Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1433ھ

ہ رسالہ

9 - 18
 دینی مدارس کے امتیازات
	

شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان مدظلہ

یہ تاریخ اسلام کی ایک آشکار حقیقت ہے کہ جب بھی دشمنانِ اسلام او راعداء دین نے اسلامی تعلیمات کا چراغ گل کرنے اوررجال دین کی ہر طرح کی دینی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کی ناپاک کوششیں کیں، اس چراغ کی ضیا پاشیوں اور ضوفشانیوں میں پہلے سے زیادہ بانکپن پیدا ہوا اور علماء ومشائخ ِدین کی سرگرمیوں او ران کے جو ش عمل میں مزید ترقی ہوئی ۔ اسلام کی تاب ناک تاریخ میں ایسے کئی ادوار گزرے ہیں جس میں اپنے وقت کے مقتدر اعداء اسلام اور دین دشمن طبقے، علماء دین کے درپے آزار ہوئے، انہیں اذیت ناک صعوبتوں میں ڈال کر اور طرح طرح کی تکلیفیں دے کر دینی سرگرمیوں سے دست کش او راسلامی تعلیمات کو پھیلانے کے لیے اپنی خدمات سے دست بردار کرانے کی مذموم کاوشیں کی گئیں ، لیکن ان پاک باز ہستیوں نے ہر ایسے دور میں دین کی سربلندی اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی روشن تعلیمات کی ترویج کے لیے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر قربانیاں دیں۔ انہوں نے اپنی لازوال خدمات اور قربانیوں کی لو سے دین کا چراغ ، ظم واستبداد اور وقت کے ہر مخالف ماحول میں روشن رکھا۔

برصغیر میں انگریزی استبداد کے دور میں بے پناہ صعوبتوں کے باوجود ہمارے اکابر نے دین کا چراغ روشن رکھ کر مسلمانوں کے ایمان وعقیدہ کی حفاظت اور دینی علوم کی ترویج کے لیے جس شان جرأت واستقلال کے ساتھ اپنی خدمات پیش کیں، وہ تاریخ کے اسی تسلسل کا ایک حصہ ہے۔ اس وقت کی استبدادی قوت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ علماء او رمسلمانوں کا اپنے دین ومذہب پر ایمان وایقان او راس کے ساتھ مضبوط وابستگی تھی۔ اس کا تدارک کرنے کے لیے انگریزوں نے مختلف تدابیر اور حربے اختیار کیے۔ عام مسلمانوں او ربالخصوص ان کے مذہبی پیشواؤں پر ظلم وستم اور قتل وغارت کا متشددانہ طریقہٴ واردات ناکام ثابت ہوا تو مسلمانوں کو سیاسی غلامی کے ساتھ ذہنی طور پر غلام بنانے کے لیے ایک نصاب تعلیم مرتب کرکے ہندوستان کے اسکولوں او رکالجوں میں رائج کیا گیا تاکہ مسلمانوں کی نئی پود فکر ونظر اور مسلک ومشرب کے اعتبار سے غیر شعوری طور پر انگریز کی ہم خیال بن جائے الغرض مسلمانوں کو ذہن او رتربیت کے اعتبار سے فرنگی بنانے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کیے گئے، لیکن الله تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمارے اکابرین او رعلماء کرام نے ہر محاذ پر ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

ایسے دین شکن اورکٹھن حالات میں اسلام اور دین سے وابستگی کو قائم وبرقرار رکھنے، دینی علوم اور دینی ذہنیت کی حفاظت کے لیے دارالعلوم دیوبند کا قیام گھپ اندھیرے میں روشنی کا مینار ثابت ہوا۔ انگریزی تسلط کے بعد دینی علوم وفنون کی حفاظت او رمسلمانوں کو انگریزوں کی ذہنی غلامی کے شکنجے سے باہر نکالنے کی جدوجہد سب سے پہلے دارالعلوم دیوبند نے کی۔

