Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1433ھ

ہ رسالہ

14 - 17
یہ جنگ ہماری نہیں ہی
	

محترم یرید احمد نعمانی

صلیبی افواج پاکستان کی خودمختاری، سلامتی اورآزادی کو کیا حیثیت واہمیت دیتی ہیں ؟اس کا جواب گزشتہ دنوں سلالہ چیک پوسٹ پرکیے جانے والے حملہ سے بخوبی معلوم ہوچکاہے۔اب تک تو امریکی ڈرون طیارے قبائلی علاقہ جات میں معصوم شہریوں کے خون سے ہولی کھیل رہے تھے۔سیاسی وعسکری سطح پر اپنے خلاف کوئی رد عمل اورصدائے احتجاج نہ پاکر، ان کے حوصلوں کو مزیدشہ ملی۔یہی وجہ ہے کہ اب براہ راست پاک فوج کے ٹھکانوں پر بلاجوازگولاباری اورفائرنگ کے واقعات میں تسلسل بڑھتادکھائی دے رہاہے۔ہمارے ارباب بست وکشاد اس تمام ترصورت حال پر تجاہل عارفانہ سے کام لیتے رہے۔شمالی وجنوبی وزیرستان میں چھپے انتہاپسندوں سے نمٹتے نمٹتے عالمی طاقتوں نے اپنی توپوں کا رخ عساکر پاکستان کی جانب موڑدیااورہم ابھی تک ان کی جنگ میں صف اول کے اتحادی بننے پر نازاں وشاداں ہیں ۔کیا ملک کے ارباب فکر ونظر ہمیشہ یہ آواز نہیں بلند کرتے رہے کہ یہ جاسوس طیارے کل کو دیگر علاقوں میں بھی گھس کر اس طرح کی مذموم کارروائیاں کرسکتے ہیں اورامریکی مداخلت کادائرہ اثر بڑھا سکتے ہیں؟

امریکا کی تازہ جارحیت کے نتیجے میں حکومت پاکستان کی جانب سے سامنے آنے والاٹھوس موقف اورچیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بیانات اگرچہ حوصلہ افزااورخوش آئند ہیں،مگر امریکی رعونت، ہٹ دھرمی اورضد اس امر سے ظاہر ہے کہ اوباما متذکرہ حملوں پر کسی قسم کی معافی مانگنے کے روادار نہیں۔جب کہ امریکی ذرائع ابلاغ بھی اس حملے کو ناٹو کی جارحیت کانام دینے کے بجائے الٹاپاکستانی فورسز کو مورد الزام ٹہرارہے ہیں۔یہ دنیا کا مسلمہ ضابطہ ہے کہ کسی بھی غیرت مند ملک کی سلامتی وخودمختاری سے کھلواڑ کے نتیجے میں، وہ ملک اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتا،جب تک کہ جارح اورحملہ آورملک سیاسی،سفارتی یا عسکری طورپراس کے آگے سرنگوں نہ ہوجائے۔یادش بخیر!سانحہٴ ایبٹ آبادکے بعد ملک کی سیاسی وعسکری قیادت کی جانب سے بظاہر سخت موقف اپنا یا گیا تھا،لیکن جوں جوں وقت گزرتا رہا، توں توں معاملات کی حدت میں کمی آتی گئی۔اوروطن عزیز برابر افغانستان میں تعینات ناٹو افواج کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے میں معاونت کرتارہا۔تازہ ترین حملے کے تناظر میں دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوجی دستے غصے سے بھرے ہوئے ہیں ،کیوں کہ انہیں امریکا کا اتحادی سمجھا جاتاہے۔لیکن اتحادی ہی انہیں مار بھی رہے ہیں۔امریکی خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مہمند حملے کے بعدجنرل کیا نی کو اپنے ماتحت افسران کی طرف سے سخت دباؤ کا سامناہے۔جس کی وجہ سے امریکا سے انٹیلی جنس تعلقات بندکردیے گئے ہیں۔اس حوالے سے یہ سوالیہ نشان اپنی جگہ برقرار ہے کہ آیا یہ عدم تعاون مستقبل میں بھی جاری رہے گا یا پھر چند ہفتوں اورمہینوں کے بعد سردخانے کی نذر کردیا جائے گا؟

