Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1433ھ

ہ رسالہ

4 - 18
 ہدایت کی دُعا
	

شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان مدظلہ

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿اھدنا الصراط المستقیم﴾․
یعنی چلا ہم کو سیدھی راہ پر۔

الله کی حمد وثنا او راپنی نیاز مندی کے بعد بندہ کی طرف سے اپنے لیے دعا ہے کہ اے الله! مجھے سیدھی راہ پر چلا ۔

ہدایت کے معنی بعض علماء کے نزدیک منزل تک پہنچانا اور بعض کے نزدیک منزل تک پہنچانے والے راستہ کی دلالت ہے۔ (تفسیر روح المعانی، فاتحہ:5)

جو افراط وتفریط سے پاک ہو، یعنی دین اسلام، مطلب یہ ہوا کہ یا الله! ہم کو دین اسلام پر چلا، جو افراط وتفریط سے پاک ہے۔ ( تفسیر ابن کثیر، سورہٴ فاتحہ:5)

مذکورہ آیت میں اسلام کو سیدھی راہ سے تشبیہہ دی گئی، جو کہ استعارہٴ تحقیقیہ ہے۔ (استعارہٴ تحقیقیہ یہ ہے کہ مشبہ ( جسے تشبیہ دی جائے) اور مشبہ بہ (جس کے ساتھ تشبیہ دی جائے) میں سے صرف مشبہ بہ کو ذکر کیا جائے اور ا س کا معنی حساً یا عقلاً متحقق ہو، مذکورہ استعارہ میں چوں کہ اسلام کا سیدھا راستہ ہونا عقلاً متحقق ہے، لہٰذا یہ استعارہ تحقیقیہ ہے)

مراتبِ ہدایت
ہدایت کے چار مراتب ہیں:
پہلا مرتبہ تووہ ہے جو انسان سمیت ہر مخلوق کو حاصل ہے۔

فرمان باری تعالیٰ ہے۔
﴿ربنا الذی اعطیٰ کل شيء خلقہ ثم ھدی﴾․ (سورہٴ طہٰ:50)
یعنی ہمارا رب تو وہ ہے جس نے ہر شے کو خلقت عطا کرکے اسے ہدایت دی ۔

اس آیت میں ہدایت کا یہی پہلا مرتبہ مراد ہے ، جو انسان کو عقل کی صورت میں، چرند، پرند اور درند کو ان کو ضروریات سے متعلق شعور وسمجھ کی صورت میں، حتی کہ پہاڑ، ستاروں اور درختوں کو بھی ایک خاص شعور کی صورت میں حاصل ہے۔

جیسا کہ آیت﴿ یسجد لہ من فی السموٰت ومن فی الأرض والشمس والقمر والنجوم والجبال والشجر والدوآب﴾․ (سورة الحج:18) سے واضح ہے۔

ہدایت کا دوسرا مرتبہ وہ ہے جو الله کی طرف سے انسانوں کے لیے انزال کتب اور بعثت انبیا کے ذریعے سے مقصود ہے۔

قرآن کریم میں جہاں بھی ہدایت دینے کی نسبت کتب منزلہ اور انبیا کی طرف کی گئی ہے وہاں یہی ہدایت مراد ہے۔

ہدایت کا تیسرا مرتبہ صرف اہل ایمان کے ساتھ خاص ہے ، یعنی ایسے حالات واسباب کا کسی مومن کے لیے پیدا ہو جانا جن کی بنا پر احکام خدائی کو دل میں بسا لینا او ران پر عمل کرنا آسان ہو جائے او ران کی خلاف ورزی دشوار ہو جائے۔

اسے توفیق بھی کہتے ہیں۔

اس کا دائرہ بہت وسیع ہے، اس ہدایت سے نہ کوئی مؤمن مستغنی ہو سکتا ہے اور نہ کوئی نبی۔

قرآن میں جہاں بھی مومنین او رانبیا کو ہدایت دیے جانے کا ذکر ہے اس سے یہی ہدایت مراد ہے۔

چوتھے مرتبہ میں ہدایت سے مراد اعمال کا ثواب دینا اور جنت میں داخل کرنا ہے۔ ( سورة الأعراف:43)

جنتیوں کے قول﴿الحمدلله الذی ھدانا لہٰذا﴾ ( تمام تعریفیں اس الله کے لیے ہیں جس نے ہمیں یہ ہدایت دی ) میں یہی ہدایت مراد ہے، یعنی ہمیں جنت میں داخل کیا۔

