Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1433ھ

ہ رسالہ

7 - 18
 تاجر بھائیوں سے!
	

محترم ابن امین ربانی

الله کے راستے میں
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ ایک مجلس میں تھے، پاس ایک طاقت ور دیہاتی نوجوان گزرا، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اسے دیکھ کر کہنے لگے کیا ہی اچھا ہو اگر اس کی جوانی اور طاقت الله تعالیٰ کے راستے میں لگ جائے اور یہ کتنا بڑا اجر وثواب کمائے تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ شخص اپنے بوڑھے والدین کی خدمت میں اور ان کے تعاون میں مصروف ہے تو الله تعالیٰ کے راستے میں ہی شمار ہو گا۔ ایسے اگر اپنی نابالغ اولاد کے لیے کمائی میں لگا ہوا ہے تب بھی الله تعالیٰ کے راستے میں ہی ہے ۔ اور اگر اپنے لیے کمائی کرتا ہے، تاکہ لوگوں کا محتاج نہ بنے تو بھی الله کے راستے میں ہے او راگر یہ سب محنتیں شہرت اور دکھلاوے کے لیے ہیں تو یہ شیطان کے راستے میں ہے۔

کبھی سوچا ہم نے کہ دکان داری بھی عبادت ہو سکتی ہے؟ آج ہر آدمی پر یہ دُھن سوار ہے کہ میں لوگوں میں مشہور ہو جاؤں او رلوگ دیکھیں کہ میرے پاس دولت او ربنک بیلنس ہے، اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ حرام اور حلال کی کوئی تمیز نہیں کی جاتی۔ اگر یہی کمائی شرعی طریقہ سے ہوا ور نیت یہ ہو کہ خو دکو اور اپنی اولاد کو مانگنے اور کسی کا محتاج ہونے سے بچانا ہے تو ایسا دکان دار الله کے راستہ میں شمار ہوتا ہے۔

الله تعالیٰ کی پسند
حدیث پاک میں ہے الله تعالیٰ ایسے بال بچوں والے مؤمن کو پسند فرماتے ہیں جو کسب معاش کرتا ہے۔ لیکن ایسے تن درست آدمی کو پسند نہیں کرتے جو بے کار رہتا ہو، نہ دنیا کا کوئی کام کرتا ہے اور نہ آخرت کا کوئی عمل۔

دیکھیے دوستو! کمائی کرنے والا بھی الله تعالیٰ کا پسندیدہ ہے، اگر ہمت کرکے نیت صاف کر لے اور کاروبال حلال کا ہو اورنماز، روزہ اور دوسرے احکام کی پابندی کرتا رہے تو کیا کہیے!

اہل وعیال کی خاطر خودبازار جانا
حدیث پاک میں ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم خود بازار تشریف لے جاتے اور بیوی بچوں کے لیے ضروریات خرید کر لاتے۔ کسی نے عرض کیا ( کہ حضور خو دکیوں تشریف لے جاتے ہیں ؟) تو ارشاد فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے بتایا ہے کہ جو شخص اپنے اہل وعیال کے لیے کام کاج کرتا ہے، تاکہ وہ لوگوں کے محتاج نہ رہیں تو یہ شخص مجاہد فی سبیل الله شمار ہوتا ہے۔

