Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1434ھ

ہ رسالہ

6 - 17
چند غلط فہمیوں کا ازالہ
کیا عمل کے لیے ”صحیح حدیث “ہی ضروری ہے؟
مولانا محمد احمد پڑتا پ گڑھی
بعض حضرات کہتے ہیں کہ احادیث صحیحہ پر ہی عمل کرنا چاہیے ۔ان سے احادیث صحیحہ کی تشریح معلوم کی جاتی ہے تو کہتے ہیں: بخاری اور مسلم۔یعنی کہ بخاری اور مسلم کے علاوہ جتنی حدیث کی دیگر کتابیں ہیں؛ عمل سے ان کا تعلق نہیں؛چوں کہ وہ سب ضعیف احادیث کا مجموعہ ہیں۔ضعیف احادیث کویہ لوگ موضوع روایت سمجھتے ہیں۔یہ بڑا ہی خطر ناک اوربھیانک نظریہ ہے ؛اس لیے کہ ضعیف روایات کو اگر منکر اورموضوع مان لیا جائے ؛ جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں؛تب تو ہمارے تمام محدثین بشمول امام بخاری اور امام مسلم ،سب کے سب موضوع روایات کو فروغ دینے اور دنیا میں پھیلانے والے شمارہوں گے۔ اوررسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے موضوع اورجھوٹی روایات کو پھیلانے والوں کو سخت ترین انجام کی دھمکی دی ہے،چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّا مَقْعَدَہ مِنَ النَّارِ ․
ترجمہ :جس نے قصداً ہماری جانب جھوٹی بات منسوب کی ؛وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔(بخاری ،ترمذی )

امام بخاری،امام مسلم ،امام نسائی، امام ترمذی اور امام ابوداؤد وغیرہ تمام محدثین اپنی کتابوں میں ضعیف احادیث کو جگہ دیتے ہیں۔امام بخاری ”بخاری شریف“ میں نہ سہی؛ مگر اپنی دیگر کتابوں میں ضعیف احادیث ذکر کرتے ہیں۔

