Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1433ھ

ہ رسالہ

3 - 17
حضرات صحابہ کرامؓ کے حقوق وآداب
	

مولانا خالد فیصل ندوی

قال الله تعالیٰ:﴿والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار الذین اتبعوھم باحسان رضی الله عنھم ورضوا عنہ وأعد لھم جنت تجری تحتھا الانھار، خلدین فیھا ابداً ذلک الفوز العظیم﴾۔(سورة توبہ،آیت:100)

ترجمہ:مہاجرین وانصار میں سے جو سب سے پہلے ( ایمان لانے میں ) سبقت کرنے والے ہیں او رپھر جن لوگوں نے احسان واخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کی ہے ، الله تعالیٰ ان سب سے راضی ہو گئے اور وہ سب (بھی) الله تعالیٰ سے راضی ہو گئے او رالله تعالیٰ نے ان سب کے لیے ایسی جنتیں تیار کر رکھی ہیں، جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ، ان میں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، یہی بڑی کام یابی ہے۔

بلاشبہ حضرات صحابہٴ کرام رضی الله عہنم دین اسلام کے ترجمان وعلم بردار، قرآن عظیم کے محافظ وپاسبان، سنت نبوی ( علی صاحبھا الصلوٰة والسلام) کے عامل ومبلغ، بلند سیرت وکردار کے حامل وداعی او رامت مسلمہ کے محسن ومعمار ہیں، یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ میں ان کو بڑا اونچا مقام ومرتبہ حاصل ہے ، کیوں کہ الله تعالیٰ کی خصوصی ہدایت وراہ نمائی اور حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مثالی تعلیم وتر بیت نے ان کو مکمل اسلامی سانچہ میں ڈھال کر پوری امت مسلمہ بلکہ پوری انسانیت کے لیے بہترین نمونہ وآئیڈیل بنا دیا تھا۔ قرآن مجید میں ہے کہ ” اور اسی طرح ہم نے تم (مومنوں) کو ایک متوازن امت بنایا ہے، تاکہ تم دنیا کے عام لوگوں پر گواہ رہو۔“ (سورہ بقرہ/143) اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ شریعت کی اصطلاح میں صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے حالت اسلام میں حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا ہو یا ا سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی ہو، خواہ ایک لمحہ کے لیے کیوں نہ ہو۔

حضرات صحابہٴ کرام کی کل تعداد حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے وقت کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی اور جن صحابہٴ کرام سے کتب حدیث میں روایات منقول ہیں ان کی تعداد ساڑھے سات ہزار ہے ۔ اور ان صحابہٴ کرام کا تعارف حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کے قلم گہر بار نے کیا خوب کرایا ہے کہ:

”آپ صلی الله علیہ وسلم کے تیار کیے ہوئے افراد میں سے ایک ایک نبوت کا شاہ کار ہے اور نوع انسانی کے لیے باعث شرف وافتخار ہے، انسانیت کے مرقع میں بلکہ اس پوری کائنات میں حضرات پیغمبروں کو چھوڑ کر اس سے زیادہ حسین وجمیل، اس سے زیادہ دل کش ودل آویز تصویر نہیں ملتی، جو ان کی زندگی میں نظر آتی ہے ، ان کا پختہ یقین، ان کا گہرا علم ، ان کا سچا دل ، ان کی بے تکلف زندگی ، ان کی بے نفسی، خدا ترسی، ان کی پاک بازی، پاکیزگی، ان کی شفقت ورافت او ران کی شجاعت وجلادت، ان کا ذوق عبادت اور شوق شہادت ، ان کی شہ سواری او ران کی شب زندہ داری ، ان کی سیم وزر سے بے پروائی او ران کی دنیا سے بے رغبتی ، ان کا عدل ، ان کا حسن انتظام دنیا کی تاریخ میں اپنی نظیر نہیں رکھتا۔ مختلف قبائل، مختلف خاندانوں اور مختلف حیثیتوں کے افراد ایک خوش اسلوب، متحد القلوب خاندان میں تبدیل ہو گئے اور اسلام کی انقلاب انگیز تعلیم اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی معجزانہ صحبت نے ان کو شِیروشکر بنا دیا۔“ ( دو متضاد تصویریں)

