Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1433ھ

ہ رسالہ

3 - 18
 غفلت کے اسباب، علامات اور علاج
	

مولانا محمد حذیفہ وستانوی

علامات غفلت
اسباب وانجام غفلت کے بعد علامات غفلت کو بیان کیا جاتا ہے، تا کہ ہم اپنا محاسبہ کریں کہ ہم میں غفلت ہے یا نہیں؟

عبادت میں سستی
﴿ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ وَإذَا قَامُوْا اِلٰی الصَّلٰوةِ قَامُوْا کُسَالٰی﴾

یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکا بازی کرتے ہیں، حالاں کہ اللہ نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ (اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جو سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے اللہ کو دھوکا دے دیا، تودر حقیقت یہ خود ہی دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں، کیوں کہ اللہ کو کوئی دھوکا نہیں دے سکتا اور اللہ تعالیٰ ان کو اس دھوکے میں پڑا رہنے دیتا ہے، جو انہوں نے خود اپنے آپ کو اختیار سے دے رکھا ہے۔ اور اس جملے کا ایک ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ” اللہ ان کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے“ اس ترجمے کی بنیاد پر اس کا ایک مطلب بعض مفسرین (مثلاً حضرت حسن بصری) نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان کو اس دھوکے کی سزا آخرت میں اللہ تعالیٰ اس طرح دے گا کہ شروع میں ان کو بھی مسلمانوں کے ساتھ کچھ دُور تک لے جایا جائے گا اور مسلمانوں کو جو نور عطا ہوگا، اسی کی روشنی میں کچھ دور تک یہ بھی مسلمانوں کے ساتھ چلیں گے اور یہ سمجھنے لگیں گے کہ ان کا انجام بھی مسلمانوں کے ساتھ ہوگا، مگر آگے جا کر ان سے روشنی چھین لی جائے گی اور یہ بھٹکتے رہ جائیں گے اور بالآخر دوزخ میں ڈال دیے جائیں گے، جیسا کہ سورہٴ حدید (57:12تا 14)میں اس کا بیان ہے ۔)اور جب یہ لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو کسمساتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں۔ ( سورة النساء :آیت142)

منافقین اللہ کو دھوکہ دیے جا رہے ہیں (بزعمہم)۔
معلوم ہوا کہ عبادت میں جی نہ لگنا یہ نفاق اور غفلت کی علامت ہے۔ آج ہم میں سے ہر ایک اپنے گریبان میں جھانکے وہ کتنی سستی کرتے ہیں، نہ نماز پڑھنا، نہ روزہ،نہ زکوٰة ،نہ حج، نہ تلاوت ،نہ ذکر، ہر عبادت کے کرنے میں ہمیں سستی آتی ہے؛ یہ غفلت کی علامت ہے ۔ ہمیں پوری تندہی اور چستی کے ساتھ عبادت کی کوشش کرنی چاہیے۔

محرمات کو معمولی تصور کرنا
غفلت کی علامتوں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی حرام کام کے کرنے میں جھجھک محسوس نہ کرے اور آسانی سے اسے کر گزرے ۔حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ”اِنَّ الْمُوٴمِنَ یَرٰی ذُنُوْبَہ کَأَنَّہ قَاعِدٌ تَحْتَ جبلٍ یُخَافُ اَنْ یَّقْطَعَ عَلَیْہِ وَ اِنَّ الْفَاجِرَ یَرٰی ذُنُوْبَہ کَذُبَابٍ عَلٰی اَنْفِہ فَقَالَ بِہ ہٰکَذَا۔ فَقَالَ اَبُوْشِہَاب بِیَدِہ فَوْقَ اَنْفِہ“ ․ (بخاری: ج8/ص630)

حضرت عبد اللہ ابن مسعود  فرماتے ہیں کہ مومن جب گناہ کرتا ہے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ کسی بڑے پہاڑ کے پیچھے کھڑا ہو اور وہ پہاڑ اس پر گرنے کے قریب۔ اور فاجر جب گناہ کرتا ہے اس وقت اس پر ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے جیسے مکھی اس کے ناک کے پاس سے گزر رہی ہو اور وہ اس کو دفع کر رہا ہو۔ ابو شہاب فرماتے ہیں حضرت ابن مسعود نے اپنے ہاتھ سے مکھی کو دفع کرنے کا اشارہ کر کے بتلایا۔

