تذکرہ ایک عظیم شاگرد کا
متعلم احتشام الحسن
جب حضرت مولانا قاسم نانوتوی نے15 محرم الحرام1283ھ (بمطابق30 مئی1866ء) کو حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی نشان زد کردہ جگہ پر دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی تو سب سے پہلے اس کی تعلیم انار کے درخت کے نیچے سے شروع ہوئی، یہی یہاں کی اولین درس گاہ تھی، جس کے پہلے استاد کا نام محمود او رپہلے شاگرد کا نام بھی محمود تھا۔ جس کو بعد کی دنیا شیخ الہند سے یاد کرتی ہے مولانا محمو دحسن کا یہ لقب اپنے اندر بہت بڑی جامعیت سمیٹے ہوئے ہے، اگر اس پر لکھنا شروع کیا جائے تو صفحات کے صفحات بھرے جاسکتے ہیں لیکن میں یہاں پر ان کا مختصر ساتذکرہ کرتے ہوئے اپنے مقصود کی طرف بڑھتا ہوں ۔ آپ نے تعلیمی زندگی سے فراغت کے بعد جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو دین کے تمام شعبہ جات میں، چاہے سیاست ہو یا جہاد، تدریس ہو یا کہ طریقت، غرض دین کے تمام شعبہ جات میں اپنا لوہا منوایا اور آپ نے اپنی زندگی میں امت محمدیہ کو ایسے افراد مہیا کیے کہ جنہوں نے دنیا کی کایا پلٹ دی اور لاکھوں زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا۔
ویسے تو آپ کاہر شاگرد اپنی مثل آپ ہے، مگر آج میں جس شاگرد کا تذکرہ کرنے چلا ہوں۔ اس نے سیدنا صدیق اکبر کی تاریخ دہرائی جس طرح حضرت ابوبکرصدیق ہر موقع پر حضور صلی الله علیہ وسلم کی شانہ بشانہ رہے اسی طرح وہ بھی ہر موقع پر آپ کے شانہ بشانہ رہا۔ میری مراد شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ہیں۔
آپ کی ولادت باسعادت 19 شوال1396 ھ بمطابق1879ء کی شب گیارہ بجے حضرت مولانا حبیب الله کے گھر پر ہوئی ، جس وقت آپ کے والد بطور اسکول ہیڈ ماسٹر کے ” نگرہ مئیو ضلع اناؤ“ میں بمعہ اہل خانہ رہ رہے تھے، آپ کے والد نے آپ کا تاریخی ”چراغ محمد“ رکھا، لیکن آپ کی شہرت ”حسین احمد“ کے نام سے ہوئی، آپ سید خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور آپ کا حسب ونسب شہید کربلا حضرت حسین سے ملتا ہے، آپ کے چار بھائی اور تین بہنیں تھیں اور آپ اپنے بھائیوں میں درمیانے تھے۔
جب تین سال کے بعد آپ کے والد کی تبدیلی بانگرہ مئیو سے اپنے گاؤں ٹانڈہ میں ہوئی تو وہاں پر آپ نے ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ جب آپ کی عمر بارہ سال ہوئی تو آپ کو اوائل صفر1309ھ کو دارالعلوم بھیج دیا گیا اور آپ نے شعبان1312ھ تک دارالعلوم میں تسلسل کے ساتھ پڑھا، آپ کو دارالعلوم کے ہزاروں فضلا میں سے یہ سعادت حاصل ہے کہ آپ نے علم صرف کی بالکل ابتدائی کتاب ” دستور المبتدی“ استاد العلماء حضرت شیخ الہند سے پڑھی اور دورہ حدیث کی پانچ کتابیں بھی شیخ الہند سے پڑھیں۔
پھر فراغت کے کچھ عرصہ بعد اپنے والد کے ساتھ مدینہ منورہ ہجرت کرکے چلے گئے، انہوں نے جانے سے پہلے حضرت شیخ الہند کے حکم پر حضرت گنگوہی سے اصلاحی تعلق قائم کر لیا تھا، پھر وہاں پر آپ نے سلوک کی تکمیل حضرت حاجی امداد الله مہاجر مکی کے زیر سایہ رہ کر کی اور دو سال کے بعد حضرت گنگوہی نے ہندوستان بلواکر آپ کواجازت وخلافت عطا فرمائی اور ساتھ ہی حضرت مدنی نے حضرت حاجی امدادالله مہاجر مکی کے حکم پر روضہ رسول کے سامنے تدریس شروع کر دی اور پھر آپ کی محنت کی بنا پر الله تعالیٰ نے آپ کے درس کو ایسی مقبولیت عطا فرمائی کہ جب آپ سید العرب والعجم کے روضہ کے سامنے عظمتوں او ربرکتوں بھرا درس دیتے تو بڑے بڑے کامل الفن اساتذہ کے حلقہائے درس مختصر ہو کر رہ جاتے اور شرفائے مدینة الرسول صلی الله علیہ وسلم کی اولاد آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر دیتے تھے۔ یہ سلسلہ1335ھ تک جاری رہا، پھر شیخ الہند نے جب آزادیٴ برصغیر کے لیے ترکی حکومت سے مذاکرات کی غرض سے 1333ھ کو حجاز کا سفر کیا تو وہاں پہنچ کر آپ ہی کی وساطت سے ترکی حکومت سے مذاکرات کیے، مذکرات کے بعد عملی اقدام کے لیے تیاری فرمارہے تھے کہ جنگ عظیم چھڑ گئی تو انگریزوں کی سازش سے آپ کو شیخ الہند اور ان کے رفقاء کے ساتھ قید کر دیا گیا، جب آپ مالٹا میں اسیر تھے تو اس دوران آپ کو ایک دل دہلا دینے والی خبر سنائی گئی کہ آپ کے ضعیف والداور دو بھائیوں کو ترکی حکومت گرفتار کرکے ترکی لے گئی ہے اور پیچھے پردیس میں آپ کی ضعیف والدہ، بہنیں، بھاوجیں او راہل وعیال اکیلے رہ گئے ہیں او ران کی کفالت کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ اس کے باوجود آپ نے اپنے شیخ کی ایسی خدمت کی کہ آج بھی دنیا مثالیں دیتی نظر آتی ہے دوسال اسیری کے بعد جب آپ شیخ کے ساتھ رہا ہوکر 1337ھ کو ہندوستان واپس تشریف لائے تو حالات اور واقعات کا نقشہ بدل چکا تھا۔ آپ جب گرفتار ہوئے تھے تو وطن آباد تھا، خاندان پھلا پھولا ہوا تھا، باپ، بھائی، بھاوجیں، اہل وعیال او رگھر بار اطمینان وعافیت سے آباد تھے، زندگی کا چمن سر سبز وشاداب تھا، اب ساڑھے تین برس کے بعد رہا ہوئے تو وطن الٹ چکا تھا ، گھر اور خاندان اجڑ گیا تھا اور ماں ، باپ او راہل وعیال ختم ہو گئے تھے ۔ چالیس بیالیس سال کی عمر تھی، گھر تھانہ در، نہ خاندان باقی رہا تھا ،نہ اہل وعیال زندہ بچے تھے #
چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا
بہار تھی نہ چمن تھا نہ آشیانہ تھا
اس کے باوجود آپ نے شیخ کی رفاقت کو نہ چھوڑا ۔ آپ نے مدینہ منورہ جانے کی اجازت کئی بار طلب کی، مگر حضرت شیخ نے ” تراجم بخاری شریف“ کی تکمیل کے سلسلے میں ٹھہرادیا۔ جس کی ابتدا اسارت مالٹا کے زمانہ میں حضرت شیخ الہند فرماچکے تھے ۔ پھر کچھ عرصہ حافظ زاہد حسین صاحب کے اصرار پر شیخ الہند نے آپ کو ” امروہہ“ کے مدرسہ عربیہ کی صدر مدرسی کے لیے بھیج دیا او رکچھ عرصہ بعد یہ کہہ کر واپس بلوالیا کہ ” تمہارے بغیر میرا کام کرنا دشوار ہے “۔ وہاں سے واپسی پر آپ نے اپنے آپ کو حضرت کی خدمت کے لیے وقف کر دیا ۔ ابھی واسپی کا کچھ ہی عرصہ گزرا تھاکہ مولانا ابوالکلام آزاد نے کلکتہ میں آل انڈیا قومی مدرسہ، جو سرکاری مدرسہ عالیہ کے مقابل تھا بنانے کے ارادہ اور حضرت شیخ الہند کی سرپرستی کی غرض سے حضرت شیخ کے پاس حاضر ہوئے تو اس وقت شیخ الہند کافی کمزور اور نڈھال ہو چکے تھے تو حضرت نے آپ کو یہ کہتے ہوئے ان کے ساتھ بھیج دیا کہ یہ میری خدمت سے زیادہ اہم مقصد ہے۔
پھر جب آپ جارہے تھے تو شیخ الہند کی کیفیت عجیب ہو رہی تھی، آپ نے حضرت مدنی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے تمام جسم پر پھیرا اور دعائیں دے کر خدا حافظ کہا، حضرت مدنی جانے کے لیے مڑ کر ابھی پانچ دس قدم ہی چلے تھے کہ شیخ الہند نے آپ کو آواز دے کر سینہ سے لگا لیا، سرپر ہاتھ رکھا اور فرمایا ” جاؤ! تم کو الله کے حوالہ کیا“ اس وقت ماحول کی عجیب کیفیت ہو رہی تھی، کیوں نہ ہوتی ؟ کیوں کہ استاذ اور شاگرد کی یہ جدائی تاقیامت ہونے والی تھی۔