اور ایک غیر مسلم مغربی فاضل ” کائتانی“ اپنی کتاب ”سنین اسلام“ میں صحابہٴ کرام کو بہترین خراج تحسین پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ ” یہ لوگ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اخلاقی وراثت کے سچے نمائندے، مستقبل میں اسلام کے مبلغ اور محمد صلی الله علیہ وسلم نے خدا رسیدہ لوگوں تک جو تعلیمات پہنچائی تھیں ، اس کے امین تھے ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مسلسل قربت اوران سے محبت نے ان لوگوں کو فکر وجذبات کے ایک ایسے عالم میں پہنچا دیا تھا، جس سے اعلیٰ اور متمدن ماحول کسی نے دیکھا نہیں تھا، درحقیقت ان لوگوں میں ہر لحاظ سے بہترین تغیر ہوا تھا اور بعد میں انہوں نے جنگ کے مواقع پر، مشکل ترین حالات میں ،اس بات کی شہادت پیش کی کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کے اصول وافکار کی تخم ریزی ، زرخیززمین میں کی گئی تھی ، جس سے بہترین صلاحیتوں کے انسان وجود میں آئے ، یہ لوگ مقدس صحیفہ ( قرآن مجید) کے امین او راس کے حافظ تھے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے جو لفظ یا حکم انہیں پہنچا تھا، اس کے زبردست محافظ تھے۔“

ان صحابہٴ کرام کے فضائل ومناقب قرآن وحدیث میں بہت کثرت سے بیان ہوئے ہیں۔ قرآن مجید کی مختلف سورتوں ( بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، اعراف، انفال، توبہ، حج، مجادلہ، حشر، صف اور بینہ) میں حضرات صحابہٴ کرام کی بہت سی امتیازی صفات او رکمالات مختلف انداز واسلوب میں بیان ہوئے ہیں ، ان سے قابل ذکر خصوصیات یہ ہیں کہ حضرات صحابہٴ کرام ، الله تعالیٰ کے منتخب ومختار بندے ہیں او رحضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد پوری دنیا کے لیے اسوہ ونمونہ ہیں۔ ( سورہ حج:78)

نیز یہ حضرات الله تعالیٰ کے نہایت محبوب اور پسندیدہ بندے ہیں اور بخشے بخشائے ہیں،حتی کہ الله تعالیٰ نے ان کو ”رضی الله عنہم ورضوا عنہ“ کا پراونہ خوش نودی عطا فرما دیا ہے۔ ( سورہ توبہ:100)

اور الله تعالیٰ نے دنیا میں ان کی خلافت وحکومت کی بشارت دی ہے ۔ (سورہ حج:21)

اور آخرت میں الله تعالیٰ نے ہرصحابی سے ان کے ایمان ، انفاق اورجانی قربانیوں کے نتیجہ میں ” جنت“ کا اہم وعدہ فرمایا ہے ۔ (سورہ حدید :10)

اسی طرح احادیث مبارکہ میں حضرات صحابہٴ کرام کے مناقب بہت تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں ،احادیث کی تمام کتابوں میں بہت اہتمام کے ساتھ مناقبِ صحابہ بیان ہوئے ہیں کہ حضرات صحابہٴ کرام تمام انسانوں سے بہتر ہیں ، ایک حدیث شریف میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ” سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں “۔ (بخاری ومسلم)

ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” تم لوگ تمام روئے زمین کے انسانوں سے بہتر ہو ۔“ ( بخاری ومسلم)

حضرات صحابہٴ کرام الله تعالیٰ کے منتخب وچنندہ بندے ہیں، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے کہ ” الله تعالیٰ نے حضرات انبیا علیہم السلام کے علاوہ تمام مخلوق میں سے میرے صحابہ کو چھانٹا ہے او ران میں سے چار ( ابوبکر، عمر، عثمان  اور علی) کو ممتاز کیا ہے ،ان کو میرے سب صحابہ سے افضل قرار دیا ہے۔“

حضرت عبدالله بن مسعود فرماتے ہیں کہ ”آپ صلی الله علیہ وسلم (کے انتخاب) کے بعد ( الله تعالیٰ نے ) لوگوں کے قلوب پر نظر ڈالی تو کچھ لوگوں کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب او راپنے دین کے ناصر ومدد گار اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے وزراء اور نائبین کے طور پر منتخب فرمایا۔“ (مؤ طا امام محمد)