مطلب یہ ہے کہ مومن سے اگرچہ گناہ ہو، مگر گناہ کرتے وقت بھی اس کو تکلیف کا احساس ہوتا ہے اور غافل پر گناہ کرتے وقت بھی کوئی احساس باقی نہیں رہتا، گویا گناہ پر گناہ کا احساس نہ ہونا‘ یہ بھی غفلت کی علامت ہے۔

غافل کو گناہ کرنے میں مزہ آتا ہے
غفلت کی ایک علامت یہ ہے کہ آدمی جب گناہ کرے تو اس کو مزہ آئے اور گناہ چھوڑنے کے لیے اس کی طبیعت آمادہ نہ ہو۔ حضرت حذیفہ بن یمان کی ایک روایت ہے کہ ”جب گناہ کرتے کرتے قلب پر سیاہی چھا جاتی ہے تو اب اس کا دل اُلٹے کیے ہوئے پیالے کی طرح ہو جاتا ہے، نہ اس کو نیکی سمجھ میں آتی ہے اور نہ برائی کا احساس ہوتا ہے ،اس کو اپنی خواہش پر عمل کرنے کی پڑی رہتی ہے ۔“ (مسلم: 144)

غیر مفید امور میں وقت ضائع کرنا
غفلت کی ایک علامت یہ ہے کہ غفلت زدہ آدمی بے کار اور بے سود امور میں اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ضائع کرتا ہے، جس کا کل قیامت کے دن حساب دینا ہے ۔ ارشادِ خداوندی ہے ﴿ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعُةُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَةٍ﴾ اور قیامت جب قائم ہوگی تو مجرمین (غافلین) قسمیں کھائیں گے اور کہیں گے وہ تو بہت کم مدت (دنیا میں) رہ کر آئے ہیں اور وہ اس لیے کہ اپنی زندگی کے ضائع کردہ اوقات پر حسرت کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ”اِغْتَنِمْ حَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ“ اپنی زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانو۔

اب ہم اپنے معاشرہ اور دنیا کے حالات پر نظر ڈالیں کہ آج ضیاع وقت میں کیسا ابتلا ہے ؟کیاخاص ، کیاعام، کیا طلبہ، کیا اساتذہ، کیا عوام، کیا سائنس داں ،کیا تعلیم یافتہ سب ہی اس بیماری میں شریک ہیں۔ کوئی غیبت میں، کوئی کھیل کود میں، کوئی گپ شپ میں، کوئی موبائل پر، کوئی ٹی وی پر، کوئی انٹرنیٹ پر ، کوئی چوراہوں پر، کوئی دکانوں پر، کوئی بازاروں میں ، کوئی تفریح گاہوں میں، کوئی سڑکوں پر اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ضائع کر رہا ہے، مگر اس کا احساس بھی نہیں‘ اسی کو غفلت کہتے ہیں۔

آج دنیا میں 90 سے زائد فیصد لوگ ضیاع وقت کے مہلک مرض میں مبتلا ہیں، گویا غفلت کا شکارہیں؛ اسی لیے تو طرح طرح کے عذاب، کبھی آندھی کی صورت میں ، کبھی زلزلے کی صورت میں، کبھی سونامی کی صورت میں، کبھی بڑے بڑے حادثہ کی صورت میں، مسلسل ہمارے پیچھیلگے ہوئے ہیں، مگر ہمیں اس کا احساس تک نہیں۔ اللہ ہی ہماری حفاظت فرمائے!

خلاصہ یہ کہ غفلت ایک مہلک مرض ہے، جو انسان میں جہالت، نادانی، معصیت، خواہشات کی پیروی، غافلین کی صحبت اختیارکرنے، نماز کو باجماعت نہ پڑھنے، لمبی لمبی آرزوٴوں کے خیالی پلاوٴ پکانے، کثرت سے ہنسنے، فضول گوئی کرنے، آخرت فراموش کرنے، تکبر کرنے سے پیدا ہوتا ہے اور اس کا انجام عبادات میں کاہلی اور سستی، عذاب دنیوی، توفیق سے محرومی، تکذیب آیات، آخرت میں استحقاق عذاب کی صورت میں پیش آئے گا ۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔

غفلت کی علامت ضیاع وقت ،اللہ کی اطاعت سے اعراض، گناہ سے دلچسپی ، محرمات شرعیہ کے ساتھ تعاون ہے۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے!

