غفلت کے اسباب، علامات، ہولناکیاں اور علاج
مولانا محمد حذیفہ وستانوی
اسلام‘ رب ذو الجلال کی جانب سے نازل شدہ آخری کامل ومکمل دین ہے، خود رب ذو الجلال نے ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہ لَحَافِظُوْنَ﴾ کہہ کر اس کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے اور ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ کہہ کر اس کے کامل ومکمل ہونے کا اعلان کیا۔ لہٰذا نہ اس کے کامل ہونے میں کوئی شک وشبہ اور نہ اس کے قیامت تک محفوظ رہنے میں کوئی تردد، مگر اسلاف نے اپنے تجربات کی روشنی میں جو قیمتی بات بیان کی ہے وہ قابلِ لحاظ ہے کہ ”کسی بھی دین کے محفوظ رہنے کے لیے رجال اللہ اور کتاب اللہ دونوں کا ہونا ضروری ہے۔“
اور الحمد للہ! اسلام کی تاریخ دیگر تمام ادیان کے مقابلہ میں رجال اللہ سے مالا مال اور روشن وتاب ناک ہے، جتنی کثرت کے ساتھ رجال اللہ اسلامی تاریخ میں پیدا ہوئے، آپ کو تاریخ عالم میں کہیں اتنی بڑی تعداد رجال اللہ کی نہیں ملے گی اور وہ بھی ایک جیسے نہیں بلکہ ہر زمانہ میں اس زمانہ کے لحاظ سے رجال اللہ پیدا ہوتے رہے۔
آپ عمر بن عبد العزیز سے لے کراکابر علماء دیوبند تک کی تاریخ پر ایک اُچٹتی ہوئی نظرڈالیں، بلکہ بسا اوقات تو ایک ہی زمانہ میں ایک نہیں، دسیوں ایسے علماء ملیں گے جو واقعةً ”رجال اللہ“ کہے جانے کے مصداق ہوتے ہیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ رجال اللہ کہاں تیار ہوتے ہیں؟ کیا شکم مادر سے تیار ہو کر آئے تھے؟ نہیں! وہ بھی بوریہ نشیں تھے، بلکہ آخر کے دو صدیوں کے مجدد تو ہمارے انہیں مدارس اسلامیہ کے فارغ شدہ ہیں۔
آج تو مدارس میں الحمدللہ پہلے کے مقابلہ میں بہت زیادہ سہولتیں مہیا ہیں، پہلے نہ لائٹ تھی، نہ پنکھا،نہ ڈھنگ کے کتب خانے ،نہ کھانے کا صحیح انتظام، نہ جیب خرچ کے لیے امداد۔ آج یہ سب کچھ ہے، بلکہ اس کے علاوہ بہت سی سہولتیں موجود ہیں؛ مگر افسوس کہ نہ علم ہے، نہ محنت، نہ عمل کی کوشش۔
آہ!!! پچاس‘ سو سال قبل نہ اتنے طلبہ مدارس میں ہوتے تھے، نہ مدارس اتنی بڑی مقدار میں تھے ، نہ اتنی بڑی تعداد میں فضلاء اور حفاظ ہر سال مدارس سے دستار فراغت و فضیلت حاصل کرتے تھے؛ مگر اس کے باوجود جو تھوڑے ہوتے تھے وہ کام کے ہوتے تھے۔ کیسی کسمپرسی کے عالم میں ہمارے اسلاف نے علم حاصل کیا ۔ آپ ذرا ”صبر واستقامت کے پیکر،آداب المتعلمین، تحفة الطلباء“ وغیرہ کتابوں کی ورق گردانی کر کے دیکھیں اور پھر اپنی موجودہ زندگی پر ایک نظر دوڑائیں، آپ کو بون بعید محسوس ہوگا کہ وہ کیا تھے اور ہم ان کے نام لیوا کیا ہیں؟؟؟
اسی محاسبہ کی غرض سے ناکارہ انحطاط کے ایک اہم سبب غفلت اور اس کا علاج تحریر کرنے جارہا ہے۔
نوٹ:یہ مضمون در اصل طلبہ کے لیے لکھا گیاہے مگر عوام بھی اس مرض میں مبتلا ہیں، لہٰذا ان کے لیے بھی فائدہ سے خالی نہیں ۔
