اسلامی نظام نکاح کے مقاصد
مولانا محمد اسجد قاسمی
اسلام دین فطرت ہے اور اس کا سب سے بڑا امتیاز وہ روح اعتدال ہے جو اس کی ہر تعلیم او رہر حکم میں جلوہ گر نظر آتی ہے ، انسان میں موجود فطری، خلقی او رجنسی احساسات وجذبات کی تسکین اورتکمیل کے لیے اسلام نے انتہائی مرتب، جامع اور حکیمانہ ازدواجی نظام متعین کیا ہے، اسلام نہ تو جنسی لذت کو اصل مقصود حیات قرار دیتا ہے اور نہ اس جذبے کو شر محض قرار دے کر اس کی بیخ کنی چاہتاہے، افراط وتفریط کی ان دونوں انتہاؤں سے اسلام کا دامن پاک ہے اور اس کا معتدل نظام ازدواج اس پر شاہد عدل ہے ، اسلام کے اس نظام کی ایک جھلک اس آیت مبارکہ میں دیکھی جاسکتی ہے: ﴿ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودة ورحمة﴾․ (الروم:21)
ترجمہ: الله کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں ، تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اورر حمت پیدا کردی۔
اس آیت میں واضح فرما دیا گیا ہے کہ ازدواجی زندگی کا اصل مقصود اوراس نظام کی سب سے بڑی برکت سکون دل او رراحت قلب کی دولت گراں مایہ ہے، نکاح کو ذریعہ محبت ورحمت بنایا گیا ہے ، جس کے معنی یہ ہیں کہ مردوزن کا ازدواجی ربط صرف مذہبی اور قانونی ہی نہیں ہوتا، بلکہ قلبی اور طبعی بھی ہوتا ہے ۔ مفسرین کے بقول محبت کا تعلق زمانہ شباب سے اور رحمت کا تعلق بڑھاپے سے ہوتا ہے۔ شباب کے عالم میں مردوزن محبت کی راہ پر چلتے ہیں او ربڑھاپے میں یہ محبت طبعی رحمت وترحم میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اور حضرت ابن عباس کے بقول آیت مذکورہ میں محبت ومودت کے جائز طریقے سے جنسی خواہش کی تسکین کی طرف اور رحمت سے اولاد کی طرف اشارہ ہے۔ ( تفسیر قرطبی:17/14)
اس میں کوئی شک نہیں کہ حیات انسانی میں سکون سب سے بیش قیمت دولت ہے اور اس دولت کا حصول نکاح کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿ھو الذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منھا زوجھا لیسکن الیھا﴾․ ( الاعراف:189)
ترجمہ: وہ الله ہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا، تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔
غور کیا جائے تو نکاح کی معنویت کے اظہار کے لیے سکون سے زیادہ جامع کوئی لفظ ہو ہی نہیں سکتا، جس کے ذیل میں قلبی، طبعی، ذہنی ، جسمانی ، دماغی ، جنسی وصنفی ہر قسم کا سکون آجاتا ہے او راسی کو سورة الفرقان میں ﴿قرة اعین﴾ (آنکھوں کی ٹھنڈک) سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اہل ایمان کے اوصاف میں ان کی یہ دعا بھی مذکور ہے : ﴿ربنا ھب لنا من ازواجنا وذریاتنا قرة أعین﴾․
ترجمہ: اے ہمارے پروردگار ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔ اسی کو حدیث پاک میں:”لم یرللمتحابین مثل النکاح“․ ( دو محبت کرنے والوں کے لیے نکاح سے بہتر اور کوئی چیز نہیں دیکھی گئی۔) کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔
اسلام کا نظام نکاح انسان کے شہوانی جذبات کو بے لگام او ربے مہار ہونے سے بچاتا ہے اور بے شمار برائیوں اور مفاسد سے روکتا ہے ، اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ مردوعورت کے اخلاق وپاکیزگی کا تحفظ ہو۔ نسل انسانی کی بقا او رافزائش ہو۔ سکون ومحبت پیدا ہو۔ دینی اور معاشرتی مصالح کی رعایت کی جائے۔ اسی لیے اسلام اپنے ہر پیروکار کو نکاح کی تاکید وترغیب دلاتا ہے اور بے نکاحی زندگی سے شدت سے روکتا ہے ۔ ذیل میں ہم اسلام کی ان تاکیدی وترغیبی تعلیمات کا خلاصہ پیش کررہے ہیں۔
