الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی صاحب تھانوی کی کثرت تصانیف کے ظاہری اسباب
مولانا عبداللطیف قاسمی
امت میں بہت سارے ماہر مصنّفین وتجربہ کار مؤلفین گزرے ہیں، جنہوں نے ڈھیر ساری کتابیں تصنیف کیں، لیکن الله تعالیٰ نے ان تصنیفات کو باقی نہیں رکھا، بلکہ ان کتابوں کا نام ونشان بھی باقی نہ رہا، جن کو اس نے قبول نہیں فرمایا ، علامہ خرشی مالکی نے مختصر خلیل کے مقدمہ میں ایک تاریخی جملہ رقم فرمایا ہے ”کم من تألیف طوي ذکرہ، ولم یستغل بہ“ کتنی ایسی کتابیں ہیں جن کے نام بھی لوگ جانتے نہیں ہیں، اس کے برخلاف کچھ مصنّفین ومؤلفین وہ ہیں الله تعالیٰ نے ان کی تصانیف کو مقبولیت تامہ وافادیت عامہ عطا فرمائی، امام مالک کے زمانہ میں ابن ابی ذئب ایک بزرگ تھے، انہوں نے ایک مؤطا نامی کتاب لکھی، جو امام مالک کی موطا سے زیادہ ضخیم تھی ، لوگوں نے امام مالک سے سوال کیا، ما الفائدة فی تصنیفہ؟ امام مالک نے جواب میں ارشاد فرمایا: ما کان لله بقی۔ جو الله کے لیے ہو گی، باقی رہے گی۔
الله تعالیٰ نے ان کی تصانیف کو قبول فرمایا، ان کی تحریروں سے قرآن وحدیث کی نصوص اور منشائے شریعت کو سمجھنے میں مدد حاصل کی جاتی ہے او ران کے اقوال کو سند کا درجہ دیا جاتا ہے وہ دنیا سے رخصت ہو گئے، لیکن وہ اور ان کی تصنیفات۔ زندہ وتابندہ ہیں، امت ان سے برابر مستفید ہو رہی ہے ، ان کی تالیفات ہمارے نصاب میں داخل، ہمارے کتب خانوں کی زینت، مصنّفین ، مؤلفین، شارحین، مفتیان کرام، محدثین عظام ، مدرسین اور طلبہ علم کا مرجع اور آنکھوں کا سرمہ بنی ہوئی ہیں۔
امت کے بے شمار اکابر نے متنوع موضوعات پر مقبول اور بے شمار تالیفات اپنے پیچھے چھوڑی ہیں۔ مثلاً امام محمد بن حسین الشیبانی ، امام طحاوی، امام سلیمان بن احمد الطبرانی، (46 کتابیں) علی بن عمر ودارقطنی (80) حاکم ابوعبدالله النیساپوری (1500، اجزاء) احمد بن حسن ابوبکر البیہقی الشافعی (1000) احمد بن علی بن ثابت المعروف بالخطیب البغدادی (56) محمد بن محمد الغزالی، ابو الفرج ابن الجوزی (2000) ابوالبرکات النسفی محمد بن محمد بن عثمان شمس الدین الذہبی ، تقی الدین السبکی (150) یحییٰ بن شرف النووی الشافعی ، حافظ ابن تیمیہ، حافظ ابن حجر العسقلانی، حافظ بدرالدین العینی، علامہ محمد بن عبدالرحمن السخاوی(200) جلال الدین السیوطی (725) علامہ محمد عبدالرؤف بن تاج المناوی (80) ابن رجب الحنبلی، علامہ محمود بن عبدالله الآلوسی رحمہم الله وغیرہ۔ الله تعالیٰ ان اکابر کو پوری امت کی طرف جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
