Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1433ھ

ہ رسالہ

2 - 18
 شاعرِ رسول سے مدحتِ رسول ؐ سیکھیے!
	

مولانا محمد وصی فصیح بٹ

شاعری کیا ہے؟
یہ حقیقت ہے کہ شاعری کی بنیاد خیالات ہوتے ہیں او رخیالات مشاہدہ سے زیادہ فکر اور شعور سے تعلق رکھتے ہیں ، اسی فکر کی بلندی اور شعور کی گہرائی سے جنم لینے والے نئے خیالات کو مخصوص قواعد کے مطابق ہم قافیہ الفاظ کی صورت میں پیش کرنا ہی شاعری ہے۔ (تاریخ الادب العربی ص:25)
یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جن اشخاص نے جتنے بلند خیالات کو شاعرانہ لباس مہیا کیا، تاریخ نے انہیں شعرا کی صف میں اتنا ہی بلند قد عطا کیا کہ #
میرے اشعار کا رتبہ جہاں میں اعلیٰ ٹھہرا ہے
”نتیجہ فکر“ میرا سمندر سے بھی گہرا ہے
اشعار کا معیار
جس طر ح پھلوں کے چھلکے جتنے بھی دیدہ زیب اور جاذبِ نظر ہوں ،کھانے والوں کا منظورِ نظر تو ان کا اندرونی مواد ہی ہوتا ہے ، اسی طرح کلام جتنے بھی قافیہ بندی کے تقاضے پورے کر لے ، سننے والوں کے لیے دلچسپی کا سامان تو اس کے ان مول اور تیکھے خیالات ہی ہوا کرتے ہیں۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بھی اشعار کی تعریف ان کے پر حکمت مضامین کی وجہ سے فرمائی اور فرمایا: ”ان من الشعر حکمة“ ( صحیح بخاری ، رقم:5679)
”بعض اشعار حکمت بھرے ہوتے ہیں۔“
اس سلسلے میں حضرت عبدالله بن عمر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ ”شعر تو ایک کلام ہے، اگر اس کا مضمون اچھا ہے تو شعر بھی اچھا ہے او رمضمون برا ہے تو شعر بھی برا ہے ۔“ ( الجامع الصغیر، حرف الشین، الرقم:494)
اسی حقیقت کو شاعرِ دربارِ رسول حضرت حسان بن ثابت ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں #
        انما الشعر لب المرء یعرضہ
        علی المجالس ان کیساً وان حمقاً
ترجمہ:” شعر آدمی کی فکر کا نتیجہ ہوتے ہیں، جسے وہ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے ، سمجھ دار ہو تو اس کی دانش مندی نمایاں ہوتی ہے ، اگر بے وقوف ہو تو اس کی نادانی کا پتہ چلتا ہے۔“
ذمہ داری کا احساس
شاعری کو دیگر تمام ادبی صنعتوں میں منفرد مقام حاصل ہے ، وجہ یہی ہے کہ اشعار کے مترنم اوزان اور نہایت مشابہ الفاظ سامعین کے دلی جذبات کو اپنے سحر میں ایسے جکڑ لیتے ہیں کہ تلخ حقائق، خشک موضوعات اور واعظانہ نصائح ان کے ذریعے بآسانی دماغ کے لاشعور میں بیٹھتے چلے جاتے ہیں ۔ روزہ مرہ کے مشاہدہ میں اس کی قریب ترین مثال کیپسول سے دی جاسکتی ہے کہ اس کا ظاہری کور (Cover) اندرونی تلخی کو چھپا کر کڑوی دوائی غیر محسوس طریقے سے جسم کے رگ وپے میں پہنچا دیتا ہے ۔ اشعار کی یہی الفاظ کی جھلملاہٹ، اسلوب کی نیرنگی اور قافیوں کی مشابہت ہی تو ہے جو نوجوانوں کو سن رسیدہ شعرا کے قریب کر دیتی ہے۔ اس سے شعرا کی ذمہ داری میں یقیناً اضافہ ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی اسی خداداد صلاحیت کے ذریعہ قوم کے ان معماروں کا رخ سیدھے راستے او رحقیقی منزل کی طرف موڑتے ہیں یا انہیں الفاظ وزباں کے نشے میں ایسا دھت کر دیتے ہیں ، جس کا نقشہ قرآن کریم نے ان الفاظ میں کھینچا ہے:﴿والشعراء یتبعھم الغاوون، الم ترانھم فی کل وادیھیمون، وانھم یقولون مالا یفعلون﴾․ ( الشعراء:224 تا226)