یہ انتہائی جہالت کی بات ہے؛ورنہ جن حضرات کو علم حدیث کی ”ہوا “ بھی لگی ہے ؛وہ جانتے ہیں کہ احادیث کی صرف دو ہی قسمیں :صحیح اورضعیف نہیں ؛بلکہ اس کی متعدد اقسام ،مثلا: صحیح ،صحیح لغیرہ ؛حسن ،حسن لغیرہ وغیرہ ہیں۔اوروہ یہ بھی جانتے ہیں کہ امام بخاری اور امام مسلم نے چوں کہ التزام کررکھا ہے کہ وہ اپنی کتاب میں صرف انہی راوایات کو جگہ دیں گے ؛ جوان قسموں میں سے اول درجے کی ہوں گی۔ بقیہ قسمیں بخاری اورمسلم میں جگہ نہیں پاسکیں ۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدیثیں منکرہیں ۔بات یہ ہے کہ محدثین کو جو روایات پہنچیں؛ان کو انھوں نے جانچا ،ان کے اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے درمیان جتنے لوگ اس روایت کو نقل کرنے میں واسطہ بنتے ؛ ان کے احوال زندگی،ان کے قوت حفظ ،مہارت ،ضبط اور عدالت وغیرہ کو جانچنے کے بعد اس حدیث پر صحیح ،حسن ،صحیح لغیرہ یا حسن لغیرہ اورضعیف وغیرہ کا حکم لگادیا ۔اگر روایت سب سے اعلی درجہ کی ہوتی ہے ؛تو اس کو صحیح کہہ دیتے، اگر کہیں کوئی کمی کوتاہی نظر آتی تو اس کو حسن وغیرہ کہہ دیتے،بعض مرتبہ تمام شرائط پائی جاتیں؛مگر اس کو محض اپنے خاص ذوق(علة خفیہ)کی وجہ سے چھوڑ دیتے۔ہاں! اگر اس روایت کے بارے میں معلوم ہوجاتاکہ وہ جھوٹی ہے تو اس کو منکراور موضوع قرار دیتے اوراسے اپنی کتابوں میں نقل ہی نہ کرتے ۔ موضوعا ت کی کتابیں الگ سے لکھی گئی ہیں؛تاکہ کسی موضوع روایت کے بارے میں تحقیق کرنی ہوتو اس کتاب میں اس کی تفصیل مل جائے۔مگر یہ سارے فیصلے اجتہادی ہوا کرتے ہیں؛ان میں غلطی بھی ہوسکتی ہے۔یہ با ت نہیں ہے کہ امام بخاری اورامام مسلم رحمة اللہ علیھما نے جن روایتوں کو ترک کردیا ہے ؛وہ صحیح نہیں ہوسکتی ہیں،یا جن کواختیار کیا ہے وہ ہراعتبار سے صحیح ہی ہیں۔کیوں کہ ان حضرات کی بیسیوں روایات پر محدثین نے کلام کیا ہے ؛بلکہ بعض کو توشاذ بھی کہا ہے ۔ مثلا:بخاری کی وہ روایت جس میں واقعہ” افک“ کے تعلق سے حضرت سعد بن معاذرضی اللہ عنہ کانام آیا ہے۔ ایسے ہی امام مسلم کی وہ روایت جس میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہاکے نکاح کے تعلق سے حضرت سفیان کانام آیا ہے ۔ جن روایات کو ان حضرات نے ترک کیا ہے ؛ان کے لیے بھی ضروری نہیں کہ وہ صحیح نہ ہوں؛چوں کہ بہت ساری ایسی روایات ہیں؛جو ان دونوں اماموں کی شرائط پرمکمل اترتی تھیں؛مگر ان حضرات نے اپنے خاص ذوق(علة خفیہ) کی وجہ سے ان کو ترک کردیا ۔چناں چہ بعد میں”امام حاکم نیساپوری“ نے انہی روایات کو جمع کرکے ” مستدرک حاکم “ تصنیف فرمائی؛ اسی وجہ سے مستدک حاکم کی روایات کو” صحیح علی شرط الشیخین“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ بارہا ایساہوتا ہے کہ ایک محدث ایک حدیث پر صحیح ہونے کا حکم لگاتاہے تو دوسرا اسی حدیث پرحسن ہونے کا حکم لگادیتا ہے ،کسی حدیث پر ایک محدث صحت کا حکم لگاتا ہے تو دوسرا اسی پرضعف کا حکم لگا دیتا ہے۔اسی وجہ سے امام بخاری اور امام مسلم نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ تمام صحیح احادیث ان کی کتاب میں آگئی ہیں،یا ان کی کتاب کے علاوہ صحیح روایات کہیں اور نہیں ہیں۔

