حضرت عباسؓ ۔۔۔ فضائل ومناقب
مولانا شیخ رحیم الدین دکنی
نسب
آپ کا تعلق عرب کے مشہور قبیلہ قریش سے تھا،آپ کے والد کانام نامی عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدالمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مضربن نزاربن معد بن عدنان بن اوس بن اود بن الیسع بن سلامان بن السبت بن حمل بن قیداربن اسماعیل علیہ السلام بن ابرہیم علیہ السلام۔ (الاصابہ والاستیعاب مطبوعہ دکن،ص:499)
حضرت عباس کے گیارہ بھائی اورچھے بہنیں تھیں،ان میں حقیقی بھائی ضرارہ بن عبدالمطلب تھے، باقی بھائی علاتی تھے۔
خاندانی وجاہت
حضرت عباس کے تمام بڑے بھائی بہادر اور سخی تھے،ضرارہ بن عبدالمطلب جو حقیقی بھائی تھے،نہایت سخی تھے،حضرت حمزہ بڑے بہادر تھے، ابو طالب بڑی شان کے مالک تھے،عبدالمطلب کے بعد وہی سردار بنے،غیراق ایسے بہادر تھے کہ کوئی ان کے مقابلے میں نہیں آتا تھا۔عبداللہ والد ماجد آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوبصورت اور ہمہ صفت موصوف تھے،ابو لہب بہت خوب صورت ،مال دار اورذی وجاہت تھا۔حارث بڑے بہادر اور بڑے فیاض آدمی تھے۔الغرض حضرت عباس کا تمام خاندان زمانہ جاہلیت میں معزز و ممتاز گنا جاتا تھا اور یہی لوگ سب کے حاکم اور رئیس تھے،حج کے موسم میں تمام حجاج کو انہی کے یہاں سے کھانا اورپانی ملا کرتا تھااور یہ لوگ نہایت سیر چشمی سے حجاج کی خدمت کیا کرتے تھے ․․․آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے سے قبل ہی حضرت عباس اعلیٰ درجہ کے سخی تھے۔
آپ کی پیدائش
حضرت عباس566 ء میں واقعہ فیل سے تین برس پہلے پیدا ہوئے اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت واقعہ فیل ہی کے سال ہوئی۔اس حساب سے حضرت عباس ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں تین سال بڑے تھے۔حضرت عباس کی عمر پانچ سال کی ہوئی تو اتفاقیہ طورپریہ کہیں گم ہوگئے،چوں کہ پہاڑی ملک تھا،ان کی والدہ محترمہ کو بڑی فکر ہوئی،انہوں نے اسی وقت نذرمانی کہ اگر عباس مجھ کو مل گئے تو میں بیت اللہ پر حریر و دیباج کا، جو نہایت بیش قیمت کپڑا ہوتا ہے، غلاف چڑھاؤں گی۔نذر ماننے کے بعد ہی حضرت عباس مل گئے، ان کی والدہ نے نذر پوری کی۔حضرت عباس کی والدہ ہی وہ اول عرب خاتون ہیں جنہوں نے بیش بہا کپڑے کا غلاف بیت اللہ کو پہنایا،اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شاہی خاندان سے تھیں اور بہت ہی مال دار تھیں۔
حضرت عباس جب سن تمیز کو پہنچے تو علم انسا ب ،علم تاریخ ،علم ادیان کے علم سیکھائے گئے، چوں کہ عرب میں یہ علوم عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے،خصوصاً علم انساب، کیوں کہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہماالسلام ہی کے زمانے سے برابر یہ خبر چلی آرہی تھی کہ عرب میں نسل اسماعیل ہی سے نبی آخرالزامان پیدا ہوں گے، اس وجہ سے علم انساب کا بہت خیال تھا۔
حضرت عباس کے والد عبدالمطلب اور ان کے آباو اجداد اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر بتلاتے تھے،چناں چہ ان کی پرہیز گاری تمام قریش میں مشہور ہوگئی تھی،یہی وجہ ہے کہ عبدالمطلب کے بعد جب حضرت عباس کی عمرگیارہ برس تھی اور باوجود یکہ اور بھی ان کے بھائی موجود تھے، مگر قریش نے حضرت عباس میں علم ،شجاعت،سخاوت ،سیادت،خاندانی نجابت،صلہ رحمی دیکھ کر انہیں کو بیت اللہ کا محافظ منتخب کیا۔