Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1432ھ

ہ رسالہ

9 - 17
مانگیے، پھر مانگیے، پھر مانگے
مولانا خالد سیف الله رحمانی

انسان کس قدر عاجز ہے کہ ہر لمحہ او رصبح وشام جس چیز کا ضرورت مند ہے ، اسے بھی وجود میں نہیں لاسکتا، نہ وہ چاول او رگیہوں کاایک دانہ پیدا کر سکتا ہے، نہ اپنے لیے پانی کاکوئی قطرہ وجود میں لاسکتا ہے، نہ وہ ہوااور آکسیجن کی تخلیق کر سکتا ہے، جس کے بغیر چند منٹ بھی اس کی زندگی باقی نہیں رہ سکتی ! اور خدا کس قدر قادر اور عظیم ہے! جس نے اتنی بڑی کائنات ہمارے لیے بچھائی ہے او رہر لمحہ لاکھوں پھل پھول ہیں جن کو وہ پیداکرتا ہے، پھر وہ مہربان او ررحم دل بھی کس قدر ہے کہ اس نے سورج کا ایسا چراغ جلا رکھا ہے جس کی روشنی ہر آنگن میں پہنچتی ہے او رجس کے حکم سے گھٹائیں رحمت بہ اماں ہو کر ہر کھیت کی پیاس بجھاتی ہیں، یہ آنگن کسی مسلمان کا ہو یا کسی کافر کا اور یہ کھیت الله کے فرماں برادروں کے ہوں یا نافرمانوں کے!

جو خدا اس قدر قادر مطلق ہے، جس کے خزانہٴ قدرت میں نعمتوں کی کوئی کمی نہیں، پھر جو اتنا سخی اور داتا ہے کہ دنیا میں اچھے بُرے کا فرق کیے بغیر سب کو دیتا ہے ، خوب دیتا ہے او ردامن بھر بھر دیتا ہے، اس سے بڑھ کر کون اس لائق ہو سکتا ہے کہ عاجزوکمزور اور ضرورت وحاجت مندی کا پتلا انسان اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے او راپنی ضرورتوں کے کشکول اس کے سامنے کھولے، کہ الله! اپنے ایک فقیر بے نوا او رگدائے بے آسرا پر نگاہ کرم فرما اوراپنی جودوسخا اور دادودہش کے دربار سے اس کے عاجز ہاتھوں کو واپس نہ کر اسی ادائے بندگی کا نام ”دعا“ ہے۔

دعا کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے ، الله تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اہلِ ایمان سے فرمایا ہے کہ وہ الله سے مانگیں او راس سے دعا کریں ، (غافر:65,14) الله تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ تم مجھ سے مانگو تو میں تمہاری دعا قبول کروں گا ﴿ادعونی استجب لکم﴾ (غافر:60)۔ اپنے نیک بندوں کی تعریف کرتے ہوئے الله نے فرمایا کہ ان کے پہلو بستر سے الگ ہوتے ہیں اور خوف وطمع کے ساتھ اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں۔ (السجدة:16) ایک موقع پر الله تعالیٰ نے فرمایا کہ الله سے اس کے فضل کے طلب گار رہو۔ ﴿واسألوا الله من فضلہ﴾․(النساء:32) رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے، جو عبدیت اور بندگی کا نمونہ تھے، دعا کرنے کی خوب ترغیب دی ہے ، آپ نے فرمایا کہ دعا دراصل عبادت ہے : ”الدعاء ھو العبادة“․ (ترمذی عن نعمان بن بشیر)۔ ایک او روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا کو عبادت کی روح اور اس کامغز قرار دیا ہے۔ (ترمذی:3371) مخلوق کا مزاج یہ ہے کہ اس سے کچھ مانگو تو ناگواری ہوتی ہے، لیکن الله تعالیٰ کو دعا سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں۔ ( ترمذی عن ابی ہریرة) اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص الله سے نہیں مانگتا، الله اس پر غصہ ہوتے ہیں۔ ( ترمذی) رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو مصیبتیں آچکی ہیں ، دعا ان میں بھی نافع ہے او رجو آنے والی ہیں دعا ان سے بھی بچاتی ہے ، اس لیے الله کے بندو! تم پر دعا کا اہتمام ضروری ہے۔ ( مشکوٰة:2234) حضرت عبدالله بن عمر سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جس کے لیے دعا کا دروازہ کھل گیا، اس کے لیے رحمت کے دروازے واہو گئے اور انسان الله تعالیٰ سے جو کچھ مانگتا ہے ، اس میں عافیت سے بہتر کچھ اور نہیں۔ (مشکوٰة:2239)

