آنے والے کا اکرام یہ بھی ہے!
مفتی محمد جمال الدین قاسمی
کوئی شخص کسی سے ملنے جائے یاکسی مسلمان کواپنی طرف آتا ہوا دیکھے توبیٹھے ہوئے شخص پراس کا یہ حق ہے کہ وہ تھوڑا سا اپنی جگہ سے ہٹ کراس کے ساتھ اکرام کا معاملہ کرے، حدیث پاک میں اس کوایک مسلمان کا حق بتایا گیا ہے؛ اگرچہ جگہ کشادہ ہو اور بیٹھے ہوئے شخص کا اپنی جگہ سے ہٹے بغیر آنے والے کوبلاتکلف جگہ مل سکتی ہو، حضرت واثلہ بن خطاب سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک صاحب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ صلی الله علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرماتھے؛ انھیں آتا ہوا دیکھ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے تھوڑا ہٹ گئے، آنے والے صاحب نے عرض کیا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم ! جگہ توبہت کشادہ ہے؛ پھرمیں توآپ کا غلام ہوں، ہمارے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں زحمت فرمارہے ہیں؟ (مرقاة المفاتیح، حدیث نمبر:4706، باب القیام) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان للمسلم حقا اذ راہ اخوہ ان یتزحزح لہ۔ (شعب الایمان، حدیث نمبر:8534،فصل فی قیام المرء لصاحبہ علی وجہ الاکرام والبر)
ایک مسلمان کے ذمہ یہ ہے کہ جب وہ اپنے بھائی کوآتا ہوا دیکھے تواس کے لیے تھوڑا اپنی جگہ سے ہٹ جائے۔
حدیث میں بھائی کا ذکر ہے، اب بھائی خواہ نسبی ہویادینی بھائی ہو دونوں کویہ شامل ہے؛ کیوں کہ جوصاحب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسبی بھائی نہ تھے، وہ ایک مسلمان تھے، صحابی تھے دینی بھائی کا رشتہ تھا؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا بھی اکرام فرمایا اور اپنی جگہ سے تھوڑا ہٹ گئے؛ بلکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں تنہا تھے؛ پھربھی آپ اپنی جگہ سے ان کے اکرام میں ہٹ گئے تھے اور آنے والے کی طرف سے جب یہ بات کہی گئی کہ مسجد توبہت کشادہ ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کواپنی جگہ سے ہٹنے کی ضرورت نہیں تھی توآپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ان للموٴمن حقاً․ (حوالہ سابقہ، حدیث نمبر:8533) ترجمہ: یہ ایک موٴمن کا حق ہے۔ اور ھنادبن سری نے کتاب الزھد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ان الفاظ میں نقل کیا ہے: ان للمسلم علی المسلم من الحق ان اذ اراہ یتز حزح لہ (الزھد:498/2) ترجمہ: ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پریہ حق ہے کہ جب اسے دیکھے تواپنی جگہ سے کچھ ہٹ جائے۔
عدی بن حاتم کے لے جگہ بنانا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم آنے والوں کا غایت درجہ اکرام فرمایا کرتے تھے، حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ مشہور زمانہ سخی حاتم طائی کے صاحب زادے تھے، سنہ۷ہجری میں مشرف بااسلام ہوئے تھے، آپ ان کی حیثیت عرفی کا کافی خیال رکھتے تھے اور اکرام کا معاملہ کرتے تھے، ان کا بیان ہے کہ جب بھی میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے یہاں حاضر ہوتا توآپ صلی الله علیہ وسلم میرے لیے جگہ بناتے اور کچھ نہ کچھ حرکت میں آجاتے، میں ایک دن ایسے وقت میں آیا جب کہ صحابہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا مکان بھرا ہوا تھا، جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی نظر میرے اوپر پڑی توحسبِ معمول آپ صلی الله علیہ وسلم نے میرے لیے جگہ بنائی اور اپنی جگہ سے کچھ ہٹ گئے اور میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے بازو بیٹھا ۔ (شعب الایمان، حدیث نمبر:8523)