نکاح کی تلقین وتاکید
قرآن کریم میں اہل ایمان کو حکم دیاجارہا ہے :﴿فانکحوا ماطاب لکم من النساء﴾․ ( النساء:3)
ترجمہ: جو عورتیں تمہیں پسند آئیں تم ان سے نکاح کرو۔
حضرت امام بخاری نے ” باب الترغیب فی النکاح“ (نکاح کی ترغیب کا بیان) کے عنوان سے ایک مستقل باب ذکر فرمایا ہے او راس کے ذیل میں مذکورہ آیت سے استدلال کیا ہے ۔ بقول حافظ ابن حجر : فانکحوا (نکاح کرو) امر کا صیغہ ہے، جس کا کم سے کم درجہ استحباب کا ہے ، اس سے نکاح کی ترغیب ثابت ہوتی ہے۔ ( فتح الباری:104/9)
حضرت عبدالله بن مسعود رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:”یا معشر الشباب، من استطاع منکم الباء ة فلیتزوج، فانہ اغض للبصر واحصن للفرج، ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم، فانہ لہ وجاء“․( صحیح بخاری، کتاب النکاح)
ترجمہ: اے جوانو! تم میں سے جو نکاح کی طاقت رکھتا ہو وہ ضرور نکاح کر لے ، کیوں کہ اسی سے نگاہ میں احتیاط آتی ہے اور شرم گاہ کی حفاظت ہوتی ہے او رجو حقوق زوجیت ادا کرنے پر قادر نہ ہو وہ روزے رکھے کیوں کہ روزہ شہوت توڑنے کا ذریعہ ہے ۔
اس حدیث کے ذیل میں محدثین وفقہاء نے نکاح کے شرعی حکم کی تفصیل ذکر کی ہے، اس سلسلہ میں ایک بحث اس سے متعلق ہے کہ نکاح عبادات کے باب سے ہے یا مباحات کے باب سے ؟ حضرات احناف وحنابلہ نکاح کو عبادات میں شمار کرتے ہیں ۔ حضرات شافعیہ نکاح کو مباحات میں شمارکرتے ہیں۔ حضرات مالکیہ ایک قول کے مطابق یہ فرماتے ہیں کہ نکاح اقوات میں سے ہے، قوت اس چیز کو کہتے ہیں جس کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے اور نکاح ایسی چیز ہے کہ اس کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ نکاح تفکہات کی قبیل سے ہے اور فواکہ کی شان یہ ہوتی ہے کہ استعمال ہوں تو بہت بہتر ، نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح نکاح ہو تو بہت بہتر ، نہ ہو توکوئی حرج نہیں ہے۔ ( کشف الباری شرح بخاری: کتاب النکاح)
اسی طرح حضرات احناف وحنابلہ کے نزدیک نوافل میں اشتغال کی بہ نسبت نکاح افضل ہے ، جب کہ حضرات شافعیہ کے نزدیک نوافل کا اشتغال نکاح سے زیادہ افضل ہے ۔ امت کے تقریباً تمام علماء وفقہاء غلبہ شہوت اورمبتلائے زنا ہونے کے اندیشہ کی صورت میں نکاح کو لازم قرار دیتے ہیں، ہاں! اگر یہ غلبہ وخدشہ نہ ہو اور عام نارمل حالات ہوں تو فقہا کے اقوال مختلف ہیں۔
ابن حزم ظاہری، ابوداؤد ظاہری وغیرہ عام حالات میں بھی نکاح کو فرض ولازم قرار دیتے ہیں اور استدلال یہ کرتے ہی کہ زنا سے بچنا فرض ہے اور یہ بچاؤ نکاح کے بغیر نہیں ہو سکتا ، اس لیے نکاح بھی فرض ہو گا۔ (المبسوط للسرخسی:193/4) دیگر فقہاء عام حالات میں نکاح کو سنت یا مستحب یا مباح قرار دیتے ہیں۔
مسلک حنفی میں اس کی تفصیل حسب ذیل ہے :
شوہر جسمانی ومالی ہر دو لحاظ سے حقوق زوجیت کی ادائیگی پر قادر ہو ، مہر اور نفقہ دے سکتا ہو اور نکاح نہ کرنے کی صورت میں اسے مبتلائے زنا ہو جانے کا یقین بھی ہو ، تو اس پر نکاح فرض ہے ۔