قرآن کریم میں جن مقامات میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے ہدایت دینے کی نفی کرکے ہدایت کو صرف الله کے ساتھ خاص کیا گیا ہے وہاں ہدایت کی آخری دونوں اقسام مراد ہیں۔( مفردات القرآن، حرف الھاء، ص:570، دارالکتب العلمیہ)

دعا کا مفہوم
ہم بیان کرچکے ہیں کہ ”اھدنا“ بندہ کی طرف سے رب جل شانہ کی جناب میں دعا ہے۔

حدیث میں ہے کہ جب دعا مانگی جائے تو ضرور قبول ہوتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الدعاء، ص:274، قدیمی)

فرمان خدا وندی ہے:
﴿أحبیب دعوة الداع اذا دعان﴾۔ ( سورة البقرة:186)
یعنی میں جواب دیتا ہوں دعا مانگنے والے کی دعا کا جب وہ مجھے پکارتا ہے۔

الغرض آیات واحادیث کا معتدبہ ذخیرہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ جب سچے دل سے دعا مانگی جائے تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔

اور عقلاً بھی واضح ہے کہ قرآن میں جابجا ﴿ وادعوہ خوفاً وطمعاً﴾․ (سورة الأعراف:56)اور اس الله کو پکارو خوف اور امید کے ساتھ۔) ﴿وادعواربکم تضرعاً وخفیةً﴾․ (سورة الأعراف:55)

کہہ کر بندوں کو الله سے دعا مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے ، لہٰذا اگر الله کی طرف سے ان دعاؤں کے جواب میں حاجت روائی او رمشکل کشائی نہ کی جائے تو یہ ترغیبیں بے کار ٹھہرتی ہیں۔

نیر یہ بخل بھی ہے کہ الله تعالیٰ دعا کو قبول نہ کرے۔

تعالی الله عن ذالک علوا کبیراً

دعا کا مفہوم یہی ہے اور یہی عقیدہ پوری امت کا متوارث چلا آرہا ہے۔

سرسید احمد صاحب ( یہ 1817ء میں دہلی میں پیدا ہوئے اور 1898ء میں وفات پائی ، علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی تھے، انگریزوں نے انہیں مجاہدین آزادی کے خلاف بھاری خدمات کے عوض”سر“ کا خطاب دیا، انہوں نے تفسیر القرآن کے نام سے نصف قرآن کی تفسیر لکھی اور اس میں امور مافوق الاسباب یعنی معجزات وکرامات اور امور غیر محسوسہ وغیر مرئیہ مثلاً: وحی وملائکہ، جنت وجہنم اور آدم وحوا علیہما السلام کی فلسفیانہ وغیر اسلامی تشریح کرکے ان کی حقیقت سے انکار کر بیٹھے اسی بناء پر یہ ” نیچری“ کے عنوان سے مشہور ہوئے۔) کے نزدیک دعا کا مفہوم:

جناب سرسید احمد خان صاحب اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:” حصول مطلب کے لیے جو اسباب خدا نے مقرر کیے ہیں، وہ مطلب تو انہی اسباب کے جمع ہونے سے حاصل ہوتا ہے ، مگر دعا نہ اس مطلب کے اسباب میں سے ہے اور نہ اس مطلب کے اسباب کو جمع کرنے والی ہے…… پس دعا سے مطلب کا حاصل ہونا موعود نہیں۔“(تفسیر القرآن از سرسید احمد خان، سورہٴ فاتحہ)

چوں کہ موصوف غیر مسلم فلسفیوں سے متأثر ہو کر اس عقیدہ کے قائل ہیں کہ دنیا میں امور غیر عادیہ ومافوق الاسباب کا وقوع ممکن نہیں، لہٰذا دعا کو سبب السبب ماننے سے بھی انکار کر دیا، اس پر کوئی نقلی دلیل تو تھی ہی نہیں، لیکن عقلی دلیل کے طور پر بھی محض اپنا عقیدہ ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے۔

البتہ اس عقیدہ کی بنا اسی اصول پر ہے کہ دنیا میں خوارق عادات کا وقوع ممکن نہیں، اس کا ابطال تو ہم آگے چل کر کریں گے۔

فی الحال ہم قرآن ولغت عربیہ ( جو کہ سرسید احمد خان صاحب کے نزدیک حجت ہے) کے حوالہ جات سے یہ ثابت کرنے پر اکتفاء کریں گے کہ دعا کا مفہوم کیا ہے۔