عام طور پر لوگ مصیبت کے وقت ہی دعا کرتے ہیں ، یہ بندہ کی خود غرضی کی بات ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، جو چاہتا ہو کہ مشکل وقتوں میں اس کی دعا قبول کی جائے اسے چاہیے کہ بہتر وقت میں خوب دعا کیا کرے ۔ ( ترمذی عن ابی ہریرہ) دعا چوں کہ خود عبادت ہے ، اس لیے وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی ، آپ نے فرمایا ،یا تو اس کی دعا اسی طرح قبول کر لی جاتی ہے ، یا آخرت کے اجر کی صورت میں محفوظ ہو جاتی ہے ، یا اسی مطلوب کے بقدر مصیبت اس سے دور کر دی جاتی ہے ۔ ( مشکوٰة عن ابی سعید خدری:2259) چناں چہ حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے پروردگار بہت حیا والے اور کریم ہیں ، جب بندہ ہاتھ پھیلاتا ہے تو اس سے حیا کرتے ہیں کہ اس کے ہاتھوں کو خالی واپس کر دیں۔ ( مشکوٰة:2244) البتہ دعاء کے معاملہ میں عجلت او ربے صبری نہیں ہونی چاہیے ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر انسان گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے ، بشرطے کہ جلد بازی سے کام نہ لے۔ دریافت کیا گیا کہ جلد بازی سے کیا مراد ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یوں کہے میں نے بہت دعا کی ،لیکن لگتا ہے میری دعا قبول نہیں ہوئی ، چناں چہ ناامید ہو کر دعا کرنا چھوڑ دے ۔ ( مشکوٰة عن ابی ہریرة:2327) اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خوش حالی اور کشادگی کا انتظار بھی افضل ترین عبادت ہے ، وافضل العبادة انتظار الفرج (مشکوٰة:2237)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کو دیکھیے تو صبح سے شام تک دعاؤں کا معمول ہے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح دعا کرو کہ دل میں یقین ہو کہ الله اسے ضرور ہی قبول فرمائیں گے، ”فاسئلوہ وانتم مؤمنون بالاجابة“۔ ( مجمع الزوائد:148/10) کیوں کہ جب تک دعا کے قبول ہونے کا یقین نہ ہو وہ کیفیت وانابت پیدا نہیں ہوسکتی، جو دعا کے لیے مطلوب ہے ، پھر یہ بھی ضروری ہے کہ دعا کے وقت قلب الله تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو دل غافل اور لاپروا ہو او رزبان پر دعا کے کلمات ہوں ، تو یہ دعا مقبول نہیں ، حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ الله غافل اور بے توجہ دل کی دعا قبول نہیں فرماتے ہیں۔ (مشکوٰة:2241) خود الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ دعا کرنے والے پر فروتنی کی کیفیت ہونی چاہیے﴿ادعوا ربکم تضرعا وخفیہ﴾․ (الاعراف:55)