حقوق کی ادائیگی پر قادر ہو اور بے نکاح رہنے پر ابتلائے زنا کا یقین نہ ہو، بلکہ اندیشہ وخدشہ ہو او راس کی شہوت مشتعل بھی ہو تو اس پر نکاح واجب ہے۔
حقوق زوجیت ادا کرسکتا ہو اور اس کی صورت میں معتدل اور نارمل ہو، نہ شہوانی جذبات غالب ہوں اور نہ وہ سردمہری کا شکار ہو تو اس کے لیے نکاح سنت مؤکدہ ہے ، تحفظ عفت اور طلب اولاد صالح کی نیت سے نکاح پر اسے اجر ملے گا او رنکاح نہ کرنے کی صورت میں ترک سنت کی وجہ سے وہ گنہگار ہو گا۔
اگر مرد کو یہ خدشہ ہو کہ نکاح کی صورت میں وہ بیوی کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا تو نکاح مکروہ تحریمی ہے۔
او راگر مرد کو کسی وجہ سے نکاح کی صورت میں عورت پر ظلم اوراس کے ساتھ غیر منصفانہ برتاؤ او راس کی حق تلفی کا یقین ہو ، تو اس کے لیے نکاح حرام وناجائز ہے۔
اگر مرد کو نکاح نہ کرنے کی صورت میں مبتلائے زنا ہونے کا اور نکاح کرنے کی صورت میں عورت پر ظلم وحق تلفی کا یقین ہو تو راجح قول کے مطابق اس کے لیے نکاح حرام ہو گا۔ ( الفقہ الاسلامی وادلة:32/7)
نکاح سنت انبیاء ورسل ہے
اسلام نے نکاح کی ترغیب وتاکید اس انداز سے بھی فرمائی ہے کہ اسے انبیاء علیہم السلام کی عام سنت بتایاہے۔ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ ﴿ولقد ارسلنا رسلا من قبلک، وجعلنا لھم ازواجا وذریة﴾․ (الرعد:38)
ترجمہ: آپ سے پہلے ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ان کو ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنایا تھا ۔ بقول امام قرطبی : یہ آیت کریمہ نکاح کی ترغیب وتاکید کر رہی ہے اور بے نکاحی زندگی سے روک رہی ہے اور نکاح کو پچھلے رسولوں کی سنت قرار دے رہی ہے ۔ حضرت عائشہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے نقل کرتی ہیں : ” النکاح من سنتی ، فمن لم یعمل بسنتی فلیس منی، وتزوجوا فانی مکاثر بکم الامم، ومن کان ذا طول فلینکح ، ومن لم یجد فعلیہ بالصیام؛ فان الصوم لہ وجاء“․ ( صحیح ابن ماجہ للألبانی:310/1)
ترجمہ: نکاح میری سنت ہے ، جو میری سنت پر عمل نہ کرے وہ مجھ سے ( میرے طریقے پر ) نہیں ہے ، تم شادیاں کرو، میں دیگر امتوں پر تمہاری کثرت کی وجہ سے فخر کروں گا، جو بھی وسعت رکھتا ہو ضرور نکاح کرے ،جو وسعت نہ رکھتا ہو تو روزں کا اہتمام کرے، روزہ اس کے زور شہوت کو توڑ دے گا۔
اس حدیث پاک میں سنت سے مراد طریقہ ہے اور حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جو نکاح نہیں کرتا وہ پیغمبرانہ طریقہ کو چھوڑ کر اور اتباع واطاعت کے بجائے رہبانیت اور ترک دنیا کا غیر شرعی طریقہ اپناتا ہے۔ (نیل الاوطار شوکانی:117/6)
حضرت عکاف بن دواعہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا: عکاف کیا تمہارے پاس بیوی ہے ؟ جواب دیا نہیں۔ آپ نے پوچھا باندی؟ جواب دیا نہیں۔ پوچھا جسمانی اعتبار سے تندرست ہو؟ جواب دیا ہاں۔ پوچھا مالی وسعت ہے ؟ جواب دیا ہاں۔ آپ نے فرمایا: ” فانت اذا من اخوان الشیاطین، ان کنت من رھبان النصاری فالحق بھم، وان کنت منا فاصنع کما نصنع، فان من سنتنا النکاح، شرارکم عزابکم، وان ارذل موتاکم عزابکم“ ․( الفقہ الاسلامی وادلتہ:36/7)
ترجمہ: تب تو تم شیطان کے بھائی ودوست ہو ، اگر تم عیسائی راہبوں میں سے ہو تو انہیں سے جاملو اور اگر ہم میں سے ہو تو ہمارے طریقے پر چلو، ہماری سنت نکاح ہے ، تم میں بدترین وہ ہیں جو بے نکاح ہیں اور جوبے نکاح مر گئے وہ بدترین مردے ہیں۔