مجھے ہے حکم اذاں - لاالہ الا اللہ
غفلت کے اسباب اور حل
امام ابن القیم فرماتے ہیں کہ دوچیزیں ایسی ہیں کہ اگر کسی انسان میں سرایت کر جائے تو وہ آدمی دنیا اور آخرت کی تمام تر بھلائیوں سے محروم اور نامراد ہوجاتاہے اور ذلت اور مسکنت اس کا مقدر بن جاتی ہے اور وہ ہے: غفلت، خاص طور سے علم اور عمل سے۔ سستی۔ یہ دوایسی رذیل خصلتیں ہیں کہ جن کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ انسان کے دنیوی اور اخروی تمام تر مصائب کی بنیاد یہی دوچیزیں ہیں تو مبالغہ نہ ہوگا اور علم سے دوری کا سب سے بڑا اوراہم سبب یہی ”غفلت“ ہے ۔
غفلت پر قرآن کی تنبیہات
قرآن کریم جیسی پاکیزہ اور مقدس کتاب میں جو انسان کے لیے دستور حیات کی حیثیت رکھتی ہے اور جس میں بہت ایجاز واختصار سے کام لیا گیا ہے، مگر اس کے باوجود الدکتور ادریس علی الطیب کی تحقیق کے مطابق ”الغفلة“ کا ذکر قرآن کریم میں 21/سورتوں میں 35/آیتوں میں ہواہے۔ (الغفلة فی القرآن الکریم )
اسی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ غفلت کیسی ہلا کت خیز شے ہے تو آئیے! غفلت کی حقیقت اور اسباب اور علاج پر روشنی ڈالتے ہیں اور اس کے ہلاکت خیز اثرات سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، اللہ ہمیں غفلت سے نجات دے اور ذاکرین وشاغلین میں شامل فرمائے۔ (آمین یارب العالمین)
غفلت کی لغوی تحقیق
غفلت کے لغوی معنی ہیں: ﴿الذَّہُوْلُ وَ النِّسْیَانُ وَ عَدَمُ التَّذَکُّرِ وَ عَدَمُ التَّفَطُّنِ وَ التَّیَقُّظِ﴾ (الغفلة فی القرآن) یعنی بھول جانا، یادنہ رکھنا، ذہانت وفطانت سے محروم ہونا۔
غفلت کی اصطلاحی تعریف
سھو یعتری الانْسَان مِنْ قِلَّةِ التحفظ والتیقظ․(المفردات:364)
امام راغب فرماتے ہیں کہ اصطلاحاً غفلت کہا جاتاہے ”انسان پر طاری ہونے والی اس کیفیت کو جو لاپرواہی اور عدم تیقظ کی وجہ سے پیش آتی ہے“۔
امام جرجانی فرماتے ہیں:کہ”اَلْغَفْلة ھی متابعة النفس علی ما تشتہیہ“ غفلت کہا جاتاہے نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے کو۔ (التعریفات:161)
امام عبدالرحمن الجوزی فرماتے ہیں: علم دین کے حصول میں کوتاہی کرنا غفلت ہے اور دین سے مکمل اجتناب کرناجہالت ہے۔ عقل مند کبھی بھی غفلت کا شکارنہیں ہوتا،کیوں کہ وہ جانتاہے کہ غفلت کا انجام بڑا ہلاکت خیز ہوتاہے۔ خاص طور پر طلب علم میں سستی کرنا اور حصول علم کے دوران راحت سے کام لینا‘ انسان کے لیے دائمی حسرتوں کا باعث ہوتاہے اور وہ حسرتیں بھی ایسی کہ ان کی تلافی بھی ناممکن ہوجاتی ہے۔(الآداب الشرعیة:ج2/ص229)
بعض حضرات نے کہا کہ غفلت کہا جاتا ہے ”غیرمفید امور میں وقت ضائع کرنا۔“
غفلت کی شرعی تعریف
اصطلاح شرع میں غفلت کہتے ہیں: ”الاشتغال بالدنیا عن الآخرة“ آخرت فراموشی کے ساتھ دنیاوی امور میں منہمک ہونا۔
اسباب غفلت
جہالت اور نادانی:
آدمی غفلت میں اس لیے مبتلا ہوتا ہے کہ اس کے پیش نظر کوئی ہدف نہیں ہوتا ہے کہ وہ صرف دنیوی لذت کو شی کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے اور یہ اس لیے کہ اسے اللہ کی معرفت حاصل نہیں ہوتی ہے۔ اسے خیروشرمیں تمیز نہیں ہو پاتی، وہ نفع نقصان کو نہیں سمجھتا اور اپنے آپ کو حساب و کتاب سے بے نیاز تصور کرتا ہے۔
قرآن اسی کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: ﴿یَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَ ہُمْ مِنَ الآخِرَةِ ہُمْ غَافِلُوْنَ﴾۔ اللہ رب العزت نے اسی غفلت اور جہالت کو دور کرنے کے لیے انبیا کو مبعوث کیا۔ قرآن کا اعلان ہے: ﴿لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا اُنْذِرَ اٰبَاءُ ہُمْ فَہُمْ غَافِلُوْنَ﴾․ تاکہ آپ ان لوگوں کو ڈرائیں جن کے آبا و اجداد کو نہیں ڈرایاگیا اور غفلت میں پڑے رہے۔
معلوم ہوا نزولِ قرآن کے من جملہ اسباب میں سے ایک سبب اور نزول وحی کے اسباب میں سے ایک‘ غفلت کو دور کرنا بھی ہے۔
سید قطب اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ”غفلت روحانی بیماریوں میں سب سے مہلک بیماری ہے، جب آدمی غفلت کا شکار ہوتا ہے تو بالکل معطل اور بے حس ہوکر رہ جاتا ہے، نہ کسی چیز سے متاثر ہوتا ہے اور نہ کوئی اچھی بات کو قبول کرنے پر آمادہ ہوتا ہے۔ ہدایت کی نشانیاں اور اسباب اس کے سامنے آتے ہیں، مگر ہدایت سے محروم رہتا ہے۔“ (فی ظلال القرآن)
لہو و لعب میں دل چسپی
یہ بھی غفلت کا سبب ہوتا ہے۔ آج دشمنان اسلام نے ہم پر اسی ہتھکنڈے کو استعمال کیا ہے، طرح طرح کے کھیل ایجاد کرکے ہمارے درمیان ان کو رائج کردیا ہے اور مقصد سے غافل ہو کر ہم ان میں بغیر سوچے سمجھے منہمک ہوگئے ہیں۔ ارشادِ خداوندی ہے: ﴿اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ مَا یَأتِیْہِمْ مِنْ ذِکْرٍ مِّنْ رَّبَّہِمْ مُحْدَثٍ اِلاَّ اسْتَمَعُوْہُ وَہُمْ یَلْعَبُوْنَ لَاہِیَةً قُلُوْبُہُمْ﴾․
لوگوں کے لیے ان کے حساب کا وقت آپہنچا ہے اور وہ ہیں کہ غفلت کی حالت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں! جب کبھی ان کے پروردگار کی طرف سے نصیحت کی کوئی نئی بات ان کے پاس آتی ہے تو وہ اسے مذاق بنا بنا کر اس حالت میں سنتے ہیں کہ ان کے دل فضولیات میں منہمک ہوتے ہیں۔
اس آیت کریمہ میں غفلت کا ایک سبب ”لہو و لعب“ میں مبتلا ہونا بتلایا گیا ہے کہ آدمی بیکار بے سود اور لایعنی میں مشغول ہوتا ہے اور اس کو لہو ولعب کا چسکا اور مزہ لگ جاتا ہے تو اس کی طبیعت میں غفلت اور اللہ اس کے رسول اور اس کی کتاب، اس کے ذکر، اس کی عبادت، اس کی محبت، اس کی فرماں برداری سے اعراض اس کا شیوہ بن جاتا ہے۔نہ اس کا قلب خیر کی طرف مائل ہوتا ہے، اگرچہ کتنی ہی اچھی بات کیوں نہ بتلائی جائے اور کتنی توجہ سے کیوں نہ سن لے، مگر عمل پر آمادگی سے اس کو گویا نفرت ہو جاتی ہے۔ اللہم وفقنا ولاتجعلنا من الغافلین!