غفلت کا علاج
قرآن وحدیث اور اسلامی تعلیمات میں جہاں غفلت کے اسباب، خطرات اور علامات کو صراحةً واشارةً ذکر کیا گیا ہے ویسے ہی غفلت کے علاج کا بھی تذکرہ ہے۔ تو آیئے! ہم دل تھام کر بیٹھتے ہیں اور پورے عزم وارادے کے ساتھ طے کرتے ہیں کہ ہم ضرور بالضرور غفلت کے اس مرض کے لیے تجویز کردہ علاج کو اختیار کریں گے اور اللہ سے مدد بھی طلب کریں گے ۔

عربی کا ایک شاعر کہتا ہے #
        یَا متعب الجسم کم تسعی لراحة
        أتعبت جسمک فیما فیہ خسران
        اقبل علی الروح واستکمل خصائلہا
        فانت بالروح لا بالجسم انسان

اے جسم کی راحت کے لیے اپنے آپ کو تھکانے والے! کب تک تو اس جسم کو راحت دے گا جس کے لیے راحت کی صورت میں خسارہ لازمی ہو، اپنی روح اور نفس کی طرف متوجہ ہو اور اس کو عمدہ خصال سے آراستہ کر دے، اس لیے کہ انسان اصل میں روح سے ہے (نہ کہ جسم سے)۔

غفلت کو دور کرنے کا سب سے پہلا علاج دینی تعلیم
صحیح معنی میں اسلامی تعلیمات سے واقف ہوکر اس پر عمل کرنا یہ غفلت کو دور کرنے کا سب سے اہم سبب ہے ،کیوں کہ علم دین سے مردہ زندگی کو حیات نصیب ہوتی ہے، ارشاد ایزدی ہے ﴿أوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَأحْیَیْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہ فِیْ النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہ فِیْ الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْھَا کَذَالِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (سورہٴ انعام: آیت 122)

ذرا بتاوٴ کہ جو شخص مردہ ہو، پھر ہم نے اُسے زندگی دی ہو اور اس کو ایک روشنی مہیا کردی ہو، جس کے سہارے وہ لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہو(یہاں روشنی سے مراد اسلام کی روشنی ہے۔ اور ” لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہو“ فرما کر اشارہ اِس طرف کر دیا گیا ہے کہ اسلام کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ انسان مذہبی عبادات کو لے کر دنیا سے ایک طرف ہو کر بیٹھ جائے اور لوگوں سے میل جول چھوڑ دے، بلکہ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ وہ عام انسانوں کے درمیان رہے، اُن سے ضروری معاملات کرے، ان کے حقوق ادا کرے، لیکن جہاں بھی جائے، اسلام کی روشنی ساتھ لے کر جائے، یعنی یہ سارے معاملات اسلامی احکام کے تحت انجام دے) کیا وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ وہ اندھیروں میں گھرا ہوا ہو، جن سے کبھی نکل نہ پائے؟ اسی طرح کافروں کو یہ سمجھا دیا گیا ہے کہ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں، وہ بڑا خوش نما کام ہے۔

معلوم ہوا کہ ایمان اور علم سے گویا مردہ زندگی کو حیا ت میسر ہوتی ہے۔

غفلت دور ہوتی ہے ذکر اللہ سے
غفلت کو دور کرنے کا اہم سبب اپنے آپ کو ذکر میں ہمیشہ مشغول رکھناہے، ارشاد باری ہے ﴿ وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِيْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَخِیْفَةً وَّدُوْنَ الْجَھْرِ بِالْغُدُوِّ وَالاٰصَالِ وَلَاْ تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْن﴾․ (سورہٴ اعراف: آیت205)

اور اپنے رب کا صبح وشام ذکر کیا کرو، اپنے دل میں بھی، عاجزی اور خوف کے (جذبات) کے ساتھ اور زبان سے بھی، آواز بہت بلند کیے بغیر! اور ان لوگوں میں شامل نہ ہو جانا جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

معلوم ہوا کہ غفلت کو دور کرنے کے لیے آدمی ہمیشہ اس کوشش میں لگارہے کہ اللہ کا ذکر زیادہ سے زیادہ زبان پر جاری رہے۔ لا یزال لسانک رطبا عن ذکر اللہ۔ (ترمذی)

