کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
ڈیری فارم کی بھینسوں پر زکوٰة ہے یا نہیں ؟
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ دین وشرع متین اس مسئلے کے بارے میں؟
ایک آدمی اپنے ماہانہ گھریلو اخراجات پورے کرنے یک لیے دودھ کا کاروبار کرنا چاہتا ہے، جس کے لیے بھینسیں خرید کر ایک باڑہ بنایا جائے گا۔ اور پھر ان بھینسوں کا دودھ فروخت کیا جائے گا۔ اس صورتِ حال میں زکوٰة کا نظام، حساب اور طریقہٴ کار کیا ہو گا؟ برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی اور قرآن وحدیث کی دلیل کے ساتھ جواب دیجیے۔
جواب… واضح رہے کہ فقہاء کرام نے جانوروں میں زکوٰة کے وجوب کی جو شرط لگائی ہے وہ ہے جانوروں کا ”سائمہ“ ہونا یعنی ایسے جانور جو سال بھر یا سال کا اکثر حصہ چراہ گاہ میں چرتے ہوں، ان کے لیے چارہ خرید کر نہ لانا پڑے اور اگر ایسے جانور ہوں جن کے لیے گھاس ، بھوسہ وغیرہ خریدا جائے تو ایسے جانوروں میں زکوٰة واجب نہیں۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ نے جوباڑہ بنایا ہے اور جانور خریدے ہیں دودھ کے کاروبار کے لیے تو ایسے جانوروں میں زکوٰة نہیں ہے، البتہ آپ جو دودھ کا کاروبار کرتے ہیں اس دودھ کی کمائی پر زکوٰة واجب ہو گی بشرطیکہ اس کمائی پر سال گزر جائے اور وہ کمائی بقدر نصاب ہو…
نیز دودھ کی کمائی کے علاوہ اگر آپ کے پاس سونا، چاندی یا نقدی میں سے بھی کچھ مالیت ہے ، تو سب کو ملا کر نصاب کو مکمل کیا جائے گا پھر اسی حساب سے کل مالیت کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فی صد زکوٰة ادا کی جائے۔
عدت وفات سے متعلق چند ضروری احکام
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان دین متین مندرجہ ذیل مسائل میں؟
1. وہ عورت جس کا خاوند انتقال کر جائے اور وہ بوڑھی ہے وہ کس طرح کا لباس زیب تن کر سکتی ہے ؟ کیا وہ قیمتی کپڑے پہن سکتی ہے ، یا صرف سفید کپڑے ہی پہنے گی کیا وہ زیور پہن سکتی ہے، کیا وہ سرمہ اور بالوں میں تیل لگا سکتی ہے، کیا وہ مہندی لگا سکتی ہے؟
2. مندرجہ بالا سوالات کا حکم اور وہ عورت جس کا خاوند انتقال کر جائے اور وہ نوجوان ہو کیا ہے؟
3. معتدة الوفاةنے جو زیورات خاوند کے انتقال سے پہلے پہنے ہوئے تھے اور وہ اس کا معمول تھا، کیا خاوند کے انتقال کے بعد اُن کو اتار دے گی؟
4. معتدة الوفاة پہلے تو پردہ نہ کرتی تھی کیا خاوند کے انتقال کے بعد اس پر ہر ایک سے پردہ لازم اور ضروری ہو جاتا ہے اس حدتک کہ نہ کرنے پر طعن وتشنیع کی مستحق قرار پائے۔
5. کیا معتدة الوفات عدت میں اپنے بھائی کو چھوڑنے جو کہ غیر ملک جارہا ہو غیر معینہ مدت کے لیے ائیرپورٹ جاسکتی ہے ؟
6. اگر وہ جانے پر مصر ہو اور دل پر قابو نہ ہو تو اس صورت میں چھوڑنے جاسکتی ہے؟