مگر احکام شرعیہ اور حرام وحلال کا فیصلہ کرنے کے لیے احادیث کا صرف صحیح ہونا کافی نہیں ہے ۔بلکہ حدیث کا صحیح اورحسن ہونا؛احکام شرعیہ کی راہ میں ابتدائی مرحلہ کی چیز ہے۔چوں کہ روایت کتنی بھی مضبوط ہو؛ مگر اس پر عمل ہونا ضروری نہیں ،مثلاً : وُضُوءُ مِمَّا مَسَّتِ النَّار․ یعنی آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو ٹوٹنے کی روایت بہت ہی مضبوط ہے؛ایسے ہی بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے والی روایت بہت ہی اعلی درجے کی ہے ؛ مگر ان پر عمل نہیں کیا جاسکتا ۔چوں کہ روایات کا محض صحیح اور مضبوط ہونا ہی عمل کے لیے کافی نہیں ۔عمل کے باب میں اصل چیز ان روایات کی گہرائی میں جاکر ان کی صحیح سمجھ حاصل کرنا ہے۔اوراسی گیرائی و گہرائی کو” فقہ“ سے تعبیر کیاجاتاہے۔ شریعت اسلامی میں یہی درجہ مطلوب ہے ۔فقہ کہتے ہیں دینی سمجھ کو ۔یہ ایسا فن ہے جس میں صحابہ کرام کے مابین بھی باہم فرق مراتب تھا،چناں چہ صحابہ میں بھی اختلافات ہوئے اور کہناچاہیے کہ ائمہ اربعہ کے اکثر اختلافات کی بنیاد صحابہ کے اختلافات ہی ہیں؛اور وہ غلط بھی نہیں،چناں چہ حضرت عون بن عبد اللہ تابعی فرما تے ہیں مجھے یہ بات ناپسندنہیں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف نہ ہوتا اس لیے کہ اگروہ حضرات کسی چیز پر مجتمع ہوں اورپھر کوئی شخص ان کے خلاف کرے تو وہ تارک سنت ہے اوراگر اختلاف ہو،پھر کوئی شخص ان میں سے کسی کے بھی قول کے مطابق عمل کرے تو وہ حدود سنت سے نہیں نکلا۔ (دارمی)

حضرت عمر بن عبد العزیر رحمة اللہ علیہ نے فرمایا :مَاسَرَّنِی لَوأنَّ أصْحَابَ مُحَمَّدٍ لَمْ یَخْتَلِفُوا؛لِأنَّہُمْ لَولَمْ یَخْتَلِفُوا لَم تَکُنْ رُخْصَةٌ․
ترجمہ:مجھے یہ بات پسند نہیں کہ صحابہ میں اختلاف نہ ہوتا؛ کیوں کہ اگر صحابہ میں اختلاف نہ ہوتا تو رخصتیں نہ ہوتیں۔(زرقانی علی المواہب بحوالہ اعتدال فی مراتب الرجال)۔

حضرت عبد اللہ بن المبار ک فرمایا کرتے تھے:قرآن وحدیث کے مقابلے میں،ایسے ہی صحابہ کے اجماعی قول کے مقابلے میں نہ کسی کا قول معتبر ہے نہ رائے ۔ہاں جہاں صحابہ میں اختلاف ہے ؛اس میں ہم اس چیز کو اختیار کریں گے۔ جو قرآن وحدیث کے زیادہ قریب ہوگی۔(اعتدال فی مراتب الرجال )

اگر احکام شرعیہ کے لیے صرف حدیث کا صحیح ہونا ہی کافی ہوتا۔تو صحابہ میں اختلاف کیوں ہوتا؛ان کے حق میں تو تمام روایات صحیح سے بھی بڑھ کر قطعی یعنی قرآن کے ہم پلہ تھیں۔انھوں نے احادیث کو اپنے کانوں سے جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا تھا، صحابہ میں سب سے زیادہ حدیث روایت کرنے والے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں؛مگرفتاوی حضرت عمروحضرت علی رضی اللہ عنہما وغیرہ کے چلتے تھے ۔وجہ اس کی یہی ہے کہ احکام شرعیہ کے لیے صرف نصوص کافی نہیں ؛بلکہ اس کے لیے ”تفقہ“اوردینی سمجھ کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :﴿فَلَولاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْہُمْ طَائِفَةٌ لِیَتَفَقَّہُوافِی الدِّیْنِ ﴾․
ترجمہ :کیوں نہیں نکلی ہرگروہ میں سے ایک جماعت کہ وہ دین میں سمجھ پیداکرے اور قوم کے لوگوں کوجب لوٹ کر آئیں؛ تو ان کوبا خبرکرے، تاکہ وہ لوگ بچیں(قرآن)۔

