دن میں لوگ ناچنے گانے لگیں تو سرے سے عید الفطر کاانکار نہیں کیا جائے گا، بلکہ غلط رسم ورواج کو روکنے کا مکمل اہتمام کیا جائے گا۔ نیز شادی کے موقع پر رسم ورواج اور بدعات کی وجہ سے نکاح ہی سے انکار نہیں کیا جائے گا، بلکہ بدعات اور رسم ورواج کو روکنے کی کوشش کی جائے گی۔ اسی طرح موت کے وقت اور اس کے بعد کی بدعات وخرافات کو روکنے کی کوشش کی جائے گی نہ کہ تدفین ہی بند کردی جائے۔

شب برأت کی فضیلت سے متعلق چند احادیث
٭... حضرت معاذ بن جبل  کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ پندرہویں شب میں تمام مخلوق کی طرف تجلی فرماتا ہے اور ساری مخلوق کی سوائے مشرک اور بغض رکھنے والوں کے سب کی مغفرت فرماتا ہے۔ (صحیح ابن حبان، طبرانی،وذکرہ الامام الحافظ السیوطی فی ”الدر المنثور“ عن البیہقی، وذکرہ الحافظ الہیثمی فی ”مجمع الزوائد“ ج8 ص65، وقال: رواہ الطبرانی فی الکبیر والاوسط، ورجالہ ثقات)

٭... اسی مضمون کی روایت حضرت عبد اللہ بن عمر سے مسند احمد (176/2) میں بھی مروی ہے(قاتل اور بغض رکھنے والوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرماتا ہے)، جس کو الحافظ الہیثمی نے ”مجمع الزوائد ج8 ص65 “میں صحیح قرار دیا ہے۔ اور اس حدیث کو شیخ محمدناصر الدین البانی نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ (السنہ ص 224،، سلسلہ الاحادیث الصحیحہ.... ج3)

٭... اسی مضمون کی روایت حضرت ابو موسی اشعری  سے ابن ماجہ(کتاب اقامہ الصلاة 455/1)میں مروی ہے۔ اور اس حدیث کو شیخ محمد ناصر الدین البانی نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ (سلسلہ الاحادیث الصحیحہ ........ ج 3 ص135)

٭... اسی مضمون کی روایت حضرت ابو ہریرہ  سے مروی ہے۔ (رواہ البزار، وذکرہ الحافظ الہیثمی فی ”مجمع الزوائد“)

٭... اسی مضمون کی روایت حضرت ابو ثعلبہ الخشنی  سے مروی ہے۔ (اخرجہ الطبرانی والبیہقی الدر المنثور للسیوطی)

٭... اسی مضمون کی روایت حضرت ابو بکر صدیق  سے مروی ہے۔ (اخرجہ البزار والبیہقی مجمع الزوائد للہیثمی)

٭... اسی مضمون کی روایت حضرت عوف بن مالک سے مروی ہے۔ (اخرجہ البزار مجمع الزوائد للہیثمی)

٭... اسی مضمون کی روایت حضرت کثیر بن مرہ سے مرسلاً مروی ہے۔ (اخرجہ البیہقی ، حسن البیان للشیخ عبداللہ الغماری)

٭... حضرت عثمان بن ابی العاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا : پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز لگائی جاتی ہے کہ ہے کوئی مغفرت مانگنے والا کہ میں اس کے گناہوں کو معاف کروں؟ ہے کوئی سوال کرنے والا کہ میں عطا کروں؟ ہر سوال کرنے والے کو میں عطا کرتا ہوں، سوائے مشرک اور زنا کرنے والے کے ۔ (اخرجہ البیہقی فی شعب الایمان 383/3، الدر المنثور للسیوطی، ذکرہ الحافظ ابن رجب فی اللطائف)․

٭... حضرت عائشہ  روایت کرتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم بقیع میں تشریف فرماتھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں ڈر تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے گمان ہواکہ آپ دیگر ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے۔ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی شب کو نچلے آسمان پر نزول فرماتاہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتاہے۔ اور اس رات میں بے شمار لوگوں کی مغفرت کی جاتی ہے ،مگر مشرک، عداوت کرنے والے ، رشتہ توڑنے والے، تکبرانہ طور پر ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننے والے، والدین کی نافرمانی کرنے والے اور شراب پینے والے کی طرف اللہ تعالیٰ کی نظر کرم نہیں ہوتی۔ (مسند احمد 238/6، ترمذی (ابواب الصیام)، ابن ماجہ (کتاب اقامة الصلاة)، بیہقی، مصنف ابن ابی شیبہ، الترغیب والترھیب)

٭... حضرت علی بن ابی طالب  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : جب شعبان کی پندرہویں شب ہو تو اس رات میں قیام کرو اوراس دن روزہ رکھو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ غروب آفتاب کے وقت سے سمائے دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور کہتے ہیں : کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کیا کوئی رزق کا متلاشی ہے کہ میں اسے رزق عطا کروں؟ کیا کوئی مصیبت کا مار اہے کہ میں اس کی مصیبت دور کروں؟ کیا کوئی ایسا ہے؟ کیا کوئی ایسا ہے؟ حتی کہ صبح صادق کا وقت ہوجاتا ہے۔ (اخرجہ ابن ماجہ (کتاب اقامة الصلاة)، والبیہقی فی شعب الایمان، الدر المنثور للسیوطی، الترغیب والترھیب للمنذری،لطائف المعارف للحافظ ابن رجب)