بروں کی صحبت
برے لوگوں اور ساتھیوں سے تعلق بھی آدمی کو اللہ سے غافل کرتا ہے۔ کل قیامت کے دن بہت سے لوگ بری صحبت کی وجہ سے جہنم رسید کیے جائیں گے۔ ﴿وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلا․ یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتِّخِذُْ فُلانًا خَلِیْلاً․ لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَاءَ نِیْ﴾․ اور جس دن ظالم انسان (حسرت سے) اپنے ہاتھ کاٹ کھائے گا اور کہے گا، کاش! میں نے پیغمبر کی ہم راہی اختیار کر لی ہوتی! ہائے میری بربادی! کاش! میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا! میرے پاس نصیحت آچکی تھی، مگر اس (دوست) نے مجھے بھٹکا دیا۔
گویا غافلین اور بروں کی صحبت بھی انسان کو اللہ سے غافل کرتی ہے، جس پر افسوس وہ قیامت کے دن کرے گا ، مگر وہ افسوس کسی کام کا نہ ہوگا، اللہ ہماری حفاظت فرمائے ۔
شاعر کہتا ہے:
صحبة الاخیار للقلب دوی
تزید فی القلب نشاطاً وقوی
وصحبة الجہال داءُ عمی
تزید فی القلب السلیم سقمًا
اچھوں کی صحبت بھی گویا دوا کے مانند ہے، جس سے طبیعت میں نشاط اور قو ت پیدا ہوتی ہے۔
اور نادانوں کی صحبت بیماری ہے اور اندھاپن ہے، جس سے روحانی بیماریوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
قرآن نے تو باقاعدہ صیغہٴ نہی کا استعمال کرکے گویا اسے حرام قرار دیا ہے۔
﴿وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہ عَنْ ذِکْرِنَا﴾
اور تو ایسے لوگوں کی اطاعت اور صحبت نہ اختیار کر کہ جن کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے۔
گناہ اور معاصی
آدمی اگر گناہوں کا عادی ہو جاتا ہے تو ا س پر بھی توفیق کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔﴿ کَلاَّ بَلْ رَأنَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَا کَانُوْا یَکْسِبُوْن﴾ ( ہرگز نہیں ! بلکہ جو عمل یہ کرتے رہے ہیں، اُس نے اِن کے دِلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے ۔) (سورہٴ مطففین:آیت13)
حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ جب آدمی نیکی کرتا ہے تو چہرے پر نورانیت ، قلب میں نور، رزق میں برکت، بدن میں قوت اور صالحین کے دلوں میں محبت اللہ کی طرف سے ڈال دی جاتی ہے۔ اور جب برائی کرتا ہے تو چہرے پر تاریکی، قلب میں ظلمت، بدن میں کمزوری اور رزق میں تنگی، صالحین کے دلوں میں اس کے بارے میں نفرت ڈال دی جاتی ہے۔ (الجواب الکافی:ص106)
لہذا معصیت سے اجتناب بہت ضروری ہے، ورنہ غفلت سے دوچار ہونا لازم ہے۔ اللہم انا نعوذبک من المأثم والمغرم۔
جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھنا
انسان میں غفلت کے پیدا ہونے کے من جملہ اسباب میں سے نماز جماعت سے ادا نہ کرنا بھی ہے، حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عباس وابن عمر نقل فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: لینتھینّ اقوام عن ودعہم الجماعات أو لیختمن اللہ علی قلوبہم ثم لیکونن من الغافلین“․ (ابن ماجہ ومسلم)
جو لوگ نماز باجماعت میں کوتاہی کرتے ہیں انہیں اپنی اس حرکت سے باز آ جانا چاہیے، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ ان کے دلوں پر مہر ثبت کردے اور وہ غافلین میں سے ہو جائیں۔
حدیث پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترک جماعت کا دنیوی وبال بیان کیا کہ نماز با جماعت نہ پڑھنے سے اللہ ناراض ہوتے ہیں اور جب اللہ ناراض ہوتے ہیں تو توفیق کے دروازے بند کر دیتے ہیں اور جب توفیق نہیں ملتی تو غفلت کی زندگی گزارنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اللہ ہمیں نماز باجماعت خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرنے کی ہمیشہ توفیق عطا فرمائے۔
کثرت سے ہنسنا