اجابت دعا کا مفہوم قرآن سے
فرمان خداوندی ہے:﴿فدعا ربہ انی مغلوب فانتصر ففتحنا ابواب السمآء بمآء منھمر﴾․ (سورة القمر:11-10)
ترجمہ:پس(نوح علیہ السلام نے) اپنے رب سے دعا کی کہ میں درماندہ ہوں، سو آپ انتقام لے لیجیے، پس ہم نے کثرت سے برسنے والے آسمان کے دروازے کھول دیے۔

اس مقام پر” ففتحنا“ کی جوفاء ہے یہ ماقبل کے جواب کے طور پر ہے ، جس سے صاف ظاہر ہے کہ الله نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا کے سبب آسمان سے پانی برسایا۔

ایک او رمقام پر ہے:﴿فاستجاب لکم ربکم انی ممدکم بألف من الملئکة مردفین﴾․(سورة الانفال:8)
ترجمہ: پھر الله تعالیٰ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا، جو سلسلہ وار چلے آویں گے۔

اس مقام پر بھی واضح ہے کہ الله نے دعا کی قبولیت کے طور پر ایک ہزار فرشتوں کے ذریعے سے نصرت فرمائی ہے۔

ایک او رمقام میں ہے:﴿فافتح بینی وبینھم فتحاً ونجنی ومن معی من المومنین فانجینہ ومن معہ فی الفلک المشحون، ثم اغرقنا بعد البٰقین﴾․(سورة الشعراء:119)
ترجمہ:( حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا) سو آپ میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کردیجیے او رمجھ کواور جو میرے ساتھ مومنین ہیں انہیں نجات دیجیے۔ پس ہم نے اسے اور جو اس کے ساتھ بھری ہوئی کشتی میں تھے انہیں نجات دی ، پھر اس کے بعد ہم نے باقی لوگوں کو غرق کر دیا۔

دیکھیں الله نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا کے طفیل ایسے ہی اسباب یعنی نوح او ران کے متبعین کے لیے کشتی او رکفار کے لیے شدید بارش او رسیلاب کا انتظام فرمادیا۔

چناں چہ نوح علیہ السلام او رمومنین کو نجات اور کفار کو ہلاکت ہوئی۔

ان چند امثال قرآنیہ سے واضح ہوا کہ دعا اسباب الامور میں یقینا موثر ہوتی ہے۔

جب کہ جناب سرسید احمد خان صاحب الله کو قادر مطلق مانتے ہوئے بھی دعا کو اسباب الامور میں غیر مؤثر کہتے ہیں اور قرآن میں جہاں بھی دعا کا ذکر ہے ۔ وہاں دعا سے عبادت مراد لیتے ہیں۔

چوں کہ جناب تفسیر القرآن بالقرآن کے بعد تفسیر القرآن باللغت کے قائل ہیں۔

لہٰذا ہم لغت سے بھی یہ ثابت کریں گے کہ دعا سے مراد عبادت نہیں، بلکہ الله کو پکارنا ہے۔

دعا کا مفہوم لغت عرب سے
عمدة الحفاظ فی تفسیر اشرف الالفاظ میں ہے:”والدعاء کالنداء…، ویعبر بہ عن السؤال، وعن الاستعانة․ ومنہ: ﴿دعوا الله﴾ أی سألوہ حوائجہم واستعانوہ علیھا․“ ( عمدة الحفاظ فی تفسیر اشرف الالفاظ، فصل الدال:14/2، دارالکتب العلمیہ)

ترجمہ: اور دعا نداء کی طرح ہے اور اسے سوال او رمدد مانگنے سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ قول باری تعالیٰ: ﴿دعواالله﴾ اسی قبیل سے ہے، یعنی انہوں نے اپنی ضروریات الله سے مانگیں اور ان پر الله سے مدد طلب کی ۔

مفردات القرآن میں ہے:”الدعاء کالنداء“․ (معجم مفردات الفاظ القرآن الکریم، ص:190، دارالکتب العلمیہ)
ترجمہ: دعا پکار کی طرح ہے۔

لسان العرب میں ہے:
”کقولک للرجل: إذا لقیت العدوخالیاً فادع المسملین ومعناہ: استغث بالمسلمین فالدعاء ھھنا بمعنی الإستغاثة“․ (لسان العرب، مادة، دع و)

ترجمہ: جیسے تمہارا کسی شخص کو یہ کہنا کہ ” اذا لقیت العدو خالیا فادع المسلمین“ یعنی مسلمانوں سے مدد مانگو۔ پس ”دعاء“ یہاں مدد مانگنے کے معنی میں ہے۔