مجالس ذکر میں بیٹھنا
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ﴿اِذَا مَرَرْتُمْ بِرِیَاضِ الْجَنَّةِ فَارْکَعُوْا․ قَالُوْا: وَمَا رِیَاضُ الْجَنَّةِ؟ قَال: حِلَقُ الذِّکْرِ﴾۔ جب تم ریاض الجنہ پر سے گذرو تو اس سے مستفید ہوتے رہو۔ ہم نے دریافت کیا کہ ریاض الجنہ کیا ہے؟ تو ارشاد فرمایا کہ ذکر کے حلقے۔(ترمذی)

ذکر کی مجلسیں اور حلقے انتہائی مفید اور کارآمد ہیں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب، حضرت مفتی محمد شفیع صاحبنے ذکر کے حلقوں کے فوائد کے ثمرات پراپنے خطوط میں بڑے تجربات پیش کیے ہیں کہ ذکر کی مجلسوں سے غفلت دور ہوتی ہے ، باہمی اختلاف وانتشار پیدا نہیں ہوتا ہے ۔ بعض روایات میں ہے کہ اگر کہیں ذکر میں کچھ لوگ بیٹھے ہوں توکوئی آدمی خاموشی کے ساتھ بھی اس میں شرکت کرے تب بھی فوائد اور ثواب سے محروم نہیں رہتا ہے۔ ہم القوم لا یشقی جلیسہم۔ (متفق علیہ)

تلاوت قرآن
جہاں غفلت کے علاج کے لیے بہت سے امور ہیں، وہیں تلاوت قرآن بھی غفلت کو دور کرنے کا اہم ذریعہ ہے، ارشادالٰہی ہے:﴿ اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَابًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ﴾․ (سورہ زمر: آیت 23)۔

اللہ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے، ایک ایسی کتاب جس کے مضامین ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، جس کی باتیں بار بار دُہرائی گئی ہیں۔ وہ لوگ جن کے دلوں میں اپنے پروردگار کا رُعب ہے وہ اس سے کانپ اُٹھتے ہیں، پھر اُن کے جسم اور اُن کے دل نرم ہو کر اللہ کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن کی تلاوت سے قساوت قلبی دور ہوتی ہے، ذکر اللہ میں دل لگتا ہے اور غفلت دور ہوتی ہے، آج ہم نے تلاوت کو بالکل ہی چھوڑ رکھا ہے، اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

ابن القیم فرماتے ہیں: قرآن قلوب کے لیے حیاتِ نو کے ما نند ہے، قلب کے لیے تلاوت قرآن، تدبر فی القرآن سے زیادہ کوئی چیز نفع بخش نہیں ہو سکتی، تلاوت قرآن سے اللہ کی محبت، اس سے ملنے کا شوق پیدا ہوتا ہے، مغفرت کی امید قائم ہوتی ہے، گناہ پر خوف کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، اللہ کی طرف بندہ متوجہ ہوتا ہے، اللہ کی ذات پر توکل قائم ہوتا ہے، اس کے فیصلہ پر بندہ راضی رہتا ہے، اس کی نعمت پر شکر بجا لاتا ہے، مصیبت پر صبر کرتا ہے اور ہر طرح کی غیر شرعی حرکت سے باز رہتا ہے، اگرلوگوں کو تلاوت قرآن کے فوائد کا ادراک ہوجائے تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسی میں لگے رہیں۔(مفتاح دار السعادة :435/1)

توبہ واستغفار
کثرت سے توبہ واستغفار بھی بندے سے غفلت کو دور کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک مجلس میں سو سوبار استغفار کرتے ، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان الفاظ میں استغفار کرتے تھے: رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَتُبْ عَلَیَّ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْم.(ترمذی:3434)

رو رو کر دعا کرنا
حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”من لم یسأل اللہ یغضب علیہ“․جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس پر ناراض ہوتے ہیں۔(ترمذی: 3737)

نماز باجماعت ادا کرنا
پانچوں نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے سے بھی غفلت دور ہوتی ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ”من حافظ علی ہٰولاء الصلوات المکتوبة لم یکتب من الغافلین“۔جو شخص پانچوں وقت نمازوں کو پابندی کے ساتھ ادا کرے گا اس کا شمار (عند اللہ) غافلین میں نہیں ہوگا۔(صحیح ابن خزیمہ:280/2)

