Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1433ھ

ہ رسالہ

12 - 17
تقسیم میراث کی اہمیت و ضرورت
جاہلانہ رسو م، کوتاہیاں اور ان کا ازالہ
	

مفتی ابو رفیدہ عارف محمود
استاد ورفیق شعبہ تصنیف و تالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

فطرت انسانی
انسان کی فطرت اگر زندہ اور اس میں غورو فکر کی صلا حیت موجو د ہو تو اسے جگانے اور حرکت میں لانے کے لیے ایک جملہ اور ایک بول بھی کافی ہوجاتا ہے ، لیکن اگر انسان کی فطرت مردہ ہو چکی ہو، بصارت و بصیرت پر کفر وعصیان کے پردے پڑے ہوئے ہوں تو پھر انسان کو بیدار کرنے اور حرکت میں لانے کے لیے تحریر کے سینکڑوں دفاتر اور ہزاروں بیانات اور کائنات میں موجودلاتعداد مظاہر قدرت بھی ناکافی پڑ جاتے ہیں ۔

آفاق و انفس میں خالق کائنات نے بے شمار دلائل وحدانیت اور آیات وبراہین برائے ہدایت ودیعت فرمائے ہیں ، اگر انسان صرف اپنی خلقت میں غوروفکر کرے کہ ایک زمانہ وہ تھا جب اس کی ذات کا کوئی وجود نہ تھا، وہ بالکل معدوم تھا، اللہ جل شانہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اسے وجود بخشا، رحم مادر سے لے کر مامتا کی آغوش تک اور وہاں سے قبر کی آغوش تک ، تمام مراحل میں اس کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کا مکمل انتظام فرمایا ، انسان کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں کسی طرح کا کوئی کمال نہیں ، یہ تو محض اس رحیم وکریم آقا کی مہربانی ،انعام و احسان ہے۔

اسباب زندگی
انسان کی ضرورتیں عام طور سے دارا لاسباب میں مال و زر سے مربوط ہیں ، مال ودولت انسانی تقاضوں کو پورا کرنے کا ایک بہترین ذریعہ اور سبب ہیں، اس لیے فطری طور پر انسان کی طبیعت میں مال ودولت کی محبت پائی جاتی ہے ،اسلام چوں کہ دین فطرت ہے ،اس لیے اس نے انسان کو نہ صرف حلال طریقے سے مال کمانے کی اجازت دی ، بلکہ اس کی باقاعدہ ترغیب ارشاد فرمائی ،مال کمانے کے حلال ذریعے بتلائے ،اس کے احکام کی وضاحت کی ، حرام ذرائع کی نشان دہی کی ،پھر حلال وحرام کی تمام تفصیلات سے آگاہ کرنے کے بعد حلال اموال سے متعلق حقوق واجبہ و نافلہ بتلائے ،مال سے متعلق حقوق اللہ اور حقوق الناس دونوں کو واضح کیا اور ان حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا۔

تہذیب جدید اور جاہلی تہذیب میں مماثلت
آج کا انسان، جو تہذیب یافتہ اور روشن خیال ہونے کا دعوے دارہے ،مادی ترقی میں زمینوں کو تہہ وبالا کرنے کے بعد آسمان کی تسخیر کے خواب دیکھ رہا ہے ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ جتنی زیادہ تسخیر کائنات ہوتی جارہی ہے انسان اتنا ہی زمانہ جاہلیت کے قریب سے قریب تر ہوتا جارہا ہے ،جاہلیت کے تہذیب وتمدن کو روشن خیا لی اور ترقی کا جامہ پہنا کر اپنایا جارہا ہے ،حضرت مولانا ذکی کیفی  نے کیا خو ب فرمایا: جس قدر تسخیر خورشید وقمر ہوتی گئی زندگی تاریک سے تاریک تر ہو تی گئی، کائنات ماہ وانجم دیکھنے کے شوق میں اپنی دنیا سے یہ دنیا بے خبر ہوتی گئی۔