ترجمہ: ” رہے شاعر لوگ تو ان کے پیچھے توبے راہ لوگ چلتے ہیں ، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور یہ کہ وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں ہیں۔“
نتیجہ ٴ فکر
ان تمہیدی گزارشات کا حاصل یہ ہے کہ :
الف: شاعری بلند خیالات کو مخصوص پرکشش صورت میں یپش کرنے کا نام ہے۔
ب: خیالات ونظریات ہی اشعار کا جوہر ہوتے ہیں ، اس لیے اسلام میں اشعار کے جائز وناجائز ہونے کا مدار ان کے مضمون کو بنایا گیا ہے۔
ج: اشعار کی ظاہری مخصوص ساخت، مسحور کن ترنم اور دل کو چھو لینے والی قافیہ بندی ان کے مضامین کی طرف سامعین کے دل ودماغ کو کھینچ لیتی ہیں، اس لیے کسی قوم کی ذہنی تعمیر وتخریب میں شعرا کا کردار اہم ہوتا ہے۔
اردو نعت گو شعراء کی بے اعتدالیاں
نعت بھی ایک شعری صنف ہے ، اس لیے اس میں بھی درج بالا ترجیحات کا بھرپور اہتمام ہونا چاہیے۔ مزید براں توصیفِ محبوبِ دو جہاں صلی الله علیہ وسلم کے مضمون پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اسے جو مقامِ تقدس حاصل ہے ، اس کا بھی تقاضا ہے کہ اس میں اشعار کومکمل اسلامی سانچے میں ڈھال کر پیش کیا جائے ۔ لیکن جب عصر حاضر کے بعض نعتیہ کلاموں اور خیر القرون کے نعتیہ مجموعوں کا تقابلی جائزہ لیا جاتا ہے تو ہر دو کے مضامین میں ایک فکری دوری اور شعوری فرق نمایاں نظر آتا ہے۔ مثلاً:
الف: عہدِ رسالت کے شعرا مدحتِ رسول میں اطاعتِ رسول کی دعوت بھی دیا کرتے تھے ، جب کہ آج کل کی نعتیہ شاعری عموماً اس زاویے سے بالکل محروم ہے۔
ب: ماضی کا شاعر حضور پر نور صلی الله علیہ وسلم کے بلند اخلاق اورعمدہ معمولات کو یوں ترغیبی انداز میں پیش کرتا تھا کہ سامعین ان محاسن سے خود کو مزین کرنے کا عزمِ مصمم لے کر اٹھتے ، اس کے برعکس ہمارے عہد کے اکثر شعرا سرکارِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی صفات کو وہ مافوق البشر رخ عطا کرتے ہیں کہ حاضرین کے دل میں عش عش کرنے کے سوا عمل کا کوئی جذبہ ہی نہیں ابھرتا۔
ج: بعض جدید نعتیہ کلاموں میں رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم کی رحمت کا مظاہرہ کفار سے نرمی اور مداہنت سے قریب رواداری کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے ، جب کہ قدیم نعتوں میں رحمت کا صحیح معنی سطح زمین سے امن دشمن عناصر کا خاتمہ بیان کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان اشعار میں خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم کو میدانِ جہاد میں مصروفِ قتال بھی دکھایا جاتا تھا۔
د: قاری حیران ہو جاتا ہے کہ ایک طرف تو صحابہ کرام نعتوں کے ذریعے توحید کا درس دیتے تھے ، رب العزت کی ذات وصفات میں یکتائی اور وحدانیت کے اظہار کو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کا مقصدِ اصلی قرار دیا کرتے تھے ۔ دوسری طرف بعض اردو نعت گو شعرا نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو غائبانہ پکارنے، ہر طرح کی حاجات میں ان سے مدد طلب کرنے کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔
ر: ادب کا طالب علم قدیم نعتوں میں گناہوں کے دنیوی نقصانات او راخروی عذابات کے تذکرے سے اپنے اندر توبہ کی پکار سنتا ہے ، جب کہ جدید نعتوں میں شفاعتِ رسول کا اسلامی عقیدہ اس مبالغہ آمیز طرز میں پیش ہوتا ہے کہ عوام عشقِ رسول کے چند نعرے لگا کر کامل نجات کا یقین کر لیتے ہیں۔
