Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1433ھ

ہ رسالہ

4 - 17
علم کی اہمیت
	

مفتی عامر شہزاد

علم وہ عظیم دولت ہے کہ جس کوحاصل کرنے کے لیے حضرت موسی علی نبیّنا وعلیہ الصّلوة والسّلام جیسے عظیم پیغمبر بھی رخت ِ سفر باندھتے ہیں،علم وہ لازوال دولت ہے کہ جس کی بنیاد پر حضرت آدم علیہ السّلام کو مسجود ِملائکہ بنایا گیا،وہ علم ہی تھاکہ جس کی بنیاد پر حضرت یوسف علیہ السّلام کوکنویں سے نکال کر مصر کے تاج وتخت کا وارث بنادیا گیا،وہ علم کا ہی کمال تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کو تخت پے بٹھا کے ہو ا،خلا ،فضا کی سیر کرا دی گئی،علم وہ سرمایہ ہے کہ جس کا حاصل کرنا فرض ہے:”طلب العلم فریضة علی کلّ مسلم “۔علم وہ باکمال دولت ہے کہ جس کی تحصیل کے لیے نکلنے والے کے قدم فرشتوں کے نورانی پروں پر ٹکتے ہیں:﴿مامن خارج خرج من بیتہ الّا وضعت لہ الملائکة أجنحتہا رضا بما یطلب﴾،جی ہاں! علم وہ بڑی نعمت ہے کہ جس کو اوڑہنا بچھونا بنانے والاان دو میں سے ایک ہے جن کو قابلِ رشک قرار دیا گیا ہے:﴿لاحسد الّا فی الاثنین :…ورجل اتاہ اللہ الحکمة فہو یقضی بہا ویعلّمہا﴾،علم کی ہی بنیاد پر انسان نے چاند پرکمند ڈالی ہے،انسان نے تیز اور تند قسم کی ہواوٴں پر قبضہ جماکر اس پر جہازوں کو دوڑایا ہے ،تو اس کی بنیاد بھی علم ہے، علم کی بنیاد پر ہی انسان نے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندروں اور دریاوٴں کے سینے پر کشتیوں اور بحری جہازوں کو دوڑایا ہے۔

الحمد للہ! آج بھی اس گئے گزرے دور کے اندر علمی پیاس بجھانے کے لیے اور علوم ِ نبوّت کو اپنے سینے میں محفوظ کرنے کے لیے طالبان ِ علوم نبوّت دور دراز کا سفر کر کے مدارسِ دینیہ کا رخ کرتے ہیں کہ جن کے علمی ذوق وشوق کو دیکھ کر آدمی حیران و پریشان ہو جاتا ہے،کہ اس دور کے اندر جہاں مدارس ِ دینیہ کے خلاف ہر طرف پروپیگنڈے کیے جا رہے ہیں اور امت کا مدارس سے تعلّق ختم کرنے کے لیے طرح طرح کے بے جاالزامات لگائے جا رہے ہیں،لیکن یہ دیوانے اور مستانے ہرطرح کی تکلیف سہہ کر بھی قرآن وسنّت کے علوم کو سیکھنے سے نہ رکتے ہیں ،نہ تھکتے ہیں نہ بکتے ہیں ،نہ پیچھے ہٹتے ہیں،بلکہ اپنوں اور پرائیوں کے طعنے اور کڑوی کسیلی باتیں سن کر ،مدارس کے روکھے سوکھے ٹکڑے کھا کر اپنے عقیدہ اور اعمال کی اصلاح کی خاطر کوئی دقیقہ نہیں اٹھارکھتے۔

کیوں کہ سال کی ابتدا ہے کہ جس میں دینی مدارس کے طلباء ایک نئے ولولے اور جذبے سے علومِ نبوّت سے اپنے سینوں کو مزیّن کرنے کی تگ ودو میں لگ جاتے ہیں ،اس لیے اس وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم کچھ دیر کے لیے قرآن پاک کے بحرِ بے کنار میں غوطہ زن ہو کے علم کی فضیلت واہمیّت پر غور وخوض کرتے ہیں ،تاکہ ہمارا علمی جذبہ سال کے آخر تک جوان رہے۔