جواب…2،1 صورت مسئولہ میں عورت بوڑھی ہو یا نوجوان، عدت کے اند راس پر سوگ لازم ہے، جس میں اس کے لیے ایسا لباس زیب تن کرنا جائز نہیں، جو باعث زینت ہو ، لہٰذا اگر قیمتی کپڑے ایسے ہوں کہ اس کا استعمال زیب وزینت کا باعث ہے تو ایسے کپڑوں کو اس کے لیے پہننا جائز نہیں او راگر اس میں زیب وزینت نہ ہو تو جائز ہے ۔ اسی طرح اس کے لیے زیورات پہننا، سرمہ لگانا، تیل لگانا، او ر مہندی لگانا یہ سب امور ناجائز ہیں ، البتہ اگر سر میں درد ہو یا آنکھ میں تکلیف ہو تو بطور علاج تیل اور سرمہ استعمال کر سکتی ہے ، نہ کہ بطور زینت۔
3. زیورات پہنے رکھنا زیب وزینت ہے ، لہٰذا جو زیورات شوہر کے انتقال سے پہلے پہنے ہوئے تھی، عدت میں اس کا اتارنا بھی لازم ہے۔
4. نامحرم سے پردہ لازم اور ضروری ہے ،چاہے عدت کے اندرہو، یا عدت سے پہلیہویا بعد میں ہو ، بہرحال پردہ کرنا ضروری ہے، البتہ جس نامحرم سے عدت سے پہلے پردہ نہیں کرتی تھی، تب بھی عدت کے اند ران سے پردہ کرنا لازم ہے اور نہ کرنے پر گناہ گار ہو گی۔
6،5 معتدة الوفات کے لیے بغیر ضرورت شدیدہ کے گھر سے نکلنا جائز نہیں، بھائی کو چھوڑنے کے لیے ائرپورٹ جانا ایسی ضرورت نہیں، جس کی وجہ سے اس کو گھر سے نکلنے کی اجازت دی جائے، لہٰذا اس کو نرمی سے مسئلہ سمجھا کر گھر سے نہ نکلنے پر آمادہ کیا جائے۔
جسم کے زائد بالوں کے کاٹنے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ زیر ناف بالوں کے کاٹنے کی حد کہاں تک ہے بدن کے کون کون سے بالوں کا کا ٹنا جائز یا واجب ہے؟ او رکون سے ناجائز اور مکروہ ہیں ؟ تفصیل سے ذکر کریں۔
جواب… مرد وعورت کے لیے اپنی شرم گاہ او رجائے پاخانے اوران کے ارد گرد کے بال کاٹنا ، اسی طرح موئے زیر بغل کاٹنا، مونچھوں کے کاٹنے میں مبالغہ کرنا سنت ہے ، ہفتے میں ایک بار کاٹنا مستحب ہے،اگر ہر ہفتے نہ کاٹ سکے تو پندرہ دن کے بعد کاٹے ، زیادہ سے زیادہ چالیس دن کے بعد نہ کاٹنے سے گناہ گار ہو گا مرد کے لیے ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے ، اس سے کم کروانا یا منڈوانا ناجائز وحرام ہے ، سر کے بالوں کو منڈوانا اور سنت کے مطابق چھوڑنا دونوں جائز ہیں مگر بعض بالوں کو کٹوانا او ربعض کو چھوڑنا منع ہے اس کے علاوہ پیٹھ اور سینے کے بال کا ٹنا بھی جائز ہے مگر خلاف اولیٰ ہے اور سفید بالوں کا نوچنا مکروہ ہے۔
عورت کے لیے سر کے بال منڈوانا ناجائز ہے ، اگر عورت کی داڑھی یا مونچھیں نکل آئیں تو ان کا کاٹنا مستحب ہے اور ابرووں کو باریک کرنا عورت کے لیے جائز نہیں، بلکہ ایسی عورت پر الله اور اس رسول صلی الله علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔
کام کے بغیر اجرت لینا