حضرت حسان کے خصوصی اعزازات
مدحتِ رسول کے حقیقی اسلامی مزاج کو سمجھنے کے لیے شاعر رسول حضرت حسان بن ثابت کے نعتیہ کلام کا گہرا مطالعہ انتہائی ناگزیر ہے۔ یہ وہ صحابی ہیں جنہیں حضور پر نور صلی الله علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی کے منبر پر بٹھا کر یہ دعا دی۔
”اللھم ایدہ بروح القدس“․ ( المعجم الکبیر، باب الحاء، الرقم:358)
اے الله! جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے اس کی مدد فرما۔“
صرف یہی نہیں، بلکہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم آپ کے اشعار سننے کے بعد تعریفی ودعائیہ کلمات کے ذریعے سندِ قبولیت بھی عطا فرماتے۔ مثلاً: جب حضرت حسان نے یہ مشہور شعر کہا #
        فان ابی ووالدہ وعرضی
        لعرض محمد منکم وقاء
ترجمہ:” میرے باپ، دادا اور میری عزت وناموس ، ناموسِ رسالتِ مآب کی حفاظت پر قربان ہے۔“
تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دعا دی ہے:”وقاک الله یا حسان حرالنار“… اے حسان! الله تعالیٰ تمہیں جہنم کی گرمی سے محفوظ رکھے۔“
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ان موقع بموقع تائیدات نے حضرت حسان کے ان نعتیہ اشعار کو مزاجِ شریعت سے موافقت کی سند عطا فرمائی، اسی وجہ سے ہر عہد کے ثنا خوانِ رسول کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپ کے دیوان کا گہری نظر سے مطالعہ بھی کرے اور آپ کی فکر کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش بھی کرے۔
حضرت حسان کی شاعری کے اجزا
آپ کے مدحتی اشعار توصیفِ رسول کے ساتھ ساتھ درج ذیل خصوصیات سے بھی مزین ہوتے تھے۔
درس ِ توحید
آقا صلی الله علیہ وسلم کی شان میں کہے گئے حضرت حسان کے درج ذیل اشعار کس خوب صورتی سے پڑھنے والے کی توجہ توحید کی اہمیت اور شرک کی مذمت کی جانب مبذول کراتے ہیں ، اندازہ لگائیے کہ جلسہ سیرت کا ایک شاعر شرک کے جالے چند اشعار کے ذریعے کیسے صاف کرسکتا ہے؟!۔
        نبی اتانا بعد یأس وفترة
        من الرسل والأوثان فی الارض تعبد
        وأنذرنا ناراً وبشرناجنة
        وعلمنا الإسلام فالله نحمد
ترجمہ:” جب انسانیت ہدایت سے ناامید ہو چکی تھی، رسولوں کی آمد کا وقفہ طویل ہو گیا تھا، روئے زمین پر بتوں کی پوجا پھیل چکی تھی ، الله نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں جہنم سے ڈرایا او رجنت کی خوش خبری سنائی اور ہمیں اسلام سکھایا، پس ہم الله تعالیٰ ہی کا شکر ادا کرتے ہیں ۔“
        وانت إلٰہ الخلق ربی وخالقی
        بذلک ما عمرت فی الناس أشھد
        تعالیت رب الناس عن قول من دعا
        سواک الٰھا أنت أعلیٰ وأمجد
                                (دیوان حضرت حسان بن ثابت:85)
ترجمہ:” اے ساری مخلوق کے الٰہ! تو ہی میرا رب او رمیرا خالق ہے ، جب تک میں زندہ ہوں لوگوں میں اسی بات کااعلان کرتا رہوں گا۔ اے تمام لوگوں کے پروردگار ! تو ان تمام مشرکوں کی باتوں سے پاک ہے جو تیرے علاوہ کسی او رکو اپنا معبود بناتے ہیں ، تیری شان اس سے بہت بلند ہے۔“
غزوہ خندق کے واقعہ سے توحید کا در س دیتے ہیں اور خوب دیتے ہیں #
        واشک الھموم إلی الإلٰہ وماتری
        من معشر متألبین غضاب
        أموابغزوھم الرسول وألبسوا
