Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1433ھ

ہ رسالہ

8 - 18
 انگریزی اخبارات میں قادیانیوں کی بے جا حمایت
	

محترم محمد متین خالد

المیہ یہ ہے کہ پاکستان ایسی اسلامی نظریاتی مملکت میں بیشتر انگریزی اخبارات ورسائل اسلام اور نظریہٴ پاکستان کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں۔ آج تک ان کے خلاف حکومت یا کسی ادارے نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ یہ لوگ مغرب میں سلمان رشدی او رتسلیمہ نسرین کی غیر معمولی پذیرائی دیکھ کر ایسے مضامین لکھتے ہیں او راس کی آڑ میں بے پناہ مراعات حاصل کرتے ہیں۔ صد حیف کہ ایسے لوگ صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ قادیانی جماعت کے دوسرے خلیفہ مرزا محمود نے 1952ء میں اپنی جماعت کو ہدایت کی تھی کہ ہمارا تنا سب فوج میں دوسرے محکمہ جات سے بہت زیادہ ہے ، لیکن پھر بھی ہمارے حقوق کی حفاظت پوری طرح سے نہیں ہو سکتی۔ اس لیے باقی محکمہ جات پولیس، ریلوے، فنانس، اکاؤنٹس، کسٹمز، انجینئرنگ وغیرہ تمام محکموں میں ہمارے آدمیوں کو جانا چاہیے۔ اس تحریک کو آگے بڑھاتے ہوئے 10 فروری2006ء کو لندن کی قادیانی عبادت گاہ میں قادیانی جماعت کے پانچویں خلیفہ مرزا مسرور نے دنیا بھر کے قادیانیوں کو ہدایت کی کہ وہ صحافت کا شعبہ اپنائیں۔ اس تحریک کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ہاں انگریزی صحافت میں زیادہ تر قادیانیوں کو تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے والی ترمیم واپس لینے ، قانون ناموس رسالت اور حدود قوانین ختم کرنے ، آئین سے قرار داد مقاصد کو کالعدم قرار دینے ، پاکستان کو ایک سیکولر مملکت بنانے، ناچ گانے کو سرکاری سرپرستی دینے، دینی مدارس پر پابندی لگانے، اسرائیل کو تسلیم کرنے ، ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کو قومی ہیرو قرار دینے ، تعلیمی نصاب سے اسلامیات کا مضمون ختم کرنے ، بسنت اور ویلنٹائن ڈے قومی سطح پر منانے ، سکولوں میں فیشن شو کرنے ، نیو ائیر نائٹ منانے ، گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والے لڑکے لڑکی کو قانونی تحفظ دینے، اسقاطِ حمل کی اجازت دینے ، کنڈوم کلچر فروغ دینے، شریعت اسلامیہ کو ناقابل عمل قرار دلوانے، جہاد کو دہشت گردی قرار دینے ، ہم جنس پرستی کو فروغ دینے ، طوائفوں کو جنسی ورکر قرار دینے ، مشترکہ خاندانی نظام کو سبوتاژ کرنے ، شراب پر پابندی ہٹانے، عارضی شادی کی اجازت دینے ، بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی ہٹانے، آئین پاکستان سے اسلامی دفعات ختم کرنے ، صدر اور وزیر اعظم کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ختم کرنے ، مردوں کی دوسری شادی پر پابندی لگانے، پاک بھارت کرنسی ایک کرنے ، ایٹمی پروگرام ختم کرنے ، پاک فوج کے موٹو جہاد، تنظیم ، اتحاد کو تبدیل کرنے کے بارے میں کوئی نہ کوئی اسٹوری یا مضمون شائع نہ ہوا ہو۔