اسی فقہ کے بارے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :رُبَّ مُبَلَّغٍ اَوعٰی مِنْ سَامِعٍ ۔ترجمہ :جن لوگوں کو حدیث پہنچائی جاتی ہے ؛ان میں بہت سے ایسے ہیں؛جو حدیث کوسننے والوں سے زیادہ حفاظت کرنے والے ہیں۔(مسند احمد ،ابوداؤد،ترمذی ،ابن ماجہ)اسی ملکہ کے بار ے میں حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:رُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ غَیْرُ فَقِیْہٍ :یعنی بہت سے لوگ جو (حدیث جس میں) فقہ( کا خزانہ ہے،اس)کے حامل ہیں(مگر)وہ (خود)غیر فقیہ ہیں۔ (ترمذی ) اسی ملکہ کی وجہ سے حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایاتھا :معاذمیرے صحابہ میں سب سے زیادہ حرام وحلال کو جاننے والے ہیں۔(ترمذی)اگر صرف حدیث کا مضبوط ہونا ہی کافی ہوتا ،جیسا کہ یہ دین کے نادان دوست سمجھ رہے ہیں؛تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم یہ کہتے : جس نے سب سے زیادہ مجھ سے حدیثیں سنیں ہیں؛ وہی سب سے بڑا احکام شرعیہ کا جاننے والا ہے۔چوں کہ جس شخص نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے براہ راست (ڈائرکٹ) حدیث سنی ؛اس کے حق میں وہ حدیث قرآن کے برابرہے۔چوں کہ وہ بالکل قطعی اوریقینی ہے ۔وہاں کسی صحیح اور ضعیف کا احتمال ہی نہیں۔

اہل علم جانتے ہیں کہ صرف احادیث کا مضبوط ہوناہی عمل کے لیے کافی نہیں؛انہی وجوہات کی بنا پرغیر مجتہد محدثین احکام شرعیہ نہیں نکالاکرتے تھے؛بلکہ وہ خودبھی فقہاء ہی کی اتباع کرتے تھے۔ مشہورمحدث حضرت امام شعبی کا مقولہ مشہور ہے :نَحْنُ الصَّیَادِلَہْ وَأنْتُمُ الْأطِبَّاءُ․
ترجمہ :ہم محدثین تو دواخانہ والے ہیں،ڈاکٹر تو آپ(فقہاء ) حضرات ہیں۔ امام ترمذی رحمة اللہ علیہ کے طرز کو دیکھیے!حضرت اپنی سنن”ترمذی “ میں جہاں حدیث کے صحیح اورحسن وضعیف وغیرہ ہونے کا حکم لگاتے ہیں ؛تووہاں محدثین اصولیین کے اقوال نقل کرتے ہیں؛لیکن جہاں احکام شرعیہ ،حرام اورحلال کو بیان کرتے ہیں،وہاں فقہاء ہی کے اقوال نقل کرتے ہیں۔ایک جگہ” امام ترمذی“ فقہائے عظام کے مسالک نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:کَذَالِکَ قَالَ الْفُقَہَاءُ وَہُمْ اَعْلَمُ بِمَعَانِی الْأحَادِیْثِ․
ترجمہ:فقہاء نے ایسا ہی کہاہے اوروہی لوگ حدیث کے مطلب کوزیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ (ترمذی باب ماجاء فی غسل ا لمیت)

اکثرمحدثین خود بھی مقلد تھے ،چناں چہ مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن بھوپالی صاحب امام بخاری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: وہ شافعی المسلک تھے۔(ابجد العلوم 810)اسی طرح امام مسلم رحمة اللہ کے بارے میں بھی نواب صاحب نے شافعی المسلک ہونا ذکر کیا ہے۔ (الحطہ98) وجہ بالکل ظاہر ہے کہ احادیث کے مابین تطبیق دینا اور ان سے احکام شرعیہ نکالنا ؛اس کے لیے حدیث کا صحیح اور حسن ہونا ہی کا فی نہیں، بلکہ اس کے لیے اور بھی بہت سی دیگر چیزیں درکا ر ہوتی ہیں۔