دنیا کی سب سے بہتر متاع
اسلام نے نکاح کو دنیا کی سب سے بہتر متاع کے حصول کا ذریعہ قرار دے کر نکاح کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا ہے ۔ حضرت عبدالله بن عمر آپ صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں :” الدنیا متاع، وخیر متاع الدنیا المرأة الصالحة“․(صحیح مسلم، باب الوصیة بالنساء)
ترجمہ: دنیا ایک متاع ہے اور دنیا کی سب سے بہتر متاع ودولت نیک بیوی ہے۔ اسی مضمون کو ایک دوسری حدیث میں یوں بیان کیا گیا ہے : ”اربع من اعطیھن، فقد اعطی خیر الدنیا والآخرة: قلباشاکراً، لسانا ذاکراً، وبدنا علی البلاء صابرا، وزوجة لا تبغیہ خونا فی نفسھا ومالہ“․ ( الترغیب والترہیب للمنذری:41/3)
ترجمہ: چار چیزیں جسے دی جائیں اسے دنیا وآخرت کی ہر خیر مل گئی ہے : شکر وسپاس کے جذبات سے لبریز دل۔ ذکرالہٰی سے تر زبان۔ مصائب پر صبر کرنے والا جسم ۔ ایسی نیک بیوی جو اپنی عزت وآبرو اور شوہر کے مال کے معاملہ میں کوئی خیانت گوارہ نہ کرے۔
حضرت ثوبان فرماتے ہیں کہ جب قرآن میں:﴿والذین یکنزون الذھب والفضة﴾ والی آیت اتری، جس میں سونے چاندی اور دولت کا ذخیرہ جمع کرنے اور زکوٰة ادا نہ کرنے والوں کے انجامِ بد کاذکر ہے تو اس وقت دورانِ سفر بعض صحابہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کون سا مال بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا: ”افضلہ لسان ذاکر، وقلب شاکر، وزوجة مؤمنة تعینہ علی ایمانہ“․ (ترمذی شریف، کتاب النکاح)
ترجمہ: سب سے بہتر مال ذکر والی زبان، شکر والا دل اور شوہر کے ایمان میں مدد گار صاحب ایمان بیوی ہے۔
لباس زندگی
قرآن میں عورتوں کو مردوں کے لیے او رمردوں کوعورتوں کے لیے لباس زندگی بتایا گیا ہے ۔ارشاد ہے:﴿ھن لباس لکم وانتم لباس لھن﴾․ (البقرة:187)
ترجمہ: وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو ۔
یہ قرآنی تعبیر نکاح کی اہمیت اور مقصدیت کا انتہائی جامع، بلیغ اور معنی خیز بیان ہے ، لباس کا لفظ اپنے جلو میں اس موقعِ استعمال میں بے حد معنویت رکھتا ہے ۔
لباس کا پہلا مقصد پردہ پوشی ہے ، وہ انسان کے جسم کے لیے ساتر ہوتا ہے ، بالکل اسی طرح نکاح کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کے پردہ پوش ہو جاتے ہیں ، جذبات کا ہیجان بالکل طوفانی ہوتا ہے اور نکاح نہ ہو تو یہ ہیجان بگاڑ پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا، انسانی نفس کے عیوب کی پردہ پوشی بیوی کے لیے شوہر کے ذریعہ سے اور شوہر کے لیے بیوی کے ذریعہ ہی سے ہو سکتی ہے ، عفت مآبی اور حیا کے لیے نکاح سب سے اہم چیز ہے اور حیا باطن کا اصل لباس ہے او رحیا کو حاصل کرنے میں شوہر کو بیوی سے اور بیوی کوشوہر سے جو تعاون ملتا ہے وہ کسی اور چیز سے نہیں ملتا۔
لباس کا دوسرا مقصد زینت وآرائش ہے ، لباس کے ذریعے انسان زینت وجمال اور سلیقہ وشائستگی سے اپنے کو آراستہ کرتا ہے ، غور کیا جائے تو یہ چیز او رزیادہ وسعت کے ساتھ شوہر وبیوی کو ایک دوسرے سے حاصل ہوتی ہے، ازدواجی تعلق کی برکت سے ہی خانگی زندگی کی تمام رونقیں، بہاریں اور آرائشیں حاصل ہوتی ہیں۔
لباس کا تیسرا مقصد سردوگرم اور دیگر خطرات سے حفاظت ہے، اخلاقی اعتبار سے دیکھا جائے تو ازدواجی زندگی مرد وعورت دونوں کو شہوانیت، حیوانیت اور شیطانیت کے تمام حملوں سے محفوظ رکھتی ہے۔
