اسلامی نظام تعلیم کے بنیادی خدوخال
حافظ سید عزیز الرحمن
اسلامی نظام تعلیم ایک ہمہ جہت تعمیری وانقلابی تعلیم کا خواہاں ہے، جس کے جلو میں نہ صرف سیاسی ہنگامہ خیزی اور فکری آزادی پروان چڑھتی ہے، بلکہ جو ہمہ نوع وہمہ جہت مثبت وتعمیری تبدیلیوں کا سبب وذریعہ بنتی ہے ۔ اس کے بنیادی خدوخال پیش کرنا خود ایک طویل مقالے کا موضوع ہے۔ ذیل میں اختصار کے ساتھ اس کے چند اہم نکات پیش کیے جاتے ہیں:
لازمی وجبری تعلیم
اسلام میں تعلیم لازمی ہے۔ تعلیم کی ہمہ جہت اہمیت کے پیش نظر اختیاری تعلیم کا اسلام کے ہاں کوئی تصور نہیں۔ تعلیم ہر ایک کے لیے ہے اور لازمی ہے۔ خواندگی ایسی چیز نہیں ہے جسے عوام کی مرضی پر چھوڑا جاسکے، کیوں کہ ناخواندہ افراد تو علم رکھتے ہیں نہیں، ان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ سب علم کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہوں گے؟! یہ فریضہ تو حکومت کا ہے کہ وہ ان کے سامنے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرے او رانہیں حصول علم پر آمادہ کرے ۔ خصوصاً کسی اسلامی معاشرے میں ناخواندہ افراد قطعاً قابل قبول نہیں ہو سکتے۔ اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” علم کا حصول ہر ایک پر فرض ہے ۔“ آپ صلی الله علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہر نو مسلم کے لیے مختلف علوم کا جاننا ضروری تھا، جس کے لیے مختلف افراد اور تعلیمی ادارے سر گرم تھے اور حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے خاص طور پر خانہ بدوش بدوؤں کے لیے قرآن مجید کی جبری تعلیم کا نظام قائم کیا تھا اور اس کے لیے گشتی ٹیمیں مقرر کی تھیں ۔ نیز ایسے گشتی تعلیمی دستے مقرر تھے جو لوگوں کی تعلیمی صلاحیت کا جائزہ لیتے تھے اور ضرورت کے مطابق ایسے افراد کو اساتذہ کے سپرد کرتے تھے۔
مفت تعلیم
اسلام مفت تعلیم کا قائل ہے ۔ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں تعلیم مفت تھی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہر مسلمان عالم پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ دوسروں تک علم پہنچائے ۔ اس لیے کتمان علم پر شدید وعید بیان فرمائی ہے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” جس سے علم کے متعلق کوئی سوال ہو اور اس نے چھپایا تو الله تعالیٰ اسے روز قیامت آگ کی لگام پہنائے گا۔“ بعد کے دور میں بھی تعلیم مفت رہی ۔ حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے دو رخلافت میں نو مسلموں کی تعلیم وتربیت کے لیے مختلف مکاتب قائم کیے، جن کے معلمین کی تنخواہیں بیت المال سے ادا کی جاتی تھیں۔ اس دور میں سرکاری انتظام میں قرآن کریم کے علاوہ احادیث ، سیرت وغزوات ، فقہ ، ادب عربی، علم الانساب اور کتابت وغیرہ کی تعلیم مفت ہوتی تھی اور قرآن کریم کی تعلیم پانے والے طلباء کے لیے وظائف کا بھی انتظام تھا۔ حکومتی اہتمام کے علاوہ نجی طور پر اساتذہ بھی تنخواہ لینے سے گریز کرتے تھے اور عام طور پر معاوضے قبول نہیں کرتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے یزید بن ابی مالک اور حارث بن ابی محمد اشعری کو گشتی معلم مقرر کرکے ان کی تنخواہ مقرر کر دی۔ یزید نے تنخواہ قبول کر لی، حارث نے نہ کی ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزنے فرمایا کہ یزید نے جو کچھ کیا، اس میں کوئی خرابی نہیں ، البتہ الله تعالیٰ حارث جیسے افراد کثرت سے پیدا کرے۔
بچوں کی تعلیم
بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں ۔ ان کی تعلیم کا انتظام کرنا درحقیقت خود اپنے مستقبل کو سنوارنا ہے۔ حضرت عروہ بن زبیر کا قول ہے: ”تم علم حاصل کرو، اگر تم قوم میں سب سے چھوٹے ہو تو کل دوسرے لوگوں میں ( علم کی وجہ سے ) تم بزرگ بن جاؤ گے۔“ اس لیے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس کی بھی بڑی تلقین فرمائی ہے۔ نیز بچپن میں حافظہ قوی ہوتا ہے ، اس لیے حضرت حسن بصری کا قول ہے:” بچپن میں تعلیم حاصل کرنا ایسے ہے جیسے پتھر پر نقش او ربڑھاپے میں تعلیمی حاصل کرنا ایسے ہے جیسے نقش برآب۔“ آپ صلی الله علیہ وسلم نے والدین کو بچوں کی تعلیم کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ”کوئی والد اپنے بچے کو اس سے بہتر کوئی عطیہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کو اچھی تعلیم دے“ اور فرمایا: ” آدمی کا اپنے بیٹے کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔“
