Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1433ھ

ہ رسالہ

11 - 17
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
	

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

شرعی پردہ اور اس کے حدود
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ شرعی پردے کی کیا حدود ہیں ؟ ایک ہی گھر میں مختلف گھرانوں کے رہنے پر شرعی پردہ کیسے ہو؟ چہرہ پردہ میں داخل ہے یا نہیں ؟ اگر داخل ہے تو قرآن وسنت سے اس کی صریح اور واضح دلیل ذکر کریں، شرعی پردے کے اقسام بھی بیان کریں۔

جواب… قرآن کریم میں مسلمان عورتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے اور احادیث میں بھی کثرت سے اس کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے ترک پر وعیدیں بھی ذکر کی گئی ہیں، چوں کہ قرآن کریم کی مختلف آیات اس حکم کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور احادیث میں بھی کثرت سے اس کا حکم موجود ہے ، اس لیے تمام آیات، احادیث اور تفاسیر کو مدنظر رکھتے ہوئے حجاب شرعی کی حدود کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پہلا درجہ: حجاب شرعی کا یہ ہے کہ عورت اپنے گھر میں اس طرح رہے کہ کسی اجنبی مرد کی نگاہیں اس پر بالکل بھی نہ پڑیں، نہ اس کے بدن کے کسی حصے پر ، نہ اس کے کپڑوں پر اور نہ ہی اس کے چہرے پر او ربلاضرورت گھر سے نہ نکلے۔

دوسرا درجہ: حجاب شرعی کا یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی شدید حاجت، یا ضرورت پیش آئے اور گھر سے نکلنا پڑے ، تو ایسی صورت میں برقعے، یا بڑی چادر سے اس طرح پردہ کیا جائے کہ پورا جسم چھپ جائے اور چہرے اور ہتھیلیوں کا کوئی بھی حصہ کھلا نہ رہے۔

تیسرا درجہ: حجاب شرعی کا یہ ہے کہ جب ضرورت شدیدہ کے تحت گھر سے باہر نکلے تو بڑی چادر اس طرح اوڑھ کر نکلے کہ چہرے ، ہتھیلیوں کے علاوہ کوئی جگہ کھلی نہ رہے ، لیکن چہرے اور ہتھیلیوں کے کھلا رکھنے کے لیے شرط یہ ہے کہ فتنے کا خوف نہ ہو ، اگر فتنے کا اندیشہ اور خوف ہے ، تو پھر ان کا چھپانا بھی ضروری ہے ۔ آج کے زمانے میں چوں کہ فتنوں کی کثرت ہے تقوی اور مجاہدہ معدوم ہے اس لیے زمانہ موجودہ میں اجنبی مردوں کے سامنے بغیر کسی ضرورت کے چہرے اور ہتھیلیوں کو کھلا رکھنا جائز نہیں۔

مختلف گھرانوں کے اکٹھا رہنے کی صورت میں دیکھا جائے کہ وہ سب محرم ہیں ، یا غیر محرم( محرم ان رشتہ داروں کو کہاجاتا ہے جن سے اس کا نکاح کبھی جائر نہ ہو سکتا ہو اور غیر محرم وہ رشتہ دار ہیں جن سے اس کا نکاح جائز ہو سکتا ہو ) اگر محرم ہیں تو گھر کا کام کاج کرتے وقت اگر سر ، چہرہ، ہاتھ، پاؤں اور گلا، کھل جائیں تو حرج نہیں او راگر غیر محرم ہیں تو ان سے پردہ کرنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح اجنبی مرد سے پردہ کرنا فرض اور ضروری ہے، جیسے چچازاد، ماموں زاد وغیرہ یہ سب غیر محرم کے حکم میں ہیں، لیکن چوں کہ اکھٹا رہنے کی بنا پر اس طرح کا پردہ کرنا ممکن نہیں ہے ، لیکن پردہ بالکل ساقط بھی نہیں ہے ۔ اس لیے مختلف گھرانوں کے اکھٹا رہنے کی صورت میں چند باتوں کا اہتمام کیا جائے تو شرعی پردہ کرنا ممکن ہے۔

مرد حضرات خواہ محرم ہوں، یا غیر محرم، گھر میں داخل ہوتے وقت اجازت لیں۔

بغیر اجازت لیے گھر میں داخل ہو جائیں تو کھنکھار لیا کریں، پیروں کی چاپ اور آہٹ کو ذرا بلند کر دیں تاکہ گھر والوں کو آنے کی اطلاع ہو جائے۔