قرآن کی یہ تعبیر” کہ عورتیں لباس زندگی ہیں“ اس قدر جامع ہے کہ اس سے یورپ کا یہ الزام خود بخود پادر ہوا ہو جاتا ہے کہ اسلام عورت کی تحقیر کرتا ہے ، اس الزام سے بڑا جھوٹا الزام اور کیا ہو سکتا ہے ؟ کسی اور مذہبی تعلیم میں میاں بیوی کے باہمی اعتماد، مودت وتعلق کے لیے اسلام کی اس تعلیم کے درجے کی کوئی چیز ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی ، یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ وہ مرد وزن کو دوسرے کا لباس حیات بتا کر نکاح کی باعفت زندگی گزارنے کی تلقین وتائید فرماتا ہے۔
دین کی تکمیل
نکاح کی ترغیب وتاکید کے تعلق سے یہ حدیث نبوی بڑی اہمیت کی حامل ہے :”من رزقہ الله امرأة صالحة، فقد اعانہ علی شطر دینہ، فلیتق الله فی الشطر الباقی“․ ( المستدرک:161/2)
ترجمہ: جسے الله نیک بیوی عطا فرمائے تو اس کا نصف دین مکمل ہو جاتا ہے ، پھر باقی نصف کے بارے میں اسے الله سے ڈرنا ہے۔
مزید ارشاد ہے:”اذا تزوج العبد فقد استکمل الدین، فلیتق الله فی النصف الباقی“․ ( الترغیب والترہیب:42/3)
ترجمہ: جب بندہ شادی کر لیتا ہے تو وہ اپنا نصف دین مکمل کر لیتا ہے ، پھر اسے باقی نصف کے بارے میں الله سے ڈرنا چاہیے۔
واقعہ یہ ہے کہ بالعموم گناہوں کا صدور وارتکاب منھ اور شرم گاہ سے ہوتا ہے ، اس لیے ان کی حفاظت پر جنت کی ضمانت ہے ۔ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے : ”من وقاہ الله شر اثنتین ولج الجنة: مابین لحییہ، ومابین رجلیہ“․ (تفسیر قرطبی:327/9 بحوالہ مؤطا)
ترجمہ: جسے الله جبڑوں کے درمیان کی چیز زبان اور پیروں کے درمیان کی چیز شرم گاہ کے شر سے بچا لے وہ جنت میں جائے گا۔
جب انسان نکاح کر لیتا ہے تو شرم گاہ کے شر سے عموماً محفوظ ہو جاتا ہے ، اب اسے صرف منھ کے شر سے اپنی حفاظت کرنی ہے ، گویا اس نے معصیت کا ایک دروازہ بند کرکے آدھا دین مکمل کر لیا، اب اسے منھ کی حفاظت کرکے معصیت کا دوسرا دروازہ بند کرنا اور باقی آدھے دین کو مکمل کرنا ہے ، اسی لیے حضرت طاؤس کا فرمان ہے:”لا یتم نسک الشاب حتی یتزوج“․ ( مصنف ابن ابی شیبہ:127/4)
ترجمہ: نوجوان کی عبادت نکاح کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی۔
بیوی کے ساتھ جنسی تسکین کااجر
ازدواجی زندگی میں زن وشوہر کے جنسی تعلقات پر جو اجروثواب من جانب الله عطا ہوتا ہے اس کو بیان کرکے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ہر مسلمان کو نکاح کی ترغیب مؤثر انداز میں فرمائی ہے۔
حضرت ابوذر کی روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”وفی بضع احدکم صدقة، قالوا: یا رسول الله! أیأتی احدنا شھوتہ، ویکون لہ فیھا اجرہ؟ قال: أرأیتم لو وضعھا فی حرام أکان علیہ فیھا وزر؟ فکذلک اذا وضعھا فی حلال کان لہُ اجر“․ ( صحیح مسلم)
ترجمہ: تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے قضاءِ شہوت کرے تو اس میں صدقہ جیسا ثواب ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا: یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ ہم میں سے کوئی اپنی شہوت پوری کرے او راس پر ثواب بھی پائے! آپ ا فرمایا: یہ بتاؤ کہ جب شرم گاہ کے حرام استعمال پر گناہ ملتا ہے تو جائز استعمال پر ثواب کیوں نہ ملے گا؟
بے نکاحی زندگی سے ممانعت