قلب کے ساتھ ساتھ جسمانی اعتبار سے بھی دعا کرنے والے کو بندگی اور عجز ونیاز کا مظہر ہونا چاہیے، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب الله تعالیٰ سے مانگو تو ہتھیلیوں کی طرف سے، نہ کہ پشت کی جانب سے۔ یعنی ہتھیلیاں پھیلا کر رکھو، نہ کہ پشت او رپھر اپنی ہتھیلیوں کو اپنے چہرہ پر پھیر لو۔ (مشکوٰة عن ابن عباس:2243) حضرت عمر رضی الله عنہ کی ایک روایت ہے کہ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ مونڈھوں کے مقابل یا ان کے قریب ہوں۔ (ابوداؤد عن عکرمہ) گویا ایک بھکاری ہے جس نے اپنا ہاتھ پھیلایا ہوا ہے ، خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا معمولِ مبارک بھی یہی تھا ۔ (مشکوٰة:2254) حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ہاتھ سینوں کے مقابل ہونا چاہیے، حضور صلی الله علیہ وسلم اس سے زیادہ ہاتھ نہ اٹھاتے تھے ۔ (مشکوٰة:2257)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا کے کلمات کے بارے میں بھی آداب بتائے ، حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ دعا سے پہلے الله تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرنی چاہیے اور آپ صلی الله علیہ وسلم پر درود ، پھر دعا کرنی چاہیے ۔( مجمع الزوائد:155/10) حضرت فضالہ بن عبید سے مروی ہے کہ ہم لوگ حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک صاحب آئے ، نماز پڑھی ، پھر دعا کرنے لگے ! کہ الله! مجھے معاف فرما، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے نماز پڑھنے والے! تم نے جلد بازی کی ، جب نماز پڑھو تو بیٹھو، پھر الله کی حمد کرو، پھر مجھ پر درود بھیجو، اس کے بعد دعا کرو ، چناں چہ اس نے اسی طرح دعا کی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا کرو قبول کی جائے گی ، سل تعطہ (مجمع الزوائد:156/10) دعا کرتے ہوئے آواز پست اور آہستہ ہونی چاہیے، کیوں کہ خود الله تعالیٰ نے دعا کے آداب میں یہ بات فرمائی ہے کہ دعا میں آواز پست ہونی چاہیے۔ ( اعراف:55) کیوں کہ پست آواز میں ریا اور دکھاوے کا اندیشہ کم ہے ، آدمی اپنی ضرورت کے مطابق دعا کرسکتا ہے ، اس سے رقت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ، آج کل اجتماعی طور پر دعا کا رواج بڑھ گیا ہے ، اس میں بعض اوقات دعا ”رسم دعا“ بن جاتی ہے، رقت اور خشیت کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی اور چوں کہ ہر شخص کی ضرورتیں الگ الگ ہوتی ہیں اس لیے انسان اپنی ضرورت کے مطابق خدا سے سوال نہیں کر پاتا ، دعا کے آداب میں یہ بھی ہے کہ دعا خواہ کسی کے لیے کرنی ہو دعا کا آغاز اپنی ذات سے کرے ( مجمع الزوائد:152/10، باب دعاء المرء لنفسہ) کیوں کہ اس سے عجز او رالله کے سامنے احتیاج کا اظہار ہوتا ہے اور دراصل یہی کیفیت دعا کرنے والے میں مطلوب ہے۔

کچھ خاص اوقات ہیں جن میں دعا مقبول ہوتی ہے ، رات کے آخری اور تہائی حصہ میں یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جائے۔ ( مسند احمد عن ابن مسعود) جہاد میں صفوں کے آراستہ ہونے کے وقت ، بارش ہونے کے وقت ، نماز کی اقامت کے وقت۔ ( ترمذی عن ابی ہریرہ) اس کے علاوہ فرض نمازوں کے بعد ، شب قدر اور بعض خاص راتیں دعا کی قبولیت کے خاص مواقع ہیں ، اسی طرح کچھ لوگ ہیں ، جن کی دعاؤں کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے خاص طور پر مقبول قرار دیا ہے ، ان ہی میں مظلوم ہے، گو وہ اپنے اعمال کے اعتبار سے بُرا ہی کیوں نہ ہو ، روزہ دارتا آنکہ افطار کر لے اور مسافر تاآنکہ واپس آجائے۔ ( مجمع الزائد:152/10)

امام عادل کی دعا اور باپ کی دعا اپنی اولاد کے حق میں مقبول ہے۔ (مشکوٰة عن ابی ہریرة:2229,2248) کسی شخص کی غیر موجود مسلمان بھائی کے بارے میں دعا بھی مقبول ہوتی ہے او رمتعدد روایتوں میں اس کا ذکر ہے۔ (ترمذی عن عبدالله بن عمر) حاجی کی دعا گھر واپسی تک او رمجاہد کی دعا جہاد سے فارغ ہونے تک بھی مستجاب دعاؤں میں ہے۔ (مشکوٰة:2260)