زمانہ جاہلیت میں لوگ جس طرح کفر وشرک میں مبتلا تھے ،طرح طرح کی ظالمانہ رسمیں رائج تھیں ،غلاموں پر بے جا تشددکرنا،لڑکیوں کو زندہ درگور کر نا ،یتیموں اور بیواوٴں کا مال ہڑپ کرجانا اور عورتوں کو ان کے جائز حقوق سے بھی محروم کرنا عام تھا،اسی طرح اس وقت آج کے تہذیب یافتہ دور کی طرح یہ بھی رائج تھا کہ مرنے والے کا مال صرف اور صرف وہ مرد لیتے تھے جو جنگ کرنے کے قابل ہوں ،باقی ورثا، یتیم بچے ،عورتیں ،روتے اور چلاتے رہ جا تے ،ان کے قوی اور طاقت ور چچا اور بھائی ان کی آنکھوں کے سامنے تمام مال ومتاع پر قبضہ جما لیا کرتے تھے ۔

بعثت نبوی صلی الله علیہ وسلم کے نتائج
حضور اکرم ا کی بعثت سے جہاں شرک وکفرکافور ہوا اور دیگر تمام باطل رسموں کی اصلاح ہوئی ،اسی طرح یتیموں کے مال اور عورتوں کے حقوق ومیراث کے سلسلے میں بھی تفصیلی احکامات نازل ہوئے، دنیائے انسانیت جاہلی تہذیب سے نکل کر اسلام کے پاکیزہ معاشرت میں زندگی گزارنے لگی ۔

اسباب میراث
زمانہ جا ہلیت میں جن اسباب کی وجہ سے آدمی کو میراث ملتی تھی،ان میں ایک سبب ”نسب “ تھا تو دوسرا”معاہدہ “ (یعنی ایک دوسرے سے خوشی وغم میں تعاون کریں گے ،ایک مرے گا تو دوسرا اس کا وارث بنے گا،اس بات کا معاہدہ کیا جاتاتھا)تیسرا سبب ”متبنی “ (یعنی منہ بولا بیٹا ) وارث بنتاتھا،اس کے علاوہ ابتدائے اسلام میں ان اسباب کے ساتھ مواخات وہجرت کی وجہ سے بھی میراث میں حصہ تھا ، جو حقیقت میں معاہدہ ہی کی ایک صورت تھی ۔

وصیت کاحکم
اللہ رب العزت حکیم وعلیم ذات ہے ،چوں کہ اللہ تعالی اپنی مخلوق کے حالات سے پوری طرح واقف اور باخبر ہیں، اس لیے اپنی حکمت وعلم کے پیش نظر زمانہ جاہلیت کی رسموں کی اصلاح کے سلسلے میں تدریجاً احکامات نازل فرمائے ،اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ حکم نازل فرمایا کہ ہر شخص موت سے پہلے اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے ،اپنی رائے سے مناسب وصیت کرے ،چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

﴿کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیراً الوصیة للوالدین والاقربین بالمعروف …﴾․(البقرة:180)

ترجمہ: تم پر یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے تو وہ مال کے بارے میں بھلائی سے و الدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے وصیت چھوڑ جائے ،جن کو خدا کا خوف ہے ان کے ذمہ یہ ضروری ہے ۔

حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب  بیان القرآن (1: 115)میں اس آیت کی تفسیر میں رقم طرازہیں : شروع اسلام میں جب تک میرا ث کے حصے شرع سے مقرر نہ ہوئے تھے یہ حکم تھا کہ ترکہ کے ایک ثلث تک مردہ اپنے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کو جتنا مناسب سمجھے بتلا جاوے ، اتنا تو ان لوگوں کا حق تھا ، باقی جو کچھ رہتا وہ سب اولاد کا حق ہوتاتھا ، اس آیت میں حکم وصیت مذکورہے، اس حکم کے تین جزو تھے بجز اولاد کے دوسرے ورثہ کے حصص وحقوق ترکہ میں معین نہ ہونا ، یہ کہ ایسے اقارب کے لیے وصیت کا واجب ہونا، ثلث مال سے زیادہ وصیت کی اجازت نہ ہونا۔ پس پہلا جزو تو آیت میراث سے منسوخ ہے ،دوسر اجزو حدیث سے، جو کہ موٴید بالاجماع ہے، منسوخ ہے اور وجوب کے ساتھ ساتھ جواز بھی منسوخ ہو گیا ہے، یعنی وارث شرعی کے لیے وصیت مالیہ باطل ہے، تیسرا جزو اب بھی باقی ہے ،ثلث سے زائد میں بدوں رضا ورثہٴ بالغین کے وصیت باطل ہے “۔