واضح رہے کہ افواج پاکستان پر امریکی جارحیت کا یہ کوئی نیا اورتازہ واقعہ نہیں ہے۔اس سے قبل بھی امریکا سات مرتبہ مادرو طن کے زمینی وفضائی تقدس کوپامال کرتے ہوئے پاکستانی فوجیوں پر حملہ کرچکاہے۔جس کے نتیجے میں 70افسران واہل کار شہید اور250سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں۔اس پس منظر میں یہ سوال برمحل معلوم ہوتاہے کہ حالیہ حملہ ناٹوکی کسی غلط فہمی کا نتیجہ تھا؟کیا واقعتاًناٹو کے پاس ایسا کوئی نقشہ موجود نہیں تھا جس میں سرحدپر موجود پاکستانی چوکیوں کی موجودگی کو ظاہر کیا گیاہو؟کیا اس بہیمانہ حملے پر امریکا ،ناٹو اورایساف اپنی معذرت کااظہار کرکے بری الذمہ قراردیے جاسکتے ہیں؟زمینی حقائق ان تمام سوالات کے جوابات نفی میں دے رہے ہیں۔

فی الحقیقت ناٹو کی تازہ دراندازی کو،افغانستان میں اپنی ہزیمت کو پردہٴ زنگاری میں چھپانے کی نئی امریکی کاوش کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ 5دسمبر کو بون میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کی شرکت کو غیر یقینی بنانے کے لیے26نومبرکی رات سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کیا گیاہے۔ موجودہ پاک امریکا کشید گی کی بنا پر ،پاکستان کی عدم شرکت کی صورت میں کا نفرنس کی ناکامی کا ساراملبہ اسی پرڈال دیاجائے گا۔یوں امریکا کو اپنی خفت وذلت چھپانے کا ایک اور ہتھیارمیسر آجائے گا۔کیوں کہ روس،چین اورایران پہلے ہی صراحت کرچکے ہیں کہ امریکاافغانستان سے متعلق اپنی پالیسی واضح کرے اورجب تک پالیسی سامنے نہیں آئے گی ،مذکورہ کانفرس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔نیز اس میں کسی ملک کی شرکت اورعدم شرکت بھی کسی اہم پیش رفت کا سبب نہیں ہوگی۔

سابق ننگ ملت صدر نے پاکستان کو کفریہ قوتوں کی جنگ میں صف اول کا سپاہی بناکر جس طرح بے آبرو کیا،موجودہ حکم رانوں نے اپنی حمیت وغیرت سے عاری پالیسیوں کے باعث اس میں دوچند اضافہ کردیاہے۔پوری دنیا میں ہمارے اعلیٰ حکام دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی جانے والی پاکستانی قربانیوں کے اعداد وشمارگنواتے نہیں تھکتے ۔لیکن طاغوتی قوتیں ان پر کس حدتک کان دھرتی ہیں؟وہ عیاں راچہ بیاں کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔2008ء اور2010ء میں پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں میں اس بات کا اعلان کیا گیاتھا کہ ملکی خود مختاری کی پامالی ہرگزقبول نہیں کی جائے گی اورناٹوکی سپلائی لائن منقطع کردی جائے گی۔مگرنتیجہ ڈھاک کے تین پات سے ہرگزمختلف نہیں نکلا۔یہ تمام تر منظر نامہ قرآن کریم کی صداقت وسچائی پر مہر تصدیق ثبت کررہاہے۔جس نے آج سے چودہ سو برس پیشتراہل ایمان کو خبردارکردیاتھا کہ یہ یہودونصاریٰ تم سے کبھی خوش نہیں ہوسکتے جب تک تم ان کا مذہب اختیار نہ کرلو۔

مادروطن کی سا لمیت،استحکام اورحریت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسیوں کا ازسرنوجائزہ لیں اورانہیں خالصتاًملکی مفاد پراستوارکریں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں، جو دراصل اسلام اورمسلمانوں کے خلاف جنگ کا دوسرانام ہے،شرکت اورتعاون سے فوراًدست بر داری اختیارکی جائے۔پاکستان، جو عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز ومحور ہے ،اس وقت طاغوت کے نشانے پر ہے۔افغانستان وعراق کے بعد بالواسطہ طورپر جس طرح ملک عزیز کے گرد گھیراتنگ کیا جارہاہے،اس نے امریکاومغرب کے بغض وعداوت کو بے نقاب کردیاہے۔امریکا کی حالیہ بدمعاشی سے حاکمان وقت کی آنکھیں کھل جانی چا ہییں۔اگراب بھی وہ پاکستان کے سترہ کروڑ عوام کی آواز پراپنی سماعتوں کو متوجہ کرنے لیے تیارنہیں ہیں ،توانہیں کم ازکم سانحہٴ سلالہ میں شہید ہونے والے کیپٹن عثمان کے والد بشیر احمد کے الفاظ پر ہی غور کرلیناچاہیے۔ جن کا کہنا ہے:”دہشت گردی کے خلاف جنگ پرائی آگ ہے۔ہم کب تک اپنے جوان اوراپنے فوجی دوسروں کے لیے قربان کرتے رہیں گے؟یہ ساری جنگ ہماری نہیں ہے۔یہ ان کی جنگ ہے۔“
Flag Counter