        أھل القری وبوادی الأعراب
ترجمہ:” اے مخاطب! تم تمام غموں او راس لشکر کی شکایت صرف اور صرف الله تعالیٰ ہی سے کرو، جو مختلف علاقوں سے آکر ایک جگہ جمع ہو گیا ہے او رغصہ میں بے تاب ہوا جاتاتھا۔ انہوں نے اردو گرد کی تمام بستیوں کو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم سے جنگ کرنے کو بھی جمع کر لیا تھا “۔ #
        وغدوا علینا قادرین بأیدیھم
        ردوا بغیضھم علی الاعقاب
        بھبوب معصفة تفرق جمعھم
        وجنود ربک سید الأرباب
        وکفی الإلٰہ المؤمنین قتالھم
        وأثابھم فی الأجر خیرثواب
                            (دیوان حضرت حسان بن ثابت  :66)
ترجمہ: ”یہ لشکر پوری قوت کے ساتھ ہم پر چڑھ دوڑا تھا، مگر الله تعالیٰ نے تیز آندھیوں اور فرشتوں کے ذریعے ان کو الٹے پاؤں بھاگنے پر مجبور کر دیا، الله تعالیٰ نے مومنین کو لڑے بغیر کام یابی دی او ربہترین ثواب بھی عطا فرمایا۔“
داعیانہ مزاج کی آب یاری
سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے اکثر اوقات انسانوں کو ان کے خالق سے جوڑنے میں صرف ہوتے تھے ۔ دن ہو یا رات ، سفر وحضر ، مکہ مکرمہ ہو یا مدینہ منورہ، یہ مبارک محنت ہر طرح سے جاری رہتی ۔ یہی وجہ ہے کہ دعوت الی الله کو قرآن کریم سرور عالم صلی الله علیہ وسلم او ران کی اتباع کرنے والوں کا راہ سفر قرار دیتا ہے :﴿قل ھذہ سبیلی ادعو الی الله علی بصیرة انا ومن اتبعنی وسبحان الله وما انا من المشرکین﴾․ (یوسف:108)
ترجمہ: ”اے پیغمبر! کہہ دو کہ یہ میرا راستہ ہے ، میں بھی پوری بصیرت کے ساتھ الله کی طرف بلاتا ہوں او رجنہوں نے میری پیروی کی ہے وہ بھی ۔“
اسی محنت کو جاری رکھنے کے لیے حضرت حسان اپنے نعتیہ اشعار میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی دعوتی زندگی کو نمایاں کرتے تھے ، آج کیقصیدہ خواں اگر جلوسوں، محفلوں اور مشاعروں میں فریضہٴ تبلیغ کی اہمیت اجاگر کریں تو گناہوں کے سیلاب کو روکنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ذکرِ رسول میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی اس صفت کو حضرت حسان  تفصیل سے بیان کرتے ہیں ، چنداشعار ملاحظہ فرمائیے #
        یدل علی الرحمن من یقتدی بہ
        وینقذ من ھول الخزایا ویرشد
ترجمہ:” جو شخص بھی آپ کی اقتدا کرتا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم اسے الله تعالیٰ کا راستہ دکھاتے ہیں ، اسے رسوائی کی مصیبت سے نجات دلواتے اور صحیح راہ نمائی فرماتے ہیں۔“ #
        إمام لھم یھدیھم الحق جاھدا
        معلم صدق إن یطیعوہ یسعدوا
ترجمہ:” آپ لوگوں کے امام ہیں ، پوری کوشش کرکے انہیں حق کا راستہ دکھاتے اور سچی بات کی تلقین کرتے ہیں، اگر لوگ آپ کی بات مانتے تو کام یاب ہو جاتے۔“ #
        عزیز علیہ أن یحیدوا عن الھدٰی
        حریص علی أن یستقیموا ویھتدوا
                            (دیوان حضرت حسان بن ثابت  :9)
ترجمہ:”آپ پر نہایت گراں ہوتا تھا کہ لوگ ہدایت کے راستے سے ہٹ جائیں، آپ صلی الله علیہ وسلم حریص تھے کہ لوگ سیدھے راستے پر جمے رہیں۔“
ایک اور قصیدہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوتی لگن کو نمایاں کرتے ہیں #
        ثویٰ فی قریش بضع عشرة حجة
        یذکر لو یلقی صدیقا مؤاتیا