ان ہی مبارک ومقبولان خدا بزرگوں میں ہمارے حضرت شاہ ولی الله محد ث دھلوی، مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی الندوی او ربالخصوص حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ہیں، جن کا تذکرہ یہاں مقصود ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کو الله تعالیٰ نے شروع ہی سے اعلیٰ درجہ کا ملکہٴ تصنیف عطا فرمایا تھا، تصوف ، تفسیر، حدیث، فقہ ، علم کلام اورتجوید وغیرہ علوم میں آپ کی تصنیفات ہیں، حضرت والا جب کسی موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو اس کا کوئی ضروری پہلو نظر انداز نہیں ہوتا۔
نیز اس کو دلائل عقلیہ ونقلیہ کے ذریعہ مدلل ومبرھن فرماتے ہیں ، الله تعالیٰ نے حضرت والا کو کثرت تصانیف کی نعمت کے ساتھ ساتھ مقبولیت عامہ اور نافعیت تامہ بھی عطا فرمائی ہے ، حضرت والا کی کتابوں کی طرف علما وعوام کا رجوع واضح ہے اور امت ان سے برابر مستفید ہو رہی ہے۔
حضرت والا کی تصانیف میں شروع ہی سے من جانب الله برکت ، خصوصی نصرت اور غیبی مدد شامل رہی ہے۔
چناں چہ طالب علمی کے زمانے میں ہی جب آپ کی عمر صرف 18 سال کی تھی، فارسی میں مثنوی” زیروبم“ لکھی ، نیز جس زمانے میں حضرت والا اپنے پیر ومرشد حضرت حاجی امدادالله صاحب مہاجر مکی۔ قدس سرہ العزیز۔ کی خدمت میں قیام پذیر تھے، حاجی صاحب کے حکم سے حضرت ابن عطا اسکندری کی کتاب ” تنویر“ کا اردو ترجمہ ” اکسیر فی اثبات التقدیر“ کر رہے تھے، حضرت حاجی صاحب نے بہت کم وقت میں بہت زیادہ کام ہوتا ہوا دیکھ کر یہ بشارت سنائی تھی کہ الله تعالیٰ نے تمہارے وقت میں برکت رکھی ہے ، چناں چہ واقعی حضرت والا کے وقت میں کھلی ہوئی برکت دیکھنے میں آئی ، جتنے وقت میں جتنا کام حضرت والا کر لیتے تھے ، اکثر تجربہ کاروں کو یہ تسلم کرناپڑا ہے کہ دوسرا نہیں کرسکتا۔
کثرت تصانیف میں امداد غیبی کے چند ظاہری اسباب
آپ کی کثرت تصانیف کے ظاہری اسباب مندرجہ ذیل ہیں، جن کو آپ کے خلفیہ اور آپ کے سوانح نگار حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب نے ”اشرف السوانح“ میں بیان کیا ہے۔
پہلا سبب
حضرت والا کے اندر کسی کام کو شروع کرکے اس سے اپنے قلب ودماغ کو فارغ کرنے کا تقاضا اس شدت سے پیدا ہوتا تھا کہ جب تک اس سے مکمل فارغ نہیں ہوتے ، بے قرار وبے چین رہتے تھے ، رات دن، وقت بے وقت با ستثناء امورِ ضروریہ کے اسی کی تکمیل کی دھن میں لگے رہتے تھے اور اس کو جلد سے جلد پورا فرما کر ہی سکون پاتے تھے۔
خواجہ عزیز الحسن مجذوب لکھتے ہیں:
احقر کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب کلید مثنوی کی شرح قریب الختم تھی تو حضرت والا کے اندر اس سے فراغت حاصل کرنے کا اس شدت کے ساتھ تقاضا ہوا کہ آخر میں دن بھر اسی کو لکھتے رہے پھر تمام رات لکھتے رہے ، ایک منٹ کے لیے بھی نہ سوئے اور فجر سے پہلے اس کو ختم کرکے ہی دم لیا اور فرمایا: پوری رات جاگنے کا اس سے پہلے کبھی اتفاق نہ ہوا تھا، جس کا یہ اثر ہوا کہ بوجہ خلاف عادت تعب برداشت کرنے کے بخار ہو گیا، لیکن بخار میں بھی ایک اطمانینی کیفیت تھی، کیوں کہ کام سے فارغ ہونے کے بعد بخار آیا تھا۔