حضرت ابوبکر کا حضرت علی کے لیے جگہ بنانا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جن لوگوں کا تعلق جس قدر زیادہ ہوتا، صحابہ کرام ان کا غیرمعمولی اکرام فرمایا کرتے تھے، حضرت ابوبکر باوجودیکہ حضرت علی سے عمر میں بڑے تھے، فضل وکمال میں بھی آپ رضی اللہ عنہ ان سے بڑھے ہوئے تھے؛ لیکن نسبی لحاظ سے حضرت علی آپ صلی الله علیہ وسلمکے داماد تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے پروردہ تھے اور اہلِ بیت میں سے تھے؛ اس لیے تمام صحابہ خصوصاً حضرت ابوبکرصدیق ان کا بہت اکرام کیاکرتے تھے، حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے اور صحابہ آپ کو ہرچہار جانب سے گھیرے ہوئے تھے، اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے؛ انھوں نے سلام کیا اور کھڑے ہوکر اِدھر اُدھر نظر دوڑائی کہ مناسب جگہ کا انتخاب کرکے بیٹھوں، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے چہروں پرایک نظر ڈالی کہ علی کے لیے کون جگہ فراہم کرتا ہے، حضرت ابوبکر صدیق آپ صلی الله علیہ وسلم کے دائیں جانب تشریف فرما تھے، وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے منشا کوسمجھ گئے، حضرت ابوبکر نے اپنی جگہ سے تھوڑا ہٹ کرفرمایا: ابوالحسن (یہ حضرت علی کی کنیت تھی) ادھر آپ آجائیں؛ یہاں بیٹھیں؛ چناں چہ حضرت علی وہاں آئے اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر کے درمیان بیٹھ گئے، حضرت انس کا بیان ہے کہ حضور اکرمصلی الله علیہ وسلم کے چہرے پرخوشی کے آثار ظاہر ہوئے اور حضرت ابوبکر کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: انما یعرف الفضل لاھل الفضل․ (البدایہ:358/7، باب ذکر شیٴ من فضائل علی) ترجمہ: صاحبِ کمال ہی باکمال انسان کوپہچانتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت ابوبکر کے اس فعل کی تائید وتصویب سے، بلکہ تعریف سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنا محمود ومطلوب ہے اور ایسا کرنے والا شرعاً مستحقِ تعریف ہے؛ اسی لیے علامہ عبدالروٴف مناوی لکھتے ہیں: فیندب ذلک لاسیما إن کان عالما أو صالحا أو من ذوی الولایة․ (فیض القدیر:502/2، باب ذکر شیٴ من فضائل ) ترجمہ: اپنی جگہ سے تھوڑا ہٹ جانا آنے والے کے اکرام میں مستحب ہے، خصوصاً جب کہ وہ عالم ہویادین دار ہو، یااہلِ منصب ہو۔
مجلس میں کشادگی پیدا کرنے والا رحمت کا مستحق ہے
مجلس میں بیٹھے ہوئے شخص نے اگر کسی آنے والے کے لیے مجلس میں کشادگی پیدا کی اور آنے والے کے لیے جگہ بنائی تووہ خدا کی رحمت کا مستحق ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: رحم اللہ رجلا تفسح لاخیہ․ (تفسیر مقاتل:262/6، المجادلہ) ترجمہ: اللہ تعالیٰ ایسے آدمی پررحم فرمائے جواپنے بھائی کے لیے کشادگی پیدا کرے۔
مجلس میں کشادگی نہ پیدا کرنے والوں کوہدایت
جہاں علم کی مجلس ہو، یاذکر کے حلقے ہوں، یااہلِ فضل وکمال تشریف فرما ہوں توایسی جگہوں پرہرایک کی تمنا ہوتی ہے کہ ہم بھی اس میں شریک ہوں اور وہاں کے جواہر پاروں سے ہم بھی اپنے دامن کوبھریں؛ لہٰذا اس خواہش کا احترام ہرایک کوکرنا چاہیے، جوحضرات پہلے سے مجلس میں بیٹھے ہوئے ہوں، ان کا حق تومقدم ہے، ان کو مجلس سے بلاکسی غیرمعمولی حالت کے اُٹھایا نہیں جاسکتا؛ البتہ ان لوگوں کو مجلس میں کشادگی پیدا کرنی چاہیے، چہارزانو بیٹھے ہوں تودوزانو ہوکر بیٹھیں، کھل کربیٹھے ہوں توتھوڑا سکڑ کربیٹھ جائیں، دوآدمیوں کے درمیان کچھ فصل ہوتواسے پرکرلیں؛ تاکہ بعد میں آنے والوں کوبیٹھنے کی جگہ مل سکے، ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی الله علیہ وسلم کی مجلس میں تشریف فرماہوتے توآنے والوں کے لیے کشادگی پیدا کرنے سے کتراتے تھے اور کوشش ان کی یہ ہوتی تھی کہ ہم خود آپ صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ سے زیادہ قریب ہوکر استفادہ کریں، اس پر درجِ ذیل آیت اُتری:
﴿یایہا الذین آمنوا اذ اقیل لکم تفسحوا فی المجالس فافسحوا یفسح اللہ لکم﴾․(المجادلة:11)
اے ایمان والو! جب تم سے کہا جاوے کہ مجلس میں جگہ کھول دو! توتم جگہ کھول دیا کرو، اللہ تم کو (جنت میں) کھلی جگہ دے گا۔
اس آیت کے ذریعہ ان کوپابند کیا گیا کہ آنے والوں کے لیے جگہ بنائیں اور ان کوبھی علم کی مجلس سے فائدہ اُٹھانے کا موقع فراہم کریں۔(تفسیر درمنثور:82/8)
صحابہ کا حضرت ثابت کے لیے کشادگی پیدا کرنا
حضرت ثابت بن قیس بن شماس ذرا اونچا سنتے تھے، اس لیے وہ عموماً آپ صلی الله علیہ وسلم کے بازو میں بیٹھا کرتے تھے؛ تاکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی باتوں کواچھی طرح سن سکیں؛ اگرصحابہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی مجلس میں ان سے پہلے پہنچ جاتے اور وہ بعد میں آتے توبھی صحابہ ان کوآپ صلی الله علیہ وسلم تک پہنچنے کے لیے جگہ فراہم کرتے اور وہ حسبِ معمول آپ کے بازو بیٹھ کرآپ صلی الله علیہ وسلم کی باتوں کوبغور سنتے، ایک دن حضرت ثابت کی فجر کی نماز کی ایک رکعت چھوٹ گئی تھی، جب آپ صلی الله علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوگئے توصحابہ کرام آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے، حضرت ثابت اپنی رکعت پوری کرنے کے بعد جب آئے تودیکھا کہ سب اپنی اپنی جگہ سنبھال چکے ہیں اور کوئی کسی کو جگہ دینے کے لیے آمادہ نہیں ہے، جسے جگہ نہیں ملی وہ کھڑے ہیں، حضرت ثابت اہلِ مجلس کی گردن پھلانگتے ہوئے آگے بڑھنے لگے اور کہتے جاتے تھے کہ جگہ دو۔ جگہ دو۔ اہلِ مجلس نے ان کوجگہ دے دی اور وہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے قریب جاپہنچے۔(تفسیر قرطبی:325/16، الحجرات)
خلاصہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے لیے مجلس میں جگہ بنانا اور اگرجگہ پہلے سے موجود ہو توان کے اکرام کی خاطر کم از کم اپنا پہلو بدل لینا ایک پسندیدہ عمل ہے، مکارمِ اخلاق کے قبیل سے ہے، اس سے مسلمانوں کے درمیان اُلفت ومحبت اور تعلقات میں استواری ہوگی، دل میں ایک دوسرے کی عظمت واحترام کا جذبہ پیدا ہوگا، آپس کی دوری ختم ہوگی، اجنبیت کا احساس جاتا رہے گا اور محبت ویگانگت کی فضا قائم ہوگی؛ لہٰذا مجلس میں کچھ تنگی بھی پیدا ہو اور بیٹھنے میں معمولی تکلیف ہوتوایسے عظیم فوائد کے پیشِ نظر اسے گوارہ کرلینا چاہیے۔ (التحریر والتنویر:38/28، المجادلہ)
دوسروں کوایذا نہ پہنچائے
مجلس میں کشادگی پیدا کرنا اور دوسروں کے لیے جگہ بنانا؛ اگرچہ ایک مسلمان کا حق ہے، جسے ادا کرنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے؛ لیکن اس میں اس بات کوبھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ بازو بیٹھے ہوئے حضرات مشقت میں نہ پڑجائیں، بعض اوقات مجلس کے طویل ہونے کا علم پہلے سے ہوتا ہے، پہلے سے لوگ اس انداز سے بیٹھے ہیں کہ دورانِ مجلس پہلو بدلنے کی گنجائش رہے، ایک ہی پہلو پردیر تک بیٹھنا مشکل ہوتا ہے؛ لیکن اس میں سے ایک صاحب نے اپنے شناسا کوبلاکر ابتدا میں خود سکڑ کران کے لیے جگہ بنائی؛ پھرآہستہ آہستہ دوسروں کے لیے تنگی پیدا کرنے لگے، اب نہ کوئی پہلو بدل پارہا ہے اور نہ حرکت کرنے کا موقع ہے، ایک طرح کی گھٹن میں سب مبتلا ہوگئے اور اگران میں سے کسی نے تنگی پیدا کرنے والے سے کچھ کہا توفوراً ان کی زبان سے نکلا کہ دل میں جگہ پیدا کرنی چاہیے؛ مگراس سے واقعی لاحق پریشانی کا ازالہ تونہیں ہوا؛ تنگی پیدا کرنے والے نے ایک پہلو کوتودیکھا کہ ایک مسلمان کا حق ادا ہورہا ہے؛ لیکن دوسرا پہلو ان کی نگاہ سے اُوجھل رہا کہ اس کی وجہ سے دیگرمسلمانوں کوتکلیف، گھٹن اور اذیت ہورہی ہے، جواسلام میں درست نہیں ہے، اس لیے اس کا بھی لحاظ کرنا چاہیے کہ جگہ میں غیرمعمولی تنگی پیدا کرکے دوسروں کوتکلیف نہ پہنچے؛ اگرجگہ کشادہ ہو، آواز ہرایک کوبرابر پہنچ جاتی ہو توپھر قریب بلاکر بٹھانے پراصرار نہیں کرنا چاہیے، اس سے دوسروں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں، اسی لیے علامہ ابن عاشور نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ آنے والوں کے لیے کشادگی پیدا کرنا اور تھوڑی تنگی برداشت کرلینا محمود وپسندیدہ ہے؛ لیکن زیادہ تنگی پیدا کرنا کہ خود مجلس کا مقصد فوت ہوجائے اور پوری دلجمعی کے ساتھ سننے میں حرج ہو اور دل پراگندہ ہوجائے اور ذہن انتشار کا شکار ہوجائے توپھریہ عمل درست نہ ہوگا اور بجائے محمود کے مذموم اور غلط ہوگا۔(التحریروالتنویر:38/28، المجادلہ)
کشادگی پیدا کرنے والوں کے لیے رضائے الٰہی
اہلِ مجلس میں سے جوکسی آنے والے کے لیے مجلس میں کشادگی پیدا کرے توحدیث میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے، حضرت ابوموسیٰ اشعری آپصلی الله علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوشخص کسی جماعت کے پاس پہنچا اور انھوں نے اس کے لیے مجلس میں بیٹھنے کی جگہ فراہم کردی کہ وہ خوش ہوگیا توان لوگوں کوبھی اللہ تعالیٰ پرلازم ہے کہ خوش کردے۔ (کنزالعمال:136/9، حدیث نمبر25375، حق المجالس والمجلوس)
جوکشادگی پیدا کرے اسے قبول کرنا چاہیے
اگرکسی شخص نے آنے والے کے لیے کشادگی پیدا کی تواسے قبول کرنا چاہیے، ٹھکرانا نہیں چاہیے، اس سے جگہ پیدا کرنے والے کی دل شکنی ہوگی، حدیث میں ہے کہ جب کوئی کسی مجلس میں جائے اور اہلِ مجلس اس کے لیے کشادگی پیدا کریں تووہاں بیٹھ جائے؛ کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک اکرام ہے، جو اس کے مسلمان بھائی کے واسطے سے ہورہا ہے۔ (حوالہ سابق، حدیث نمبر:25396)
خود اُٹھ کراپنی جگہ کسی کوبٹھائے تو؟
اگرکوئی شخص پہلے سے مجلس میں بیٹھا ہو اور آنے والے کے لیے بیٹھنے کی جگہ نہ ہو اور وہ خود اُٹھ جائے اور اپنی جگہ پرآنے والے کوبٹھائے تواسے بیٹھنا چاہیے یانہیں؟ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تمہاری وجہ سے کوئی آدمی اپنی جگہ سے اُٹھ جائے توتم اس جگہ پرنہ بیٹھو۔ (مسند ابی داوٴد الطیالسی، حدیث نمبر:912، حدیث ابی بکرة) یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن عمر کے لیے کوئی مجلس سے کھڑا ہوتااور اپنی جگہ پرآپ کوبٹھانے کی کوشش کرتا توآپ رضی اللہ عنہ نہیں بیٹھتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر:25576، باب من کرہ قیام الرجل للرجل من مجلس) کیوں کہ یہ بھی اُٹھانے کی ایک شکل ہے کہ زبان سے بول کرتونہیں اُٹھایا؛ مگراپنی وجاہت اور حیثیتِ عرفی کی بنا پراسے اُٹھنے پرمجبور کردیا۔
مجلس میں واپس آنے والا شخص اپنی جگہ کا حق دار ہے
ایک شخص کسی مجلس میں بیٹھا تھا، اتفاقاً اسے کوئی وقتی ضرورت پیش آئی، مثلاً وہ ناک سنکنے گیا، یاوضو کرنے کے لیے گیا، اب اگروہ ان چیزوں سے فارغ ہوکر پھرمجلس میں لوٹ آیا تووہ اپنی جگہ کا مستحق ہے؛ اگرکوئی دوسرا اس کی جگہ پربیٹھ گیا ہے تواسے وہ حق دینا ہوگا۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جب کوئی آدمی مجلس سے اُٹھ کرکسی ضرورت سے جائے پھروہ واپس آجائے تووہی اس جگہ کا حق دار ہوگا۔(مسنداحمد، حدیث نمبر:7568، مسندابی ھریرہ)