معلوم ہوا غفلت کو دور کرنے کے لیے نماز کا اہتمام از حد ضروری ہے ، مگر افسوس! امت اگر سب سے زیادہ اس وقت کسی امر میں کو تاہ ثابت ہوئی ہے تووہ ہے نماز ۔اور یہی نماز کی کوتاہی دیگر تمام فرائض واجبات اور سنتوں میں کوتاہی کا سبب ہے۔ کاش! امت ہوش کے ناخُنلے اور اپنے اوپر سے غفلت کے پردے کو اٹھانے کی کوشش کرے ۔ ”اللہم وفقنا بالصلوة والذکر والدعاء والعمل الصالح“․

تہجد گزاری
غفلت تہجد کو ادا کرنے سے بھی دور ہوتی ہے ، حدیث پاک میں حضرت سہل بن سعد فرماتے ہیں کہ حضرت جبرئیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لائے اور عرض کیا یا محمد، شرف الموٴمن قیام اللیل۔موٴمن کے لیے سب سے بڑا شرف قیام لیل یعنی رات کو جاگناہے۔ (مستدرک 325/4)

صدقہ خیرات کرنا
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”صانع المعروف تقی مصارع السوء، وصدقة السر تطفئ غضب الرب، وصلة الرحم تزید فی العمر“․نیکی کرنے والا برائی سے محفوظ رہتاہے اور خفیہ طریقہ سے صدقہ کرنے سے(بند ے سے) اللہ کا غضب ختم ہوتاہے اور صلہ رحمی کرنے سے عمر بڑھتی ہے۔ (طبرانی، معجم کبیر261/8)

معلوم ہوا بھلائی کرنے اور صدقہ کرنے سے آدمی کے لیے دنیا اور آخرت میں بھلائی اور خیر مقدر ہوتی ہے اور غفلت سے بچنا بھی ایک خیر اور بھلائی ہے لہٰذا غفلت بھی دور ہوتی ہے۔

نفل روزے رکھنا
نفل روزے رکھنے سے بھی غفلت جاتی رہتی ہے ،ارشاد نبوی ہے: ”صوم شھر الصبر وثلاثة أیام من کل شھر یذھبن وحر الصدر“ (مستدرک احمد168/38، مسند البزار1057، الترغیب والترہیب:599)

رمضان کے روزے اور ہر ماہ تین روزے دل کے وحر کو ختم کرتے ہیں۔ ”وحرالصدر“ کہتے ہیں دل میں آنے والے برے خیالات، وساوس، حسد، کینہ کی آگ، دشمنی اور انتقام کے جذبہ وغیرہ کو،”وحر “کا لفظ امام ابن الاثیر کی تحقیق کے مطابق بڑا جامع ہے۔ مذکورہ معانی کو موصوف نے النہایہ فی غریب الحدیث:160/5میں نقل کیا ہے۔

معلوم ہوا کہ روزے کے اہتمام سے اور خاص طور پر ایام بیض کے روزے رکھنے سے جب کہ خلوص و للہیت کے ساتھ ہو، آدمی دل کی تمام مہلک بیماریوں سے، جن کو بدترین روحانی امراض کہاجاتاہے، محفوظ ہوجاتاہے، عصر حاضرمیں اس کی سخت ضرورت ہے اور غفلت روحانی بیماری ہے لہٰذا اس کا علاج نفل روزے رکھنا ہے، اللہ ہمیں خلوص کے ساتھ روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!

زہد فی الدنیا
دنیا سے بے رغبتی بھی غفلت کو دور کرتی ہے، ارشادِ خدا وندی ہے ﴿تِلْکَ الدَّارُ الاٰخِرَةُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِيْ الأرْضِ وَلا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ﴾ ․آخرت کا(عمدہ) ٹھکانا ہم ان لوگوں کے لیے مقدر کریں گے جو زمین میں تکبر اور فساد نہیں کرتے تھے اور اچھا انجام تو متقیوں کا ہی ہوتا ہے۔ (سورہٴ قصص: 83)

آیت میں بتا یا گیا کہ جو تکبر اور فساد چاہتا ہے اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا اور یہ دونوں برے وصف انسان میں تمام طور پر مال آنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں اور آخرت سے غفلت بھی اس کا سبب ہے۔ لہٰذا جو آخرت کا فکر مند ہو وہ دنیا سے ضرورت کے بقدر استفادہ کرتا ہے ، باقی آخرت کے لیے کرتا ہے۔