        ویعرض فی اھل المواسم نفسہ
        فلم یرمن یؤوی ولم یرداعیا
                        (دیوان حضرت حسان بن ثابت  :77)
ترجمہ:”حضور صلی الله علیہ وسلم قریش کے درمیان دس سال سے زائد عرصہ اس کیفیت میں رہے کہ جو بھی دوست یا ہمدرد ملتا اسے دعوت دیتے، آپ حج کے ایام میں مختلف قبائل کے پاس جاتے او ران سے اسلام کی حمایت کی بات کرتے، لیکن وہاں انہیں کوئی پناہ دینے والا یا ان کی دعوت کو آگے پہنچانے والا نہ ملا۔“
شوقِ جہاد
حضرت حسان نے اپنے نعتیہ کلام میں آقا صلی الله علیہ وسلم کے زمان میں لڑی گئی جنگوں کے بڑے ایمان افروز نقشے کھینچے ہیں ، اس طرح انہوں نے اپنے عہد کی نئی نسل میں شوق جہاد اجاگر کرنے اور وصف شجاعت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
آج کے اسلامی شعرابھی مغربی پروپیگنڈہ سے متاثر نئی نسل کے ذہنوں سے تصورِ جہاد سے متعلق شبہات ختم کرسکتے ہیں او رعرصے سے سوئی ہوئی امت میں بیداری کی تڑپ جگا سکتے ہیں۔
حضرت حسان نبی کریم صلی الله علیہ وسلم او رآپ صلی الله علیہ وسلم کے رفقا کی جرأت وشجاعت اور بنو قریظہ کی ہزیمت کی یوں یاد دلاتے ہیں #
        غداة اتاھم یھوی الیھم
        رسول الله کالقمر المنیر
        لہ خیل مجنبة تعادٰی
        بفرسان علیھا کالصقور
        ترکناھم وما ظفروا بشيء
        دماء ھم علیھم کالعبیر
        فھم صرعی تحوم الطیرفیھم
        کذاک یدان ذوالفند الفخور
                        (دیوان حضرت حسان بن ثابت :190)
ترجمہ:”روشن چاند کی طرح چمکتے ہوئے چہرے والے حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان پر چڑھائی کی ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے عقاب کی طرح ان پر حملہ کیا اور صحابہ تیز رفتار گھوڑوں کو دوڑا رہے تھے ، ہم نے بنو قریظہ کو اس عبرت ناک حالت میں چھوڑا کہ ان کا خون زعفران کی طرح پھیلا ہوا تھا اور انہوں نے ذرہ بھر بھی کام یابی نہیں پائی ، ہرسوان کی لاشیں بکھری تھیں، جنہیں پرندے نوچ رہے تھے، ہر متکبر اور سرکش کی یہی سزا ہے۔“
شہدائے بدر کی یاد میں کہی گئی اس دل سوز نظم میں حضرت حسان میدانِ جہاد کی خوف ناک فضا میں صحابہ کرام کے جذبہٴ وفا کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں #
        تذکرت عصراً قد مضی فتھافتت
        بنات الحشا وانھل منی المدافع
        صبابة وجد ذکر تنی أحبة
        وقتلیٰ مضوا فیھم نفیع ورافع
        وفوایوم بدر للرسول وفوقھم
        ضلال المنایا والسیوف اللوامع
                        (دیوان حضرت حسان بن ثابت  ،:197)
ترجمہ:”مجھے ماضی یاد آیا تو میرا دل غمگین اور آنکھیں اشک بار ہو گئیں، یہ بے چینی میرے ان دوستوں کی یاد میں ہے جو ( غزوہٴ بدر میں ) شہید ہو گئے ، جن میں ( میرے قریبی ساتھی)نفیع اور رافع بھی تھے ، جب ان پر موت کے سائے منڈلا رہے تھے او رچمکتی تلواریں ٹوٹ رہی تھیں، انہوں نے اس وقت بھی رسول کریم صلی الله علیہ وسلم سے بھرپور وفاداری کی۔“
اطاعت حبیب صلی الله علیہ وسلم کی ترغیب