(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ص:498مطبع دائرة المعارف ،حیدرآباد دکن)اور سب نے بالاتفاق یہ اعلان کیا کہ اگر کوئی حضرت عباس کا کہنا نہ مانے گا تو اس کو ساری قوم کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ چناں چہ حضرت عباس ہمیشہ بیت اللہ کی حفاظت میں اپنے وقت کو صرف کیا کرتے تھے اور آپ نے اس قدر اچھا انتظام کیا کہ کسی کومجال نہ تھی کہ کوئی شخص بیت اللہ میں بیٹھ کر کسی کی ہجویا غیبت کر سکے ،اگر کوئی ایسا کرتا تو حضرت عباس فوراً اس کو تنبیہ فرمادیا کرتے تھے اور ان کے حکم کے آگے سب کی گردنیں خم ہو جاتی تھیں۔ (کامل ابن اثیر،ج:1،ص:9)
بیت اللہ کی حفاظت کے علاوہ اور بھی کئی خدمتیں بیت اللہ کی رسمی تھیں ،جن کی وجہ سے متولی کعبہ ہمیشہ عظمت و بزرگی کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے،وہ خدمات حسب ذیل ہیں:
سقایہ:حجاج کو پانی پلانے کی خدمت
رفادہ:حجاج کو کھانا کھلانے کی خدمت
حجابتہ:خدا کے مقدس گھر کی دربانی
ندوہ:دارالندوہ میں صدر انجمن کا استحقاق
لواء:لڑائی کے وقت علم برداری کی خدمت
قیادت:جنگ کے وقت لشکر کی سپہ سالاری
عہد رفادہ
عہد رفادہ کا منصب حضرت عباس کے جد امجد جناب ہاشم کے سپرد تھا،ان کے بعد ان کے بیٹے عبدالمطلب سے متعلق رہا اور عبد المطلب کے بعد کچھ سال ابو طالب نے اس کو انجا م دیا اور جب حضرت عبا س سن بلوغ کو پہنچے تو ابو طالب نے یہ خدمت حضرت عباس کے سپرد کردی۔حضرت عباس نے اس خدمت کو ایسے اعلیٰ درجہ کی فیاضی اور سخاوت سے انجام دیاکہ لوگ حیران ہوگئے۔
عہدہ سقایہ
اس کا منصب بھی حضرت عباس کے جدامجد جناب ہاشم کے سپرد تھا، ان کے بعد جناب عبدالمطلب، پھر ابو طالب اس کو انجام دیتے رہے۔مگر ابو طالب نے یہ عہد ہ بھی اپنی زندگی ہی میں اپنے بھائی حضرت عباس کی طرف منتقل کردیا۔
تعمیر کعبہ
حضرت عباس کی عمر جب سولہ سال کی ہوئی تو خانہ کعبہ میں اتفاقیہ طور پر آگ لگ گئی ،جس کی وجہ سے عمارت مسمار ہوگئی، قریش نے جمع ہو اس کو بنانا شروع کیا تو ہر شخص کار ثواب سمجھ کراس کی تعمیر میں حصہ لینے لگا،حضرت عباس سب سے زیادہ اس میں حصہ لے رہے تھے۔
حضرت عباس کا نکاح
حضرت عباس کا نکاح حضرت لبابة الکبریٰ سے ہوا، جو ام المومنین حضرت میمونہ کی حقیقی بہن تھیں ،ابن سعد نے لکھا ہے کہ حضرت لبابة الکبریٰ جن کی کنیت ام الفضل ہے ،یہ وہ پہلی خاتون ہیں جو حضرت خدیجہ کے بعد مسلمان ہوئیں اور بہت سی حدیثیں ان سے مروی ہیں اور ان کے بطن سے چھ لڑکے حضرت فضل،حضرت عبداللہ ،حضرت عبیداللہ،حضرت قثم،حضرت عبدالرحمن ، حضرت معبد اور ایک صاحب زادی جن کا نام حبیبہ تھا، پیدا ہوئیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس کی اور بھی اولادیں تھیں،کل دس لڑکے اور چار لڑکیاں تھیں ،سب سے آخر میں حضرت تمّام پیدا ہوئے۔
جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے سرفراز ہوئے تو حضرت عباس کی عمر تینتالیس سال تھی،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام بنی ہاشم اور بنو عبدالمطلب کو جمع کیا،چوں کہ یہ حکم خداوندی تھا:﴿وأنذر عشیرتک الاقربین﴾یعنی اپنے رشتہ داروں کو ڈرائیں ۔اس لیے آپ نے اپنے خاندان کے تمام افراد کو جمع کیا اورایمان کی دعوت دی، جس پر ابوطالب ،حضرت حمزہ،حضرت عباس تو خاموش رہے، مگرابو لہب نے کہا کہ کیا تم نے اس کام کے لیے ہم کو بلایا تھا؟”تبالک“اور نازیبا الفاظ اس کے منہ سے نکلے، جس کے جواب میں”تبت یدا ابی لھب“نازل ہوئی۔
