Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1433ھ

ہ رسالہ

6 - 17
اجتہادو اختلاف کی حدود
	

بلال احمد لاہوری، تخصص فی الحدیث، جامعہ فاروقیہ کراچی

اسلام آخری ضابطہٴ حیات ہے، اسے تاحشر انسانی معاشرہ کی راہ نمائی اور روح افزائی کا فریضہ انجام دینا ہے ۔ چناں چہ عہدِ رسالت میں مسائل کا حل قرآن تھا یا فرمان نبوی ، دورِ نبوت کے بعد فتوحاتِ اسلامیہ کے ساتھ نئے مسائل نے سر اُٹھایا تو ان کے حل کے لیے فقہا نے ” اجتہاد“ کی اجازت سے فائد اٹھاتے ہوئے جدوجہد کی ، قواعد وضوابط مرتب کیے اور نئے مسائل کے حل تجویز کیے ، جو چار مستقل مذاہب کی صورت میں معین ہو گئے:

فقہ حنفی فقہ مالکی فقہ شافعی فقہ حنبلی۔

جمہور علماء متفقہ طور پر ” اجتہاد شرعی“ کی اجازت کے قائل ہیں، لیکن اجتہاد شرعی اس وقت ہو گا جب چند شرائط پائی جائیں۔

شرائط اجتہاد
یہ چھے شرائط ہیں ،ان کا مجتہد میں پایا جانا ضروری ہے ، ان میں سے ایک شرط کے بھی معدوم ہونے سے دعویٰ اجتہاد باطل ہو گا۔

عربی لغت سے اتنی واقفیت ہو کہ کسی بھی عربی کلام کے معنی بخوبی سمجھ سکے۔

قرآن وحدیث سے ماخوذ اُن علوم سے واقفیت ہو جن کے بغیر عربی کلام کے معنی سمجھ نہیں آسکتے۔

ان آیات وروایات کا علم ہو جن میں احکام کا بیان ہے، یہ پانچ سو آیات اور تین ہزار احادیث ہیں۔

امت کے اجماعی واجتہادی مسائل ،جو پہلے سے طے کیے جاچکے ہیں ان کا علم ہو۔

اجتہاد کے اصول وقواعد، احکامِ شرع کے مصالح ومقاصد، ماحول ومعاشرے اور زمانے کے حالات وضروریات کا علم ہو۔

جب یہ کسبی شرائط کوئی پالے تو ایک چھٹی شرط کا پایا جانا ضروری ہے۔ جو خالصتاً عطیہ خدا وندی ہوتی ہے۔

دلائل پر غور وفکر کرکے احکام کے استنباط کا ملکہ بھی ہو، اسے ”فقہ النفس“ بھی کہا جاتا ہے۔( فواتح الرحموت، التوضیح والتلویح، نورالانوار، عقد الجید)

اجتہاد کی حدود
اجتہاد کے بارے میں ہمارے تجدد پسند طبقہ نے کئی قسم کی غلط فہمیاں پھیلا رکھی ہیں ۔ ہمارے پراگندہ ذہن دانش ور سمجھتے ہیں کہ لفظ ” اجتہاد“ کے معنی کوشش کرنا او رمفہوم آزادرائے دینا ہے۔ یہیں سے غلطی کا آغاز ہوتا ہے ا وراس بنیاد پر جو عمارت کھڑی ہوتی ہے ، وہ بھی غلطیوں کا مجموعہ ہوتی ہے ، حالاں کہ اس سوچ وفکر اور نظریے کا ”اجتہاد“ سے کوئی تعلق نہیں ہے ، کیوں کہ شرعی اجتہاد محض رائے زنی کا نام نہیں، بلکہ درپیش مسئلہ، جس کے بارے میں واضح حکم شرعی کتاب وسنت میں موجود نہیں، اس کا حل مآخذ شریعت کی چھان پھٹک کرکے، نظائر وامثال پر غور وفکر کے بعد پیش کرنا ” شرعی اجتہاد“ کہلاتا ہے۔

اجتہاد کے ضمن میں ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ شاید آزادانہ اجتہاد کی حدود میں تمام مسلمات شریعت بھی داخل ہیں ، کتاب وسنت کے قطعی احکام، جو چودہ صدیوں سے امت کا متفقہ معمول چلے آتے ہیں ، آج کے کج فہموں ، کوتاہ بینوں کو فرسودہ یامشکل نظر آتے ہیں او ران میں تبدیلی کے لیے اجتہادی قوتیں صرف کی جاتی ہیں۔ حالاں کہ علماء نے لکھا ہے کہ تین مقامات ایسے ہیں جہاں اجتہاد ممکن نہیں:

قرآن وسنت کے قطعی اور واضح احکام، جیسے سود کی حرمت۔

وہ مسائل جن کے متعلق قطعی قرآنی واحکام موجود ہیں، مگر ان کی تفسیر سنت سے ہو گئی، جیسے نماز پنجگانہ۔

حدود الله کہ ان کے متعلق کتاب الله میں واضح اور قطعی احکام موجود ہیں۔

یہ وہ مقامات ہیں جہاں کسی قسم کے اجتہاد کی اجازت نہیں، مگر ہمارے مجتہدیں ان میں بھی اجتہادی زورآزمائیوں میں مصروف ہیں۔

اجتہای صلاحیت کے حاملین کو جب کڑی شرائط کے ساتھ اجتہاد کی اجازت دی گئی تو ان میں اختلاف پیدا ہونا ضروری ہے ، کیوں کہ اس کا تعلق رائے وعقل سے ہے اور دو اشخاص کی رائے وعقل برابر نہیں ہو سکتیں۔

حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب، رئیس جامعہ دارالعلوم کراچی فرماتے ہیں : ” میرے والد ماجد ایک عجیب بات فرماتے تھے، وہ یہ کہ جہاں بھی کوئی قطعی بات نہیں ہو گی، بلکہ مختلف طرح کے احتمالات ہوں گے او رکئی آدمی اس پر غور وخوض کر رہے ہوں گے تو وہاں اختلاف رائے کا ہونا ناگزیر ہے۔“

آگے چل کر فرماتے ہیں ” ایسے اختلاف کو کہیں برا نہیں سمجھا جاتا، اسی طرح قرآن وسنت کی تشریح میں صحابہ کرام کا اختلاف ہوا اور ائمہ مجتہدین کا بھی، لیکن یہ اختلاف ہے، ” تفرق“ نہیں ہے ، فرقہ بندی نہیں ہے ۔ اختلاف جائز ہے ، تفرق یعنی پھوٹ ڈالنا جائز نہیں۔“ (اختلاف رحمت ہے فرقہ بندی حرام ہے ، ص:23)

اختلاف حدود میں ہو تو مذموم نہیں، بلکہ صلاحیت اجتہاد کے حامل مجتہدین جب کسی مسئلے میں اختلاف کرتے ہیں تو یہ امت کے لیے رحمت بن جاتا ہے، چناں چہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”اختلاف امتی رحمة“۔ ( کشف الخفاء، 66/1، رقم الحدیث:153)

اختلاف کی حدود
علماء نے اختلاف کی حدود بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ :
اولاً: اختلاف کرنے والے قرآن وسنت کی تشریح کی اہلیت رکھتے ہوں۔
ثانیاً: زیر بحث مسئلہ سے متعلق تمام احادیث ان کے علم میں ہوں۔
ثالثاً: ایسے مسائل میں اختلاف ہو جس میں واقعی اختلافِ رائے ہو سکتا ہے۔
رابعاً: اختلاف کا اظہار عمومی مجامع، عمومی رسائل میں نہ ہو۔
خامساً: یہ اختلاف ذاتی تعصب سے خالی ہو۔

ان حدود کی رعایت ہو تو بلاشبہ ایسا اختلاف رحمت ہی رحمت ہے۔ برکة العصر، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب قدس الله تعالیٰ سرہ نے اس موضوع پر ایک جامع اور لائق مطالعہ کتاب ” الاعتدال فی مراتب الرجال“ تحریر فرمائی ہے، اس میں فرماتے ہیں:

”علاوہ ازیں ایک چیز او ربھی نہایت قابل اہتمام ہے ، غور سے سنوکہ! اختلاف رائے، خواہ مذموم ہو یا ممدوح ، کسی اختلاف میں بھی حدود سے تجاوز کرنا اور مخالفین کے ساتھ اعتدال سے بڑھ کر معاملہ کرنا اسلامی تعلیم کے منافی ہے…“ ( الاعتدال، ص:239، اتحاد بیک ڈپو، دیوبند، انڈیا)

چناں چہ ماضی قریب میں اکابر دیوبند او رماضی بعید میں ہمارے اسلاف اس کانمونہ پیش کر چکے ہیں، کہ اختلاف کے باوجود باہمی رنجش اور دلی کدورت کا شائبہ بھی نہ تھا، مگر آج ہمارے ہاں اختلاف کا مقصد بدل گیا ہے #
        فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
        کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
                                                      (اقبال)

کاش! جن اسلاف کے ہم نام لیوا ہیں او ران سے انتساب پر فخر کرتے ہیں اس میں بھی ان کی اتباع کرتے تو #
        منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
        ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
        حرم پاک بھی، الله بھی، قرآن بھی ایک
        کیا بری بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
                                                                (اقبال)
Flag Counter