وصیت کے بارے میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ما حق امرء مسلم لہ شیء یوصی فیہ یبیت لیلتین الا ووصیتہ مکتوبةعندہ“․ (صحیح بخاری ، کتاب الوصایا ، باب الوصایا وقول النبی صلی الله علیہ وسلم : وصیة الرجل مکتوبة عندہ،رقم الحدیث:2587)

ترجمہ : کسی بھی مسلمان کے پاس کوئی چیز ہو جس کی وصیت کرنی ہو تو اس کے لیے یہ بات ٹھیک نہیں کہ دو راتیں گذر جائیں اور اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو۔

حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :”من مات علی وصیتہ مات علی سبیل وسنة، ومات علی تقی وشھادة، ومات مغفوراً لہ“․(سنن ابن ماجہ ،کتاب الوصایا،باب:الحث علی الوصیة، رقم: 2701)

ترجمہ: جس شخص کو وصیت پر موت آئی (یعنی وصیت کر کے مرا)وہ صحیح راستہ اور سنت پر مرااور تقوی اور شہادت پر مرا اور بخشا ہو ا ہونے کی حالت میں مرا۔

وصیت کے حوالے سے بتدریج احکامات نازل ہوئے، ان پر عمل ہوتا گیاتو پھر میراث کے حوالے سے تدریجاًاحکامات نازل ہو ناشروع ہوئے ،اس سلسلے میں سب سے پہلا حکم یہ نازل ہوا کہ میراث جیسے مردوں کا حق ہے ، اسی طرح عورتوں کا بھی حق ہے، چناں چہ اللہ تعالی کایہ ارشاد گرامی نازل ہوا:﴿ للرجال نصیب مما ترک الوالدان و الاقربون وللنساء مما ترک الوالدان والاقربون مما قل منہ او کثر نصیبا مفروضا“ ۔

ترجمہ : مردوں کے لیے بھی حصہ ہے اس (مال) میں جو ماں باپ اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں ،اور عورتوں کے لیے بھی حصہ ہے اس چیز میں جو ماں باپ اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جا ئیں ،خواہ وہ چیز کم ہو یا زیادہ ،حصہ بھی ایسا جو قطعی طور پر مقررہے ۔

اس آیت کے نازل ہو نے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ تفسیر قرطبی میں ہے کہ حضرت اوس بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو اتو پسماندگان میں اہلیہ ام کجّہ اور تین بیٹیاں چھوڑیں ،حضرت اوس بن ثابت کے چچا زاد بھائی سوید اور عرفجہ جو ان کے وصی بھی تھے ،انہوں نے سارا مال خود لے لیا اور ام کجّہ اور حضرت اوس بن ثابت رضی اللہ عنہ کی بیٹیوں کو جایٴداد میں حصے سے محروم کر دیا۔

مظلوموں کا ماوی اور ملجا حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے علاوہ کون تھا ،چناں چہ ام کجّہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور سارا ماجرا عرض کیا تو حضورصلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اپنے مکان میں لوٹ جاؤجب تک اللہ کی طرف سے کوئی فیصلہ نہ آئے تم صبر کرو ، فانزل اللہ ہذہ الآیة، اللہ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی۔اللہ تبارک وتعالی نے اجمالی طور سے اس آیت میں زمانہ جاہلیت کے اس عمل کی نفی فرمائی اور میراث میں عورتوں کا حصہ ہونے کا حکم بھی ارشاد فرمایاکہ میراث صرف مردوں کا حق نہیں،بلکہ اس میں عورتوں کا بھی حق ہے، اس آیت کے نازل ہونے پر حضورصلی الله علیہ وسلم نے سُوید اور عرفجہ کو حکم دیا کہ اللہ تعالی نے میراث میں عورتوں کا بھی حصہ مقرر فرمایاہے لہذا تم اوس بن ثابت کے مال کو بحفاظت رکھنا ،اس میں سے کچھ خرچ نہ کرنا۔