ابھی آپ کلکتہ پہنچے ہی تھے کہ آپ کو 18 ربیع الاول1339ھ 30 نومبر1920ء کو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کا ندھلوی کا تار موصول ہوا کہ حضرت شیخ دنیا فانی سے رحلت فرما گئے ہیں ۔ آپ جب واپس پہنچے تو لوگ حضرت شیخ کو دفنا کر واپس آرہے تھے ، آپ کو یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا اور کوئی بھی اس کیفیت اور دکھ کا اندازہ نہیں لگا سکتا جو ایسے جانثار کو اس وقت پیش آئی ہو گی کہ جس نے اپنی اولاد، اپنا خاندان، اپنا آرام، اپنی جوانی جس ذات کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی تھی، نہ تو اس کے آخری غسل میں شریک ہو سکا، نہ تجہیز وتکفین اور نہ ہی جنازہ میں #
پس از گل دور بلبل بہ گلشن جائے افتاد است
بہ آں چشمے کہ گل دید است نتواند خواں دید است
اس کے بعد کلکتہ میں آپ کو کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ دارالعلوم دیوبند کے منتظمین کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا اور حضرت انور شاہ کشمیری ”جوان دنوں مسند صدارت وحدیث کے فرائض سر انجام دے رہے تھے“ اپنے رفقا کے ساتھ استعفا دے کر چلے گئے تو طلباء کی پریشانی دیکھ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اور ان کے رفقا نے مسند صدارت وحدیث کے لیے آپ سے درخواست کی، جس کو آپ نے چند شرائط کے ساتھ قبول فرمالیا اور 1928ء کو مسند صدارت وحدیث پر تشریف لے آئے او راسی کے ساتھ وہ تمام خطرات، انتشار اور اضطراب، جو وقتی طور پیدا ہوئے تھے، ختم ہو گئے اور دارالعلوم کی رونق پھر سے لوٹ آئی اور طلباء دل جمعی کے ساتھ پڑھنے لگے او رحضرت مدنی کا فیض سمیٹنے لگے، باوجود بہت زیادہ سیاسی سرگرمیوں کے کم ہی کوئی موقع آتا کہ چھٹی ہو جاتی ، یہ سلسلہ 29 سال تک چلتا رہا اور اسی درمیان حج اور زیارت مدینہ کے ساتھ او ربھی بہت سے سیاسی اور تبلیغی سفر ہوتے رہے اور اسی طرح اس دوران پاکستان بھی معرض وجود میں آیا او ربہت سے علماء ہجرت کرکے پاکستان چلے آئے، مگر آپ نے اپنے شیخ کی مسند کو نہ چھوڑا ،تادم آخر اسی مسند سے اپنے شیخ کا دیا ہوا سبق دنیا کو دیتے رہے اور علم کے پیاسے آپ سے اپنی پیاس بجھاتے رہے، یہاں تک کہ13 جمادی الاولی1377ھ بمطابق5 دسمبر1957ء بروز جمعرات دوپہر دو بجے کے قریب یہ خبر بجلی بن کر گری اوراہل علم کے قلوب کو چھلنی کر گئی کہ حضرت شیخ العرب والعجم، امام العصر، محدث دوران، قطب وقت، مجدد امت، جانشین شیخ الہند سجادہ نشین قطب عالم مولانا گنگوہی، یادگار حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی، نقیب حضرت حاجی امداد الله مہاجر مکی، نائب رسول الله حضرت ا، مولانا، مرشدنا، شیخنا، سید حسین احمد صاحب مہاجر مدنی رحلت فرما گئے ہیں۔ إنا لله وانا الیہ راجعون۔
آپ کی نماز جنازہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی نے پڑھائی اور رات دوبجے کے قریب آپ کو شیخ الہند کے قدموں میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ او راس طرح آپ نے دنیا سے جاتے جاتے بھی اپنے استاذ کی ایک بات کو ثابت کر دیا۔ جو انہوں نے حضرت مولانا میاں اصغر حسین کو کہی تھی کہ ”تم کہاں کہاں تک ان کی برابری کروگے؟“
اور آپ نے اپنے شیخ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی 81 سالہ زندگی میں امت محمدیہ کو ہزاروں شاگرد اور 128 خلفاء دیے، جو آج بھی دین کی خدمت او رامت محمدیہ کی اصلاح کر رہے ہیں او ربقول حضرت مولانا عبدالحق صاحب کے کہ ”ہندوپاک میں جس قدر دینی مدارس ہیں سب میں حضرت مدنی کے بالواسطہ اور بلا واسطہ شاگرد کام کر رہے ہیں۔“
ماخذ:چراغ محمد(از مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی شاگردرشید حضرت مدنی )