اربابِ علم و دانش میں کون شخص ایسا ہوگا جو” امام تفسیر، صاحب ِ تفسیرِکبیر، امام رازی“ رحمہ اللہ تعالی رحمة واسعة کے نام ِ نامی اور اسم گرامی سے ناآشنااور ناواقف ہو؟وہ اپنی اسی شہرہ آفاق تفسیر میں فرماتے ہیں :کہ اللہ وحدہ لاشریک نے اپنی لاریب اور بے عیب کتاب میں سات چیزوں کا سات چیزوں سے تقابل کیاہے :

﴿ومایستوي الأعمی والبصیر﴾․ ﴿ولا الظّلمات ولا النّور ﴾․﴿ولا الظّلّ ولا الحرور﴾․﴿ومایستوي الأحیاء ولا الأموات﴾․ (سورةفاطر، آیت:19تا22)﴿قل لا یستوي الخبیث والطّیّب﴾․(سورة المائدة،آیت:100)﴿لا یستوي أصحاب النّار وأصحاب الجنّة ﴾․ (سورة الممتحنة،آیت:20) ﴿قل ھل یستوي الّذین یعلمون والّذین لایعلمون﴾․(سورة الزّمر،آیت:9)

ان سات مقامات میں ایک طرف علم مراد ہے اور دوسری طرف جہالت،چناں چہ علم بینائی ہے اور جہالت نابینگی،علم روشنی ہے اور جہالت تاریکی ،علم ایک سایہ ہے اور جہالت دھوپ،علم ایک حیاتِ جاوداں ہے اور جہالت موت:
        الجاھلون فموتی قبل موتھم
        والعالمون وان ماتوا فأحیاء
        وفي الجھل قبل الموت موت لأھلہ
        فأجسامھم قبل القبور قبور
        وان امرء لم یحی بالعلم میّت
        ولیس لہ حین النّشور نشور

علم پاکیزہ چیز ہے اور جہالت ناپاک،علم جنّت کی طرف رہنمائی کرتاہے ،لہذا اہل علم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے۔

قرآن ِپاک میں تدبّر کرنے سے ایک اور نکتہ بھی سمجھ میں آتاہے کہ اللہ بزرگ وبرتر نے چار طبقوں کا نام لے کر ان کے بلند مرتبہ ہونے کا ذکر فرمایاہے ،ایک طبقہ مجاہدین کاہے :﴿فضّل اللہ المجاہدین علی القاعدین أجرا عظیما درجات منہ ومغفرة ورحمة﴾․(سورة النّساء،آیت :95،96)

دوسرانیک لوگوں کا ہے: ﴿ومن یأتہ موٴمنا قد عمل الصّالحات فأولئک لہم الدّرجات العلی﴾․(سورة:طہ،آیت:75)

تیسرا اصحابِ بدر کا ہے:﴿انماالموٴمنون الّذین اذ اذکر اللہ وجلت قلوبہم… لہم درجات عند ربّہم ومغفرة ورزق کریم﴾․(أنفال ،آیت:4)

چوتھا طبقہ اہلِ علم کا ہے :﴿یرفع اللہ الّذین امنوامنکم والّذین أوتواالعلم درجات﴾(سورة المجادلة،آیت:11)

امام ِتفسیر فرماتے ہیں کہ مرتبہ تو ان چاروں طبقوں کابلند وبالاہے،لیکن قرآن کا انداز بتلاتا ہے کہ اہل علم کا مقام اور مرتبہ باقی طبقوں سے بھی بلند و بالاہے۔

جی ہاں! علم کا مقام حکومت اور سلطنت سے بھی بڑھ کر ہے ،حضرتِ طالوت کو جب بادشاہ بناکر بھیجا گیاتو برادری اور قوم کے لوگوں نے کہا کہ: ﴿ونحن أحقّ بالملک منہ ولم یوٴت سعة من المال﴾کہ بادشاہت کے حق دار تو ہم ہیں، اس لیے کہ مال دارتو ہم ہیں،بڑے گھرانوں والے تو ہم ہیں ،طالوت تو ایک غریب اور نادار آدمی ہے، پھر اس کو باد شاہت کیوں کر اور کیسے مل گئی ؟تو حضرت طالوت کا دفاع کرنے کے لیے اللہ ربّ العزّت نے ان کے علم کو لا کے کھڑا کر دیا اور فرمایا: ﴿ان اللہ اصطفٰہ علیکم وزادہ بسطة في العلم والجسم﴾․(سورة البقرة،آیت:247)

