Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1433ھ

ہ رسالہ

9 - 17
رؤف ورحیم نبی صلی الله علیہ وسلم کا لطف وکرم
	

محترم شاہ بلیغ الدین مرحوم

رسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کی چادر دکھا کر عمیر نے پوچھا کہ … اسے پہچانتے ہو …؟ صفوان سمجھ گیا کہ کس کی چادر تھی۔ مگر منھ سے وہ کچھ نہ بولا۔ عمیر بن وہب نے اس چادر کو فرطِ عقیدت سے چوما، آنکھوں سے لگایا پھر بتایا کہ … یہ ردائے مبارک جمیل الشیم ، شفیع الامم، صاحب الجود والکرم صلی الله علیہ وسلم کی ہے …، صفوان! تم بڑے خوش نصیب ہو کہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے یہ چادر عنایت فرما کر تمہیں امان دی ہے۔

صفوان بن امیہ پوتڑوں کا رئیس تھا، بت پرستی اور رنگ رلیوں میں اس کا دل خوب ٹھکتا۔ اسلام سے اسے بیر تھا۔ یہ دشمنی اس وقت او ربھی بڑھی جب جنگ بدر میں اس کا باپ امیہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ پھر تو اس کے سینے میں وہ آگ بھڑ کی، وہ آگ بھڑکی کہ وہ شہِ کونین صلی الله علیہ وسلم کے نام سے جلنے لگا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی جان کے درپے ہو گیا۔

بڑی کوششوں سے اس نے عمیر بن وہب کو ملا لیا۔ زہر میں بجھا ہوا ایک خنجر اسے فراہم کیا۔ بہت سا ز رِ نقد دیا۔ اس کے بال وبچوں کی پرورش کا ذمہ لیا اور اسے اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ مدینة النبی میں کچھ دن کے لیے جارہے گا او رموقع ڈھونڈ کر… خاکم بدہن… رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کو اپنے ناپاک خنجر کا نشانہ بنائے گا۔ انسانی جان کی بڑی اہمیت ہے۔ الله تعالیٰ نے بار بار خبردار کیا ہے کہ محض دشمنی کی بنا پر یا مال ودولت کے لیے کبھی کسی کی جان نہ لینا۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ نماز کے بعد سب سے پہلے خون کے دعوے پیش ہوں گے۔ اگر کسی نے ایک آدمی کو قتل کر دیا تو گویا اس نے ایک پوری نسل کو ختم کر دیا۔ ایک جگہ ارشاد ربانی ہے کہ … ”کبھی کسی جان کو، جس کا مارنا الله نے حرام کر دیا ہے، ناحق قتل نہ کرنا۔“

جو لوگ خاندانی یا سیاسی جھگڑوں ، کسی اشتعال یا حرص وہوس کی بنا پر الله کے بندوں کی جان لیتے ہیں، وہ بہت بڑے ظالم ہوتے ہیں ۔ الله نے ان پر لعنت کی ہے ۔ توبہ کے دروازے اس نے سب پر کھلے رکھے ہیں، لیکن قاتل پر توبہ کے دروازے بند ہیں، اس لیے کہ اپنے گناہ تو وہ معاف کر دیتا ہے، لیکن بندوں کے آزار وہ معاف نہیں کرتا۔ سنن ابن ماجہ میں ہے ، ایک موقع پر ارشادِ نبوی ہوا کہ ایک مسلمان کے ناحق مارے جانے کے مقابلے میں الله کے نزدیک تمام دنیا کا مٹ جانا زیادہ آسان ہے…۔ اس سے بڑھ کر خونِ انسانی کا احترام اور کیا ہو گا؟

طبقات ابن سعد میں ہے کہ عمیر بن وہب مدینہ پہنچے او رکچھ دن وہاں رہے تو ان کے دل کی کیفیت ہی بدل گئی۔ ایک بار چہرہٴ انور پر نگاہیں کیا پڑیں کہ دل روشن ہو گیا۔ انہوں نے زہریلا خنجر جانے کہاں پھینک دیا؟ دوڑے دوڑے مسجد نبوی پہنچے او ررسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دست حق پر بیعت کر لی۔ بیعت ہی نہیں کی، بلکہ اپنی آمد کی ساری تفصیل بھی کہہ سنائی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم مسکراتے ہوئے سب کچھ سنتے رہے، غم وغصے کا ذرا اظہار نہ کیا۔