سوال… جناب مفتی صاحب میں ایک پیچیدہ مسئلہ دریافت کررہا ہوں آپ دین اسلام کی روشنی میں اسکا جواب دے کر ہمیں سیدھی راہ دکھائیں ،اس میں ہمارے کئی بھائی تشویش میں مبتلا ہیں۔
مسئلہ:میرا تعلق پاکستان بحریہ کے غوطہ خور محکمہ سے ہے ہمیں پاکستان بحریہ ایک معقول تنخواہ دیتی ہے، علاوہ ازیں اگر ہم غوطہ خوری کریں تو ہمیں ایک گھنٹے کے 27 روپیہ اضافی ملتے ہیں، غوطہ خوری کی یہ قیمت اندازاً1797 یا 80 کی دہائی کی ہے اس دوران ہمارے محکمے نے بحریہ ہیڈکوارٹر کوکئی خطوط ارسال کیے کہ اس قیمت پر نظر ثانی کی جائے لیکن جواب ندارد، اب میں اصل مسئلہ کی طرف آتا ہوں؟
ہماری وردی ، جوتے اور دیگر لوازمات اس قابل نہیں کہ ہم اس کو صحیح طریقے سے استعمال کر سکیں اس کے علاوہ جنگی لحاظ سے بھی درکار ضروری چیزیں ہمیں محکمہ مہیا نہیں کرتا، تو ہم نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ ہم نے غوطہ خوری کا ماہانہ بل تقریباً8 ہزار تک بنایا جس میں سے 2 ہزار روپیہ ہم اپنی یونٹ کو جمع کرواتے ہیں او رباقی اپنے استعمال میں لاتے ہیں اب یہ جو 8 ہزار روپیہ ہم لیتے ہیں تو اس کے لیے ہم غوطہ خوری کا ماہانہ بل بناتے ہیں جس میں ہم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم نے اتنی رقم کی غوطہ خوری کی ہے ، لیکن درحقیقت ہم نے یہ کام کیا نہیں اور اس بات کا علم ہمارے بالا حکام کو بھی ہے او ران کی اجازت، سرپرستی او ردستخط سے یہ کام ہوتا ہے اس رقم سے یونٹ اپنے کام بھی چلاتی ہے اور ہم بھی اپنے لیے فوجی سازوسامان خریدتے ہیں او راس بل کو پاس کروانے کے لیے ہم رشوت بھی دیتے ہیں۔
اب آپ سے یہ درخواست ہے کہ آیا یہ رقم ہمارے لیے جائز ہے یا ناجائز ہے او رکیا یونٹ اپنے وہ کام جو بحریہ ہیڈکوارٹر کے فرض میں شامل ہے کہ وہ کروائے کیا ہم کرواسکتے ہیں کیا ہم اس رقم سے اپنی وردی ،جوتے، بیلٹ، ٹوپی اور دیگر سامان خرید سکتے ہیں او رکیا ہم اس کو ذاتی مصرف میں لاسکتے ہیں ۔
جواب…صورت مسئولہ میں غوطہ خوری کا عمل کیے بغیر اس کی اجرت لینا جائز نہیں او رجو کام بحریہ ہیڈ کوارٹر کے ذمے نہیں ان کاموں کو یونٹ والوں کا ناجائز طریقے سے پورا کرنا جائز نہیں، بلکہ ہیڈ کوارٹر والوں کے ذریعے ہی ان کاموں کو پورا کرنا چاہیے، اسی طرح آپ یہ رقم اپنے ذاتی مصرف میں بھی خرچ نہیں کرسکتے۔
نابالغ بچوں اور عورت کی خرید وفروخت کا کیا حکم ہے؟
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عورتوں او رنابالغ بچوں سے لین دین سے متعلق کیا حکم ہے؟ دکان پر خریداری کے لیے آئیں یا جب ان سے کوئی چیز خریدی جائے یا جب کوئی عورت بغیر محرم کے ٹیکسی پر سوار ہو تو، ٹیکسی یا بڑی گاڑی والے کا کیاحکم ہے؟