تفسیر مظہری میں ہے کہ اس واقعہ کو زیادہ عرصہ نہیں گزراتھا اور عورتوں کا حصہ ابھی تفصیلی طور سے بیان نہیں کیا گیا تھا،دوسرا واقعہ پیش آیا، تین ہجری احد کی لڑائی میں جلیل القدر صحابی سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ شہید ہوئے ،ان کی شہادت پر حسب دستور بھائیوں نے تمام مال و جائیداد پر قبضہ کر لیا اور ان کی اہلیہ اور دو بیٹیوں کو میراث سے محروم کر دیا،حضرت سعد کی اہلیہ نے حضور صلی الله علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں آکر واقعہ بیان کیا کہ سب مال ان کے چچا نے لے لیا ہے۔حضورصلی الله علیہ وسلم نے ان کو بھی یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ صبر کرو عنقریب اللہ تعالی اس بارے میں کوئی فیصلہ فرماویں گے ۔

میراث کے تفصیلی احکامات
تفسیرقرطبی ،مظہری اور روح المعانی میں ہے کہ اس واقعہ کے بعد اللہ تعالی نے عورتوں اورلڑکیوں کا حصہ بیان کرنے کے لیے اس آیت کو نازل فرمایا ﴿یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین…﴾․ (النساء:11)

ترجمہ:اللہ تعالی تمہیں تمہاری اولاد کے بارے حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کو دو لڑکیوں جتنا حصہ ملے گا۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے والدین کو صاف صراحتاًحکم دیا ہے کہ جس طرح میراث میں بیٹوں کاحق ہے، اسی طرح بیٹیوں کابھی حق ہے ،اس آیت کے نازل ہو نے پر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم حضرت سعد کے بھائی سے کہلوایا کہ اپنے بھائی کے مال میں سے دوثلث لڑکیوں کو اور آٹھواں حصہ ان کی بیوہ کو دواور باقی مال تمہا را ہے۔ اسلام کے قاعدہ میراث کے مطابق سب سے پہلے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی میراث تقسیم ہوئی۔

زمانہ حیات میں مال وجائیداد کی تقسیم
بعض حضرات اپنی زندگی ہی میں اپنا مال وجائیداد اولاد و اقربا میں تقسیم کر دیتے ہیں ،عام طور سے دیکھنے میں آیا ہے کہ صرف بیٹو ں کو حصہ دیاجاتا ہے اوربیٹیوں اور بیوی کو محروم کردیا جاتا ہے، جب کہ بعض بیٹیوں کو حج کروانے کا لالچ دے کر حصہ سے محروم رکھتے ہیں ،ان لوگوں کو حالت صحت میں اگرچہ مال میں تصرف کامکمل اختیار ہے،لیکن یاد رہے ان کا یہ عمل اسلامی تعلیمات اور اس کی روح ومقتضیٰ کے خلاف ہے ،چناں چہ امام بخاری ومسلم رحمہما اللہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بنو سلمہ میں میری عیادت کے لیے تشریف لائے ،مجھ پر بے ہوشی طاری تھی ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے پانی منگوایا ،وضو فرمایااور کچھ چھینٹیں مجھ پر ماریں، مجھے کچھ افاقہ ہوا ،میں نے پوچھامیں اپنامال کیسے تقسیم کروں؟ترمذی شریف کی روایت میں یہ الفاظ ہیں ”کیف اقسم مالی بین ولدی ؟“میں اپنی اولاد کے درمیان اپنا مال کیسے تقسیم کروں؟اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ﴿یوصیکم اللہ فی اولادکم…“․(صحیح بخاری ،کتاب الجمعہ ،باب من انتظر حتی تدفن، رقم:4577، صحیح مسلم،کتاب الفرائض، باب میراث الکلالة، رقم:4231، سنن ترمذی ، کتاب الفرائض،باب میراث البنین مع البنات ،رقم:2096)۔

مشکوٰة شریف کی ایک صحیح حدیث میں واردہوا ہے کہ بعض لوگ تمام عمر اطاعت خد اوندی میں مشغو ل رہتے ہیں، لیکن موت کے وقت وارثوں کو ضررپہنچاتے ہیں، یعنی کسی شرعی عذر اور وجہ کے بغیر کسی حیلے سے یا تو حق داروں کا حصہ کم کر دیتے ہیں،یا مکمل حصے سے محروم کر دیتے ہیں ،ایسے شخص کواللہ تعالی سیدھے جہنم میں پہنچا دیتا ہے ۔