دوسرا سبب
امداد غیبی کا دوسرا سبب یہ ہے کہ حضرت والا کو کسی مضمون کے تحریر فرمانے میں زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ،ا کثر بڑے بڑے غامض مضامین کو بھی قلم برداشتہٴ لکھتے دیکھا گیا ،اگر چہ دورانِ تحریر اور تحریر کے بعد بھی اس میں اضافات وترمیمات بکثرت فرماتے رہتے تھے۔
تیسرا سبب
تیسرا سبب وقت میں برکت ہے کہ موانع سے حفاظت رہتی تھی ، چناں چہ حضرت والا فرمایا کرتے تھے کہ تفسیر ” بیان القرآن“ لکھنے کے زمانہ میں، جس کی مدت تقریباً ڈھائی سال تھی، میرا کبھی کان بھی گرم نہیں ہوا، حالاں کہ اس زمانہ میں یہاں طاعون کی بہت کثرت رہی ، حضرت والا یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ جب تفسیر لکھنے کے زمانہ میں قصبے کے اندر شدت کے ساتھ طاعون پھیلا ، تو میں نے دعا کی اے الله ! جب تک تفسیر پوری نہ ہو اس وقت تک تو مجھے زندہ ہی رکھیے گا، چنان چہ بفضلہ تعالیٰ میرا کان بھی گرم نہ ہوا، الحمدلله تفسیر مع الخیر پوری ہو گئی۔
چوتھا سبب
حضرت والا کی کثرت تصانیف کا چوتھا سبب عدم غلو ہے ، چناں چہ مولانا حبیب الرحمن صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند نے بھی ایک بار یہی رائے ظاہر فرمائی تھی، حضرت تھانوی مولانا حبیب الرحمن رحمہ الله کی رائے کو نقل فرمایا کرتے تھے، واقعی بالکل صحیح فرمایا، زیادہ کاوش سے کچھ کام نہیں ہوتا، میری نظر تو صرف ضرورت پر رہتی ہے، ضرورت سے زیادہ کاوش کرنے سے جی بہت الجھتا ہے ، اسی وجہ سے میری عبارت بہت مختصر ہوتی ہے ، مگر اظہار مدعا کے لیے بالکل کافی ووافی ہوتی ہے اور واضح ہوتی ہے ، بلا ضرورت میں ہر گز تطویل نہیں کرتا، مگر جہاں وضوح کے لیے تطویل ہی کی ضرورت ہو ، وہاں تطویل سے گریز بھی نہیں کرتا۔
حضرت والا جس زمانہ میں بکثرت کتابیں تصنیف فرماتے تھے اکثر اپنے پاس پنسل اور کاغذ رکھتے تھے او رجس وقت اس کے متعلق کوئی مضمون ذہن میں آتا، فوراً اس کو لکھ لیتے، بلکہ بعض اوقات رات کو سوتے وقت بھی تکیہ کے نیچے کاغذ اور پنسل رکھ لیتے، تاکہ اگر رات کو بھی کوئی مضمون ذہن میں آئے تو فوراً روشنی کا انتظام کرکے اس کے متعلق یادداشت لکھ لی جائے۔
پانچواں سبب
حضرت والا نہایت منضبط الاوقات تھے، چناں چہ حضرت والا فرمایا کرتے تھے کہ اگر میں انضباط اوقات نہ کرتا تو دین کی جو کچھ تھوڑی بہت مجھ سے خدمت ہوسکی ہے، ہر گز نہ ہو سکتی، حضرت والا انضباط اوقات کے سلسلہ میں یہاں تک پابند تھے کہ ایک مرتبہ حضرت والا کے استاذ مکرم حضرت مولانا محمودحسن شیخ الہند صاحب رحمة الله علیہ تشریف لائے اور آپ کے مہمان ہوئے تو حضرت والا نے حضرت شیخ الہند کے لیے راحت وآرام کے سارے انتظامات فرما دینے کے بعدجب تصنیف کا وقت آیا تو نہایت ادب کے ساتھ اجازت حاصل فرماکر تصنیف کے کام میں مشغول ہو گئے، پھر تصنیف میں دل نہ لگا اور تھوڑی ہی دیر بعد حاضر خدمت ہو گئے، لیکن ناغہ اس روز بھی نہ کیا۔