جواب…واضح رہے کہ اگر نابالغ عاقل بچہ گھر سے ایسی چیز خریدنے یا فروخت کرنے آئے جو عادةً گھر والے خریدتے یا فروخت کرتے ہیں، تو اس سے خرید وفروخت کرنا جائز ہے، اگر بچہ کوئی ایسی چیز خریدے یا فروخت کرے جس کے خریدنے یا فروخت کرنے کی گھر والوں کی طرف سے اجازت نہیں ہوتی ، تو اس سے خریدنا یا فروخت کرنا مکروہ ہے ، اس کی بیع ولی کی اجازت پر موقوف ہو گی۔
عورت کا بغیر کسی حاجت کے گھر سے باہر نکلنا اور بغیر محرم کے سفر کرنا شریعت میں منع ہے ، شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے عورت کا خرید وفروخت کرنا جائز ہے ، ڈرائیور کا اجنبیہ عورت کے ساتھ خلوت کرنا جائز نہیں، اگر گاڑی میں عورت کے علاوہ اور سواریاں بھی موجود ہوں تو اس سے خلوت بالأجنبیہ لازم نہیں آتی، لہٰذا اس صورت میں ڈرائیور گناہ گار نہیں ہو گا۔
والد اور اولاد کا ایک دوسرے سے قطع تعلق کرنے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں:
میری ساس کا انتقال ہوا اور پانچ بچے چھوڑے جن میں چھوٹی بچی غیر شادی شدہ ہے، وفات کے دو سال بعد تک بھی اس کی شادی میں تاخیر ہوئی، اسی دوران میرے سسر نے دوسری شادی کی خواہش اپنے بچوں کے سامنے ظاہر کی، لیکن بچوں نے مخالفت کی کہ پہلے ہماری چھوٹی بہن کی شادی کروا دو پھر جو کرنا ہے کرو بہرحال سسر نے شادی کر لی اور بچے مکمل مخالف ہو گئے، تعلقات ختم کر دیے اور دوسرے گھر کی تلاش میں ہیں البتہ سسر کی شادی کے بعد چھوٹی سالی کی بات طے ہو گئی مگر والدنے اپنے بچوں کی خود سری کی وجہ سے ان کے تمام معاملات سے کنارہ کشی اختیار کر لی ،لہٰذا سالی کی شادی خاندان والوں نے کروائی، ان حالات کے پیش نظر چند سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں۔
اگرجوان بچی گھر پر ہو تو باپ دوسری شادی کرسکتا ہے ؟ اور دوسری شادی کی وجہ سے کیا اولاد کا باپ اور سوتیلی ماں کو چھوڑنا عندالله قابل مواخذہ جرم ہے؟
جب باپ نے دوسری شادی کر لی تو بچوں کا باپ کوچھوڑنا اور سوتیلی ماں سے تعلق نہ رکھنا او ربُرے القابات سے پکارنا کیسا ہے اور بچوں کی اس نافرمانی پر باپ کا بچوں سے لاتعلق کرنا والد کے لیے جائز ہے یا نہیں؟
اپنی ماں کے انتقال کے بعد بچے اپنی ماں کے جہیز کا سامان باپ سے پوچھے بغیر لے جاسکتے ہیں یا نہیں؟ اسی طرح دیگر ضروری سامان والد کی اجازت کے بغیر لے جانے کی اجازت ہے یانہیں؟
کیا اس والد کی بیٹی جو شادی شدہ ہے ان کا اپنے شوہر سے کہنا کہ اب وہ بھی ہمارے والد سے کوئی تعلق نہ رکھے کس حدتک درست ہے؟
والد بچوں سے اس قدر ناراض ہو کہ بچوں کو اپنے جنازے میں شرکت سے منع کرے اور میت کو کندھا دینے سے بھی، کیا یہ عمل درست ہے یا نہیں؟
جواب… واضح رہے کہ جوان بیٹی کی شادی کرانے کی ذمہ داری بھی اگرچہ باپ پر ہے، لیکن اس کے باوجود اس کی شادی کرانے سے پہلے باپ کے لیے دوسری شادی کرنا بھی جائز اور درست ہے اور اس وجہ سے اولاد کا باپ کو چھوڑ کر ان سے تعلقات ختم کر دینا ناجائزاو رگناہ کبیرہ ہے۔