اس میں کوئی شک نہیں کہ عشق اور اطاعت لازم وملزوم ہیں کہ مرضیٴ جاناں کے آگے سر تسلیمِ خم کرنا ہی حقیقی محبت ہے ۔ قرآن کریم کا انداز تربیت بھی یہی ہے۔ متعدد صحابہ کرام نے عشق رسول میں سرشار ہو کر بارہا یہ سوال کیا کہ حضور! جنت میں آپ کا دیدار کیسے ہو گا؟ آپ کی زیارت سے ہم آنکھوں کو ٹھنڈا کیسے کر سکیں گے؟ کہ جنت میں آپ کے اور ہمارے درجات میں اتنا فرق ہو گا کہ : ” وہ کہاں ! میں کہاں“ تورب کریم نے یہ آیت نازل فرمائی﴿ومن یطع الله والرسول فأولئک مع الذین انعم الله علیہم من النبیین الصدیقین والشھداء والصالحین وحسن أولئک رفیقا﴾․ (النساء:69)
ترجمہ:” اور جو لوگ الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کریں تو ان کے ساتھ ہو ں گے جن پر الله نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا ، صدیقین،شہدا اور صالحین اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔“
ان آیات میں یہ سمجھایا گیا کہ جنت میں حضور صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کا شرف صرف اطاعت گزاروں کو ملے گا۔ اس لیے ایک سچے عاشق کے لیے ضروری ہے کہ ہر موڑ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کو اپناوظیفہ بنائے۔
اس اسلامی مزاج کے برعکس آج کی نعتیہ شاعری میں اتباع رسول کی تلقین عموماً نظر نہیں آتی، حالاں کہ عہد حاضر کا ثنا خواں عوام کے دلوں میں موج زن حب رسول کا مقدس دریا اطاعت رسول کی طرف موڑ کر مغرب کی اندھی تقلید کے مہلک اثرات سے ملک وقوم کو بچا سکتا ہے۔ حضرت حسان اس رخ سے بھی لاجواب اشعار کہہ گئے #
        مثل الھلال مبارکاً ذارحمةٍ
        سمح الخلیقة طیب الأعواد
        والله ربی الانفارق أمرہ
        ما کان عیش یرتجی لمعاد
                        (دیوان حضرت حسان بن ثابت  :155)
ترجمہ:” نبی کریم صلی الله علیہ وسلم تو چاند کی طرح خوب صورت ہیں ، بابرکت ہیں اور رحمت والے ہیں ، بہترین عادات کے حامل اور عمدہ خوش بو والے ہیں، خدا کی قسم ! جب تک میری جان میں جان ہے، میں آپ کے کسی ایک حکم ( اور سنت) کی مخالفت نہیں کروں گا۔“
آپ نبی کریم ا کی پیروی کی تلقین ان اشعار میں بھی کرتے ہیں #
        یابکر آمنة المبارک بکرھا
        ولدتہ محصنة بسعد الاسعد
        نوراً ضاء علی البریة کلھا
        من یھد للنور المبارک یھتدی
                        (دیوان حضرت حسان بن ثابت  :153)
ترجمہ:”اے آمنہ کے مبارک بیٹے!جسے انہوں نے انتہائی پاکیزگی اور عفت کے ساتھ جنم دیا۔ آپ دنیا کے لیے برکت کا جہاں ثابت ہوئے، آپ ایسا نور تھے جو ساری مخلوق پر چھا گیا اور جسے اس مبارک نور کی پیروی نصیب ہوئی وہ ہدایت یافتہ ہو گیا۔“
خلاصہ کلام
گزشتہ تین چار دہائیوں سے اردو شعرا کی کثیر تعداد نعت گوئی کی طرف بڑے والہانہ انداز سے متوجہ ہوئی ہے، حتی کہ بڑے بڑے نام ور ترقی پسند اور لینن او راسٹالن کی تعریف میں رطب اللسان رہنے والے نظم گو شعرا بھی نعت کہتے نظر آتے ہیں ۔ بلاشبہ یہ بڑی مثبت او رخوش آئند تبدیلی ہے ، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ نعت گوئی کے اس مقدس فریضے کی ادائیگی میں شرعی حدود کی بھر پور رعایت کی جائے۔
اردو نعت کے اس روز افزوں ذخیرے میں بعض بے اعتدالیاں پائی جاتی ہیں، جن میں سے اکثرکی نشان دہی اس مضمون میں کی گئی ہے ، ان بے احتیاطیوں سے بچاؤ کا سب سے مناسب راستہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کے نعتیہ اشعار کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے اور اس کے حقیقی اسلامی مزاج کو اردو شاعری کے قالب میں داخل کیا جائے۔
Flag Counter