چھٹاسبب
چھٹا سبب اخلاص ہے ، یہی وجہ ہے کہ حضرت والا نے اپنی تصنیفات کو معاش کا ذریعہ نہیں بنایا، چناں چہ حضرت والا کی طرف سے عام اجازت ہے کہ جس تصنیف کو جو چاہے او رجتنی تعداد میں چاہے چھاپ سکتا ہے ، چناں چہ اہل مطابع لاکھوں روپے حضرت والا کی تصانیف کو شائع کرکے حاصل کرتے ہیں۔
ایک انگریز نے حضرت والا سے پوچھا کہ آپ کو تفسیر کے لکھنے میں کتنے روپے ملے؟ حضرت والا نے فرمایا: کچھ بھی نہیں ۔تو اس نے بہت تعجب کیا او رکہا کہ پھر اتنی بڑی کتاب لکھنے کی آپ نے محنت کیوں کی؟ حضرت والا نے فرمایا کہ ہم لوگوں کا عقیدہ ہے اس زندگی کے علاوہ بھی ایک زندگی ہے ،جس کو آخرت کہتے ہیں ، میں نے یہ محنت اس امید کے ساتھ کی ہے کہ ان شاء الله تعالیٰ مجھے اس کا عوض اس دوسری زندگی میں ملے گا اور دنیا کا فائدہ یہ ہے کہ جب میں دیکھوں گا کہ میرے مسلمان بھائی پڑھ پڑھ کر اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو مجھ کو خوشی ہو گی ۔
سب سے بڑی احتیاط جو حضرت والا کی اہم خصوصیات میں سے ہے وہ یہ ہے کہ اپنی تصانیف کے تسامحات اتفاقی کو جن کا علم خود یا کسی دوسرے کے ذریعے سے ہوتا رہتا تھا، ان سے رجوع فرماتے تھے اور اس رجوع کو شائع بھی فرماتے رہتے تھے اور اس سلسلہ کا ایک خاص عنوان ” ترجیع الراجح“ تجویز کیا گیا، جو مستقل طور پر جار ی تھا، اس سلسلہ میں حضرت والا کو جہاں اپنے تسامحات پر شرح صدر ہو جاتا وہاں رجوع فرمالیتے اور جہاں تردد رہتا ہے وہاں جواب لکھ کر یہ تحریر فرما دیتے کہ دیگر علماء سے بھی تحقیق کر لی جائے ، اس کے متعلق حضرت مولانا انور شاہ صاحب نے فرمایا”ترجیع الراجح“ اس زمانے کی ایک بالکل نرالی چیز ہے، یہ سلف صالحین کا معمول تھا، مولانا تھانوی کی امتیازی شان اورکمال صدق اور اخلاص کے ظاہر کرنے کے لیے بس یہی کافی ہے ۔ حضرت والا نے بعض فضلاء سے اپنی تصانیف ” بہشتی زیور“ ”امداد الفتاوی“ ” تفسیر بیان القرآن“ پر نظر ثانی بھی کرائی اور جن تسامحات پر شرح صدر ہو گیا ان کو اصل نسخہ میں درست فرما کر شائع بھی فرمایا۔
حضرت اقدس تھانوی کی کثرت تصانیف کے مذکورہ ظاہری اسباب اصول کی حیثیت رکھتے ہیں، اگر ہم کام یاب مصنف ومؤلف بننا چاہتے ہیں اوراپنی تصانیف کو مقبول ونافع بنانا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم مذکورہ اصولوں کو اختیار کریں، اگر ہم ان اصولوں کا اختصار کرنا چاہیں تو اس طرح کرسکتے ہیں۔
شوق وجذبہ استحضارِ علم لایعنی امور سے احتراز تصنع وتکلف سے اجتناب انضباط اوقات اخلاص۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم بھی ان زریں اصولوں پر کار بند ہو کر دینی خدمات میں ہمہ تن مصروف رہیں۔