تصویر کا دوسرا رخ، غذا حرام، جنت حرام
حضرت ابوبکر صدیق  کا غلام روزانہ اپنی کمائی سے کھانے کا سامان لے کر آتا، وہ خود تو کھا لیتا مگر آپ  اس وقت تک نہ کھاتے جب تک تسلی نہ کر لیتے کہ کہاں سے کمایا او رکس طرح کمایا ہے ؟ اتفاق سے ایک دن غلام کھانا لا یا، مگر آپ نے خلاف عادت بغیر پوچھے ایک لقمہ اٹھا کر کھا لیا تو غلام کہنے لگا آپ ہمیشہ مجھ سے پوچھا کرتے تھے ، مگر آج کیا ہوا ؟ ارشاد فرمایا: بھوک کی جلدی میں ایسا ہو گیا، مگر اب تو ضرور بتاؤ کہ کہاں سے کما کر لائے ہو؟ وہ بولا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں کچھ لوگوں پر دم کیا تھا اور انہوں نے مجھے کچھ دینے کا وعدہ کر رکھا تھا ، آج میں نے ان کے ہاں شادی کی تقریب دیکھ کر انہیں وعدہ یاد دلایا، جس پر یہ کھانا مجھے ملا، حضرت ابوبکر صدیق  یہ سن کر انا لله پڑھنے لگے اور قے کرنے کی کوشش کی ، سو جتن کیے او رمشقت اٹھائی کہ کسی طرح وہ لقمہ پیٹ سے نکلے جائے، مگر بھوکے پیٹ میں ایک لقمہ کی کیا قے ہوتی، تکلیف کرتے کرتے چہرہ مبارک کا رنگ سیاہ اور سبز ہو جاتا، مگر قے نہ ہو سکی، حتی کہ کسی نے مشورہ دیا کہ پیالہ پانی کا پیوں تو شاید کام یابی ہو سکے، چناں چہ پانی کا ایک مشکیزہ لایا گیا، جسے پی پی کر قے پر قے کرتے رہے، حتی کہ وہ لقمہ باہر نکال ہی دیا۔ لوگوں نے کہا کیا اس ایک لقمے کے لیے اتنی مشقت اٹھائی ہے ؟ تو ارشاد فرمایا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ الله تعالیٰ نے جنت کو ہر ایسے جسم پر حرام کر دیا ہے جس کی غذا حرام ہو۔

عزیزو! یہ تو ایک لقمہ کی بات تھی، کیا خیال ہے ان لوگوں کے بارے میں جو سود، رشوت، جوئے، ملاوٹ اور جھوٹ وغیرہ کی کمائی کے لاکھوں روپے ہڑپ کر رہے ہیں۔ بلکہ اپنے پیاروں کو ثواب پہنچانے کے لیے صدقہ خیرات بھی کرتے ہیں ۔ ( جب کہ حدیث پاک کے مطابق حرام مال کی خیرات قبول نہیں ہوتی) پھر اوپر سے کہتے ہیں کہ ہم پر الله کا بڑاکرم ہے۔

ایک شبہ کا ازالہ
یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ” دم“ کی کمائی حرام ہے ؟ اس کو خوب سمجھ لیجیے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ دم او رتعویذ کو ہی شفا دینے والے سمجھتے تھے حالاں کہ شفا الله تعالیٰ دیتے ہیں، اسی وجہ سے ایسے دم کی کمائی حرام ہے۔ جب کہ مسلمان دوائی ، دم او رتعویذ میں شفا نہیں سمجھتے، بلکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ دوا کی طرح دم او رتعویذ بھی علاج کا ایک طریقہ ہے جس طرح حلال دوا کسی حلال مقصد کے لیے استعمال کی جائے تو کوئی حرج نہیں، بلکہ سنت نبویہ ہے، اسی طرح جس دم یا تعویذ کا مضمون کفر وشرک او رگناہ والا نہ ہو او رکسی جائز مقصد کے لیے کیا جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔

آخری گزارش
عزیز تاجر بھائیو! رزق ہر آدمی کا مقرر ہے، جب تک اسے حاصل نہ کر لے گا موت نہیں آئے گی ۔ اگر اس رزق کو حاصل کرنے کے لیے آمدنی کا ذریعہ حلال ہو گا تو اس ذریعہ سے آنے والی روزی بھی حلال ہو گی، ورنہ حرام۔ جب روزی مقدر ہے، مل کر ہی رہے گی تو پھر حرام ذریعہ آمدنی اختیار کرکے خوامخواہ دنیا وآخرت میں ذلت ورسوائی، الله تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب مول لینے کی کیاضرورت ہے ؟ لہٰذا ہمیں تجارت کا شرعی طریقہ سیکھنا چاہیے، تاکہ اس کے مطابق تجارت کرکے الله تعالیٰ کے پسندیدہ آدمی بن جائیں۔ الله ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائیں۔ 
Flag Counter