بکثرت ہنسنے سے آدمی پر غفلت طاری ہو جاتی ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مَن یأخذ عني ہوٴلاء الکلمات فیعمل بہن أو یعمل من یعلم بہن؟ فقال ابوہریرة: انا یارسول اللہ، فأخذ بیدی، وقال: اتق المحارم تکن اعبد اللہ، وارض بما قسم اللہ لک تکن اغنی الناس، واحسن الیٰ جارک تکن موٴمناً، واحب للناس ما تحب لنفسک تکن مسلما، ولا تکثر الضحک فان کثرة الضحک تمیت القلب۔ “․ (ترمذی)
حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کون ہے جو مجھ سے پانچ باتیں سیکھ لے اور اس پر عمل کرتا چلے یا ایسے آدمی کوسکھائے جو ان پر عمل پیرا ہو جائے؟ تو حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہ! میں اس کے لیے تیار ہوں۔ تو آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا اور ارشاد فرمایا: رشتہ داروں سے قطع تعلق سے اجتناب کر، تو سب سے بڑا عبادت گزار بن جائے گا ، اللہ کے ہر فیصلہ پر راضی رہ، لوگوں میں سب سے زیادہ بے نیاز ہو جائے گا ،اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کر، حقیقی مومن ہو جائے گا، لوگوں کے لیے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، سچے پکے مسلمان بن جاوٴ گے اور کثرت سے مت ہنسو! اس لیے کہ کثرت سے ہنسنا دل کو مردہ اور غافل کر دیتا ہے۔
فضول گوئی
ذکر اللہ ،تلاوت قرآن، مطالعہ کتب دینیہ کے علاوہ بغیر کسی غرض کے باتیں کرنا یہ بھی انسان کے اندر غفلت پیدا کرتا ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر کی روایت میں ہے: ”لَا تکثرُوْا الکَلام بِغَیْرِ ذِکْرِ اللّٰہِ؛ فَإن کَثْرَةَ الْکَلامِ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی قَسْوَةٌ لِلْقَلَبِ، وَاِنَّ ابعدَ النَّاسِ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی اَلْقَلْبُ الْقَاصِی“․(ترمذی)
اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ گفتگو مت کیا کرو، کیوں کہ ذکر اللہ کو ترک کر کے فضول گوئی سے قلب میں قساوت اور سیاہی پیدا ہو جاتی ہے اور بندوں میں اللہ سے سب سے زیادہ دور وہ ہوتا ہے جس کا دل قساوت زدہ ہو۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے!
لمبی لمبی آرزو باندھنا
لمبی لمبی آرزو کرنا اور بڑے بڑے خیالی پلان بنانا بھی غفلت کا ذریعہ ہے۔ ارشاد خداوندی ہے ﴿ذَرْہُمْ یَأکُلُوْا وَیَتَمَتَّعُوْا وَیُلْہِہِمُ الاَْمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ﴾․
انہیں چھوڑ رکھیں، وہ کھاتے رہیں اور امیدوں میں بھولتے رہیں، انہیں آئندہ معلوم ہو جائے گا۔
معلوم ہواصرف تمنا اور آرزو سے کچھ نہیں ہوتا، اصل یہ ہے کہ آدمی کچھ کرکے بتلائے، جو آدمی صرف آرزو کرتا ہے اور کچھ کرتا نہیں وہ بھی غفلت کا شکار ہو جاتا ہے اور قیامت کے دن جب اپنے اعمال نامہ کو خالی دیکھے گا تو اسے ہوش آجائے گا، مگر اس ہوش سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اللہ ہماری لمبی لمبی آرزوٴوں سے ہماری حفاظت فرمائے۔
حساب فراموشی
غفلت کا ایک سبب آخرت اور حساب کو بھول جانا بھی ہے: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَاءَ نَا وَرَضَوْا بِالْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَاطْمَأَنُّوْا بِہَا وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غَافِلُوْنَ﴾․” جن لوگوں کو ہماری ملاقات کا یقین نہیں اور دنیوی زندگی پر اطمینان کر بیٹھتے ہیں اور جو ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔ “
معلوم ہوا جب آخرت اور حساب پر یقین نہیں ہوتا توآدمی اللہ اور اس کے رسول سے غافل ہو جاتا ہے۔ نہ برائی چھوڑنے پرآمادہ ہوتاہے، نہ عذاب کو دیکھ کر عبرت حاصل کرتاہے، دنیامیں ایسی بد مستی سے اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین یارب العالمین!
اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو لا پرواہی سے سننا
اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو لا پرواہی سے سننے سے بھی آدمی غفلت کی سزا پاتا ہے۔ قرآن و حدیث کو سمجھایا جا رہا ہو اور آدمی لا پرواہی سے اسے سنے، اس سے بھی غفلت کا شکار ہوتا ہے۔ لہٰذا جب قرآن وحدیث کے حوالہ سے بات بیان کی جائے تو توجہ سے سننا چاہیے ، لاپرواہی سے نہیں ۔
غفلت کی ہولناکیاں
غفلت کے اسباب کو جاننے کے بعد اس کے انجام کو بھی جانتے ہیں، تاکہ غفلت سے بچنے کی کوشش کریں۔
ہلاکت یقینی
اللہ رب العزت نے امم سابقہ پر جو بد ترین عذاب نازل کیے ان کے اسباب بھی بیان کیے؛ مثلاً قوم فرعون پر نزول عذاب اور ان کے برے انجام کو بیان کرتے ہوئے کہا ﴿ فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُمُ الرِّجْزَ إلٰی اَجَلٍ ہُمْ بَالِغُوْہُ اِذَا ہُمْ یَنْکَثُوْنَ، فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْنَاہُمْ فِيْ الْیَمِّ بِاَنَّہُمْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَکَانُوْا عَنْہَا غَافِلِیْنَ﴾․
پھر جب ہم اُن پر سے عذاب کو، اتنی مدت تک ہٹا لیتے جس تک اُنہیں پہنچنا ہی تھا(مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم ا ور تقدیر میں اُن کے لیے ایک وقت تو ایسا آنا ہی تھا جب وہ عذاب کا شکار ہو کر ہلاک ہوں، لیکن اس سے پہلے جو چھوٹے چھوٹے عذاب آرہے تھے ان کو ایک مدت تک کے لیے ہٹالیا جاتا تھا) تو وہ ایک دم اپنے وعدے سے پھر جاتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے اُن سے بدلہ لیا اور انہیں سمندر میں غرق کر دیا، کیوں کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کوجھٹلایا تھا اور اُن سے بالکل بے پروا ہو گئے تھے۔
قوم فرعون کی ہلاکت کے دو سبب بیان کیے گئے: تکذیب اور غفلت۔ معلوم ہوا غفلت کا انجام دنیا ہی میں اللہ کے عذاب کا باعث ہوتا ہے۔اللہم احفظنا منہ!
توفیق سلب ہو جاتی ہے
غفلت کا دوسرا بدترین انجام، غفلت کے شکار لوگوں سے توفیق اللہ چھین لیتے ہیں۔ ارشاد ایزدی ہے ﴿وَ لَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِنَ الْجِنِّ وَالإْنْسِ لَہُمْ قُلُوْبٌ لاَّ یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اَذَانٌ لاَّ یَسْمَعُوْنَ بِہَا اُوْلٰئِکَ کَالْأنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُوْلٰئِکَ ہُمُ الْغَافِلُوْنَ﴾․
ا ور ہم نے جنات ا ور انسانوں میں سے بہت سے لوگ جہنم کے لیے پیدا کیے۔ (یعنی ان کی تقدیر میں یہ لکھا ہے کہ وہ اپنے اختیار سے ایسے کام کریں گے جو انہیں جہنم تک لے جائیں گے۔ لیکن یاد رہے کہ تقدیر میں لکھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ جہنم کے کام کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ،بلکہ بلا تشبیہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک استاد نے اپنے کسی شاگر د کے حالات کے پیش نظر یہ لکھ کر رکھ دیا کہ یہ فیل ہوگا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ استاد نے اسے فیل ہونے پر مجبور کردیا ،بلکہ اس نے جو کچھ لکھا تھا اس کا مطلب یہی تھا کہ یہ شاگرد محنت کرنے کے بجائے وقت ضائع کرے گا اور اس کے نتیجہ میں فیل ہوگا۔)
اُن کے پاس دِل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، اُن کے پاس آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں ا ور ان کے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں، وہ لوگ چو پایوں کی طرح ہیں، بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں، یہی لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔(سورہٴ نحل: آیت 106 تا 109)
معلوم ہوا کہ غافل سے اللہ ناراض ہو کر قوت ادراک وشعور چھین لیتا ہے۔سنتا ہے، مگر عمل کی توفیق نہیں ہوتی۔ دیکھتا ہے ، مگر عبرت حاصل نہیں کرتا اوریہ سب غفلت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اللہم لا تجعلنا من الغافلین!