اسی طرح حضرات صحابہٴ کرام دنیا میں پوری امت کے امن وامان کے باعث ہیں ، ایک حدیث میں ہے کہ ” میرے صحابہ میری امت کے امن وامان کا ذریعہ ہیں ، جب میرے سارے صحابہ الله تعالیٰ کو پیارے ہو جائیں گے تو میر ی امت پر تمام وہ آفات اور مصائب ٹوٹ پڑیں گے ، جن کی وعیدان کو دی گئی ہیں۔ “( مسلم)

حضرات صحابہٴ کرام اس دنیامیں خیروبرکت اور فتح ونصرت کا موجب ہیں ، ایک حدیث میں ہے کہ ” ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مسلمانوں کا لشکر روانہ کیا جائے گا او ر( بوقت روانگی وجہاد ) لوگ اس تلاش وجستجو میں ہوں گے کہ کیا اس لشکر میں کوئی صحابی موجود ہیں؟ ایک صحابی اس لشکر میں مل جائیں گے او رانہی کی برکت سے الله تعالیٰ مسلمانوں کے اس لشکر کو فتح نصیب فرمائیں گے۔“ (بخاری ومسلم)

اور حضرات صحابہٴ کرام قیامت کے دن اپنے مدفون علاقہ کے لوگوں کے قائد اور راہ نما بن کر اٹھائے جائیں گے، ایک حدیث میں ہے کہ ”کوئی صحابی کسی سر زمین وعلاقہ میں نہیں وفات پاتے ہیں مگر وہ روز قیامت اس علاقہ کے لوگوں کے قائد اور راہ نما بن کر اٹھائے جائیں گے“۔ ( ترمذی)

حضرات صحابہٴ کرام میں سے ہر ایک صحابی جنت جائیں گے اور جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں گے ، ایک حدیث میں ہے کہ ” جہنم کی آگ اس مسلمان کو چھو نہیں سکتی ہے ، جس نے مجھے دیکھا ہے یا میرے دیکھنے والوں کو دیکھا ہے ۔ “ ( ترمذی)

قرآن وحدیث میں حضرات صحابہٴ کرام کے کچھ حقوق وآداب بیان ہوئے ہیں ،ان میں سے قابل ذکر اہم حق یہ ہے کہ ان کے شایانِ شان ان کی تعظیم وتکریم کی جائے، کیوں کہ حضرات صحابہ کرام  کے اکرام کرنے کا حکم آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کو بالکل واضح انداز میں دیا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ” میرے صحابہ کا اکرام کرو، کیوں کہ صحابہ تم تمام میں سب سے زیادہ بہتر ہیں ۔“ (نسائی)

حضرات صحابہٴ کرام کا تقاضا ہے کہ ان کے تذکرہ کے وقت ان کا پورا پورا پاس ولحاظ رکھا جائے ، پوری رعایت برتی جائے اور تحریر وتقریر کے وقت ان کے بارے میں بڑی احتیاط سے کام لیا جائے، کیوں کہ حضرات صحابہٴ کرام کے پاس ولحاظ کرنے میں ہم مسلمانوں کا ہی فائدہ ہے، روز قیامت حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت نصیب ہو گی اور حوض کوثر تک پہنچنا ممکن ہو سکے گا، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے کہ ” جوشخص حضرات صحابہ کے بارے میں میری رعایت کرے گا، میں قیامت کے دن ان کا محافظ ہوں گا“۔ ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ”جو میرے صحابہ کے بارے میں رعایت رکھے گا وہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ سکے گا اور جوان کے بارے میں میری رعایت نہ کرے گا وہ میرے پاس حوض کوثر تک نہیں پہنچ سکے گا او رمجھے دور ہی سے دیکھے گا۔“ (حکایت صحابہ)

حضرات صحابہٴ کرام کی تعظیم کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ان سے محبت اور تعلق رکھا جائے ، کیوں کہ ان سے محبت وتعلق رضائے الہٰی کا ذریعہ ہے اوران سے عداوت وبغض رضائے الہٰی سے محرومی وخسارہ اور رسوائی وعذاب کا موجب ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بہت ہی جامع انداز میں ہم مومنوں کو مؤثر تنبیہ فرمائی ہے کہ ” الله تعالیٰ سے میرے صحابہ کے بارے میں ڈرو، الله تعالیٰ سے میرے صحابہ کے سلسلہ میں ڈرو، میرے بعد ان کو ملامت کا نشانہ مت بناؤ، جو شخص ان سے محبت رکھتا ہے ، میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھتا ہے او رجوان سے بغض رکھتا ہے وہ میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھتا ہے ، جو شخص ان کو اذیت وتکلیف دے ، اس نے مجھ کو اذیت دی اور جس نے مجھ کو اذیت دی ، اس نے الله تعالیٰ کو اذیت دی اور جو شخص الله تعالیٰ کو اذیت دیتا ہے ، بہت ممکن ہے کہ الله تعالیٰ ایسے شخص کو ( دنیا وآخرت میں ) سزا اور عذاب میں مبتلا کر دے ۔“ ( ترمذی)