اسلام نے اپنے متبعین کو بے نکاحی زندگی او رتجرد سے شدت سے منع کیا ہے ، خواہ یہ تجر دنوافل وعبادات میں اشتغال وانہماک کی نیت ہی سے کیوں نہ ہو ۔
حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ چند صحابہ کرام نے باہم طے کیا کہ وہ اپنی جنسی شہوت کو کسی تدبیر سے ختم کر دیں گے اور دنیا کی لذتوں اور شہوتوں سے کنارہ کش ہو جائیں گے اور عیسائی راہبوں کی طرح دنیا میں گشت لگاتے رہیں گے۔ یہ بات جب آپ صلی الله علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان صحابہ کو بلایا اور فرمایا کہ میرا معاملہ یہ ہے کہ میں روزے بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا، رات میں سوتا بھی ہوں او رعبادت بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ، یہی میرا طریقہ ہے اور جو میرے طریقے کو اپنائے وہ مجھ سے ہے اور جونہ اپنائے وہ مجھ سے نہیں ہے ، پھر انہیں لوگوں کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی :﴿ یایھا الذین آمنوالا تحرموا طیبات ما احل الله لکم ولا تعتدوا، ان الله لا یحب المعتدین﴾․ ( المائدة:87)
ترجمہ: اے ایمان والو! جو پاک چیزیں الله نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کرو او رحد سے تجاوزمت کرو، الله کو حد سے تجاوز کرنے والے پسند نہیں۔ ( ملاحظہ ہو : تفسیر ابن کثیر:87/2)
اسی سے ملتا جلتا دوسرا واقعہ یہ بھی ہے کہ تین صحابہ آپ ا کی عبادت کا حال ازواجِ مطہرات سے معلوم کرنے آئے، پھر انہوں نے نے یہ طے کیا کہ رات بھر نمازیں پڑھیں گے ، ہمیشہ روزے سے رہیں گے اور عورتوں سے الگ رہیں گے، آپ انے ان سے فرمایا:” أما والله، انی لا خشاکم لله، واتقاکم لہ، لکنی اصوم وأفطر، وأصلی وأرقد، وأتزوج النساء، فمن رغب عن سنتی فلیس منی“․ ( بخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب)
ترجمہ: سنو! بخدا میں تم میں سب سے بڑھ کر الله سے ڈرنے والا او رپرہیز گار ہوں ، مگر میں روزے بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ہوں ، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ، جو میرے اس طریقے سے اعراض کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہے۔
حضرت سعد بن وقاص کا بیان ہے کہ ایک بار حضرت عثمان بن مظعون نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے تبتل (عورتوں سے انقطاع او رجدائی اختیار کرنے) کی اجازت مانگی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے سختی سے منع فرما دیا، اگر آپ صلی الله علیہ وسلم انہیں اجازت دے دیتے تو ہم اپنے کو خصی بنالیتے، تاکہ محل شہوت ہی ختم ہو جائے او رہم عبادت کے لیے یکسو ہو جائیں، مگر یہ عمل سخت ناپسندیدہ ہے۔ ( بخاری، کتاب النکاح، باب مایکرہ من التبتل والخصاء)
حضرت انس کا بیان ہے:
”رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نکاح کا حکم دیتے تھے اور بے نکاح رہنے سے منع فرماتے تھے اور بے حد محبت کرنے والی، کثرت سے بچہ جننے والی عورت سے نکاح کی تلقین کرتے تھے۔“ ( مسند احمد:245/3)
حضرت سعید بن ہشام بن عامر نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے بے نکاح رہنے کی اجازت چاہی، حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا کہ ایسا مت کرو، قرآن میں نکاح کو انبیا کا طریقہ بتایا گیا ہے ، اس لیے تم بے نکاح مت رہو۔ ( المحلی لابن حزم:440/9)
