Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1433ھ

ہ رسالہ

13 - 17
تطفیف کی مختلف صورتیں
	

مولانا بدرالاسلام قاسمی

مشہور عربی مقولہ ہے : ”کلام الملوک ملوک الکلام“۔یعنی بادشاہوں کا کلام کلاموں کا بادشاہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی بھی کتاب کے معیار کا اندازہ اس کے مصنف سے لگایا جاتا ہے، جو مصنف اپنی تحریر میں تازگی، شگفتگی، سحربیانی اور جامعیت لیے ہوتا ہے دنیا اسے ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے، اس کی کتابوں کے جملے عوام الناس میں بطور محاورہ و ضرب الامثال استعمال ہوتے ہیں، انسان جیسی ادنیٰ و کمزور ترین مخلوق کے کلام کا یہ حال ہے جس کی تخلیق ایک بے حیثیت مادّے سے ہوئی ، ارشاد باری ہے:﴿إِنَّا خَلَقْنَا الإِنْسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ﴾ہم نے انسان کو ملے جلے پانی سے پیدا کیا۔

تو پھر کیا خیال ہے آپ کا اُس ذاتِ اقدس کے متعلق، جو کہ مالک الملک اور ذوالجلال والاکرام ہے، تمام بادشاہوں کا بلاشرکت غیر بادشاہ ہے، اس کی سلطنت منکرین کے سامنے اس دن عیاں ہوگی جب تمام بادشاہوں کی بادشاہت فیل اور حاکموں کی حکومت جواب دے چکی ہوگی، فرمایا:﴿اَلْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ لِلّٰہ ِ﴾بادشاہت اس دن (قیامت کے دن) اللہ ہی کی ہوگی۔

ظاہر ہے کہ اس کے کلامِ مجید کی شان اسی اعتبار سے اعلیٰ و ارفع ، اس کے جملے انتہائی بلیغ او رجامع، ایک ایک جملے سے کئی کئی مطالب و مفاہیم مراد لینا ممکن ، یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک کی ایک ایک آیت سے بے شمار مسائل کا استنباط کیاگیا، چناں چہ یہ کتاب از ابتدا تا انتہا معجزہ ہے، علما میں خود یہ بات زیر بحث رہی کہ قرآن کریم کس اعتبار سے معجز ہے، اپنے الفاظ کے اعتبار سے، معانی و مفاہیم کے اعتبار سے، اپنی فصاحت و بلاغت کے اعتبارسے یا اپنے اسلوبِ بیان کے اعتبار سے کہ جس کو سن کر اہل مکہ کبھی اسے شعر کہنے پر مجبور ہوتے تو کبھی کہانت، کبھی سحر کے قائل ہوتے تو کبھی آپ علیہ السلام کا خود ساختہ کلام ہونے کا شور مچاتے۔ بعض علما نے یہاں تک لکھا کہ قرآن پاک کے اعجاز کی وجہ اب تک متعین نہ ہوپانا بھی بذاتِ خود اس کے معجزہ ہونے کی ایک بین دلیل ہے۔

بہرحال یہی وہ زندہ جاوید کتاب ہے، جو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے، ان کے لیے دین و دنیا کی راہ نما و رہبر ہے، اسی کی راہ نمائی پر عمل کرکے انسان دنیا و آخرت میں فوزو فلاح کے مراتب کو پا سکتا ہے، اور اگر اس نے روگردانی کی، اپنی شقاوت و بدبختی کے نتیجے میں اس کی تکذیب کی تو :﴿ لَا یَصْلَاہَا إِلَّا الْأَشْقَی، الَّذِیْ کَذَّبَ وَتَوَلَّی﴾۔اس میں (جہنم میں) وہی شخص گرے گا جس نے جھٹلادیا اور منھ موڑ لیا۔

قرآن پاک کی انہیں جامع آیات میں سے چند آیتیں سورہ تطفیف کے آغاز میں ہیں : ﴿وَیْْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ ،الَّذِیْنَ إِذَا اکْتَالُواْ عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ، وَإِذَا کَالُوہُمْ أَو وَّزَنُوہُمْ یُخْسِرُونَ ﴾۔بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی، کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیں تو پورا لے لیں اور جب اُن کو ناپ کر یا تول کر دیں تو گھٹا دیں۔

یہ آیات اگرچہ اپنے شانِ نزول کے اعتبار سے خاص ہیں لیکن علم تفسیر کا یہ اصول بھی ذہن میں رہے کہ

العبرة لعموم اللفظ، لا لخصوص السبب

شانِ نزول سے متعلق امام نسائی  نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے تو دیکھا کہ مدینے کے لوگ (جن کے معاملاتِ تجارت کیل یعنی ناپ کے ذریعہ ہوتے تھے) ناپ تول میں کمی اور چوری کرنے کے عادی ہیں، تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔

ان آیات میں اصل مذمت تطفیف کرنے والوں کی ہے، تطفیف کے معنی ناپ تول میں کمی کرنے کے ہیں، گو اپنا حق پورا لینا قابل مذمت نہیں اور نہ پورا حق وصول کرنے پر مذمت مقصود ہے، بلکہ کم دینے پر مذمت کی تاکید مقصود ہے، مطلب یہ ہے کہ اپنا حق جس طرح تم پورا وصول کرتے ہو تو دوسروں کا حق بھی اسی طرح پورا دینا چاہیے، نیز ایسا شخص جو دوسروں کی حق تلفی کرتا ہو، کسی کی رعایت نہ کرتا ہو، یہ بہت ہی مذموم ہے کہ اپنے حق کے بارے میں کسی کی رعایت نہ کرے اور پورا وصول کرلے اور دوسروں کا حق کم کردے، اس کے بالمقابل جو اپنے حقوق میں بھی رعایت سے کام لیتا ہے وہ اتنا بڑا مجرم نہیں۔

آیاتِ مذکورہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تطفیف حرام ہے اور اس کے کرنے والے سخت ترین وعید کے مستحق ہیں، لیکن کیا تطفیف صرف ناپ تول میں کمی کرنے کی صورت میں منحصر ہے؟ نہیں، بلکہ اس کی کئی صورتیں ہیں، جو ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح کھائے جا رہی ہیں، ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔

شیخ ابوالقاسم قشیری وغیرہ اکابر سے منقول ہے کہ یہ لفظ وسیع المعنی ہے، ناپ تول کی خیانت کو بھی شامل ہے اور ہر قسم کی خیانت کو بھی۔ مثلاً :

ظلوم و جہول انسان اپنے بارے میں یہ خیال کرے کہ اس کو سب اچھا کہیں، اس کے عیوب کا کہیں ذکر نہ ہو، اور خود کا حال یہ کہ دوسروں کی عیب جوئی اس کی فطرتِ ثانیہ بن جائے ہر وقت اسی تگ و دو میں رہے کہ کسی طرح کسی دوسرے کے کچھ عیب معلوم ہوں اور ان کا تذکرہ بر سر مجلس کرسکوں۔

انسان اپنے بارے میں یہ خیال کرے کہ اس کے ساتھ ہمیشہ انصاف کا معاملہ ہو، وہ کسی بھی ناانصافی کا شکار نہ ہو، لیکن خود دوسروں بالخصوص، اپنے ماتحتوں کے ساتھ ناانصافی کو روا رکھتا ہو۔

انسان اپنے بارے میں یہ خیال کرے کہ سب اسے اچھا سمجھیں، اس کی تعظیم و تکریم کریں، ہر مجلس و محفل میں اس کا احترام ہو،لیکن خود کا یہ حال ہو کہ نہ تو کسی دوسرے کی تعظیم کرتا ہو اور نہ ہی کسی کا احترام، مزید بر آں دوسروں کی توہین کے درپے رہتا ہو۔

انسان اپنے بارے میں یہ خیال کرے کہ زندگی کے ہر میدان میں، جس میں بھی وہ قدم رکھے، سب اس کی حوصلہ افزائی کریں، اس کی تعریف کے پل باندھیں، اس حوصلہ افزائی کے نتیجے میں وہ آگے بڑھ سکے، لیکن خود کا یہ حال ہو کہ دوسرے کی حوصلہ شکنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا ہو۔

عہدے دار اپنے ماتحتوں ، نوکروں اور ملازمین کے بارے میں یہ چاہے کہ یہ دن رات ایک کرکے اس کی خدمت کریں، اس کے ادارے کو فروغ دیں، اپنی ڈیوٹی میں بالکل بھی کوتاہی نہ برتیں، لیکن جب تنخواہ یا اجرت کا معاملہ ہو تو بلا کسی عذر کے اس میں تاخیر کرے۔

اسی کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ نوکروں اور ملازمین کی خواہش یہ ہو کہ بروقت ان کو ان کا حق الخدمت اور تنخواہ ہاتھ لگ جائے، ان کی تنخواہ میں اضافہ ہوجائے، لیکن جب بات آئے کام کی تو اس میں سستی، کاہلی اور کام چوری کا مظاہرہ کریں، ڈیوٹی کو مکمل طریقے سے انجام نہ دیں،ڈیوٹی کے اوقات میں اپنی ذاتی مصروفیات کو ڈیوٹی پر ترجیح دیں۔

انسان اپنے لیے بہترین سامانِ رہائش پسند کرے، ترقیات کا خواب دیکھے، لیکن اپنے سامنے والے کی ادنیٰ سی ترقی پر بھی وہ جل بھن جائے، حسد اور کینہ کا جذبہ اس کے سینے میں موج زن ہو۔

اسی طرح انسان اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے عزت و عافیت چاہے، سربلندی و ترقی کی دعائیں کرے، لیکن جہاں بات آئے اس کی اطاعت وفرماں برداری کی، اس کے احکام کی بجا آوری کی، اپنے نفس پر اوامرِ شریعت کی تعمیل کو ترجیح دینے کی، خواہشاتِ نفس کو کچل کر نواہی سے بچنے کی تو اس میں کوتاہی کرے۔

نیز انسان ہمیشہ دوسروں کو وعظ و نصیحت کرتا رہے، ان کے سامنے اصلاحی تقاریر کرے، بیان کرے، تقریر و تحریر سے اصلاحی کوششیں کریں، اصلاحی کتابچے اور پمفلٹ چھپوا کر عوام الناس میں تقسیم کرائے، لیکن جب باری آئے خود کی، اس کے گھر والوں کی تو وہاں اولاد کی محبت کے سامنے ہتھیار ڈال دے، عوام الناس کے سامنے جس چیز کی مذمت بیان کرکے آیا ہے، خود اس کے گھر میں وہ چیز پائی جائے تو اس پر نکیر نہ کرے۔

اسی طرح ظاہراً خوب بزرگانہ صورت بنائے، عالمانہ و صوفیانہ لبادہ اوڑھے اور باطن کے کید و مکر سے محفوظ نہ ہو، باطنی بیماریوں میں ملوث ہو۔

ظاہر ہے کہ مذکورہ تمام چیزیں بھی تطفیف میں داخل ہیں، چناں چہ موٴطا امام مالک میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز میں رکوع و سجود میں کوتاہی کرتا اور نماز کو جلدی جلدی ختم کر ڈالتا ہے تو آپ نے اس کو فرمایا : لقد طَفَّفْتَ۔ (تو نے اللہ کے حق میں تطفیف کی۔) خلیفہٴ ثانی فاروقِ اعظم کے اس قول کو نقل کرکے امام مالک نے فرمایا: ”لکل شيء وفاء وتطفیف“ (پورا کرنا اور کم کرنا ہر چیز میں ہے)

مفتی محمد شفیع صاحب  فرماتے ہیں کہ اس معاملے میں اہل علم میں بھی غفلت پائی جاتی ہے کہ وہ ملازمت کے فرائض میں کمی کرنے کو کوئی گناہ ہی نہیں سمجھتے۔

حاصل یہ ہے کہ تطفیف حقوق العباد میں ہو یا حقوق اللہ میں ، ہر حال میں مذموم و حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔
Flag Counter