ایک دوسری حدیث میں بہت ہی بلیغ ومؤثر اسلوب میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” میرے صحابہ کو برامت کہو ، اگر تم میں سے کوئی شخص اُحُد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تب بھی وہ ان کے ایک مُد ( ایک کلو وزن کے برابر ایک پیمانہ ) یا نصف مد ( جَو) خرچ کرنے کے برابر بھی ثواب کا مستحق نہ ہو گا ۔“ (بخاری ومسلم)

یقینا حضرات صحابہٴ کرام کی شان میں گستاخی کرنا الله تعالیٰ، فرشتوں اور تمام مومنوں کی لعنت وملامت کا موجب ہے، ایک حدیث میں ہے کہ ” جو شخص حضرات صحابہٴ کرام کو گالیاں دے ، اس پر الله تعالیٰ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے ، نہ اس کا فرض مقبول ہے اور نہ نفل۔“ ( حکایت صحابہ)

ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسے گستاخ پر لعنت بھیجنے کا صریح حکم دیا ہے کہ “ جب تم لوگ حضرات صحابہ کرام کو گالی دیتے ہوئے (منافق) لوگوں کو دیکھو تو کہو کہ تمہاری بد گوئی پر الله تعالیٰ کی لعنت ہو۔“( ترمذی)

یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ حضرات صحابہ کرام  کو گالی دینا حرام اورگناہ کبیرہ میں سے ہے ۔ اس لیے تمام مومنوں کو چاہیے کہ حضرات صحابہ کرام  کی تنقیص وتنقید سے بچیں، صرف ان کی تعریف وتوصیف کریں، کیوں کہ ان کی تعریف ایمان کی علامت ہے او ران کی تنقیص ( بے عزتی) نفاق کی پہچان ہے ۔ حضرت ایوب سختیانی  نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ ” جو صحابہ  کی بے ادبی کرتا ہے وہ بدعتی، منافق اور سنت کا مخالف ہے مجھے اندیشہ ہے کہ اس کا کوئی عمل قبول نہ ہو، یہاں تک کہ ان سب کو محبوب رکھے اور ان کی طرف سے دل صاف ہو ۔“ (حکایت صحابہ)

اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ حضرات صحابہٴ کرام کی شان عالی میں گستاخی کرنے والوں سے دوری اختیار کی جائے اور ان سے ہر گز کوئی تعلق نہ رکھا جائے، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اپنی امت کو زور دار انداز میں متنبہ فرمایا ہے کہ ” بلاشبہ الله تعالیٰ نے ( تمام بندوں میں ) مجھے منتخب فرمایا ہے او رمیرے لیے اصحاب، انصار اور رشتہ داروں کو منتخب فرمایا ہے ،عنقریب کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو میرے اصحاب کو برا کہیں گے اوران کی تنقیص ( بے ادبی) کریں گے پس تم ان کے ساتھ میل ملاپ نہ کرنا، نہ ان کے ساتھ کھانا پینا اور نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کرنا۔ “( مرقاة)

حضرات صحابہٴ کرام کا دوسرا اہم ترین حق یہ ہے کہ ان کے اعمال وافعال میں او ران کے اخلاق میں ان کی اتباع وپیروی کی جائے ،کیوں کہ الله تعالیٰ نے سابقین اولین صحابہٴ کرام کی اتباع واقتدا پر ہم تمام مومنوں کو اپنی خوش نودی کی بشارت دی ہے ۔( سورہ توبہ:100)

اور ان کی زندگی کو ہمارے لیے اسوہ نمونہ قرار دیا ہے او ران کے عمل کو مثالی قرار دیا ہے ۔ ( سورہ، حج:78)