اس رات میں ان اعمال صالحہ کا خاص اہتمام
٭... عشاء اور فجر کی نمازیں وقت پر ادا کریں۔
٭... بقدر توفیق نفل نمازیں خاص کر نماز ِتہجد اد ا کریں۔
٭... اگر ممکن ہو تو صلاة التسبیح پڑھیں۔
٭... قرآن پاک کی تلاوت کریں۔
٭... کثرت سے اللہ کا ذکرکریں۔
٭... اللہ تعالیٰ سے خوب دعائیں مانگیں، خاص کر اپنے گناہوں کی مغفرت چاہیں۔
٭... کسی کسی شب برأت میں قبرستان تشریف لے جائیں۔ اپنے اور میت کے لیے دعائے مغفرت کریں۔

لیکن ہر شب برأت میں قبرستان جانے کا خاص اہتمام کوئی ضروری نہیں ہے، کیوں کہ پوری زندگی میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے صرف ایک مرتبہ اس رات میں قبرستان جانا ثابت ہے۔

نوٹ… شب برأت میں پوری رات جاگنا کوئی ضروری نہیں ہے، جتنا آسانی سے ممکن ہو عبادت کرلیں، لیکن یاد رکھیں کہ کسی شخص کو آپ کے جاگنے کی وجہ سے تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔

پندرہویں تاریخ کا روزہ
شب برأت کی فضیلت کے متعلق بہت سی احادیث موجود ہیں، مگر شب برأت کے بعد آنے والے دن کے روزے کے متعلق صرف ایک ضعیف حدیث موجودہے ۔ لہذا ماہ شعبان میں صرف اور صرف پندرہویں تاریخ کے روزہ رکھنے کا بہت زیادہ اہتمام کرنا یا اس دن روزہ نہ رکھنے والے کو کم تر سمجھنا صحیح نہیں ہے، البتہ ماہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے چاہییں۔

اس رات میں مندرجہ ذیل اعمال کا احادیث سے کوئی ثبوت نہیں ہے ، لہذا ان اعمال سے بالکل دور رہیں :
٭... حلوا پکانا۔ (حلوا پکانے سے شب برأت کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ۔)
٭... آتش بازی کرنا۔(یہ فضول خرچی ہے، نیز اس سے دوسروں کے املاک کو نقصان پہنچنے کا بھی خدشہ ہے۔)
٭... اجتماعی طور پر قبرستان جانا۔
٭... قبرستان میں عورتوں کا جانا۔ (عورتوں کا کسی بھی وقت قبرستان جانا منع ہے)۔
٭... قبرستان میں چراغاں کرنا۔
٭... مختلف قسم کے ڈیکوریشن کا اہتمام کرنا۔
٭... عورتوں اور مردوں کا اختلاط کرنا۔
٭... قبروں پر چادر چڑھانا۔(کسی بھی وقت قبروں پر چادر چڑھانا غلط ہے۔)

نوٹ… اس رات میں بقدر توفیق انفرادی عبادت کرنی چاہیے۔ لہٰذا اجتماعی عبادتوں سے حتی الامکان اپنے آپ کو دور رکھیں کیوں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے اس رات میں اجتماعی طور پر کوئی عبادت کرنا ثابت نہیں ہے۔

جن گناہ گاروں کی اس بابرکت رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی ، وہ یہ ہیں:
٭...   مشرک
٭...  # قاتل
٭...   والدین کی نافرمانی کرنے والا
٭...   بغض وعداوت رکھنے والا
٭...   رشتہ توڑنے والا
٭...   تکبرانہ طور پر ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننے والا
٭...   شراب پینے والا
٭...   زنا کرنے والا

لہٰذا ہم سب کو تمام گناہوں سے خاص کر ان مذکورہ کبیرہ گناہوں سے بچنا چاہیے۔

وضاحت… مضمون کی طوالت سے بچنے کے لیے صرف چند احادیث کے ذکر پر اکتفاء کیا ہے، دیگر احادیث وعلماء اور محدثین کے اقوال پڑھنے کے لیے الشیخ عبد الحفیظ المکی صاحب کی عربی زبان میں کتاب "فضائل لیلة النصف من شعبان" کا مطالعہ کریں۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رات میں سال بھر کے فیصلہ بھی ہوتے ہیں، لیکن ان تمام ہی احادیث کی سند میں ضعف موجود ہے، لیکن حضرت عکرمہ  کی تفسیر کی روشنی میں قرآن کریم (سورہ الدخان :4-3 )سے بھی یہی اشارہ ملے گا۔

خلاصہٴ کلام: ماہِ شعبان کی فضیلت اور اس میں زیادہ سے زیادہ روزہ رکھنے کے متعلق امت مسلمہ متفق ہے، البتہ پندرہوں رات کی خصوصی فضیلت کے متعلق علماء ، فقہاء اور محدثین کے درمیان زمانہٴ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ علماء ، فقہاء اور محدثین کی ایک بڑی جماعت کی رائے ہے کہ اس باب سے متعلق احادیث کے قابل قبول (حسن لغیرہ) اور امت مسلمہ کا عمل ابتدا سے اس پر ہونے کی وجہ سے اس رات میں انفرادی طور پر نفل نمازوں کی ادائیگی، قرآن کریم کی تلاوت، ذکر اور دعاوٴں کا کسی حد تک اہتمام کرنا چاہیے۔ کسی کسی شب برات میں قبرستان بھی چلا جانا چاہیے۔ اس نوعیت سے اس رات میں عبادت کرنا بدعت نہیں، بلکہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمارے تمام نیک اعمال کو قبول فرمائے۔ آمین۔
Flag Counter