غفلت انسان کو اللہ کی نشانیوں کی تکذیب پر آمادہ کرتی ہے
حق سے غفلت کا انجام بڑا بھیانک ہوتا ہے ﴿سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِيْ الَّذِیْنَ یَتَکَبَّرُونَ فِيْ الأرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ … وَکَانُوْا عَنْہَا غَافِلِیْن﴾
آپ اندازہ لگائیں، غفلت کا انجام اتنا بدترین ہے کہ آدمی اللہ کی نشانیاں دیکھ کر بھی اس کی تکذیب پرتل جاتا ہے، آج ایسی بے شمار نشانیاں آپ انسانوں میں پائیں گے۔ کیا جاہل؟ کیا پڑھے لکھے؟ ہرطرف آپ کو ایسے افراد ملیں گے جو اللہ کی نشانیوں کی تکذیب کرتے ہیں۔ اللہم احفظنا من الغفلة!
غفلت جہنم میں جانے کا سبب ہے
جہاں غفلت کی وجہ سے انسان دنیا میں بڑی بڑی سزاوٴں سے دوچار ہوتا ہے وہیں عذاب جہنم کا بھی مستحق ہو جاتا ہے۔ ارشاد ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَ، اُوْلٰئِکَ مَاوَاہُمُ النَّارُ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْن﴾ اور جو لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں ان کا ٹھکانا جہنم ہے، ان کے کرتوتوں کے سبب۔ معلوم ہوا دنیا وآخرت میں اللہ کی پھٹکار کے بنیادی اسباب میں سے ایک اہم سبب غفلت ہے۔ ”اَلنَّاسُ فِیْ غَفْلاتِہِمْ وَرُحٰی الْمَنِیَّةِ تَطْحَنْ“لوگ غفلت میں مبتلا ہیں جب کہ موت کی چکی برابر اپنے کام میں مشغول ہے۔ یعنی انسان کو موت برابر واقع ہوتی جارہی ہے، مگر پھر بھی غفلت میں پڑے ہیں، لوگوں کو کوئی پروا نہیں، وہ اپنی غفلت سے باز نہیں آرہے ہیں۔
غفلت کو دور کر نے کے لیے انبیا کی بعثت عمل میں آئی
قرآن نے بعثت انبیا کے جہاں بہت سے اسباب بیان کیے، ان میں سے ایک یہ بھی بیان کیا کہ جب جب لوگوں کو غفلت میں مبتلا پایا گیا، انبیا کو مبعوث کیا۔ ارشاد ہے:﴿لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا اُنْذِرَ اٰبَاءُ ہُمْ فَہُمْ غَافِلُوْنَ﴾ تاکہ آپ ان لوگوں کو ڈرائیں جن کے آبا و اجداد کو نہیں ڈرایاگیا اور وہ غفلت میں پڑے رہے۔ (سورہٴ یٰسین: آیت6)
قیامت کے دن غفلت سے عار دلائی جائے گی۔
﴿وَ جَاءَ تْ کُلُّ نَفْسٍ مَّعَہَا سَائِقٌ وَّ شَہِیْدٌ، لَقَدْ کُنْتَ فِيْ غَفْلَةٍ منْ ہٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَاء کَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ﴾ (سورہٴ ق: آیت21)
یعنی جب انسان کے لیے برا فیصلہ ہو جائے گا تو اسے عار دلائی جائے گی کہ تو اس دن سے غافل تھا اور تونے نیکی نہ کی، یہ اس کا انجام ہے ۔ اللہم وفقنا بالقول والعمل لما یحب و یرضی!(جاری)