قارئین کرام !غورفرمائیں !
میراث کے بارے میں اللہ کے ایک حکم کے سلسلے میں حیلے بہانوں سے کام لینے والوں کی تمام عمر کی عبادتیں ،نماز ،روزہ ،حج ،زکوٰة، تبلیغ اور دیگر اعما ل ضائع ہونے کاقوی اندیشہ ہوتاہے ،بلکہ ایسے شخص کے بارے میں جہنم کی سخت وعید بھی وارد ہوئی ہے،سنن سعید بن منصور کی روایت میں حضورصلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ان الفاظ میں مروی ہے :”من قطع میراثاًفرضہ اللہ قطع اللہ میراثہ من الجنة“(رقم:258) جو شخص اپنے مال میں سے اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ وارث کو محروم کر ے اللہ تعالی اس کو جنت سے محروم کردیتے ہیں۔

عورتوں کا حصہ بیان کرنے میں قرآن کااسلوب
معززقارئین ! آپ اللہ تعالیٰ کے اس ارشادمیں غور فرمائیں ”للذکر مثل حظ الانثیین“یعنی لڑکے کو دو لڑکیوں جتناحصہ ملے گا،اللہ تبارک وتعالی نے:”للانثیین مثل حظ الذکر“ نہیں فرمایا کہ دو لڑکیوں کو ایک لڑکے جتنا حصہ ملے گا،علامہ آلوسی  نے روح المعانی میں لکھاہے کہ اللہ تعالیٰ نے ﴿للذکر مثل حظ الانثیین﴾ فرمایا ،اس کی وجہ یہ ہے اہل عرب صرف لڑکوں کو حصہ دیا کرتے تھے ،لڑکیوں کو نہیں دیتے تھے،ان کی اس عادت سیئہ پر رد اور لڑکیوں کے معاملے میں اہتمام کے لیے فرمایا کہ لڑکے کو دو لڑکیوں جتناحصہ ملے گا،گویا یہ فرمایا کہ صرف لڑکوں کو حصہ دیتے ہو ،ہم نے ان کاحصہ دگنا کر دیا ہے، لڑکیوں کے مقابلے میں،لیکن لڑکیوں کو بھی حصہ دینا ہوگا،ان کو بالکلیہ میراث سے محروم نہیں کیا جائے گا۔

امام قرطبی رحمة اللہ علیہ احکام ا لقرآن میں اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں :ہذہ الآیة رکن من ارکان الدین، وعمدة من عمد الدین، وامّ من امّہات الآیات، فان الفرائض عظیمةالقدر، حتی انھا ثلث العلم․ “یہ آیت (یوصیکم اللہ فی اولادکم)ارکان دین میں سے ہے اور دین کے اہم ستونوں میں سے ہے اور امہات آیات میں سے ہے، اس لیے کہ فرائض(میراث)کا بہت عظیم مرتبہ ہے ،یہاں تک کہ یہ ثلث علم ہے۔

اس آیت کریمہ میں میراث کے احکام بیان فرمانے کے بعد اس کے اخیر میں اللہ تعالی نے یہ ارشاد فرمایا ”تلک حدود اللہ “یعنی یہ میراث کے احکام اللہ تعالی کی بیان کردہ حدود ہیں، ان حدود پر عمل کرنے والوں کے لیے بطور انعام وجزا کے فرمایا :﴿من یطع اللہ ورسولہ یدخلہ جنّٰت تجری من تحتھا الانھٰر خالدین فیھا وذلک الفوز العظیم﴾ ترجمہ:جو اللہ اور اس کے رسول کی اس(میراث ) کے حوالے سے اطاعت کرے گا اللہ تعالی اسے ایسی جنت میں داخل فرمائیں گے جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں ،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ،اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔

میراث کے سلسلے میں اللہ کے بیان کردہ احکامات پر عمل نہ کرنے والوں کے لیے آگ اور ذلّت کاعذاب ہوگا ،ارشاد ربانی ہے :﴿ومن یعص اللہ ورسولہ ویتعدّ حدودہ یدخلہ ناراً خالداً فیھا ولہ عذاب مھین﴾ ترجمہ:جو اس میراث کے حوالے سے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کے بیان کردہ حدود سے تجاوز کرتاہے اللہ اس کو آگ میں داخل کردیں گے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گااور اس کے لیے ذلت آمیز عذاب ہو گا۔