عورتیں بڑی چادر وغیرہ کا استعمال کریں، چہرے اور ہتھیلیوں کے سوا باقی جسم کوچھپائے رکھیں۔

او ربلا ضرورت غیر محرم کے سامنے آنے سے گریز کریں۔ ان سب باتوں کا اہتمام کرنے کے باوجود اگر بے پردگی ہوتی ہے، تو معاف ہے۔

چہرہ بالکل پردے میں داخل ہے ، قرآن مجید، احادیث اور عمل صحابیات سے اس کا ثبوت موجود ہے۔

داڑھی کا وجوب اور اس کی مقدار
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے سلسلے میں:

داڑھی کے وجوب کی دلیل کہاں سے ملتی ہے کوئی ایسی حدیث جس میں داڑھی کو واجب کہا گیا ہو یا کوئی حدیث ایسی جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ داڑھی رکھنا واجب ہے۔

ایک شخص نے داڑھی کے حوالے سے یہ کہا کہ داڑھی تو اتنی رکھنا ضروری ہے کہ جس سے چالیس قدم کے فاصلے سے پتہ چل جائے اور اس سلسلے میں اس نے یہ کہا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے ایک مٹھی سے زیادہ رکھنے کی ممانعت ہے یعنی زیادہ سے زیادہ ایک مٹھی ہے کم کتنی رکھنی ہے اس کا تو ذکر نہیں ہے کم تو کتنی بھی رکھو بس داڑھی ہو۔

کیاحضرت عمر کی بھی ایک مٹھی سے کم داڑھی تھی؟

جواب… ،،داڑھی تمام انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی متفقہ سنت، مردانہ فطرت اور شعارِ اسلام ہے ، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے بار بار داڑھی رکھنے کا حکم فرمایا ہے او راسے صاف کرانے پر غیظ وغضب کا اظہار فرمایا ہے ، یہی وجہ ہے کہ داڑھی رکھنا تمام ائمہ اربعہ کے ہاں متفقہ طور پر واجب ہے اور منڈانا ایک مٹھی سے کم ہونے کی صورت میں کترانا بالاتفاق حرام، گناہ کبیرہ ، فسق، فطرتِ انسانی کی خلاف ورزی، شرافتِ انسانی کی توہین، جملہ انبیائے کرام علیہم السلام کی مخالفت اور اغوا ئے شیطان سے الله تعالیٰ کی تخلیق کو بگاڑنا ہے ، عورتوں کے ساتھ مشابہت کی بنا پر موجبِ لعنت ہے، مجوس، مشرکین، یہود ونصاری، فساق وفجار اور مغاربہ کا شیوہ ہے، تمام اولیاء الله او راکابر امت کی عملاً مخالفت ہے ، نماز، روزہ، حج غرض ہر عبادت کے دوران ساتھ رہنے والا گناہ ہے وغیرہ وغیرہ۔

باقی یہ کہنا کہ” داڑھی تو اتنی رکھنا ضروری ہے کہ جس کا چالیس قدم کے فاصلے سے پتہ چل جائے اور داڑھی کی کم مقدار متعین نہیں جتنی بھی ہو بس داڑھی ہو او رحضرت عمر رضی الله عنہ کی داڑھی ایک مٹھی سے کم تھی وغیرہ “ بے بنیاد اور بے دلیل ہے ، دشمنانِ دین کا پروپیگنڈہ ہے ، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم او رحضرات صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیہم اجمعین پر بہتان تراشی ہے۔

ویڈیو بنانا اور موبائل کے ذریعے سے تصویر کشی کا شرعی حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان دین متین۔ اس مسئلہ کے بارے میں کہ ویڈیو بنانا اور موبائل سے تصویر بنانا جائز ہے یانہیں۔ نیز مسجد کے اندر ویڈیوبنانے کی کیا شرعی حیثیت ہے۔ آج کل یہ چیز دینی اجتماعات میں مساجد کے اندر اور مساجد کے باہر عام ہو چکی ہیں ۔ مجوزین کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میڈیا کا دور ہے اس لیے وقتی ضرورت کی وجہ سے یہ درجہ اباحت میں ہے۔ جب کہ منکرین، تصویر کی حرمت پر قرآن وحدیث سے دلائل پیش کرتے ہیں۔ برائے کرم قرآن وحدیث اور فقہ حنفی کی رو سے مدلل جواب مرحمت فرمائیں۔

