Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1433ھ

ہ رسالہ

16 - 18
انوکھی شادی کاعبرت ناک حشر
	

مفتی ناصر الدین مظاہری

اترپردیش کے ایک شہرمیں ایک صاحب نے اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی ایک ترقی پذیرملک کے ترقی یافتہ خانوادے کے جنٹلمین سے کرنے میں فخرمحسوس کیا۔فضول خرچی کے جتنے ممکنہ طریقے ہوسکتے تھے سبھی کواستعمال کیا،بارات اورباراتی مہنگی ہوائی کمپنیوں سے کانپورپہنچے، باراتیوں کی شایان شان اسراف کیاگیا،کھانے کانظم بھی ان ہی کے معیارکاکیاگیا، جہیزجوبیٹی کودیا جاتا ہے لیکن یہاں معاملہ کچھ اورنرالاتھا،تمام باراتیوں کو ایک ایک خوبصورت کارسے نوازاگیا، کارگوجہازوں میں لادکربیٹی کوسامان سمیت رخصت کیاگیا۔

شادی کے چنددنوں کے بعدخسرمحترم کودامادنے فون پرخوش خبری سنائی کہ ہم دونوں فلاں تاریخ کولکھنوہوائی اڈہ پہنچ رہے ہیں ،بیٹی اوردامادکے استقبال کے لیے خسرصاحب خودہی خوشی خوشی ہوائی اڈہ پہنچے ،ہوائی جہازآیاصرف بیٹی ایئرپورٹ سے باہرنکلتی نظرآئی ،باپ نے غایت اشتیاق سے دامادکے بارے میں پوچھا اوربیٹی نے غایت تحمل کے ساتھ باپ کے ہاتھوں میں طلاق نامہ تھمادیا۔

وجہ یہ معلوم ہوئی کہ لڑکی والوں نے باراتیوں کانہ توشایان شان استقبال کیااورجہیزکے نام پرجوکچھ دیاگیاہے وہ دامادصاحب کی نظروں میں کباڑسے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔

کیاآپ نے غورکیاکہ اس شادی میں کس چیزکی کمی تھی؟ سچی بات یہ ہے کہ سنت وشریعت کے سوا کسی چیزکی کمی نہیں تھی، کورچشموں کوہمیشہ ایسے مناظرنظرآتے رہے ہیں ،جب جب سنتوں کامذاق اڑایاگیاہے انسانیت نے اپنا سر پیٹاہے، جب کبھی حوا کی بیٹی کو کھلونا بنایا گیا ہے معاشرہ کا ناسور ظاہرہوگیاہے۔

ہم لوگ اصلاح معاشرہ کی اسکیمیں بڑے کروفرکے ساتھ بناتے ہیں اورچندہی مہینوں میں وہ اسکیمیں کاغذی رہ جاتی ہیں۔

مصلحین معاشرہ خوداس سلسلہ میں اصلاح کے پہلوکومدنظرنہیں رکھتے،اپنے بچوں کی شادیوں میں ہورہی فضول خرچیوں کویہ کہہ کرکہ ”یہ توموجودہ دورکے تقاضے ہیں“دل کھول کراسراف کرتے ہیں۔

آج کل کی شادیاں کیاہیں ؟گویاکاروباری معاملہ ہے،بڑھ چڑھ کردولت کی نمائش کی جاتی ہے،فحاشی وبے حیائی کابول بالا ہوتاہے،بے پردگی اورشرم وحیاکوبالائے طاق رکھ دیاجاتاہے ،خوبصورتی اورملبوسات کی نمائش کی جاتی ہے،اپنے سے کم تر کو رُسوا اور ذلیل کیاجاتاہے۔