مذکورہ حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ دعا کے معنی عبادت کے نہیں، بلکہ پکارنے کے ہیں، جیسا کہ عقیدہٴ امت مسلمہ قرناً بعد قرن آج تک چلا آرہا ہے۔

پس موصوف کے نزدیک اصول مسلمہ سے دعا کا مفہوم متعین ہو چکا۔ لہٰذا ان دلائل عقلیہ ونقلیہ کے ہوتے ہوئے دعا کا الگ مفہوم بلادلیل بیان کرنا یا تو لاعلمی ہے یا خالص ضد ہے۔

غلام احمد پرویز صاحب کے نزدیک صراط مستقیم کا مفہوم
جناب غلام احمد پرویز صاحب ارتقائے انسانی کی تشریح کرتے ہوئے ارتقائی منازل کو صراط مستقیم کا مفہوم قرار دیتے ہیں او رلکھتے ہیں کہ انسان کا ارتقا اب تک مادی تھا، لیکن اگلا ارتقا اوپر کی طرف ہو گا، مادی نہیں، صراط مستقیم میں یہی مراد ہے او راسی عقدے کو حل کیا گیا ہے۔

چوں کہ موصوف کا مضمون کافی تفصیلی ہے ، اس لیے ہم نے عبارت ذکر کرنے کے بجائے اس کا خلاصہ ذکر کر دیا ہے ۔ تفصیلی عبارت ”قرآنی فیصلے“ میں ملاحظہ فرمائیں۔ (قرآنی فیصلے از غلام احمد پرویز، ص:335، طبع ، طلوع اسلام ٹرسٹ)

گویا موصوف کے خیال میں قرآن صرف نظریہ ارتقا کی پیچیدگی حل کرنے کے لیے نازل ہوا تھا۔

غور کیجیے کہ کیا قرآن کے اولین مخاطب جوان فلسفیانہ پیچیدگیوں سے ناواقف تھے ، کیا انہوں نے اس کا یہ مطلب سمجھ لیا ہو گا؟

اور کیا یہی ارتقائی منازل تھیں، جو انسانوں سے طے کرانے کے لیے الله تعالیٰ نے انبیا بھیجے او رکتب نازل فرمائیں۔

موصوف تفسیر القرآن بالقر آن کے مدعی ہیں تو لغت یا قرآنی حوالہ جات سے دلائل بھی دے دیتے ، لیکن چوں کہ یہ ان کا محض دعویٰ ہے، جس پر کوئی دلیل نہیں، لہٰذا اس کی تردید کے لیے ہم صرف قرآنی آیات سے تشریح پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

صراط مستقیم کی تشریح قرآن سے
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وان الله ربي وربکم فاعبدوہ، ھذا صراط مستقیم﴾․ ( سورة الزخرف:64)
ترجمہ: اور بے شک الله میرا او رتمہارا رب ہے ، اسی کی عبادت کرو، یہی صراط مستقیم ہے۔

ایک او رمقام میں ہے:﴿دیناً قیما ملةابراہیم حنیفاً﴾․ (سورة الأنعام:161)
ترجمہ: آپ کہہ دیجیے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتلا دیا ہے کہ وہ ایک دین ہے مستحکم، جوطریقہ ہے ابراہیم علیہ السلام کا، جس میں ذرا کجی نہیں۔

ایک اور مقام میں ارشاد فرمایا:
﴿ وان اعبدونی ھذا صراط مستقیم﴾․( سورہٴ یس:61)
ترجمہ: یعنی میری ہی عبادت کرو ، یہی صراط مستقیم ہے۔

ایک اور مقام میں ہے:﴿وأن ھذا صراطی مستقیماً فاتبعوہ﴾․ (سورالأنعام:153)
ترجمہ: یعنی یہ دین میرا راستہ ہے، جو سیدھا ہے، سو اس راستہ پر چلو۔

ان آیات کو بار بار پڑھ کر غور کیجیے کہ کیا اتنی واضح تشریح کے بعد بھی کسی کے لیے گنجائش ہے کہ وہ قرآن پاک کی من مانی تشریحات کر سکے۔ فماذا بعد الحق الا الضلل․

﴿صراط الذین انعمت علیہم﴾․
یعنی ( اے الله ہمیں سیدھی راہ پر چلا) راہ ان لوگوں کی جن پر تونے فضل فرمایا۔

یہ جملہ ”الصراط المستقیم“ سے بدل ہے۔

فضل وانعام سے مراد دین کی نعمت ہے او رمنعم علیہم (جن پر انعام کیا گیا) حضرات انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین ہیں، جیسا کہ ارشاد خدا وندی ہے۔