جواب… واضح رہے کہ موجودہ دور میں مسلمانوں میں بے دینی ، فحاشی اور عریانی پھیلانے کے لیے کفار کی جانب سے جس قدر کوششیں ہو رہی ہیں ، اس سے پہلے شاید کہ کبھی ہوئی ہوں، مسلمانوں میں بدعات اور خلاف شرع رسومات کے رواج اسی طرح ظاہری او رباطنی گناہوں کو عام کرنے اور مسلمانوں کے عقیدے اور نظریات بگاڑے او ران کو اسلامی تعلیمات کے علاوہ دین سے بھی دور کرکے کفر کی دہلیز پر پہنچانے کی سر توڑ کوششیں جاری ہیں۔

موجودہ دور میں ہتھیار کے طور پر کفار نے آلات لہو ولعب ٹی وی ، وی سی آر، کبیل اور نت نئے کھیل کو د کے آلات استعمال کرنا شروع کیے ہیں ، فحاشی او رعریانی پھیلانے کے لیے ذریعہ اور اسباب کے طور پر سب سے زیادہ جن اشیاء کو استعمال کیا جاتا ہے وہ بنیادی طور پر دو ہیں۔

گانا بجانا، موسیقی اور ان کی تمام نت نئی شکلیں۔

تصاویر: چاہے ویڈیو کی شکل میں ہوں ، یا پرنٹ تصاویر ہوں، بہرحال آج کے دور میں کفار کا سب سے بڑا ہتھیار یہی ہے کہ عریانی اور فحاشی کو عام کیا جائے، جس کے نتیجہ میں کفار اس غفلت کے شکار مسلمانوں کے دل ودماغ پر حملہ کرکے انہیں دین اور ایمان سے عاری کرکے اپنے ہم نوا بنانے کی کوشش کرتے ہیں ، چناں چہ مسلم معاشرہ میں جن افراد نے یا علاقہ او رخاندان والوں نے گانا بجانا اور اس کے آلات، اسی طرح تصویر سازی کو اپنے ہاں جگہ دی تو وہ معاشرہ تباہ وبرباد ہو گیا ، نہ اخلاق محفوظ ہیں اور نہ ہی امن وامان ان کو حاصل ہے ، بلکہ ایسے علاقے میں نام کا اسلام باقی رہ جاتا ہے ، باقی لباس پوشاک ، کھانا پینا، شادی بیاہ، لین دین ، وضع قطع الغرض ہر چیز میں تعلیمات نبوی کو فراموش کرکے اغیار کے طور طریقے اپنائے ہوئے ہیں۔

کفار ویہود ونصاریٰ اس وقت تک کسی کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے جب تک ان کے مذہب کی اتباع نہ کی جائے ، چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”ولن ترضی عنک الیھود والا النصریٰ حتی تتبع ملتھم“ او رآج یہود ونصاریٰ عریانی اور فحاشی پھیلا کر روحانی طو رپر مسلمانوں کو کمزور کررہے ہیں ، حالاں کہ آلات لہو ولعب کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”بعثت بکسر المزامیر“ یعنی میری بعثت کا ایک اہم مقصد گانے بجانے کے الآت کا توڑنا ہے، اب آلات لہو ولعب پرانے زمانہ کے ڈھول ، باجا، طبلہ ہو یا دور جدید کے موسیقی، ٹی وی، وی سی آر، انٹرنیٹ، کیبل، ویڈیو، ڈیجیٹل کیمرہ ہو، ذی روح چیز کی تصاویر کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے بہت سخت وعید ارشاد فرمائی:”أشد الناس عذاباً یوم القیامة المصورون“․

لہٰذا شریعت مطہرہ کی روشنی میں ذی روح چیز کی تصویر بنانا چاہیے پرنٹ تصویر کی صورت میں ہو ، یا ویڈیو او رموبائل یا ڈیجیٹل کیمرہ کے ذریعہ سے بنائی گئی تصویر ہو، یا پھر اپنے ہاتھوں سے بنائی گئی ہو ناجائز او رحرام ہے اور پھر مساجد میں اور دینی مراکز میں تو اس کی قباحت او رحرمت میں او راضافہ ہو جاتا ہے ، لہٰذا اس سے اجتناب لازم اور ضروری ہے۔
Flag Counter