دارالعلوم دیوبند میں مستحکم بنیادوں پر ایسا نصاب تعلیم وضع کیا گیا ہے، جسے صحیح معنوں میں پڑھنے والا علم وفن کے تمام شعبوں پر پُرا اعتماد تبحر کے ساتھ حاوی ہونے کی صلاحیت سے مالا مال ہو سکتا تھا۔ دارالعلوم دیوبند کے بعد اسی نہج پر دوسری بڑی درس گاہ مظاہر علوم سہارنپور کا قیام عمل میں آیا۔ رفتہ رفتہ برصغیر کے طو ل وعرض میں دیوبند اور جامعات کا ایک کہکشاں بنتا گیا۔ ہمارے اکابر کی طرف سے دینی مدارس کے قیام کے اس مبارک اقدام کا مسلمان معاشرے میں والہانہ استقبال کیا گیا۔ اپنے دین کی حفاظت اور اسلامی علوم فنون کی تحصیل کا جذبہ رکھنے والے اندرون او ربیرون ملک سے جوق درجوق ان مدارس میں داخل ہونے لگے۔ ان مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والوں نے اکنافِ عالم میں پھیل کر علوم قرآن وسنت کی خدمات انجام دیں، حدیث ، تفسیر او رفقہ کے سلسلے میں امت مسلمہ کو اپنی تصنیفات وتالیفات کے ذریعے جو شان دار سرمایہ دیا، موجودہ صدی میں پورے عالم اسلام میں اس کی نظیر موجود نہیں۔

ہمارے اکابرین کی ان خدمات کے نتیجے میں قرآن وسنت کی حفاظت کا ایسا مضبوط او رمستحکم نظام تعلیم قائم ہو گیا کہ مسلسل سازشوں او رریشہ دوانیوں کے باوجود انگریز اس نظام تعلیم کے خدوخال ، اپنی منشاکے مطابق تبدیل کرنے میں کام یابی حاصل نہیں کر سکے ۔ ان دینی مدارس کا نصاب تعلیم وتربیت اپنی تمام تر خدوخال کے ساتھ موجود ہے او ران شاء الله تا قیامت موجود رہے گا ، لیکن بڑی جگر کاوی کے بعد لارڈ میکالے کی دماغی کاوشوں کے نتیجے میں مسلمانوں کو اپنا ذہنی غلام بنانے کے لیے انگریزوں نے جو نصاب تعلیم وضع کیا تھا ، وہ برصغیر کے اسکولوں، کالجوں او رعصری یونیورسٹیوں میں آج بھی اسلامیات اور دینیات کی معمولی پیوندکاری کے ساتھ رائج ہے۔ نتیجتاً وہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے مذہب وعقیدہ کے لحاظ سے قابل رشک اور قابل تقلید باعمل مسلمان نہیں رہتے۔ انگریزی تعلیم وتربیت کے نتیجے میں ان کا طرز عمل غلامانہ ومحکومانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔

ان عصری درس گاہوں کے مقابلے میں ہمارے دینی مدراس کئی خصوصیات وامتیازات کے حامل ہیں۔

خلوص اور درد مندی کے شرر سے دلوں کی آگ شعلہ بن کر ظاہر ہوتی ہے ، دینی مدارس کے اساتذہ اور طلباء تقوی ، للہیت، اخلاص اور ایثار کے جن جذبات سے سرشار ہو کر اپنے مستقبل کی تعمیر میں مصروف عمل رہتے ہیں اور دنیاوی جھمیلوں سے اپنا دامن بچا کر جس شوق او رجذبہ کے ساتھ علم دین حاصل کرتے ہیں ، وہ اس گئے گزرے دور میں ایسی صفات سے وابستگی کی بنا پر قابل فخر نمونہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ الغرض اخلاص اور ایثار ان مدارس میں پڑھنے اور پڑھانے والوں کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ دین دشمن اور سیکولر طبقہ، دینی مدارس سے وابستہ رہنے والوں پر غربت اور کسمپرسی کی پھبتیاں کستے ہوئے یہ پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ دینی مدارس کی طرف زیادہ رحجان ان لوگوں کا ہوتا ہے ، جوافلاس اور غربت کے سبب تعلیم کے اخراجات کا تحمل نہ کرسکنے کی وجہ سے اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے لائق نہیں رہتے۔ یہ سراسر جھوٹا الزام ہے ، حقائق اور امر واقع کے بالکل برعکس ہے ، کالج،اسکول اور یونیورسٹیوں کی طرح یہاں بھی غریب ، امیر دونوں طرح کے طلبہ ہوتے ہیں، متمول اور ذی وجاہت خانوادوں سے تعلق رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد یہاں بھی ہوتی ہے ۔ وہ محض اخلاص اور دینی شوق وجذبہ کی بنیاد پر ان مدارس کی طرف رخ کرتے ہیں ۔ دینی مدارس کے اساتذہ کو بقدر کفایت تنخواہ دی جاتی ہے ۔ ان کی قابلیت ولیاقت اور علمی وجاہت سے متاثر ہو کر ملک اور بیرون ملک کی عصری درس گاہیں بھاری تنخواہوں اور پرکشش مراعات اور سہولیات کے ساتھ ، کوئی معقول عہدہ قبول کرنے کے لیے انہیں ترغیبات دیتی ہیں ، لیکن وہ اپنی موجودہ حالت پر قناعت کرتے اور اپنے موجودہ منصب کو ذریعہ نجات باور کرتے ہوئے ان کی پرکشش ترغیبات کو جس شانِ استغناء کے ساتھ رد کر دیتے ہیں ، یہ ان کے اخلاص اور ایثار کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