احکام شریعت کے لیے جودیگرچیزیں درکار ہیں؛ان میں سب سے اہم چیز صحابہ کے آثار ہیں ۔ احکام اسلام اور شریعت محمدی میں صحابہ کے آثار فیصلہ کن چیز ہواکرتے ہیں ۔چناں چہ حضرت ابراہیم نخعی (96ھ)،جو خود بھی صحابہ کے شاگر د ہیں،فرماتے ہیں:اگر صحابہ کو دیکھ لیتا کہ وہ کلائی تک وضو کرتے ہیں؛ تو میں عمل اس پر کرتا؛ جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دیکھتا اور قرآن میں جو آیاہے:﴿الی المرافق﴾․ یعنی وضو میں کہنیوں تک ہاتھ دھوؤ(مائدہ)تو اس کو ایسے ہی پڑھتا ؛جیساکہ قرآن میں ہے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ صحابہ پرترک سنت کی تہمت نہیں لگا ئی جاسکتی ،وہ اہل علم تھے اور تمام مخلوق میں سب زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے خواہاں اور مشتاق تھے۔ ان کے عمل کے بارے میں کسی قسم کا شک وہی کرسکتا ہے ؛جس کو اپنے دین میں شبہ ہو۔ (الحجہ فی بیان المحجہ 2/401)

حضرت عمر بن عبد العزیر رحمة اللہ علیہ (جن کو جامع احادیث کہاجاسکتا ہے؛یعنی احادیث نبویہ علی صاحبہا الصلوة والسلام کو کتابی شکل میں جمع کرانے اوراس کے لیے سرکاری طور پر کام شروع کرانے کا سہرا آپ ہی کے سرجاتا ہے ۔) صحابہ کی اتباع کی بابت اپنے ایک خط (جسے امام ابوداؤد نے بھی نقل کیا ہے،اس ) میں فرماتے ہیں :
فَمَا دُوْنَہُمْ مِنْ مُقَصِّرٍ وَمَا فَوقَہُمْ مِنْ مُحَسِّرٍ، وَمَنْ قَصَرَ دُوْنَہُمْ فَجَفُوا، أوْ طَمَحَ عَنْہُمْ أقْوَامٌ فَغَلُوا، وَإنَّہُمْ بَیْنَ ذٰلِکَ لَعَلٰی ہُدًی مُسْتَقِیْمٌ ․
ترجمہ :صحابہ کی اتباع نہ کرنا (دین میں) کمی اورتقصیر ہے ۔اور ان سے آگے بڑھنا (دین میں)زیادتی اورتکان ہے۔ایک جماعت نے(ان کی اتباع نہیں کی ؛بلکہ) ان سے کوتاہی کی ،تو اس نے ظلم کیا اوردوسری ان سے آگے بڑھ گئی تو انھوں نے غلو کیا ،صحابہ کرام اسی افراط وتفریط کے درمیا ن سیدھی راہ پر تھے۔ (الاعتدال فی مراتب الرجال)

حضرت ابو زید قیروانی مالکی (متوفی :386ھ)نے اپنی کتا ب ”الجامع“ میں” اہل سنت والجماعت“ کے عقائد اور ان کے طریق کا ر کوا س طرح بیان کیا ہے :
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی سنتو ں کے بارے میں یہ بات مسلم ہے کہ نہ اس کا مقابلہ رائے سے ہوگا اور نہ قیاس سے۔ اور سلف صالحین(صحابہ ) نے جہاں تاویل کی ہے ؛ہم بھی تاویل کریں گے اور جس پر عمل در آمد کیا؛ ا س پرہم بھی عمل کریں گے اور جس پر عمل نہیں کیا ؛اس پر ہم بھی عمل نہیں کریں گے اور جہاں انھوں نے توقف اختیار کیا ؛ہمارے لیے بھی توقف کی گنجائش ہے اور جہاں انھوں نے کچھ بیان کیا ہے ؛ہم اس کی اتباع کریں گے، اور جو استنباط کیا ہے؛ اس کی اقتدا کریں گے اور جہاں انھوں نے تاویل میں اختلاف کیا ہے؛ تو ہم ان کی جماعت سے نہ نکلیں گے ۔(الجامع)