حضرت معاذ بن جبل کے بارے میں آتا ہے کہ اپنے مرض الوفات میں انہوں نے اپنے احباب سے کہا:” زوجونی، انی اکرہ ان الق الله عزباً“․ ( مصنف ابن ابی شیبہ:127/4)
ترجمہ: میرا نکاح کرادو، میں بے نکاحی کی حالت میں الله سے ملنا ناپسند سمجھتا ہوں ۔
حضرت ابن مسعود کا فرمان ہے :” لو لم اعش فی الدنیا الا عشراً، لاحببت ان یکون عندی فیھن امرأة“․ ( ایضاً)
ترجمہ: اگر میری زندگی کے صرف دس ہی دن باقی ہوں ، تب بھی میری خواہش یہ ہو گی کہ اس وقت بھی میری زوجیت میں کوئی خاتون ہو۔
انہیں کا یہ قول بھی ہے:” لو لم یبق من اجلی الا عشرة ایام، واعلم انی اموت فی اٰخر ھا یوماً، ولی طول النکاح فیھن لتزوجت مخافة الفتنة“․ ( المغنی لابن قدامة:446/6)
ترجمہ: اگر میری زندگی کے صرف دس دن بچیں او رمجھے معلوم ہو جائے کہ دسویں دن میں مر جاؤں گا اور ان دنوں مجھے وسعت نکاح ہو تو فتنہ سے بچنے کے لیے میں نکاح کر لوں گا۔
حضرت عمرفاروق نے ابوالزوائر نامی آدمی سے فرمایا: ”ما یمنعک من النکاح الاعجز او فجور“․ ( مصنف ابن ابی شیبہ:127/4)
ترجمہ: اگر تم نکاح نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو تم نکاح سے عاجز مرد ہو یا زنا وفجور کی زندگی پسند کرتے ہو ۔
واقعہ بھی یہی ہے کہ بے نکاحی زندگی گزارنے کے پس پردہ بالعموم یہی دو عنصر کار فرما ہوتے ہیں ، یا تو انسان حقوق زوجیت کی ادائیگی سے مالی یا جسمانی یا کسی اور سبب سے عاجز ہوتا ہے یا پھر اسے نکاح قید معلوم ہوتا ہے اور اسے زنا اور بدکاری کی راہ ہی بھلی معلوم ہوتی ہے۔
علامہ مروزی حضرت امام احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں:” امام احمد نے فرمایا کہ تجرد اور بے نکاح رہنے کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے کئی نکاح فرمائے، آپ ا صبح اٹھتے تھے تو کچھ نہ ہوتا تھا، مگر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بے نکاح رہنا گوارا نہ کیا، بلکہ آپ ا نکاح کی تلقین اور بے نکاحی زندگی سے اجتناب کا حکم فرماتے رہے اور آپ ا نے یہ بھی فرمایا: ”حبب الی من الدنیا النساء“( دنیا کی چیزوں میں سے میرے دل میں عورت کی محبت ڈال دی گئی ہے۔) اس پر امام مروزی نے کسی بزرگ کی بے نکاحی کا حوالہ دیا، یہ سنتے ہی امام احمد خفا ہو گئے اور جو ش میں فرمایا کہ تم محمدا اور آپ کے صحابہ کی پیروی کرو اور یاد رکھو کہ بے نکاح شخص کی نفلی عبادتوں کے ثواب سے زیادہ ثواب نکاح کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے اور اس کے رو رو کر باپ سے کچھ کھانے کے لیے مانگنے او رباپ کے اس کی تمنا پوری کرنے کے عمل میں ہے۔“ ( روضة المحبین لابن القیم:230)
روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بیوی سے محروم مرد کو اور شوہر سے محروم عورت کو افراطِ مال ودولت کے باوجود مسکین قرار دیا ہے۔ ( اسلام کا نظام عفت، مفتاحی:58بحوالہ جمع الفوائد)
امام احمد بن حنبل کا یہ جملہ بے حد فیصلہ کن ہے:” من دعاک الی غیر التزوج فقد دعاک الی غیر الاسلام“ ․( المغنی:447/6)
ترجمہ: جو بے نکاح رہنے کی دعوت دیتا ہے وہ اسلام سے باہر آنے کی دعوت دیتا ہے، یہ واقعہ ہے کہ نکاح سے دوری بے حیائی کا باعث ہے او رحیا کے ختم ہونے سے ایمان کا ختم ہونا نصوص اور تجربات دونوں سے ثابت شدہ حقیقت ہے۔