حضرت عباس کے حالات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں قبل الاسلام ہی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت اور بزرگی گھر کرچکی تھی، جب قریش نے بنو ہاشم کا بائیکاٹ کیا تو حضرت عباس بھی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شعب ابی طالب میں چلے گئے اور سخت سختیاں اٹھائیں،جب قریش کی سختیاں بام عروج کو پہنچ گئیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا ،مگر اولاً اپنے عم بزرگوار حضر ت عباس سے مشورہ لینے کی غرض سے ان کے پاس تشریف لے گئے ،کیوں کہ حضرت عباس ہی آپ کے خیر خواہ اور ہمدرد تھے۔آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے عم! میں اپنا رازآپ سے کہتا ہو ں ،اس کو ظاہر نہ کیجیے کہ قریش سے کیسی سختیاں اور اذیتیں اٹھارہا ہوں ،اب صبر کرتے کرتے دل سرد ہوگیا ہے،ان کا راستی پر آنا بظاہر مشکل معلوم ہوتا ہے ،میں نے اکثر چاہا کہ جب مختلف قبائل حج کے واسطے آتے ہیں ان کے ساتھ چلا جاؤں او وہاں جاکر اپنے دین کا اظہار کروں ،مگر کوئی نہ ملا، ہاں! البتہ یثرب کے چھ آدمی آئے تھے، وہ مسلمان ہوکر چلے گئے اور اب کے بارہ آدمی آئے ہیں اور مجھ سے بیعت کی ہے اور مسلمان ہوگئے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ان کے ساتھ چلا جاؤں؟
حضرت عباس نے یہ سن کر کہا:”میں تم کو نیک مشورہ دیتا ہوں اور آئندہ ایسے امور میں ہمیشہ اچھے اور مناسب مشورے دیتا رہوں گا،میری یہ رائے ہے کہ تم ان بارہ آدمیوں کے ہم راہ نہ جاؤ، اس وجہ سے کہ مدینہ میں تقریباً دس ہزار کی آبادی ہے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور جس شہر میں تنے آدمی ہوں اور پھر ان میں اختلاف بھی ہو ایسی حالت میں وہاں کے تھوڑے آدمیوں کے ساتھ جاناٹھیک نہیں اور نہ یہ لوگ قابل اعتماد ہیں ،علاوہ ازیں آئندہ تم پھر واپس مکہ نہ آسکو گے، کیوں کہ یہاں سے جانے کے بعد تو یہ لوگ کھلم کھلا تمہاری جان کے دشمن ہوجائیں گے،اب تو جب تک تم یہاں ہو میں جاں نثاری کے لیے تیار ہوں ،مگر یاد رکھو! پوری قوم کا مقابلہ ہے،ہاں! تم اپنے اہل بیت میں سے کسی کوان کے ساتھ مدینہ روانہ کردو، وہ وہاں جاکر تمہاری نیابت کرے اور لوگوں کو تمہارے دین کی طرف رغبت دلائے اور جب وہاں کے لوگ تمہارے دین کے گرویدہ ہوجائیں تو اس وقت وہاں جانا مناسب ہوگا اور اگر وہ لوگ تمہارے دین کے گرویدہ نہ ہوں تو تم اپنے قبیلے سے الگ تو نہیں ہو گے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تجویز بہت پسند آئی اور اسی پر کار بند ہوئے اور حضرت مصعب بن عمیر کو، جوآپ کے چچا زاد بھائی تھے، ان کو ساتھ بھیج دیا۔حضرت مصعب بن عمیر نے جاکر وہاں تبلیغ اسلام کی اور آخرکارآپ کی کوششوں سے سعد بن معاذ مشرف باسلام ہوگئے اورحضرت سعد کی وجہ سے تمام بنی الاشہل مسلمان ہوگئے اور حج کے موقع پر اسی افراد مکہ آئے۔آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اطلاع حضرت عباس کو دی، حضرت عباس نے فرمایا : آپ ان کے پاس چلیں، میں بھی آتا ہو ں اور یہ دیکھتا ہوں کہ وہ کیسے آدمی ہیں اور وہ لوگ قابل اعتماد ہیں کہ نہیں؟
شام کے وقت حضرت عباس آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس مقام پر پہنچے جہاں مدینے والے منتظر تھے،ابھی اس وقت تک حضرت عباس کا ایمان ظاہر نہیں ہوا تھا،حضرت عباس یہ چاہتے تھے کہ ان مدینے والوں سے اچھی طرح مضبوط عہد لیں، پھر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے سپرد کردیں۔