دینی مدارس کے طلبا او راساتذہ اپنے مقصد سے والہانہ شیفتگی رکھتے ہیں ، وہ اپنے کام کی دھن میں مگن، دن رات طلب علم کی مشغولیتوں میں منہمک رہتے ہیں۔ اساتذہ اور طلباء دونوں کی دلچسپیاں پڑھنے اور پڑھانے تک محدود ہوتی ہیں۔ دینی مدارس کے علم پر ور ماحول میں اپنی تعلیمی اور علمی سرگرمیوں سے عشق کی حدتک تعلق رکھنے والے ان اساتذہ وطلباء نے اپنے آپ کو اس علم کے لیے وقف کیا ہوا ہے۔ دنیا اپنیتمام تر رعنائیوں اور سازوسامان کے باوجود ان کے لیے ، اپنے اندر کوئی کشش نہیں رکھتی، اس لیے تعلیم وتعلم کے ساتھ ان کی بے پناہ وابستگی کی راہ میں پیسوں کی کھنک اور دنیا کی کشش کبھی حائل نہیں ہو سکی، اس کی بڑی وجہ الله تعالیٰ کی رضا کے حصول او راخلاص کا وہ جذبہ ہے جس نے ان کو دنیا کی آزمائشوں اور کشائش سے بے نیاز کر دیا ہے۔

کالجوں، یونیورسٹیوں اور عصری درس گاہوں میں یہ صفات جو ہر نایاب ہیں، یہاں کے ماحول میں اپنے علم وفن سے وہ وابستگی، وہ محنت وہ جدوجہد اور مخلصانہ ذوق شوق کے وہ مظاہر قطعاً نظر نہیں آتے، جو ہمارے دینی مدارس میں دن رات کے علمی وتعلیمی معمولات کا حصہ ہوتے ہیں، اس لیے کہ ان عصری اداروں میں پڑھنے اور پڑھانے والوں کااصل مقصد دنیاوی جاہ وحشمت اور حصولِ معاش ہوتا ہے، چناں چہ وہ اپنی تمام تر توجہات سند اور ڈگری کے حصول پر مرتکز رکھتے ہیں کہ اس کے ذریعے ملازمت اور معاش کے معقول مواقع ملنے کے مکانات روشن ہو جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں صرف امتحانات کے زمانے میں محنت او رجدوجہد کی وقتی طور پر کچھ سرگرمیاں نظر آتی ہیں جو امتحانات کے اختتام کے ساتھ ہی ماند پڑ جاتی ہیں۔

دینی مدارس کے استاذ اورشاگرد ایک دوسرے کے لیے عظمت واحترام اور محبت ویگانگت کے جذبات سے سر شار ہوتے ہیں ۔ اساتذہ اپنے شاگردوں کے ساتھ پدرانہ شفقت سے پیش آتے ہیں ، ان کی تعلیم وتربیت پر دن رات اپنی توجہات مرکوز کیے رکھتے ہیں۔ طلبا اپنے اساتذہ کے سامنے جس قدر تواضع او رادب واحترام کے ساتھ زانوے تلمذ تہہ کرتے اوران کی فرماں برداری وتابع داری کے لیے جس طرح ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ، کالجوں اور یونیورسیٹوں کے درو دیوار کو ایسے بے لوث جذبات کی جھلکیاں دیکھنا نصیب نہیں ہوئی ہوں گی ۔ یہ دینی مدراس کی عظیم خصوصیت ہے ۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء اپنے اساتذہ کے ساتھ جس ہتک آمیز سلوک سے پیش آتے ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ وہ اپنے اساتذہ پرہاتھ اٹھانے سے بھی دریع نہیں کرتے ۔ وہاں احتجاجی جلسے جلوس اور اسٹرائیکیں ہوتی ہیں۔ کبھی حالات اس قدر ناگفتہ بہ بن جاتے ہیں کہ فوج اور رینجرز تک کو مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے دینی مدارس میں الحمدلله اس طرح کے افسوس ناک واقعات کبھی پیش نہیں آتے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں اساتذہ اور طلباء کے درمیان محبت اور شفقت کا بے لوث رشتہ استوار ہے۔