موت کی یاد
حدیث پاک میں حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، ایک انصاری صحابی تشریف لائے اور دریافت کیا :” أي الموٴمِنین اَفْضل؟“ موٴمنوں میں سب سے افضل کونسا موٴمن ہے؟ تو ارشاد فرمایا: ”احسنہم خلقاً “جس کے اخلاق سب سے اچھے ہو ۔ پھر دریافت کیا: ”أی الموٴمنین اکیس؟“ موٴمنومیں سب سے زیادہ ذی شعور، ہوشیار اور عقل مند موٴمن کونسا ہے؟ تو عرض کیا: ”اکثرہم للموت ذکرا واحسنہم لما بعدہ استعدادًا، اولئک الأکیاس․“ (ابن ماجہ:4259)

معلوم ہوا کہ جو آدمی جتنا موت کو یاد کرے اور مرنے کے بعد کی زندگی کی تیاری کرے وہی عقلمند انسان ہے، گو غفلت موت کی یاد سے دور ہوتی ہے، کیوں کہ جب کثرت سے موت کو یاد کرے گا تو خود بخود غفلت دور ہو گی اورموت کے بعد کی زندگی کی تیاری میں لگ جائے گا۔

یہ ہوئے غفلت دور کرنے کے اسباب اور علاج ۔گویا دینی تعلیم کا حصول، ہمیشہ ذکر اللہ میں مشغول رہنا ،ذکر کے حلقوں میں بیٹھنا، قرآن کی تلاوت کرنا، توبہ استغفار کثرت سے کرنا، رو رو کر دعائیں کرنا، نماز باجماعت کا اہتمام کرنا، تہجد پڑھنے کی عادت ڈالنا، صدقہ خیرات کرنا، نفل روزے رکھنا، دنیا سے بے رغبت ہونا ، موت اور قبر کو کثرت سے یاد کرنا انسان سے غفلت کو دور کرتا ہے۔

اللہ ہمیں اس پر عمل کی توفیق بخشے اور غفلت کی زندگی سے نکال کر آخرت کی تیاری کرنے کی فکر دل میں ڈال دے۔ آمین یارب العالمین!

گزارش
امت کے جوان بوڑھے ، بچے، عورتیں ہر ایک دشمن کے نرغے میں آکر غفلت والی زندگی گزار رہے ہیں، غفلت کے اسباب کو آپ پڑھیں ،پھر علامتوں کو اپنی یومیہ زندگی پر اور اپنے حالات پر ایک نظر دوڑائیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہم غفلت کے اس بد ترین دلدل میں کس بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ لہٰذا جو علاج بتلایا گیا ہے اس کو دل سے باربار پڑھیں اور اس پر عمل کرنے اور اس کو اختیار کرنے کی پوری پوری کوشش کریں۔ فرائض کاا ہتمام کریں، نماز ، روزہ ، زکوة، حج ، قربانی وغیرہ اور سنتوں کو زندہ کریں ، ان شاء اللہ دنیا وآخرت میں عزت ورفعت ہمارا مقدر بن جائے گی، مگر اخلاص ضرور پیش نظر رکھیں، ریاکاری سے مکمل اجتناب کریں ،اس لیے کہ عدم اخلاص کی صورت میں علاج موٴثر نہیں ہوگا۔ آپ دیکھیں گے کہ بہت سے لوگ نماز، روزہ وغیرہ کی پابندی کے باوجود غفلت میں مبتلا ہیں، تو وہ ہے عدم اخلاص اور ریاکاری کی وجہ سے ، ورنہ قرآن وحدیث جو علاج بیان کرے وہ اثر نہ کرے ایسا ممکن نہیں ۔

تنبیہ
جب آپ علاج شروع کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ شروع شروع میں دکھاوے کا خیال پیدا ہو، مگر آپ مایوس نہ ہوں، یہ شیطان کا حربہ ہے، وہ آپ کے دل میں خیال ڈالے گا کہ جب اخلاص نہیں ہے تو کیوں یہ سب کرتا ہے؟مگر آپ اس کو خاطر میں نہ لائیں اور اخلاص پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں، اپنے عمل کو حتی الامکان لوگوں سے چھپا کر کریں تو ان شاء اللہ، اللہ ضرور ایک نہ ایک دن اخلاص کی دولت سے نواز دیں گے، ورنہ آپ کی کوشش پر بھی اجر دے دیں گے۔

اللہ ہمیں اخلاص کے ساتھ اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرمائے، ریاکاری، بغض، حسد، کینہ، جھوٹ، زنا ، چوری، خیانت، غفلت وغیرہ تمام مہلک گناہوں سے ہماری حفاظت فرمائے۔

آمین یا رب العالمین!
Flag Counter