اسی طرح احادیث مبارکہ میں ان کی اتباع وپیروی کی تاکید وترغیب بہت اہتمام سے بیان ہوئی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ ” میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ، جس کی اتباع کرو گے ہدایت پاؤگے۔“ محققین اہل سنت والجماعت نے سورہ توبہ (آیت:100) سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اصحاب نبی صلی الله علیہ وسلم مقتدایان امت ہیں او رتمام صالحین ان کے تابع ہیں ۔ (تفسیر ماجدی)

چناں چہ حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے بعد حضرات صحابہٴ کرام کے نقش قدم پر چلنا دنیا وآخرت میں کام یابی وکام رانی کا موجب ہے، ایک طویل حدیث میں ہے کہ ” میر ی امت تہتر(73) فرقوں میں تقسیم ہو گی، ایک فرقہ کے علاوہ سب فرقے جہنم میں جائیں گے۔ حضرات صحابہٴ کرام نے پوچھا یا رسول الله ! جنت میں جانے والا فرقہ کون سا ہو گا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ جو فرقہ اس راستہ پر جما رہا جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔“ (ترمذی)

اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ” میں تم لوگوں میں اپنے قیام کی مقدار نہیں جانتا، پس میرے بعد دو صحابہٴ کرام کی اقتدا کرنا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر او رحضرت عمر کی طرف اشارہ فرمایا۔“ ( ترمذی)

اور ایک دوسری حدیث میں چاروں خلفائے راشدین کی سنت پر گام زن ہونے کی مؤثر ترغیب دی ہے کہ ” میری سنت او رحضرات خلفائے راشدین  کی سنت تم تمام پر واجب ہے اور اس کو اپنی داڑھوں ( دانتوں) سے مضبوط پکڑ لو۔“ (ابوداؤد)

مذکورہ بالا دو حق کے علاوہ حضرات صحابہٴ کرام کے اور بھی حقوق وآداب ہیں، ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر حق ” دفاعِ صحابہ“ ہے، موجود حالات میں اس حق کی ادائیگی بہت ضروری ہے ، اس حق سے پہلو تہی باعث لعنت ہے، چناں چہ ایک حدیث میں ہے کہ ” جب فتنے یا بدعات ظاہر ہونے لگیں او رمیرے صحابہ کو برا کہا جانے لگے تو عالم کو چاہیے کہ اپنے علم کو کام میں لاکر صحابہٴ کرام کا دفاع کرے او رجو شخص حضرات صحابہ کا دفاع نہیں کرے گا تو اس پر الله تعالیٰ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور الله تعالیٰ نہ اس کے فرض قبول فرمائیں گے اور نہ ہی نفل ۔“ ( مرقاة)

بہرکیف حضرت قاضی عیاض نے اپنی مشہور کتاب ” شفاء“ میں حضرات صحابہٴ کرام کے اہم حقوق بیان کرتے ہوئے کیا خوب تحریر فرمایا ہے کہ ” ان حضرات کو برائی سے یاد نہ کرے ، بلکہ ان کی خوبیاں او ران کے فضائل بیان کیا کرے اور عیب کی باتوں سے سکوت کرے، جیسا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ” جب میرے صحابہ کا ذکر ( برا ذکر) ہوتو سکوت کیا کرو۔“

یقینا حضرات صحابہٴ کرام تاریخ ساز، عہد آفریں شخصیات کا مجموعہ ہیں اور یہ حضرات الله تعالیٰ کی نعمت عظمی کے پر تو ، حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تربیت کا ثمرہ او راسلام کی صداقت کی دلیل وحجت ہیں او ریہ حضرات بلاشبہ حضرت مسیح علیہ السلام کی زبان میں ” زمین کا نمک او رپہاڑی کا چراغ “ تھے ، جن سے ان کی اپنی ہم عصر دنیا نے رشد وہدایت کا نور حاصل کیا اور آج کی تاریکیوں میں بھی ان کی بلند سیرت وکردار کی شعاعوں سے ہم اپنی زندگیاں منور کرسکتے ہیں او ران کی مثالی زندگی سے اپنی دنیا وآخرت دونوں سنوار سکتے ہیں اور دونوں جگہ کام یاب و کام راں ہو سکتے ہیں ، الله تعالیٰ ہم تمام مومنوں کو ان کے نقش قدم پر خلوص واحسان کے ساتھ چلنے کی توفیق ارزانی فرمادے او ران کی محبت وعظمت ہمارے دلوں میں راسخ فرمادے۔ آمین

﴿ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین آمنوا ربنا انک رؤف رحیم﴾۔ (حشر:10)
Flag Counter