والد صاحب کا ادب واحترام کرنا او ران کے جائز مقاصد میں ان کے حکم کی تعمیل کرنا لازم اور ضروری ہے، ان کی نافرمانی او رگستاخی کرنا اور ان کو تکلیف دینا ناجائز اور سخت گناہ ہے ،تباہی وبربادی کا باعث ہے ، اسی طرح ان سے تعلقات ختم کرنا بھی ناجائز او رگنا ہے ، بڑی بدبختی اور بدقسمتی ہے ، لہٰذا صورت مذکورہ میں اولاد پر لازم اور ضروری ہے کہ وہ اپنے والد سے معافی مانگیں اور ان کو راضی کریں اور الله تعالیٰ سے بھی اپنے اس کیے پر توبہ واستغفار کریں ورنہ آخرت کا عذاب بہت سخت ہے اور دنیا میں بھی اس کے بھیانک نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ نیز والد صاحب اگر کبھی کوئی سخت بات کہہ دیں تو خاموشی اور صبر کرتے ہوئے اس کو برادشت کیا جائے او ران کو جواب نہ دیا جائے او راگر ان کو کوئی بات سمجھانی ہو تو ادب واحترام کے ساتھ نرم لہجے میں سمجھائی جائے، تلخ کلامی اور تُرش روئی سے مکمل اجتناب کیا جائے۔
اولاد کی نافرمانی او رگستاخی پر والد کے لیے بطور اصلاح ان سے قطع تعلقی کرنا جائز ہے ، لیکن جب وہ اس سے باز آجائیں اور معذرت کریں ، تو یہ قطع تعلقی ختم کر دینی چاہیے۔
ماں کا مکمل ترکہ وجہیز وغیرہ جتنا ہے اس میں سے تجہیز وتکفین کا درمیانی خرچ نکالنے کے بعد اورقرضے(اگرہیں) تو ان کی ادائیگی کے بعد بقیہ ترکہ کے ایک تہائی حصے سے جائز وصیت (اگر کی ہے) پوری کرنے کے بعد بقیہ ترکہ کو ماں کے تمام ورثاء پر ان کی شرعی حصص کے مطابق تقسیم کرنا لازم ہے ، باپ اور دیگر ورثاء کا جتنا حصہ بنتا ہے وہ ان کو دینا ضروری ہے ، کسی ایک وارث کو اس کا حصہ نہ دینا ظلم اور سخت گناہ ہے ۔ نیز دیگر ضروری سامان جو باپ کی ملکیت ہیں ، ان کے اجازت کے بغیر اس کو لے جانا جائز نہیں ہے۔
بیوی کا شوہر کو یہ کہنا جائز نہیں ہے، لہٰذا شوہر کو چاہیے کہ وہ ان سے اسی طرح تعلقات رکھے جس طرح پہلے رکھتا تھا۔
واضح رہے کہ والد صاحب کا ناراض ہو کر اولاد کو اپنے جنازے میں شرکت کرنے اور میت کو کندھا دینے سے منع کرنا صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ یہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر شریعت کی طرف سے مقرر کردہ حقوق ہیں جن کے ساقط کرنے کا بندے کو اختیار نہیں ہے ، لہٰذا باپ کے منع کرنے کے باوجود بیٹوں کے لیے جنازے میں شرکت کرنا اور میت کو کندھا دینا جائز ہے ۔ تاہم والد صاحب کا اس سے منع کرنا ان کی انتہائی ناراضگی اور خفگی پر دلالت کرتا ہے جو کہ اولاد کے لیے نہایت خطرناک ہے، اس لیے ان پر لازم ہے کہ وہ فوراً والد صاحب سے معافی مانگ کر ان کو راضی کریں اور آئندہ ایسا موقع ہر گز نہ آنے دیں۔
الله تعالیٰ ہمیں شرعی احکام پر مکمل عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین