Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1433ھ

ہ رسالہ

7 - 17
سب تعریفیں الله کے لیے ہیں
	

حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرنیہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

 آیات وترجمہ
آیات:﴿الحمد لله رب العالمین، الرحمن الرحیم، ملک یوم الدین، ایاک نعبد وایاک نستعین، اھدنا الصراط المستقیم، صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین﴾․

ترجمہ: سب تعریفیں الله کے لیے ہیں، جو پالنے والا سارے جہان کا، بے حد مہربان، نہایت رحم والا، مالک روز جزا کا، تیری ہی ہم بندگی کرتے ہیں او رتجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں، بتلا ہم کو راہ سیدھی، راہ ان لوگوں کی جن پر تونے اپنا فضل فرمایا، جن پر نہ تیرا غصہ ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے۔

تفسیر
﴿الحمدلله رب العالمین﴾: ”الحمد“ پر الف لام استغراق کے لیے ہے اور لفظ ”الله“ پر لام استحقاق کے لیے ہے۔ (الدرالمصون للسمین الحلبی، سورة الفاتحہ، الآیة:1)

العالمین میں الف لام جنس کے لیے ہے، لہٰذا اس سے تمام مخلوقات کی الگ الگ جنس مراد ہے ۔ (تفسیر البیضاوی، سورة الفاتحہ، الایة:1)

مطلب یہ ہے کہ تمام تعریفات کی حقیقی سزا وار صرف الله ہی کی ذات ہے ، جو تمام مخلوقات کو پالنے والی ہے ، اس کے علاوہ کوئی بھی تعریف کا حقیقی مستحق نہیں، کیوں کہ کسی عالم کا علم، سخی کی سخاوت اور طاقت ور کی طاقت اس کی ذاتی خوبی نہیں، جس کی بنا پر اس کی تعریف کی جائے، بلکہ یہ تمام خوبیاں رب العالمین ہی کی مرہون منت ہیں ، جب کہ الله جل شانہ کی قدرت ، علم ، ارادہ حتی کہ تمام کی تمام خوبیاں ذاتی ہیں، لہٰذا تمام تعریفات کا حقیقی سزاوار صرف الله ہی ہے ۔

بلاغت
”الحمد“ ابتدا کی بنا پر مرفوع ہے او راس کی خبر ”الله“ ہے، جو کہ ظرف ہے ، حالاں کہ اصل یہ ہے کہ فعل کو مضمر رکھ کر لفظ ”حمد“ کو منصوب رکھا جاتا ہے، کیوں کہ ” حمد“ ان افعال میں سے ہے جنہیں عرب جملہ خبریہ کے معنوں میں افعال مضمرہ کے ساتھ منصوب رکھتے ہیں، جیسے شکراً ، کفراً اور عجباً اور سبحان الله اور معاذ الله بھی انہی افعال میں سے ہیں۔

پس مذکورہ مقام پر نصب چھوڑ کر رفع اس لیے دیا گیا، تاکہ یہ جملہ ثبات او راستقلال کے معنی پر دلالت کرے۔

فرمان باری تعالیٰ﴿قالوا سلٰماً قال سلم﴾․ (ھود:69) بھی اسی قبیل سے ہے ۔

تاکہ اس پر دلالت ہو کہ ابراہیم علیہ السلام نے ان فرشتوں کے سلام کے مقابلے میں اس سے اچھے انداز میں جواب دیا، کیوں کہ لفظ ”سلام“ کا رفع ان فرشتوں کے لیے سلامتی کے ثبات اور دوام پر دلالت کرتا ہے، نہ کہ تجدد وحدوث پر، جو کسی آن ہو اور کسی آن نہ ہو ۔ (الکشاف للزمخشری: الفاتحہ:2)

﴿الرحمن الرحیم﴾: یعنی بے حد مہربان، نہایت رحم والا۔

اس کا بیان گزر چکا ہے کہ یہ دونوں الله کی صفات ہیں اور الرحمن میں الرحیم سے زیادہ مبالغہ ہے۔

بعض علماء نے ان دونوں میں یہ فرق کیا ہے کہ الرحمن سے بلند وعظیم نعمتیں عطا کرنے والا اور الرحیم سے ہر قسم کی نعمتیں عطا کرنے والا مراد ہے۔ (تفسیر روح المعانی: الفاتحہ:2)

کشاف میں ہے کہ اگر کہا جائے کہ دونوں اوصاف میں سے جو زیادہ بلیغ ہے اس کو ادنیٰ پر مقدم کیوں کیا گیا ، حالاں کہ قیاس یہ ہے کہ ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ترقی کی جائے۔ جیسے کہا جاتا ہے ”فلان عالم نحریر“ ”جواد فیاض“ وغیرہ کہ ”نحریر“ اور ”فیاض“ میں ”عالم“ اور ”جواد“ سے زیادہ مبالغہ ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ جب باری تعالیٰ نے ”الرحمن“ فرمایا تو یہ لفظ صرف جلیل القدر اور عظیم المرتبت نعمتوں کو شامل تھا، پس بعد میں ”الرحیم“ فرماکر دقیق وخفیف نعمتوں کو بھی شامل فرما لیا۔ (تفسیر الکشاف: الفاتحہ:3)

گویا کہ الرحیم اپنے عموم کی وجہ سے الرحمن سے ابلغ ہے۔

﴿مالک یوم الدین﴾․ یعنی روز جزا کا مالک۔

دین سے مراد روز جزا ہے، جس دن تمام لوگ اپنے کیے ہوئے اعمال کا بدلہ پائیں گے۔

دنیا میں تو الله کی طرف سے انسانوں کو کچھ ناقص ملکیت عطا کی گئی ہے ، لیکن ایک روز ایسا آئے گا کہ جس دن یہ ناقص ملکیت بھی ختم ہو جائے گی اور تمام کی تمام ملکیت صرف الله ہی کی ہو گی اور کسی کا کسی پر کوئی بس نہیں چلے گا۔

آیت مذکورہ میں انسان کو اسی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اس چند روزہ ناقص ملکیت میں بدمست ہو کر خدا کا نافرمان مت ہونا، کیوں کہ یہ صرف آزمائش کے لیے ہے۔

ایک روز ایسا آئے گا کہ جب تم الله کے سامنے بالکل بے اختیار کھڑے ہو گے۔

ایسے ہی ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿لمن الملک الیوم لله الواحد القھار﴾(سورة المؤمن:16)

یعنی آج کے دن کس کی بادشاہی ہے ؟ صرف الله یکتا وبرترہی کی بادشاہی ہے۔

ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿یوم لا تملک نفس لنفس شیئاً والامر یومئذٍ لله﴾․ یعنی جس دن کسی شخص کا کسی کے نفع کے لیے بس نہیں چلے گا اور تمام حکومت اس روز الله ہی کی ہو گی۔

﴿ایّاک نعبد وایاک نستعین﴾․ یعنی ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں او رتجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔

یہ حمد وثناء کے بعد بندہ کی طرف سے بارگاہ رب العزت میں خطاب ہے، کیوں کہ جو ذات غایت درجے کی عظمت وجلال اور انتہائی خوبی وکمال کے ساتھ متصف ہو تو عبادت کے لائق بھی صرف وہی ذات ہے۔

اور ظاہر ہے کہ اس کی مدد وتوفیق کے بغیر عبادت بھی ناممکن ہے، اس لیے مدد بھی اسی سے مانگنی چاہیے۔

”ایاک“ مفعول ہے، اسے اختصاص کی غرض سے مقدم کیا گیا ہے، جیسے فرمان باری تعالی﴿ قل افغیر الله تأمرونی أعبد أیھا الجٰھلون﴾․ ( سورة الزمر:64) اور﴿قل أغیر الله أبغی رباً﴾․(سورة الأنعام:164) میں ”غیر“ کی نفی کے لیے مفعول کو مقدم کیا گیا، معنی یہ ہے کہ ہم تجھے ہی عبادت کے لیے خاص کرتے ہیں او رتجھے ہی طلب مدد کے لیے خاص کرتے ہیں ۔

اور اگر کہا جائے کہ صیغہ غائب کو چھوڑ کر صیغہ خطاب کو کیوں اختیار کیا گیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسے علم بیان میں التفات کہا جاتا ہے اور یہ التفات عرب کی اس عادت پر مبنی ہے کہ وہ کلام میں ردو بدل کرکے مخاطب کو تعجب میں ڈالتے ہیں یا اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔

اور یہ اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ جب کلام ایک اسلوب سے دوسرے اسلوب کی طرف منتقل کیا جاتا ہے تو یہ سامع کی تازگی ونشاط اور کلام کی طرف توجہ کا بہترین سبب ہوتا ہے، جب کہ یہ فائدہ ایک ہی اسلوب پر کلام جاری رکھنے سے حاصل نہیں ہوتا۔

او راس التفات کے ذریعہ سے بعض اوقات کچھ مخصوص فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔

زیر بحث کلام میں اس کا خاص فائدہ یہ ہے کہ جبحمد کی لائق ذات کا ذکر کیا گیا اور اس پر عظیم الشان صفات جاری کی گئیں تو ایسی ذات کا علم حاصل ہوا جو نہایت عالی شان ہے، لہٰذا مناسب ہوا کہ اس عظیم ذات سے خطاب کے ساتھ درخواست کی جائے ۔ ( تفسیر الکشاف، سورہٴ فاتحہ:4)

اور فرمان باری تعالیٰ ﴿ ایاک نستعین﴾ میں ایجاز حذف بھی ہے۔

اس لیے کہ اس کے متعلق میں عموم مقصود ہے، محذوف عبارت اس طرح ہے:
”ایاک نستعین علی العبادة وعلیٰ امور نا کلھا“ یعنی ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں عبادت اور اپنے تمام امور میں۔ (تفسیر الکشاف، الفاتحہ:4)

تصوف وسلوک
سالکین کا مقام ﴿ایاک نعبد﴾ پر تمام ہو جاتا ہے، اس کے بعد وہ ﴿ایاک نستعین﴾ سے تمکین کا طالب ہوتا ہے۔

بیان اس کا یہ ہے کہ مرید کی ابتدائی حرکت حمد ہے، کیوں کہ جب سالک کا نفس مزکی اور اس کا قلب مجلی ہو جاتا ہے تو پھر اس میں انوار عنایت، جو کہ مقام ولایت کا موجب ہیں، درخشاں ہوتے ہیں ، تو یہ نفس مزکیّٰ طلب مقصود کے لیے خالص ہوجاتا ہے ۔ پس اپنے اوپر انعامات الہٰیہ کے آثار کو کامل اوراس کے الطاف کو غیر متناہی دیکھتا ہے۔

سو اس پر وہ حمد کرتا ہے اور ذکر کو اختیار کرتا ہے ، پھر پردہ ہائے عزت کے پیچھے سے اس کے لیے ﴿رب العالمین﴾ کے معنی کا حجاب مکشوف ہو جاتا ہے ،اس وقت وہ ماسوی الله کو محل فنا میں اور اپنے کو تربیت میں بقاء دہندہ کا محتاج دیکھتا ہے۔

پس وہ وحشت اعراض اور ظلمت سکون الی الأغیار سے خلاصی حاصل کرنے کی طلب کے لیے ترقی کرتا ہے۔

پس اس پر درگاہِ مقدس کی ہواؤں سے رحمن رحیم کے الطاف کے جھونکے چلتے ہیں ، پھر وہ سراپا پردہ ہائے جمال کے آگے سے برق ہائے جلال کی چمک کے واسطہ سے مالک حقیقی کی طرف رجوع کرتا ہے۔

پھر وہ مقام﴿لمن الملک الیوم لله الواحد القھار﴾ (مقام توحید) میں بلسان اضطرار پکارتا ہے کہ میں نے اپنا نفس آپ کے سپرد کر دیا اور میں ہمہ تن آپ کی طرف متوجہ ہو گیا۔

اور اس مقام پر پہنچ کروہ لجہٴ وصول میں گھس گیا، جس سے اس نے نسبت عبودیت کو محقق کر لیا اور مقام عین تک گھس گیا اور کہنے لگا ﴿ ایاک نعبد﴾ اور یہاں مقام سالک کی انتہا ہے ( جیسا کہ ابتدا میں کہا گیا)۔

کیا سید الخلق وحبیب حق صلی الله علیہ وسلم کو نہیں دیکھتے کہ آپ کے مقام کو کس طرح اس قول کے ذریعے تعبیر کیا گیا ﴿سبحن الذی أسری بعبدہ لیلاً﴾․

اس کے بعد بندہ نے ﴿ایاک نستعین﴾ سے تمکین کی درخواست کی اور﴿اھدنا الصراط المستقیم﴾ سے بھی اسی تمکین کا طالب ہوا اور قول ﴿غیر المغضوب علیہم ولا الضالین﴾ کے ذریعے سے تلوین سے پناہ مانگی ہے۔

پس طالب کمال ہو کر اس نے صعود کیا اور کامل ہو کر اس نے رجوع ونزول کیا۔

گویا اسی لطیفہ کے سبب سے نماز کو معراجِ مومن کہا گیا۔(بیان القرآن از مولانا حکیم الامت اشرف علی تھانوی، سورہ فاتحہ)

مسئلہ استعانت
غیر الله سے استعانت ( مدد مانگنے) کی مختلف صورتیں ہیں، جن کے احکام بھی جدا جدا ہیں۔

تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
استعانت کی ایک صورت تو یہ ہے کہ غیر الله کو فاعل مستقل اور قادر بالذات مان کر اس سے استعانت کی جائے، یہ تو کھلا شرک ہے اور کفار مکہ بھی اسے شرک سمجھتے تھے۔

دوسری قسم یہ ہے کہ مستعان منہ ( جس سے مدد مانگی جائے) کے بارے میں یہ عقیدہ ہو کہ یہ اگرچہ فاعل مستقل نہیں، مگر الله نے کچھ اختیار اسے تفویض کر دیا ہے او راس دائرے کے اندر وہ خود مختار ہے ۔

یہی وہ استعانت ہے جو کفر واسلام کے درمیان امتیاز کرتی ہے ۔ آیت مذکورہ میں بھی اسی کی نفی کی گئی ہے، مشرکین وکفار بھی اسی استعانت کے قائل ہیں۔

تیسری قسم یہ ہے کہ مستعان منہ کو نہ قادر مطلق تسلیم کرے اور نہ فاعل مستقل یا قادر بعد تفویض الہٰی خیال کرے، لیکن امور غیر عادیہ ومافوق الاسباب میں مدد مانگے، یعنی وہ امور ایسے ہوں جو الله تعالیٰ نے انسان کے دائرہ اختیار میں نہ رکھے ہوں۔

جیسے غیر الله سے اپنے یا کسی کے لیے اولاد مانگنا یا اس سے ہدایت کی دعا کرنا کہ تو مجھے ہدایت دے دے ۔یہ ناجائز ہے ،کیوں کہ یہ استعانت موہم شرک ہے ( یعنی اس میں شرک کا شائبہ ہوتا ہے )، البتہ ہدایت کی دعا کرانا جائز ہے۔

چوتھی قسم یہ ہے کہ مستعان منہ کو نہ قادر مطلق اور نہ مستقل بعد تفویض الہٰی خیال کرے اور استعانت بھی امور عاویہ وماتحت الاسباب میں کرے اور مستعان منہ کو قدرت خداوندی اور عون الہٰی کا مظہر سمجھے اور پس پردہ کارخانہٴ قدرت ہی کو عامل خیال کرے تو یہ استعانت جائز ہے۔

کیوں کہ یہ استعانت حقیقتاً الله ہی سے ہے، غیر الله سے نہیں، عقل وبداہت سے اس کا انکار ممکن نہیں، اس کے بغیر نظام عالم کا ایک پل بھی چلنا ممکن نہیں، کیوں کہ اس عالم میں ہر پل مزدور ، تاجر، زمین دار، صنعت کار مخلوق ہی کی مدد میں لگے ہوئے ہیں ،اسی سے نظام عالم قائم ودائم ہے۔

قرآن واحادیث سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے مثلاً: ذوالقرنین کا قول ﴿اعینونی بقوة﴾ یعنی ( اے لوگو!) تم ( دیوار چنوانے میں) قوة کے ذریعے سے میری مدد کرو، اسی قسم کی استعانت ہے۔

کیوں کہ دیوار کی تعمیر ایک ایسا امر ہے جو اسباب طبعیہ کے تحت داخل ہے، لہٰذا دوالقرنین کی یہ استعانت امور ماتحت الاسباب ہونے کی بنا پر نہ صرف جائز، بلکہ ضروریات بشریہ کے عین موافق ہے۔

جناب نعیم الدین مراد آبادی بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں جناب احمد رضا خان بریلوی کے مایہ ناز شاگردوں میں ان کا شمار ہوتا ہے، اپنے استاذ کے ترجمہ قرآن”کنزالایمان“ کے تحت مختصر تفسیر خزائن العرفان“ لکھی اور 1367ھ میں وفات پائی“۔

نعیم الدین مراد آبادی صاحب کا مغالطہ
آیت مذکورہ کے تحت جناب نعیم الدین مراد آبادی اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
” اس سے یہ سمجھنا کہ” اولیاء وانبیاء سے مدد چاہنا شرک ہے“ عقیدہ باطلہ ہے، کیوں کہ مقربان حق کی امداد امداد الہٰی ہے، استعانت بالغیر نہیں، اگر اس آیت کے وہ معنی ہوتے جو وہابیہ نے سمجھے تو قرآن پاک میں ﴿عینونی بقوة﴾ اور ﴿استعینوا بالصبر والصلوٰة ﴾کیوں وار د ہوتا اور احادیث میں اہل الله سے استعانت کی تعلیم کیوں دی جاتی؟ ( کنزالایمان مع خزائن العرفان، سورةالفاتحہ:4)

نعیم الدین صاحب او ران کی جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیائے کرام واولیائے کرام تمام کائنات میں تصرف کے مالک او رامور غیر عادیہ ومافوق الاسباب امور میں خود مختار ہیں اور انہیں یہ اختیار الله کی طرف سے تفویض کیا گیا ہے، لہٰذا ہر قسم کے امور میں ان سے استعانت بھی جائز ہے، خواہ وہ زندہ ہوں یا وفات پاچکے ہوں۔

مندرجہ بالا حوالہ میں بھی اسی نظریے کو قرآن وحدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

غیر الله سے امور غیر عادیہ ومافوق الاسباب میں استعانت شرک ہے

انبیائے کرام واولیائے کرام سے مذکورہ استعانت بہرحال شرک ہے، کیوں کہ استعانت کرنے والے انہیں مختار کل خیال کرتے ہیں۔

حضرت شاہ ولی الله رحمہ الله لکھتے ہیں:
”ومنھا انہم کانوا یستعینوں بغیر الله فی حوائجہم من شفاء المریض وغناء الفقیر، وینذرون لہم ویتوقعون انجاح مقاصدہم بتلک النذور، ویتلون أسمائہم رجاء برکتھا، فأوجب الله تعالیٰ علیہم أن یقولوا فی صلواتھم:﴿ایاک نعبدوایاک نستعین﴾․

وقال الله تعالیٰ:
﴿فلاتدعوا مع الله احداً﴾

ولیس المراد من الدعاء العبادة، کما قال بعض المفسرین، بل ھو الاستعانة، لقولہ تعالیٰ: ﴿بل ایاہ تدعون فیکشف ماتدعون﴾․ (حجة الله البالغہ، ص:62، طبع مصر)

ترجمہ: اقسام شرک میں سے ایک یہ ہے کہ مشرکین اپنی حاجتوں میں غیر الله سے استعانت کرتے تھے، مثلاً بیمار کی شفا اور فقیر کی مال داری وغیرہ اوران کے لیے نذریں مانتے تھے اور ان کی وجہ سے وہ اپنی مرادیں پوری ہونے کی امید رکھتے تھے۔

اور برکت حاصل کرنے کی امید سے وہ ان کے نام ورد کے طور پر پڑھا کرتے تھے۔

سوالله تعالیٰ نے ان پر یہ واجب کر دیا کہ وہ اپنی نمازمیں ﴿ایاک نعبدو وایاک تستعین﴾ پڑھیں اور نیز الله تعالیٰ نے فرمایا کہ تم الله کے ساتھ کسی کو مت پکارو او رمذکورہ آیت میں دعا سے مراد عبادت نہیں، جیسا کہ بعض مفسرین نے کہا ہے، بلکہ استعانت مراد ہے، جیسا کہ ارشاد خدا وندی ہے ”بلکہ تم صرف اسی کو پکارو گے سو وہ تمہاری تکلیف کو رفع کرے گا۔“

اس صاف اور صریح عبارت سے واضح ہو جاتا ہے کہ غیر الله سے استعانت شرک ہے اور مشرکین مکہ اسی شرک میں مبتلا تھے۔

ایک او رجگہ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں:
”وکفرالله سبحانہ مشرکی مکة بقولہم لرجل سخی کان یلت السویق للحجاج أنہ نصب منصب الألوھیة، فجعلوا یستعینون بہ عندالشدائد“․ ( البدورالبازغة:106)

ترجمہ: اور الله تعالیٰ نے مکہ کے مشرکوں کو اس لیے کافر فرمایا کہ انہوں نے ایک سخی آدمی کو جو ستو گھول کر حجاج کو پلاتا تھا( جس کا نام لات تھا) حاجت روائی کا منصب دے رکھا تھا او رتکالیف ومصائب کے موقع پر وہ اس سے استعانت کیا کرتے تھے۔

قاضی ثناء الله پانی پتی المتوفی1325ھ لکھتے ہیں:
مسئلہ: عبادت مر غیر خدا را جائز نیست، و نہ مدد خواستن از غیر حق… اھ ( ارشاد الطالبین:20)

یعنی نہ تو خدا تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت جائز ہے اور نہ اس کے سوا کسی سے مدد طلب کرنا۔

حیرت ہے کہ یہ اکابر علمائے اسلام تو غیر الله سے استعانت کو شرک وکفر قرار دیں اور ﴿ایاک نستعین﴾ کے سراسر خلاف سمجھیں، مگر نعیم الدین صاحب یہ کہتے رہیں کہ استعانت بالغیر کی نفی اس آیت سے وھابیہ نے سمجھی ہے۔

یہ صاحب عین شرک کو قرآن وسنت سے ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔

الغرض مذکورہ حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ غیر الله سے استعانت شرک ہے۔

اور آیت میں اسی کی نفی ہے اورمشرکین بھی اپنے بتوں سے عطائی اختیارات کے تحت ہی استعانت کیا کرتے تھے، کیوں کہ کوئی بھی مشرک غیر الله کو حقیقی مستعان نہیں سمجھتا تھا۔

چناں چہ فرمان باری تعالی ہے :
﴿والذین اتخذوا من دونہ اولیاء ما نعبدھم الا لیقربونا الی الله زلفی﴾․ (سورة الزمر:3)

یعنی جن لوگوں نے الله کے سوا شرکاء تجویز کر رکھے ہیں کہ ہم تو ان کی عبادت اسی لیے کرتے ہیں کہ یہ ہم کو خدا کا مقرب بنا دیں ۔

ایک اور آیت میں ہے:
﴿قل من یرزقکم من السماء والارض امن یملک السمع والأبصار ومن یخرج الحی من المیت ویخرج المیت من الحی ومن یدبر الأمر فسیقولون الله﴾ اھ( سورہ یونس:31)

یعنی ( کافروں سے) کہہ دیجیے کہ وہ کون ہے جوتم کو آسمانوں اور زمینوں سے رزق پہنچاتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو جاندار کو بے جان سے نکالتا ہے اور بے جان کو جاندار سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے ، سو وہ کہیں گے کہ الله (ہے)۔

ان آیات سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہکفار بتوں کے لیے عطائی اختیارات کا عقیدہ رکھتے تھے، جب کہ مستقل ومختار صرف الله ہی کو جانتے تھے۔

پس ثابت ہو اکہ ﴿ ایاک نعبد وایاک نستعین﴾ میں اسی شرک کی نفی کی گئی ہے۔

باقی رہا نعیم الدین صاحب کا یہ کہنا کہ ”مقربان حق سے استعانت حقیقتاً الله ہی سے استعانت ہے“ بالکل باطل ہے، کیوں کہ الله کی ذات اور مقربین کی ذات علیحدہ علیحدہ ہیں، لہٰذا مقربان حق غیر الله ہیں۔

دونوں تو اسی صورت میں ایک ہو سکتے ہیں کہ عیسائیوں کی طرح دو کو ایک اور ایک کو د ومان لیا جائے ۔ نعوذ بالله من ذالک․

اور ذوالقرنین کا قول ﴿اعینونی بقوة﴾ کو دلیل کے طور پر ذکر کرنے کا نعیم الدین صاحب کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ۔ کیوں کہ یہ استعانت ماتحت الاسباب ہے، اس کی قدرے وضاحت ہم مسئلہ استعانت کے آخر میں کر چکے ہیں۔

اسی طرح ﴿واستعینوا بالصبر والصلوة﴾ میں صبر اور صلوٰة پر باسببیہ داخل ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ تم صبر اور صلوٰة کے ذریعے سے مدد مانگو، لیکن مدد کس سے مانگی جائے اس کا بیان تو﴿والله المستعان﴾․(سورہٴ یوسف:18) ﴿ایاک نستعین﴾․ (سورہٴ فاتحہ:4) اور ﴿اللھم انا نستعینک﴾ میں کر دیا گیا کہ صرف الله ہی سے مدد مانگی جائے۔

اور نعیم الدین صاحب کا یہ کہنا کہ احادیث میں اہل الله سے استعانت کی تعلیم کیوں دی جاتی ہے باطل ہے۔

کیوں کہ احادیث میں جا بجا اس شرک کی نفی توکی گئی ہے مگر پورے ذخیرہٴ حدیث میں کسی ایک حدیث میں بھی اس شرک کی تعلیم نہیں دی گئی۔

جبریہ اور قدریہ کی تردید
جبریہ ایک فرقے کا نام ہے ، جس کا عقیدہ ہے کہ انسان کا کوئی بھی فعل حقیقتاً اس کا فعل نہیں اور نہ ہی انسان اپنے افعال پر قادر ہے، بلکہ وہ الله کی طرف سے مجبور محض ہے ۔ ( الملل والنحل:72/1، دارالکتب العلمیہ)

قدریہ ان لوگوں کا نام ہے جو انسان کو اپنے فعل پر قادر بالذات اور فاعل مختار مانتے ہیں اور اس میں الله کا کوئی دخل تسلیم نہیں کرتے، ان میں خوارج ومعتزلہ بھی داخل ہیں۔

جبروقدر کے بارے میں عقیدہٴ اہلسنت
انسان کی قدرت غیر مستقل ہے، اس لیے وہ قدرت انسان کے اختیار سے مؤثر نہیں ہوتی، بلکہ اس قدرت کے ساتھ قوی داعیہ کا ہونا ضروری ہے، جس کی بنا پر انسان فعل کا اکتساب کرسکے۔

اور وہ قوی داعیہ الله تبارک وتعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے، لہٰذا انسان نہ تو اپنے افعال میں مستقل ہے اور نہ مجبور محض، بلکہ کسب فعل کے لیے انسان کو ایک گونہ قدرت غیر مستقلہ حاصل ہے، اسی پر جزا وسزا کا ترتب ہوتا ہے۔

پس ﴿ایاک نستعین﴾ کا مطلب یہ ہے کہ اے الله! ہم اپنے تمام افعال میں تجھ سے فعل کے اکتساب کے لیے قوی داعیہ کے خلق اور اس سے روکنے والے داعیہ کو زائل کرنے کا سوال کرتے ہیں۔ (التفسیر الکبیر، سورہٴ فاتحہ:4)

اس تقریر سے دونوں فرقوں کا جواب بھی واضح ہو گیا۔ (جاری)
Flag Counter