امام احمد ابن حنبل فرماتے ہیں:ہمارے نزدیک سنت کے اصول وہ ہیں ؛جن پر حضرا ت صحابہ کرام تھے ۔(فتاوی ابن تیمیہ 4/155)

حاصل کلام یہ کہ احادیث کا صرف صحیح اور مضبوط ہونا ہی عمل کے لیے کافی نہیں ہے ؛بلکہ اس کے لیے اوربھی بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔

اوراگربالفرض تسلیم کرلیا جائے کہ جو روایت زیادہ مضبوط ہو؛اس پر عمل کیا جائے اور اس کے بالمقابل جو کمزور ہو ؛اس کو ترک کردیا جائے ؛تب تو دین کا جنازہ نکل جائے گا۔ چوں کہ سندکے اعتبار سے سب سے مضبوط ترین روایت ”قرآن کریم“ کی ہے ؛جو معناً اور لفظاً دونوں اعتبار سے متواتر ہے ، ذخیرہ احادیث کی کوئی بھی روایت سند کی مضبوطی و قوت میں اس کا مقابل نہیں ہوسکتی ۔قرآن مجید بہرصورت ”حدیث“ کے مقابلے میں مضبوط ہے۔اب اگر کسی جگہ قرآن وحدیث میں بظاہرتعارض نظرآئے ،یعنی قرآن سے ایک حکم نکل رہا ہو؛جب کہ حدیث سے اس حکم کے بالکل خلاف دوسرا حکم نکل رہا ہو؛تو کیا محض اس وجہ سے چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ اپنے مدمقابل کے سامنے کمزورہے ؟اگر یہی اصول تسلیم کرلیا جائے ؛تو ان احادیث کے ساتھ آپ کیا کریں گے،جس میں حضور صلی الله علیہ وسلم کو خصوصی طورپر چار سے زائد شادیوں کی اجازت تھی۔چوں کہ قرآن کریم جو حدیث کے بالمقابل مضبوط ہے ؛اس کا تو حکم یہ ہے :﴿فَانْکِحُوا مَاطَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنٰی وَثُلاَثَ وَرُبَاع﴾.

یعنی بیک وقت صرف چارعورتوں سے ہی شادی کرسکتے ہو(اس سے زیادہ نہیں)-(سورہ نساء آیت نمبر 3)۔کیا حضور صلی الله علیہ وسلم کو آپ بھی یہود ونصاری کی طرح اپنے طعن وتشنیع کا نشانہ بناؤگے ؟۔ نعوذ با للہ من ذلک!

اسی طرح احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن شفاعت ہوگی ؛جب کہ قرآن کہتا ہے : ﴿لَابَیْعٌ وَلاَخُلَّةٌ وَلَاشَفَاعَةٌ ﴾(سورہ بقرہ آیت نمبر 254) یعنی قیامت کے دن شفاعت نہیں ہو گی ؛تو کیا محض اس وجہ سے شفاعت کی احادیث کا انکار کردیا جائے گا کہ وہ قرآن کے مقابلے میں سنداًکمزورہیں۔ ایسے ہی حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:لَانُورِثُ مَاتَرَکْنَاہ صَدَقَةٌ(ہم(انبیاء وارث نہیں بناتے ؛ہمارا جو کچھ ترکہ ہوتا ہے ؛وہ صدقہ ہوتا ہے۔) جب کہ قرآن کہتا ہے:﴿یُوصِیْکُمُ اللّٰہُ فِی أوْلَادَکُمْ﴾․