دین کو نقصان پہنچانے اور مسلمانوں کو عقیدہ اور نظریہ کے لحاظ سے کمزور اور گمراہ کرنے کے لیے انفرادی یا اجتماعی سطح پر جس قدر فتنے اٹھے ، ان کی سرکوبی کے لیے دینی مدارس کے علماء ہی سب سے پہلیمیدان میں اترے۔ ہر زمانہ میں ہر باطل فتنہ کے سامنے سینہ سپر ہو کر، ان مدارس نے ڈٹ کر ایسا جرات مندانہ او رمجاہدانہ مقابلہ کیا کہ انہیں دیواروں سے لگا دیا۔ ان فتنوں کی سرکوبی کے لیے نکلنے والوں میں کبھی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تربیت یافتہ شامل نہیں ہوتے الا ماشاء الله دین کی حفاظت او رباطل سے مبارزت اور لا دینیت کے علم برداروں کو شکست دینے کا فریضہ ہمیشہ ان ہی علماء نے سرانجام دیا۔

برصغیرِ ہند کو انگریز کے استبدادی قبضہ سے آزاد کرنے اورمسلمانوں کی گردن سے غلامی اور محکومی کا طوق اتارنے کے لیے سب سے پہلی صدا علماء دیوبند نے بلندکی۔ آزادی اور حریت کے حصول کے لیے ان علماء ربانیین نے جو قربانیاں دیں، وہ ہماری تاریخ حریت کا ایک نمایاں عنوان ہے۔ شاملی کا میدان آج تک اس دور کی قربانیوں کی یاد تازہ کرتا ہے ۔ جس میں سید الطائفہ حاجی امداد الله مہاجرمکی، مولانا رشید احمد گنگوہی او رمولانا قاسم نانوتوی رحمہم الله تلواروں اور نیزوں سے مسلح ہو کر انگریز کے خلاف آمادہٴ جنگ وپیکار ہوئے۔ گھمسان کا رن پڑا، کئی علماء بے جگری سے لڑکر خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوئے۔ دوسری طرف علماء صادق پورنے پٹنہ اور بہار کے اندر انگریز کے خلاف مسلح جدوجہد کی ولولہ انگیریز داستانیں رقم کیں۔ الغرض آزادی کی جنگ میں ان علماء نے بے شمار قربانیاں دیں قتل کیے گئے، پھانسی گھاٹ پر چڑھائے گئے پابند سلاسل کر دیے گئے او رکالے پانی کی قید کی سزائیں بھگتیں۔ دارالعلوم دیوبند کے شیوخ حدیث، شیخ الہند مولانامحمود حسن، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد ، مولانا عزیز گل ، مولانا عبدالوحید اور حکیم نصرت حسین طویل عرصہ تک مالٹا کی جیل میں قیدوبند کی اذیت ناک تکلیفوں میں مبتلا کیے گئے۔ بہت سے علماء کو خنزیر کی کھال میں لپیٹ کر زندہ دورگور کر دیا گیا۔ دین کی حفاظت او رمملکت کی حریت کے لیے یہ ساری قربانیاں انہیں علماء دیوبند نے دیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ان کے جانشین او رحقیقی وارث آج بھی ایسے حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنی ہر طرح کی قربانیاں پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں او ران شاء الله تیار رہیں گے۔

الله جل شانہ دین کے محافظ ان مدارس کی حفاظت فرمائے، ان کو فتنوں او رشمنوں کے شر سے محفوظ فرمائے اور ان کے منتظمین او رمعاونین کو خلوص واستقامت کے ساتھ دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین
Flag Counter