﴿ومن یطع الله ورسولہ فاولئک مع الذین انعم الله علیہم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین﴾․ (سورة النساء:69)
ترجمہ: او رجو لوگ الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوئے جن پر الله نے انعام فرمایا یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین۔

مطلب یہ ہوا کہ اے الله! ہم کو انبیا ، صدیقین ، شہدا اور صالحین کے راستے پر چلا۔

یہاں اشکال ہوتا ہے کہ عبارت میں اتنی طوالت کیوں اختیار کی گئی کہ پہلے صراط مستقیم مطلق ذکر کیا گیا ، پھر اس کا بدل ذکر کرکے تعیینکی گئی ۔

اختصار کے ساتھ ﴿اھدنا صراط الذین انعمت﴾ بھی تو کہہ سکتے تھے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اسے علیٰ طریق البدل ذکر کرکے یہ تاکید کر دی گئی کہ صراط مسلمین کی تفسیر ”صراط مسلمین“ ( مسلمانوں کا راستہ) ہے ، پس اس سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ یہ آیت مسلمین کے حق میں انتہائی بلیغ اور مؤکد شہادت بن گئی کہ مسلمین کا راستہ ہی سیدھا راستہ ہے۔ ( تفسیر الکشاف، سورہٴ فاتحہ:6)

﴿غیر المضغوب علیہم ولا الضالین﴾․

یعنی جن پر نہ تیرا غصہ ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے ۔صراط مستقیم کو ایجابی طریقے سے متعین کرنے کے بعد سلبی طریقے سے متعین کیا گیا ہے۔

حق سے پھرجانے او رسیدھے راستہ سے ہٹ جانے کی عموماً دو وجہ ہوتی ہیں۔

ایک تو عمل میں کوتاہی، یعنی حق کو پہچانتے ہوئے اس پر عمل نہ کرنا، مغضوب علیہم سے ایسے ہی لوگ مراد ہیں۔ اس کے اولین مصداق یہود ہیں جن کے بارے میں ارشاد ہوا:

﴿وبآؤا بغضب من الله﴾․( سورة البقرة:90)
یعنی وہ لوٹے الله کے غضب کے ساتھ۔

اور دوسری وجہ علم کی کمی ہے یعنی حق کو پہچاننے میں کوتاہی ہو ، ضالین سے ایسے ہی لوگ مراد ہیں ، اس کے اولین مصداق نصاری ہیں۔

جن کے بارے میں ارشاد ہوا:﴿ قد ضلوا من قبل واضلوا کثیرا وضلوا عن سواء السبیل﴾․ ( سورة المائدہ:77)

یعنی وہ لوگ پہلے گمراہ ہو چکے اور کئی لوگوں کو گمراہ کرچکے اور وہ سیدھی راہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔

پس خلاصہ یہ ہوا کہ ہمیں نہ ایسا افراط والا راستہ چاہیے کہ چند خواہشات کی بنا پر احکام شریعت کی خلاف ورزی کر بیٹھیں، جیسے یہود اور نہ ایسی تفریط والا راستہ چاہیے کہ تعظیم کی بنا پر خدا کے مقرب کو عین خدا قرار دے دیں، جیسے نصاری۔

بلکہ ہمیں انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کا راستہ چاہیے، جو افراط وتفریط سے محفوظ ہے۔

احکام
نماز میں سورہٴ فاتحہ کے بعد آہستہ آواز سے آمین کہنا سنت ہے۔ (تبیین الحقائق، کتاب الصلاة:295/1، دارالکتب العلمیہ)

علماء اہل حق کے نزدیک مختار یہی ہے کہ اگر کوئی شخص صحیح مخرج کی ادائیگی پر قادر نہ ہو اور نماز میں ضالین کی جگہ ظالین پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے۔

فتاوی قاضی خان میں ہے کہ اگر کسی شخص میں دو حرفوں کے درمیان جدائی کرنے کی صلاحیت نہ ہو اور وہ دونوں حرف قریب المخرج ہوں، جیسے :ظاء اور ضاد تو اس میں مشائخ کا اختلاف ہے۔

اکثر مشائخ نے فرمایا کہ اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی۔ ( فتاوی قاضی خان مع ہندیہ، کتاب الصلاة :141/1، رشیدیہ)

اسی طرح فتاویٰ بزازیہ میں ہے۔( فتاویٰ برازیہ مع ہندیة، کتاب الصلاة:42/1،رشیدیہ) (جاری)
Flag Counter