جیسے ان لوگوں کی دعا مقبول ہوتی ہے او راس میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہیے، ویسے ہی ان کی بد دعا اور الله کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے ، اسی طرح حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اولاد او رمال پر بد دعا نہ کرو ، کہ کہیں وہ وقت دعا کی مقبولیت کا ہو اور یہی دعا عند الله مقبول ہو جائے۔ (مسلم عن جابر)

بعض لوگ خود اپنے لیے دعا کا اہتمام نہیں کرتے اور لوگوں سے خواہش کرتے ہیں کہ میرے لیے دعا کیجیے۔ یہ صحیح نہیں ، اپنے لیے خود بھی دعا کرنی چاہیے ۔کیوں کہ انسان خود اپنے لیے جس رقت اور سوز کے ساتھ دعا کر سکتا ہے ، ظاہر ہے کہ کوئی اور نہیں کر سکتا، کیوں کہ انسان کی اپنی دعا میں اس کا غم خونِ جگر کی طرح شامل ہوتا ہے اور الله کے یہاں اسی جذبہ دروں کی قدروقیمت ہے ، لیکن اگر کسی سے دعا کی درخواست کی جائے تو اس میں بھی مضائقہ نہیں ، حضرت عمر رضی الله عنہ راوی ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے عمرہ کی اجازت چاہی ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اجازت دی اور فرمایا اے میرے چھوٹے بھائی! مجھے بھی اپنی دعا میں شریک رکھنا اور بھول نہ جانا ، حضرت عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ یہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا ایسا کلمہ ہے کہ اگر اس کے بجائے پوری دنیا بھی حاصل ہو جاتی تو اس سے بڑھ کر خوشی نہ ہوتی۔ (ترمذی عن عمر رضی الله عنہ) بعض لوگوں کو خیال ہوتا ہے کہ جو اہم چیز ہو اس کی دعا کی جائے ، معمولی چیز کیا الله سے مانگی جائے، یہ ناسمجھی کی بات ہے ، اصل میں انسان چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی تمام ضرورتوں میں الله ہی کا محتاج ہے ، اس لیے ہر چھوٹی، بڑی ضرورت خدا ہی سے مانگنی چاہیے، نہ کہ کسی اور سے ، کیوں کہ جیسے الله قادر مطلق ہے، ویسے ہی انسان محتاج مطلق، چناں چہ حضرت انس رضی الله عنہ سے راویت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر ضرورت الله ہی سے مانگنی چاہیے، یہاں تک کہ جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی الله ہی سے مانگے او رایک روایت میں ہے کہ نمک کے لیے بھی الله ہی سے طلب گار ہو۔ ( ترمذی عن انس رضی الله عنہ) او رکیوں نہ ہو کہ انسان ان میں سے کسی چیز کا خالق نہیں ، وہ محض الله کی تخلیق سے نفع اٹھاتا ہے، اس لیے قطرہ قطرہ اور ذرہ ذرہ میں خدا کا محتاج ہے۔

رمضان المبارک کا مہینہ گز ر گیا ہے، نیکیوں کا موسم بہار خدا کی رحمتوں او رعنایتوں کامہینہ، عفو ودرگزر اور دوزخ سے نجات کا مہینہ، محرومیوں کے علاج او ربگڑی بنانے کا مہینہ، وہ مہینہ جس میں خود خدا بندے کے طرف متوجہ ہوتا ہے او رکمال شفقت کے ساتھ عاجز او رگناہ گار بندوں سے دریافت کرتا ہے کہ: ہے کوئی مغفرت کا طلب گار کہ میں اسے معاف کردوں؟ کوئی ہے روزی کا خواست گار کہ اسے روزی عطا فرماؤں ؟اور کوئی ہے کسی مصیبت اور ضرورت سے دو چار کہ اس کی حات پوری کردوں؟ پھر کیا داتا کی اس آواز پر بھی فقرا اپنی ضرورت کا ہاتھ نہیں پھیلائیں گے اور زبان سوال اس کے سامنے نہیں کھولیں گے کہ جس کے خزانہ قدرت میں سب کچھ ہے ، جودے کر خوش ہوتا ہے اور نہ مانگنے والوں سے ناخوش؟؟ شاعر حقیقت شناس نے کیا خوب کہا ہے #
        مانگیے، پھر مانگیے، پھر مانگیے
        مانگ میں شرمندگی اچھی نہیں
Flag Counter