حضرت عباس کھڑے ہوئے اور یہ تقریر کی:”اے اوس و خزرج کے سردارو! تم سرداران قوم ہو اور تم لوگ سفر کی سختیاں اٹھا کر آئے ہو، اس کا ہم کو خیال ہے، تم سمجھ لو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرا بھتیجا ہے اور ساری خلقت سے مجھے عزیز ہے کسی شخص کو اس پر دست رس نہیں مگر قریش کی گستاخیوں سے ان کادل ان لوگوں سے متنفر ہوگیا ہے اور ان کی بھی یہ مرضی ہے کہ تمہارے ساتھ چلے جائیں، مگر یادر کھو! یہ جب یہاں سے چلے جائیں گے تو قریش کا جو شرم و لحاظ ہے وہ نہیں رہے گا اور یہ لوگ سخت درجہ کی لڑائی پر آمادہ ہوجائیں گے ۔اگر تم لوگ محمد سے بدعہدی کرو گے اور مدینے جاکر علیحدہ ہوجاؤ گے تو ابھی کہہ دو، ایسانہ ہو کہ انہیں یہا ں سے لے جانے کے بعد اپنا وعدہ پورا نہ کر سکو اور ہمیں اپنا دشمن بنالو،کیوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اب بھی اپنی قوم میں محترم و معزز ہیں۔ان لوگوں نے پورا عہد کیا اور کہا: اے عباس! ہم نے خدا کے لیے ان کو قبول کیا ،ہم ان پر اپنی جانیں قربان کریں گے، لیکن ایک عرض ہماری بھی ہے کہ اگر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دشمنوں پر غالب آجائیں اور کسی کا خوف و اندیشہ نہ رہے تو ایسا نہ ہوکہ آپ ہمیں چھوڑ کر چلے آئیں۔آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ ایسانہ ہوگا، میری قبر تمہاری قبروں میں ہوگی اور میرا گھر تمہارے گھروں میں ہوگا ۔جن کے ساتھ لڑوگے میں بھی لڑوں گا،جن سے تم صلح کرو گے میں بھی صلح کروں گا۔یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور تقریر کی۔ چند ایام گزرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم باذن خداوندی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ہم راہ لے کر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔
دوہجری میں کفار قریش مدینہ پر حملے کرنے کے لیے نکلے، حضرت عباس جنگ میں جانا نہیں چاہتے تھے،مگر قبیلہ اور قوم کے شدید اصرار پر بادل نخواستہ نکلے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا بھی علم تھا کہ وہ دل میں اسلام لاچکے ہیں ،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں اعلان فرمادیا کہ عباس کو کوئی قتل نہ کرے۔(ابن اثیر،ج :2،ص:38)
کفار قریش کو جنگ میں شکست ہوئی اور ان کے ستر آدمی گرفتار ہوئے، جن میں حضرت عباس بھی شامل تھے،ان کے ساتھ ان کے دو بھتیجے عقیل اور نوفل بھی تھے۔ اسیر ان بدر سے فدیہ لے کر چھوڑنے کا مسلمانوں نے فیصلہ کر لیا۔حضرت عباس سے فدیہ کی رقم مانگی گئی تو فرمایا کہ میرے پاس جو رقم تھی سب کی سب خرچ ہوگئی ہے،صرف بیس اوقیہ سونا ہے، جو بچ گیا ہے،وہ تمام سونا لے لیا گیا ۔حضرت عباس نے اس وقت عرض کیا کچھ میرے پاس بھی چھوڑ دیجیے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کر کے کہا کہ کیا تم اس کو گوارا کرسکتے ہو کہ تمہارا چچا دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے؟اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ سونا جو چچی صاحبہ کے پاس آپ رکھ کر آئے ہیں وہ کہاں ہے؟حضرت عباس نے کہا کہ اس کی خبر آپ کو کیسے ملی ،یہ معاملہ توشب میں بالکل خاموشی اور علیحدگی میں ہواتھا ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسی وقت جبرئیل علیہ السلام نے آکر اطلاع دی تھی ۔یہ سن کر حضرت عباس نے بآواز بلند کلمہ طیبہ پڑھا اور کہا کہ میں تو پہلے ہی سے مسلمان تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی میرے برتاوٴ سے واقف ہیں اور یہ بھی آپ کو معلوم ہے کہ قریش مجھے زبردستی کھینچ کر لائے ہیں۔
