Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1433ھ

ہ رسالہ

1 - 18
زندگی کا لطف
	

مولانا عبید اللہ خالد

یقینا، یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے جہاں انسان کے عمل کی بنیاد پر اس کے لیے جنت یا جہنم کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس وجہ سے عقل مند انسان اس دنیا میں ایسا کردار اختیار کرتا ہے جس کی بنا پر وہ موت کے بعد جنت میں جگہ بناسکے۔

تاہم یہاں ایک اورنکتہ بھی بہت اہم ہے۔ انسان کی فطری خواہش یہ رہی ہے کہ وہ اس دنیا کو بھی جنت بنائے، یعنی اس کی دنیا کی زندگی بھی آرام و آسائش سے گزرے۔ بہ ظاہر، دنیا کے مسائل وا ٓلام میں یہ ممکن نظر نہیں آتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی ایک ایسی صورت پیدا کردی ہے کہ وہ انسان اس دنیا میں اگر چاہے تو تمام مسائل و مشکلات کے باوجود راحت بھری اور پُر سکون زندگی گزار سکتا ہے۔ وہ چاہے تو اس دنیا میں بھی اپنی زندگی سے لطف اٹھا سکتا ہے۔

کیسے؟
اللہ تعالیٰ نے اس کا بہت ہی آسان طریقہ قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے: ﴿الا بذکراللہ تطمئن القلوب﴾ کہ دلوں کا اطمینان تو صرف اللہ کے ذکر میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں جس راحت اور تکلیف کی بات کرتا ہے وہ ایک اضافی (Relative) شے ہے۔ آدمی کی غلط فہمی یہ ہے کہ وہ اس دنیا کی ظاہری چیزوں میں اپنے دل کا سکون تلاش کررہا ہے۔ اس کی نظر اس ظاہری شان و شوکت اور وجاہت کی طرف ہے جس کو اس نے سکون اور اطمینان کا ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ اور پھر اسی کی خاطر خود کو خطرے میں ڈال کر کبھی اعلا تعلیم کے نام پر تو کبھی پیشہ ورانہ ترقی کے نام پر خود کو کھپارہا ہے۔

چوں کہ سوچ اور پھر اس سوچ کی بنیاد پر محنت کا رخ ہی غلط ہے، لہٰذا آدمی جتنا زیادہ خود کو کھپا رہا ہے اتنا ہی سکون اور اطمینان سے دور ہوتا جارہا ہے۔ یہ بہت عام مشاہدے کی بات ہے کہ آدمی کے پاس جتنا بھی بڑا عہدہ آجائے یا دولت کی جتنی بھی فراوانی ہوجائے، اگر اس کے دل میں اللہ کی طرف رجوع او راس کی یاد نہ ہوتو وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ذہنی کشمکش، کرب، تناؤ، اور خلفشار و انتشار کا شکار ہوتا چلاجاتا ہے۔ اس کی زندگی ہر دنیاوی ترقی کے ہوتے ہوئے ابتر ہوتی چلی جاتی ہے۔

وہ زندگی جس کو آرام دہ بنانے کے لیے وہ دن رات محنت کرتا اور خود کو کھپاتا ہے، آہستہ آہستہ اس کے لیے وبالِ جان بنتی چلی جاتی ہے، اس لیے کہ اس نے دنیا میں سکون حاصل کرنے اور اطمینان کی زندگی گزارنے کے لیے اس قانون الہٰی کو پورا نہیں کیا جس کا تقاضا پیدا کرنے والے نے کیا ہے۔

دیکھا جائے تو اس وقت انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ یہی سکون کا فقدا ن ہے اور اسی کے لیے ساری تگ و دو ہے۔ کہیں زندگی کو پُر سکون بنانے کے لیے دوائیں کھائی جارہی ہیں تو کہیں نت نئے ڈھنگ اختیار کیے جارہے ہیں۔ کبھی ساز و رنگ سے اپنے درد کو دور کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں تو کبھی جنگل کی طرف نکل جانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ کہیں حکومت تبدیل کی جارہی ہے تو کہیں انقلاب کے نعرے لگ رہے ہیں۔ اگر ان ساری کوششوں کا مرکز و محور یہ کہا جائے کہ زندگی میں سکون اور اطمینان کا حصول ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ لیکن کیا ان سب کوششوں سے دل کا وہ سکون جو اللہ کے ذکر میں ہے، حاصل کیا جاسکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں!

تو پھر، کیوں نا اپنی محنت اور توانائی کو اس جگہ صرف کیا جائے جو زیادہ نتیجہ خیز ہو؛ جہاں ہماری کوشش سے زندگی بھی پُرسکون بن جائے اور آخرت بھیحَسین ہمیں اس زندگی میں سکون اور راحت میسر آجائے۔ تو پھر اس کا راستہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم جہاں ہوں، جیسے ہوں، جو کچھ کرتے ہوں، اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور ذکر سے جوڑے رکھیں۔ 
Flag Counter