Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1433ھ

ہ رسالہ

1 - 17
راکھ کی مانند زندگی
	

مولانا عبید اللہ خالد

آپ معاشرے میں جدھر نظر دوڑائیے، آپ کو خود غرضی اور بے حسی کی تصویریں نظر آئیں گی۔ لوگ اپنے کام سے کام رکھے ہوئے ہیں۔ کسی کو اس بات کا غم ہے اور نہ فکر کہ اس کے ارد گرد پڑوس میں،رشتے داروں میں، محلے میں یا دفتر میں اس سے تعلق رکھنے والے لوگ کس حال اور کس پریشانی میں مبتلا ہیں۔ برا نہ مانئے تو کہنے دیجیے کہ یوں لگتا ہے، آج پاکستانی معاشرہ اس جاہل عرب معاشرے کی مثال بن چکا ہے جہاں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے اورآپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے درمیان رہنے کے چالیس برس بعد نبوت کا اعلان فرمایا تھا۔

آج کا پاکستانی معاشرہ حقیقتاً ایک بے ہنگم اور بے شعور افراد کا مجموعہ ہے جس کے نزدیک محض زندگی گزارنے کے سوا زندگی کا کوئی اور مقصد نہیں ہے۔ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا۔۔۔ ہر شخص اسی فکر میں غلطاں ہے کہ کیسے آج کی اپنی ضرورت کو پورا کرلیا جائے، خواہ اس کے ذریعے اسے کسی دوسرے کی کتنی ہی حق تلفی کیوں نہ کرنی پڑے۔ یہ مزاج آج کی ضرورت اور دانش بھی قرار دیا جاتا ہے۔ آج کا نوجوان جو چیزیں استعمال کرتا ہے اسے یہ بھی علم نہیں کہ ان کا کس قدر استعمال درست اور ضروری ہے اور کہاں سے اس کے لیے نقصانات کا آغاز ہوجاتا ہے۔ آج کوئی فرد چٹ پٹے پکوان کھاتا ہے یا پیتا ہے تو اسی کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی اور قیمتی سے قیمتی لباس کی خریداری کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔

ایسا کیوں ہے؟ ایسا تب ہوتا ہے جب معاشرے کے افراد اپنی زندگی کے کسی بھی چھوٹے یا بڑے مقصد سے یکسر عاری ہوجاتے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی کا ارفع و اعلیٰ مقصد صرف اور صرف یہ رہ جاتا ہے کہ آج کا دن کیونکر آرام اور اطمینان سے گزر جائے۔ ایسے لوگ اپنے آپ میں اتنے مگن ہوجاتے ہیں کہ اللہ کو بھول کر زندگی کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہی زندگی ان کے لیے آرام اور اطمینان کے بجائے آلام اور ابتلا کی زندگی بن جاتی ہے۔ ایسے میں زندگی مایوسی اور تناؤ کی آماج گاہ بن جاتی ہے۔ اپنی زندگی میں وسائل اور اسباب ہونے کے باجود اضطراب اور بے چینی طاری رہتی ہے۔ یہ قانونِ فطرت بھی ہے اور اللہ کی سنت بھی۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ان لوگوں کے اعمال اس راکھ کی مانند ہیں جسے تیز ہوا اُڑا کر لے جائے اور انھوں نے جو کچھ کمایا ہے اس پر ان کا کوئی اختیار نہ ہو۔ قرآن ایسے لوگوں کو بھٹکا ہوا قرار دیتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ پھر اس کیفیت سے کیسے بچا جائے؟ کیسے اپنی زندگی میں رعنائی اور روشنی لائی جائے۔ کیسے اپنی زندگی کو بہتر اور مثالی بنایا جائے؟ اس کا جواب خود اللہ تعالیٰ نے دے دیا ہے جو انسان کی زندگی کا خالق ہے۔ قرآن میں واضح اور دو ٹوک انداز میں یہ بیان فرمادیا گیا ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت ہے۔ یہی انسان کی زندگی کا اصل مقصد ہے اور منتہا بھی۔ چنانچہ جب کسی فرد یا قوم کی زندگی سے یہ مقصد غائب ہوجاتا ہے تو نتیجتاً وہی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو آج پاکستانی معاشرے کی ہوچکی ہے۔ اس ابتری اور بدتری کو دور کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ دوبارہ اپنی زندگی کے اصل مقصد پر آیا جائے۔ اسی میں کامیابی، ترقی اور سکون پوشیدہ ہے۔ بہ صورتِ دیگر، کھاتے پیتے پہنتے اوڑھتے یہ زندگی ختم ہوجائے گی اور پھر بہت جلد جب حقیقی آنکھ کھلے گی تو معلوم ہوگا کہ کتنے خسارے میں ہیں۔
Flag Counter