تو جب حضرت طالوت کا دفاع علم کے ذریعے کیا گیا تو اس سے پتہ چل گیا کہ علم کی ضرورت سلطنت چلانے کے لیے بھی پڑتی ہے ،نیز دنیا میں خلافت کے نظام کو قائم کرنے کے لیے بھی علم کی ضرورت ہے۔ادھر دیکھو آسمان میں ایک مکالمہ چل رہا ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا:﴿انّي جاعل في الأرض خلیفة﴾ کہ میں زمین میں اپنا ایک نائب و خلیفہ بناناچاہتاہوں ،تو اس پر فرشتوں نے کہا:﴿ أتجعل فیہا من یفسد فیہا ویسفک الدّماء﴾․

کہ یہ تو زمین میں جاکے قتل و غارت کا بازار گرم کرے گا ،اے رب! خلافت کے حق دار تو ہم ہیں ،اس لیے کہ ہمہ وقت آپ کی تسبیح و تہلیل میں تو ہم ہی لگے ہوئے ہیں :﴿ونحن نسبّح بحمدک ونقدّس لک﴾․(سورة البقرة،آیت :30)

ملت کے پاسبانو! غور کرو کہ خالق ِ کائنات نے اس مقام پر یہ نہیں فرمایا کہ یہ انسان دنیا میں جاکر خونریزی نہیں کرے گا ،نہ یہ فرمایا کہ انسان پر یہ اعتراض نہ کرو ،نہ یہ فرمایا کہ یہ زیادہ عبادت کرے گا ،بلکہ مالک الملک نے اس سوال کا جواب دینے کے لیے علم کو لاکے کھڑا کر دیا، جس کی تعبیر قرآن پاک نے یوں کی ہے :﴿وعلّم آدم الأسماء کلہا﴾ (سورة البقرة،آیت :31)

اس میں اشارہ مل گیا کہ انسان خونریزی کرے گا ،لیکن اس کا یہ فعل علم کے مطابق ہو گا جو علم اس کی لڑائی کو جہاد بنادے گا،جی ہاں جو شعبہ علم سے جتنا منسلک ہوگاوہ اتناہی اعلی ہوگااور جو شعبہ علم سے جتنا دور ہوگا وہ اتنا ہی پستی کا شکار ہوگا ،اگر تصوّف سے علم کو نکال دیا جائے ،تو وہ محض کھانے پینے کا نام بن کر کے رہ جائے ،اگر تبلیغ سے علم نکل جائے ،تو وہ سیر سپاٹے کا نام بن کر رہ جائے،اگر جہاد سے علم کو نکال دیا جائے ،تووہ دہشت گردی ،غارت گری اور بربریّت کا نام بن کر رہ جائے،کوئی شریعت کا عمل ایسا نہیں کہ جس میں علم کی ضرورت نہ ہو۔

علم کی اہمیّت کا اندازہ ہم پہلی نازل ہونے والی وحی سے بھی لگاسکتے ہیں کہ اس وحی میں کل پانچ آیات ہیں، جن میں ایک طرف انسان کی پیدائش کے مادے کاذکر ہے تودوسری طرف انسان کے علم کا ذکر کرکے اشارہ کردیاگیاکہ انسان کامبدء خلق تو جماہوا خون ہے ،لیکن انسان کی انتہا علم ہے، اس کا کمال علم ہے ،اس کی ترقی علم ہے اور علم ہی وہ دولت ہے جو قابلِ فخر ہے۔

جب علم کی اہمیّت اس کامقام اور مرتبہ ہمارے سامنے واضح ہو گیا ،تو ہمیں چاہیے کہ اس مقدّس اور نورانی علم کو حاصل کرنے میں کو ئی کوتاہی غفلت نہ کریں،نیز ہر ایسی چیز کو خاطرمیں نہ لائیں جو اس راہ میں رکاوٹ بنے اور ہماری زبان پر جاری ہو :

”ربّ زدني علما، اللہمّ نوّر قلبي، وزد قوّة سمعي وبصري وحفظي، اللہم نور قلبي بعلمک، واستعمل بدني بطاعتک، وبارک وسلّم علیہ“․
Flag Counter