اس کے بعد حضرت عباس واپس مکہ چلے گئے اور وہیں قیام فرمایا جو مسلمان عمرہ وغیرہ کرنے جاتا ان کو حضرت عباس اپنے پاس ٹھہراتے اور ان کی ہر طرح سے معاونت کرتے، کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان سے کچھ کہہ سکے۔ اس کے باوجود حضرت عباس یہ چاہتے تھے کہ مدینہ چلے جائیں اور برابر خط کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کرتے رہے، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کو فتح کرنے تشریف لے جارہے تھے، راستہ میں مقام ذوالحلیفہ پر حضرت عباس مع اپنے اہل وعیال کے لشکر اسلام سے مل گئے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اہل وعیال کو مدینہ روانہ کردیں اور آپ ہمارے ساتھ رہیں ،اسی موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ میں خاتم النبیین ہوں اور آپ خاتم المہاجرین ہیں۔
فتح مکہ کے بعد جب مسلمان جنگ حنین کے لیے نکلے تو حضرت عباس بھی ہم راہ تھے، جنگ میں مسلمانوں کا لشکر بچھڑ گیا اور شکست ہوگئی تھی کہ حضرت عباس کی آواز پر سب جمع ہوگئے اور پھر فتح حاصل ہوئی ۔آپ نے اس جنگ میں انتہائی بے جگری سے دشمنوں کا مقابلہ کیا اور پوری جنگ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت ونگرانی کرتے رہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد خلفائے راشدین نے حضرت عباس کا بڑا اکرام کیا ،اہم معاملات میں آپ سے مشورہ لیتے اور اس پر عمل کرتے ۔حضرت عمر نے اموال غنیمت بحسب درجات تقسیم کرنے کا ارادہ فرمایا اور اس کے واسطے ایک رجسٹر بنایا تو حضرت علی نے مشورہ دیا کہ اول اس میں اپنانا م گرامی لکھیں ،حضرت عمر نے فرمایا کہ میں کس طرح اول نام لکھوں کہ حضرت عباس عم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں موجود ہیں،چناں چہ سب سے پہلے حضرت عباس کا اسم گرامی لکھا گیا اور سب سے بڑھ کر حصہ آپ کے لیے مقرر کیاگیا۔
وفات
جب حضرت عباس کی عمر 88برس کی ہوئی تو 12/رجب 32 ھ میں بروز جمعہ آپ کی وفات ہوئی ۔ حضرت عباس وحضرت علی نے قبر میں اتارا۔ حضرت عباس کی وفات سے اہلِ اسلام کو سخت صدمہ پہنچا۔ (استیعاب،ص:500مطبوعہ دائرة المعارف ،حیدرآباد،دکن)
مناقب
ایک موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عباس مجھ سے ہیں اور اور میں عباس سے ہو ں ۔یہ غایت محبت کے الفاظ ہیں، جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عباس سے محبت معلوم ہوتی ہے۔
آپ بے انتہا سخی اور صلہ رحمی کرنے والے تھے، ایک موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ عباس بن عبدالمطلب قریش کے اعلیٰ درجہ کے سخی لوگوں میں سے ہیں اور اعلیٰ درجہ کی صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔ (اصابہ،ص:666)
حضرت عباس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص صلوٰة التسبیح کی تعلیم دی اور ارشاد فرمایا کہ یہ وہ نماز ہے کہ جس کے پڑھنے سے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔
حضرت عمر کے زمانے میں لوگ جب قحط میں مبتلا ہوگئے تو حضرت عمر حضرت عباس کو وسیلہ قراردے کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے تو بارش فوراً شروع ہوجاتی۔
حضرت عباس کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ دنیا ئے اسلام میں آپ کی مقبولیت اس قدر ہے کہ تمام فرق اسلامیہ آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