ترجمہ: اللہ تعالی تم کو حکم دیتاہے تمہاری اولاد(کی میراث)کے باب میں۔(سورہ نساء)یعنی ہربچے کا حصہ منجانب اللہ متعین ہے ؛ماں باپ اس کے حصے کو ختم نہیں کرسکتے ۔تو کیا اس حدیث کو محض اس وجہ سے چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ اپنے مقابل والی آیت کے مقابلے میں سنداًکمزور ہے ۔ایسے ہی احادیث میں آتا ہے کہ ایک وضو سے متعدد نمازیں ہوجاتی ہیں،جب کہ قرآن کہتاہے :﴿إذَاقُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوا وُجُوہَکُمْ ﴾․یعنی نماز کے لیے کھڑ ے ہو،تو وضو کرو! اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی نماز کے لیے کھڑے ہو،تو وضو کیا کرو ۔توکیا ان احادیث، جن سے ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے،ان کا انکار کیا محض اس وجہ سے کردیا جائے گا کہ وہ سنداً قرآن کے بالمقابل کمزور ہیں ؟ہرگز ہر گز ایسا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ چوں کہ یہ اصول ہی غلط ہے ۔اگراس اصول کو تسلم کرلیا جائے تو قرآن وحدیث کا ایک ٹکڑااپنے ہی دوسرے حصے کی تکذیب کرتا ہوا نظر آئے گا۔ قرآن” حدیث “کی تکذیب کرے گا اورحدیث ”قرآن“ کی تکذیب کرے گی۔اوریہ ایسی بھیانک مصیبت ہوگی ؛جس کی وجہ سے پوری امت ہلاک ہوجائے گی۔ سابقہ امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہو ئیں۔حدیث میں آتاہے: عَنْ عَمْروٍ بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہ قَالَ :سَمِعَ النَّبِیُّ صلی الله علیہ وسلم قَومًا یَتَدَارَئُونَ فِی الْقُرْآنِ، فَقَالَ :إنَّمَا ہَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِہٰذَا․ ضَرَبُوا کِتَابَ اللّٰہِ بَعْضَہ بِبَعْضٍ، إنَّمَا نَزَلَ کِتَابُ اللّٰہِ یُصَدِّقُ بَعْضَہ بَعْضًا، فَلاَ تُکَذِّبُوا بَعْضَہ بِبَعْضٍ، فَمَا عَلِمْتُمْ مِنْہ فَقُولُوا وَمَا جَہِلْتُمْ فَکِلُوہ إلٰی عَالِمِہ․
ترجمہ :عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے نقل کرکے بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کے بارے میں سنا کہ وہ قرآن پاک میں باہمی اختلاف کررہے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے جھگڑرہے ہیں تو (سخت نارا ض ہوئے اور)فرمایا :تم سے پہلے جو لوگ تھے؛ان کی ہلاکت وبربادی کا باعث یہی چیز بنی تھی کہ انھوں نے اللہ کی کتاب کے ایک حصہ سے دوسرے حصے کی تردید (تکذیب )کی ۔سن لو!اللہ کی کتاب اس شان سے نازل ہوئی ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو سچاثابت کرتا ہے ۔لہذا اس کے کسی حصہ کو کسی دوسرے حصے کے ذریعہ مت جھٹلاؤ۔اور اس (طرح کی کسی آیت کے مفہوم ومراد کے بارے میں)تم وہی بات کہوجو (کتاب اللہ کے صحیح معنی ومرادجاننے اور بتانے والوں کے ذریعہ )تمہارے علم میں (آئی ) ہے ۔اور جو چیز تمہارے علم میں نہیں ہے ؛اس کو علم رکھنے والوں کے حوالہ کردو۔ (مسند احمد ،بخاری فی خلق افعال العباد /30) (جاری)
Flag Counter