شادی کے لیے لڑکی کودیکھنے کاچلن بھی عجیب سے عجیب تر ہو گیا ہے ،پہلے تولڑکی والوں کے یہاں جانے کی اطلاع پہنچائی جاتی ہے، لڑکی والے مہمانوں کی آوٴبھگت اورخاطرمدارات کے سوسوجتن کرتے ہیں،ادھرلڑکے والے لڑکی کو کھڑاکرکے چلاتے ہیں اوردیکھناچاہتے ہیں کہ لڑکی لنگڑی تونہیں ہے،ہاتھوں سے کام کرایاجاتاہے کہ لُولی تونہیں ہے،بال کھلوائے جاتے ہیں کہ بال چھوٹے یاسفیدتونہیں ہیں،کانوں میں اذانیں دی جاتی ہیں کہ سماعت متأثرتونہیں ہے،تحریرپڑھنے کوکہاجاتاہے، محض یہ دیکھنے کے لیے کہ آوازبھدی تونہیں ۔

لڑکی کواس قسم کے تکلیف دہ راستوں سے گزارکرعصری تعلیم کے بارے میں پوچھاجاتاہے ،گھریلوکام کاج کے بارے میں سوالات کیے جاتے ہیں ،امورخانہ داری کی بابت سوالات کیے جاتے ہیں، لیکن جوچیزدیکھنی چاہیے تھی اس پرکسی کی توجہ نہیں ہوتی،لڑکی کے کرداروسیرت سے آگاہی حاصل نہیں کی جاتی،لڑکی دین دار اورنمازی ہے یانہیں؟ اس سلسلہ میں کوئی سوال نہیں کیاجاتا،حتیٰ کہ حسب ونسب پربھی دھیان نہیں دیاجاتا۔

شادی کی تاریخ طے ہوتے ہی فضل خرچی کاسلسلہ شروع ہو جاتاہے، تاریخ لکھنے کے لیے سادے کاغذیاسستے کارڈکے بجائے سونے اورچاندی کی طشتریوں پرتاریخیں کندہ کرائی جاتی ہیں،تاریخ کے لیے مہنگے ہوٹلوں کی بکنگ ہوتی ہے،کھانے کے نام پرکھانے ہی کی توہین کی جاتی ہے،سنجیدگی ومتانت کوخیرباد،سادگی کوسلام اور نمود ونمائش کوگلے لگا لیا جاتاہے، ریا اوردکھاوے کے ہرممکن طریقے اختیارکرکے غربت ومفلسی کامذاق ا ڑایاجاتا ہے۔

بعض ظلمت زدہ اوربدعت زدہ علاقوں میں لڑکے والے لڑکی والوں سے کچھ ایسی فرمائشیں کرتے ہیں کہ اگرلڑکی والے مطلوبہ چیزیں یامطلوبہ رقم پوری نہیں کرتے تورشتہ توڑدینے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں، برادری میں ذلیل ورسواکرنے کی بات کی جاتی ہے ،عرف عام میں اس ”بھیک“کوتلک وغیرہ کہاجاتاہے، جوغیراسلامی مشرکانہ رسم ہے۔

شادی کی تاریخ طے ہوتے ہی امیرگھرانوں میں لڑکے اورلڑکی کے درمیان حائل پردہ کونہ صرف ختم کرادیا جاتا ہے، بلکہ لڑکے سے کہاجاتاہے کہ اپنی ہونے والی بیوی کوکہیں سیروسیاحت کے لیے لے جاوٴ،تاکہ ایک دوسرے کامزاج سمجھ سکیں اورآنے والی زندگی کوخوش گواراندازمیں چلانے کالائحہ عمل طے کرسکیں۔

کیسی شرم وحیا،کیسی عفت وعصمت،کہاں کی تہذیب اورکیسی اسلامی ومشرقی تہذیب!! سب چیزوں کاجنازہ نکال دیاگیاہے۔

شریعت کی تعلیمات کو دقیانوسی کہہ دیا گیا،اسلامی احکامات کوفرسودہ خیالی سے تعبیرکیاگیا،قرآنی ہدایات کوگئے گزرے وقتوں کی کہانی بتایاگیا،لیکن آج ہم جس تمدن اورمعاشرت میں جی رہے ہیں وہاں نہ توعفت وعصمت محفوظ رہی، نہ ہی حیااورشرافت کانام ونشان باقی رہا،اگراسلام کہے کہ لڑکی بارہ سال کی ہوجائے تواس کے والدین کوچاہیے کہ شادی کردیں تواُسے ایک مدعابنا لیاجاتاہے اورمختلف اعتراضات شروع کردیے جاتے ہیں، لیکن جب نفس واقعہ اور اصل تصویر سامنے آتی ہے توپھراسلام اوراسلامی تعلیمات کی خوبیاں نظروں کے سامنے آجاتی ہیں۔

شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنی نے اپنی تمام بچیوں کے نکاح جس سادگی کے ساتھ کیے وہ سادگی ہمارے لیے قابل تقلیدہے ،کسی بھی بچی کے نکاح کے موقع پرنہ تودعوت نامے شائع ہوئے، نہ ہی بارات کی مروجہ رسوم کی نوبت آئی ،نہ ہی بھیڑبھاڑجمع کی گئی،مہمانوں کی ضیافت کے لیے دیگیں نہیں کھنکیں،سارے مراحل اس طرح انجام تک پہنچے کہ قرب وجوارکے مخصوصین کوبھی بعدمیں پتہ چلاکہ حضرت کی فلاں صاحب زادی فلاں صاحب کے ساتھ فلاں تاریخ کومنسوب ہوگئی۔

حضرت شیخ الحدیث کے ایک خادم حضرت مولاناحبیب اللہ مظاہری چمپارنی مدظلہ مقیم مدینہ منورہ کی خدمت میں لندن کے دوبڑے تاجرحاضرہوئے اورعرض کیاکہ ہم لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کانکاح پڑھادیں؟مولانانے فرمایاسعودی حکومت کاقانون ہے کہ نکاح کامحکمہ شرعیہ میں اندراج ہوتاہے اوروہاں کاقاضی نکاح پڑھاکرسندنکاح دیتاہے !انہوں نے کہاکہ ہمیں سرکاری قاضی کی ضرورت ہے نہ ہی ہمیں ان سے سندنکاح حاصل کرنے کی حاجت ،ہم لوگ تویہ سوچ کراپنے بچوں کوساتھ لائے ہیں کہ کسی عالم دین سے سادگی کے ساتھ نکاح کرادیں گے اورلندن کے مہنگے ہوٹلوں میں شادی کے اندر جوفضول اخراجات ہوتے ہیں ان اخراجات سے ہم ہندوستان کی پچاس بچیوں کی شادیاں کرادیں گے،چناں چہ حضرت مولانانے نکاح پڑھادیا۔(دعوة الصدق)

لیکن آج شادی کی تیاریاں،بے جارسوم،بارات اورباراتیوں کی عیاشیاں،کھانے پینے کے لوازمات اوران کی ناقدری،کثیرمہر،نام ونمودکاشاہ کارولیمہ، جس کے ساتھ ”مسنونہ“لکھ کر گویا سنت نبوی کا تمسخر اور مذاق اڑایاجاتاہے، جہیز اورتلک، غرض تقریباً سبھی چیزوں میں سنت نبوی اوراسوہٴ رسول کادوردورتک پتہ نہیں ہوتا۔

آج لڑکے والوں کی حریصانہ نظریں دوسروں کے مال ودولت پرہیں،لڑکی کیسی ہی ہو،دین اوردین داری سے دوردورتک تعلق نہ ہو،اللہ اوررسول اللہ کے نام تک سے ناواقف ہو،لڑکی والے بھلے ہی اسلام اوراسلامی تعلیمات کامذاق اڑاتے پھریں، لیکن جہیزکی کثرت ،باراتیوں کی آوٴ بھگت اورخاطرتواضع ہی معیارشادی بن چکاہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضول خرچی اورنام ونمودکی جو قباحتیں ارشادفرمائی ہیں اور شادی بیاہ کے سلسلہ میں جو راہ نما ہدایات ارشادفرمائی ہیں جب تک ہم ان پرعمل پیرارہیں گے قوم کاسرفخرسے بلندرہے گااورجب ہم سنت سے کنارہ کشی اختیارکرلیں گے توقدم قدم پرشرم وندامت اورخجلت وشرمندگی سے ہماراسرجھکتارہے گا۔
        درمیان قعر دریا تختہ بندم کردئی
        باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش
Flag Counter