ہجرت کے آٹھویں سال الله کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم فتح مکہ کے لیے نکلے تو عمیر بن وہب بھی ہم رکاب تھے۔ یہاں پہنچ کر رحمتِ عالم صلی الله علیہ وسلم نے اہل مکہ کو امن عام عطا فرمایا۔ اس طرح امت مسلمہ کو سبق دیا کہ سیاسی جھگڑے ہوں یا عقائد ونظریات کے بکھیڑے… اگر عفوودرگزر سے کام لیا جائے تو الله تعالیٰ خوش ہوتا ہے۔

صفوان بن امیہ او راس کے بہت سے ساتھی اسلامی لشکر کو دیکھ کر ہی مکہ سے فرار ہو گئے تھے، عام معافی کے باوجود ان گناہ گارانِ ازلی کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ لوٹ آتے۔ عمیر بن وہب نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر عرض کیا کہ … یا رسول الله! آپ کو معلوم ہے کہ صفوان میرا دوست ہے ، وہ مارے ڈر کے مکہ چھوڑ کر جدہ چلا گیا ہے۔ رحمت اللعالمین صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ … تم اپنے دوست کو بلالو! میں نے اسے امان دی۔

عمیر یہ سن کر نہال ہو گئے ، عرض کیا کہ … یا حبیب الله! کوئی نشانی عطا ہو کہ اسے دیکھ کر صفوان کو اپنی جاں بخشی کا یقین آجائے۔ الله کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے جسم اطہر پر سے چادر اتار کر انہیں عنایت فرمائی ۔ عمیر دونوں جہاں کی دولت سمیٹ کر سیدھے جدہ پہنچے اور صفوان کو اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوش خبری سنائی۔

سیرت ابن ہشام میں ہے کہ صفوان جدے سے لوٹا تو سیدھا خدمتِ نبوی میں پہنچا۔ عرض کیا کہ … مجھے آپ دو مہینے کی مہلت دیں تو میں سوچ لوں کہ مجھے کیا کرنا ہے ؟ استیعاب میں ہے ارشاد نبوی ہوا کہ… تمہیں چار مہینے کی مہلت ہے۔ الله کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ اسے مہلت دی، بلکہ جنگ حنین سے لوٹتے ہوئے اسے سو اونٹوں کا فیاضانہ عطیہ بھی دیا، تاکہ اسے یقین ہو جائے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے دل میں اس کے خلاف ذرا بھی میل نہیں۔

بات یہ ہے کہ ہمارے دین میں زور اور زبردستی ہے ہی نہیں۔ اگر مسلمانوں نے جبرواکراہ سے کام لیا ہوتا تو سات سو برس حکم رانی کرنے کے بعد آج بھارت میں ایک ہندونہ دکھائی دیتا۔ ہسپانیہ کی مثال دنیا کے سامنے ہے۔ وہاں بھی ہم نے کوئی آٹھ سو برس تک حکم رانی کی مگر، مقامی آبادی کی نسل کشی کا خیال کبھی ہمارے دل میں نہ آیا اور جب ہماری بازی پلٹی تو انہیں ناشکروں نے مسلمانوں کے خون سے ایسی ہولی کھیلی کہ آج ہسپانیہ میں ایک مسلمان نہیں ملتا۔

ہمیں رنگ ونسل، زبان ومذہب کے نام پر کسی طرح کا تعصب روارکھنے کا حکم نہیں۔ اسلام نے محبت اور عافیت کا پیام عام کیا ہے۔ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا اسوہٴ حسنہ یہی ہے۔

چناں چہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کرکے صفوان بن امیہ بت پرستی پر قائم رہا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا ضمیر اسے ڈسنے لگا اور زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ وہ ایمان لے آیا ( رضی الله عنہ)۔ کیوں کہ اسے رؤف ورحیم نبی صلی الله علیہ وسلم کا لطف وکرم بھولتا نہ تھا۔
Flag Counter