ان میںDaily Express Tribune سب سے پیش پیش ہے ۔ حال ہی میں اس اخبار نے قادیانیوں کی حمایت میں یہ واویلا کیا ہے کہ قادیانی روزنامہ الفضل چناب نگر (ربوہ) کو شعائر اسلامی استعمال کرنے کی اجاز ت نہیں۔ اخبار کا کہنا ہے کہ اگر قادیانی روزنامہ الفضل اسلامی شعائر استعمال کرے تو اس پر مقدمہ درج ہو جاتا ہے، جو کہ سرسرا زیادتی ہے ۔ ایکسپریس ٹرائی بیون کی انتظامیہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ قادیانی اخبارات وجرائد پر شعائر اسلامی استعمال کرنے کی پابندی خود اعلیٰ عدلیہ نے لگائی ہے۔ چناں چہ قادیانیوں کی حمایت میں ان کا واویلا براہ راست توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے، سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود قادیانی مسلسل شعائر استعمال کرتے ہیں۔ غیر مسلم ہونے کے باوجود اپنی عبادت گاہ کو مسجد، مرزا قادیانی کو نبی اور رسول ، مرزا قادیانی کی بیوی کو ام المومنین، مرزا قادیانی کے دوستوں کو صحابہ کرام، قادیان کو مکہ مکرمہ، ربوہ کو مدینہ، مرزا قادیانی کی باتوں کو احادیث مبارکہ، مرزا قادیانی پر اترنے والی نہام نہاد وحی کو قرآن مجید اور محمد رسول الله سے مراد مرزا قادیانی لیتے ہیں ۔ چناں چہ 26 اپریل1984ء کو حکومت نے مسلمانوں کے پُر زور مطالبہ پر امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا، جس میں قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے قانوناً روکا گیا۔ اس آرڈیننس کے نتیجہ میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298/B اور 298/C کے تحت کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا، اپنے مذہب کو اسلام نہیں کہہ سکتا، اپنے مذہب کی تبلیغ وتشہیر نہیں کرسکتا اور شعائر اسلامی وغیرہ استعمال نہیں کرسکتا۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ تین سال قیداو رجرمانہ کی سزا کا مستوجب ہو گا ۔ قادیانیوں نے اپنے خلیفہ مرزا طاہر کے حکم پر آرڈیننس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پورے ملک میں شعائر اسلامی کی توہین کی اور آرڈیننس کے خلاف ایک بھرپور مہم چلائی۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان کے اکثر شہروں میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا ہوئی، قادیانی قیادت نے اس آرڈیننس کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ قادیانیوں پر پابندی بالکل درست ہے۔ اس کے بعد قادیانیوں نے چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس میں چیلنج کیا، یہاں پر بھی عدالتوں نے دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد قرار دیا کہ آرڈیننس بالکل قانون کے مطابق ہے ۔ قادیانیوں کو آئین میں دی گئی اپنی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے شعائر اسلامی استعمال نہیں کرنے چاہییں۔ آخر میں قادیانیوں نے ان تمام فیصلوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ ہمیں آئین کے مطابق آزادی کا حق حاصل ہے ، لیکن ہمیں شعائر اسلامی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ۔ لہٰذا عدالت تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298/B اور 298/C کو کالعدم قرار دے۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اس کیس کی مفصل سماعت کی ۔ دونوں طرف سے دلائل دیے گئے ۔ قادیانیوں کی اصل کتابوں سے متنازعہ ترین حوالہ جات پیش کیے گئے ۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلہ ظہیر الدین بنام سرکار (1993 SCMR 1718) میں قراردیا کہ کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا اور نہ اپنے مذہب ہی کی تبلیغ کر سکتا ہے ۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ سزا او رجرمانے کا مستوجب ہو گا۔ یہ بھی یادرہے کہ یہ جج صاحبان کسی دینی مدرسہ یا اسلامی دارالعلوم کے استاد نہیں تھے، بلکہ انگریزی قانون پڑھے ہوئے تھے۔ ان کا کام آئین وقانون کے تحت انصاف مہیا کرنا ہوتا ہے ۔ فاضل جج صاحبان کا یہ بھی کہنا تھاکہ قادیانی اسلام کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں، جب کہ دھوکہ دینا کسی کا بنیادی حق نہیں ہے اور نہ اس سے کسی کے حقوق یا آزادی ہی سلب ہوتی ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلہ میں لکھا : ” ہر مسلمان کے لیے، جس کا ایمان پختہ ہو ، لازم ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ اپنے بچوں، خاندان، والدین اور دنیا کی ہر محبوب ترین شے سے بڑھ کر پیار کر ے۔ “ ( صحیح بخاری ،کتاب الایمان،باب حب الرسول من الایمان) کیا ایسی صورت میں کوئی کسی مسلمان کو مورد الزام ٹھہر اسکتا ہے۔ اگر وہ ایسا دل آزار مواد جیسا کہ مرزا قادیانی نے تخلیق کیا ہے سننے ، پڑھنے یا دیکھنے کے بعد اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے؟ ”ہمیں اس پس منظر میں قادیانیوں کے صدسالہ جشن کی تقریبات کے موقع پر قادیانیوں کے اعلانیہ رویہ کا تصور کرنا چاہیے اور اس رد عمل کے بارے میں سوچنا چاہیے جس کا اظہار مسلمانوں کی طرف سے ہو سکتا تھا ۔ اس لیے اگر کسی قادیانی کو انتظامیہ کی طرف سے یا قانوناً شعائر اسلام کا اعلانیہ اظہار کرنے یا انہیں پڑھنے کی اجازت دے دی جائے تو یہ اقدام اس کی شکل میں ایک اور ”رشدی“ ( یعنی رسوائے زمانہ گستاخ رسول معلون سلمان رشدی ،جس نے شیطانی آیات نامی کتاب میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی شان میں بے حد توہین کی ) تخلیق کرنے کے مترادف ہو گا۔ کیا اس صورت میں انتظامیہ اور اس کی جان،مال اور آزادی کے تحفظ کی ضمانت دے سکتی ہے او راگر دے سکتی ہے تو کس قیمت پر؟ ردعمل یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی قادیانی سر عام کسی پلے کارڈ ، بیج یا پوسٹر، پر کلمہ کی نمائش کرتا ہے یا دیوار یا نمائشی دروازوں پر جھنڈیوں پر لکھتا ہے یا دوسرے شعائر اسلامی کا استعمال کرتا یا انہیں پڑھتا ہے تو یہ اعلانیہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے نام نامی کی بے حرمتی اور دوسرے انبیائے کرام کے اسمائے گرامی کی توہین کے ساتھ ساتھ مرزا صاحب کا مرتبہ اونچا کرنے کے مترادف ہے، جس سے مسلمان کا مشتعل ہونا اور طیش میں آنا ایک فطری بات ہے اور یہ چیز نقض امن عامہ کا موجب بن سکتی ہے، جس کے نتیجہ میں قادیانیوں کے جان ومال کا نقصان ہو سکتا ہے… ”ہم یہ بھی نہیں سمجھتے کہ قادیانیوں کو اپنی شخصیات، مقامات اورمعمولات کے لیے نئے خطاب، القاب یا نام وضع کرنے میں کسی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آخر کار ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر برادریوں نے بھی تو اپنے بزرگوں کے لیے القاب وخطاب بنا رکھے ہیں اور وہ اپنے تہوار امن وامان کا کوئی مسئلہ یا الجھن پیدا کیے بغیر پُرامن طور پر مناتے ہیں ۔ “ ( ظہیرالدین بنام سرکار(1993 SCMR 1718)

افسوس ہے کہ قادیانی آئین میں دی گئی اپنے حقیقت کو ماننے سے انکاری ہیں ۔ وہ سپریم کوورٹ کے فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کرتے، بلکہ الٹا مسلمانوں کا تمسخر اڑاتے ہیں او رانہیں سرکاری مسلمان ہونے کا طعنہ دیتے ہیں ۔ یہی وہ آئین اور قانون شکنی ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بعض اخبارات ورسائل قادیانیوں کی آئین وقانون شکنی کا نوٹس لینے کے بجائے ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھیے۔
Flag Counter