جاہلانہ طرز عمل
بیٹوں کو حصہ دے کر بیٹیوں کومحروم کرنا،یا بھائی اور چچا وغیرہ کا خود لے کر عورتو ں کو محروم کرنایہ زمانہ جاہلیت کے کفار کاطرزعمل ہے ، حضرت مولاناسید اصغر حسین صاحب رحمة اللہ علیہ محدث دارالعلوم دیو بندنے ”مفید الوارثین “ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالی کے واضح اور صریح حکم کو پس پشت ڈا ل کر ایک کافرانہ رسم پر عمل کرنا کوئی معمولی خطانہیں ہے ،نہایت سرکشی اور اعلی درجے کاجرم ہے ،بلکہ کفر تک پہنچ جانے کا اندیشہ ہے ۔

علم میراث وفرائض کی اہمیت وفضیلت
قارئین کرام !آج ہم نے جہاں شریعت کے دیگر علوم سے غفلت برتی ہوئی ہے وہاں پر علم میراث سے عوام تو عوام خواص بھی ناواقف ہیں،یاد رہے کہ میراث کا علم شریعت میں نہ صرف مطلوب ہے ،بلکہ اس کی بہت زیادہ اہمیت بھی ہے ،حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے اسے نصف علم قرار دیا ہے، دارقطنی میں حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”تعلمواالفرائض وعلموہ الناس، فانہ نصف العلم، وہو اول شیء ینسی، وہو اول شیء ینتزع من امتی“․(کتاب الفرائض رقم:1)

ترجمہ:اے لوگو!فرائض(میراث)کے مسائل سیکھو ،بے شک وہ نصف علم ہے اوروہ(میراث کا علم)سب سے پہلے بھلا یا جائے گااور وہ سب سے پہلے میری امت سے اٹھایا جائے گا۔

بہت سارے دین دار کہلانے والے لوگ جو نماز ،روزہ اور دیگر اسلامی احکام کے پابند تو ہوتے ہیں،ان کو ادھر اُدھر بہت ساری باتیں، قصے، کہانیاں تو یاد رہتی ہیں ،لیکن میراث کا کوئی ایک مسئلہ بھی ان کو معلوم نہیں ،یہ انتہائی درجہ غفلت کی بات ہے ،اللہ تعالی ہم سب کو اس غفلت سے محفوظ رکھے۔

ورثاء کے لیے مال چھوڑنا
یہ بات یاد رکھیں کہ اپنی اولاد اور ورثاء کے لیے مال چھوڑنابھی ثواب کاکام ہے ،امام بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیاہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں فتح مکہ والے سال ایسا بیما ر ہو ا کہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ گویا ابھی موت آنے والی ہے ،حضرت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے ،تو میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سامال ہے ،میری صرف ایک ہی بیٹی کو میراث کاحصہ پہنچتا ہے ،تو کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کردوں ؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ۔میں نے عرض کیا : آدھے مال کی وصیت کردوں ؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :نہیں ۔میں نے عرض کیا:تہائی ما ل کی وصیت کردوں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :تہا ئی کی وصیت کر سکتے ہو اور تہائی بھی بہت ہے ،پھر فرمایا :”ان تدع ورثتک اغنیاء ً ،خیراً من ان تدعھم عالة یتکفّفون الناس فی ایدیھم․ “ تم اپنے ورثاء کومال داری کی حالت میں چھوڑجاؤ یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انھیں تنگ دستی کی حالت میں چھوڑجاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔

آخر میں ایک دفعہ مکرّر یہ گزارش ہے کہ یتیموں،عورتوں اور بیٹیوں کو میراث اور جائیداد میں حصے سے محروم کرنابہت بڑا جرم ہے اور گناہ ہے ،قانون خداوندی سے بغاوت کے مترادف ہے ،اس بارے میں کسی قسم کے حیلوں اور بہانوں کا سہارا نہ لیا جائے ،بلکہ جوشرعی حصہ داروں کا حق بنتا ہے وہ ان کے سپرد کر دیا جائے ،ہاں! اگر اپنے حصہ پر قبضہ کرنے کے بعدوہ اپنی رضا ورغبت سے کچھ ،یا سارا کسی کو دینا چاہے تو اس کے لیے جائز ہو گا۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں پورے دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور میراث کے حوالے سے پائی جانے والی غفلتو ں سے درگزر فر ما کر اس کے ازالے کی ہمت عطا فرمائے،امت مسلمہ کی تمام پریشانیوں اور مشکلات کو آسانیوں اور عافیت میں بدل دے ۔آمین۔
Flag Counter