معذوروں کی تعلیم
اسلام کی نظر میں کسی قسم کی کمی یا کمزوری کسی کے فرائض کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ ہاں! کسی پر بھی اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے۔ تعلیم کے معاملے میں بھی اسلام کا یہ اختصاص وامتیاز ہے کہ اس نے جسمانی کمزوریوں کو حسن عمل وجہد مسلسل کی دولت سے چھپا دیا اور معذوروں سے وہ کارہائے نمایاں لیے کہ صحت مند افراد رشک کر اٹھے۔ اس کی سب سے اہم مثال حضرت عبدالله ابن مکتوم رضی الله عنہ کی ہے، جنہیں یہ فخر وشرف حاصل ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اپنی غیر موجودگی میں مدینہ منورہ جیسی اسلامی ریاست کے لیے اپنا قائم مقام مقرر کیا اور انہیں یہ شرف دس بار حاصل ہوا۔ جب کہ دیگر جلیل القدر صحابہ کرام میں سے کسی کو یہ اعزاز نہ مل سکا۔ ایک نابینا صحابی اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی نیابت کا فریضہ، تعلیم وتربیت میں اعلیٰ مدارج طے کیے بغیر یہ مرتبہ کیسے حاصل ہو سکتا ہے ؟ اسلام میں معذوروں کی قدر ومنزلت کا یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا، جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہر دور میں اور ہر فن میں بڑے بڑے جلیل القدر علما نابینا وغیرہ گزرے ہیں۔ آج بھی معذوروں اور کئی وجہ سے عام جسمانی صلاحیتوں سے محروم افراد کی تعلیم کا خاص اہتمام ناگزیر ہے۔
خواتین کی تعلیم
خواتین کے لیے ایسا انتظام ضروری ہے کہ جس کے تحت وہ اپنی بنیادی ضروریات کی تعلیم، خواہ وہ دینی ہوں یا دنیاوی ، بہ سہولت حاصل کر سکیں او ران کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اور خواتین کی تعلیم کا سلسلہ خالص اسلامی ماحول میں، اسلامی تعلیمات کی ادنیٰ مخالفت او ران سے معمولی روگردانی کے بغیر بھی جاری رہا ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں مقاصد کے پیش نظر خواتین کی تعلیم کے لیے علیحدہ دن اور علیحدہ مقام متعین فرمایا۔ حضرت عمر رضی الله عنہ کے دور میں اس سلسلے کو مزید وسعت ہوئی اور خواتین کے باقاعدہ الگ مدرسے قائم ہوئے۔ ان کے دور میں خواتین کی بھی جبری تعلیم رائج ہو گئی تھی۔
آج بھی اس سلسلے میں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔ مختلف حلقوں کی جانب سے ہمارے ہاں خواتین کی علیحدہ یونیورسٹی کا مسئلہ اٹھتا رہتا ہے۔ یہ مطالبہ اپنی جگہ درست ہونے کے باوجود بھی نامکمل ہے۔ اس مطالبے کا اصل جواز اسلام میں مخلوط تعلیم کی ممانعت ہے۔ یہ امراس کا متقاضی ہے کہ صرف جامعات کی سطح پر نہیں، بلکہ پرائمری کے بعد ہر درجے او رمحلے میں طلبا کے ادارے الگ او رطالبات کے ادارے الگ ہونے چاہییں، جن میں صرف طلبہ وطالبات ہی الگ الگ نہ ہو ں، اساتذہ بھی علی الترتیب مرد اور خواتین ہوں او ریہ مطالبہ کوئی نئی چیز نہیں ، پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہید ملت لیاقت علی خان نے ایک موقع پر اس مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا:
” ان واہی باتوں کو مسلمان سننا بھی گوارا نہیں کرتے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی مشترکہ تعلیم ہو، آج تک مشترکہ تعلیم کا کوئی ایسا فائدہ کسی نے بیان نہیں کیا ہے جو دل نشین ہو … ممکن ہے کہ مسلمانوں میں بعض افراد ایسے ہوں جو مخلوط تعلیم کے موید ہوں، مگر مسلمانوں کی ساری قوم اس کے خلاف ہے۔“
تعلیم بالغاں
تعلیم بالغاں کی اہمیت مسلم ہے ، بڑی عمر کے بہت سے افراد محض اس سبب سے حصول علوم سے رہ جاتے ہیں کہ بچپن میں کسی مجبوری ، عدم توجہی یا عدم وسائل کے سبب سے وہ تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ اسلام تعلیم کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام میں ایسے صحابہ بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں جنہوں نے نہ صرف بڑی عمر میں تحصیل علم کیا، بلکہ مرتبہ کمال کو پہنچے۔ یہ سلسلہ بعد کے زمانے میں بھی جاری رہا، بلکہ قرآن کریم کو بڑی عمر میں حفظ کرنے کا سلسلہ تو آج بھی جاری ہے اور یہ قرآن کریم کی برکت ہے۔ حضرت عمر رضی الله عنہ کا قول ہے:” تم لوگ سردار بنائے جانے سے قبل علم حاصل کرو۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ نے تو بڑی عمر میں علم حاصل کیا ہے۔“ اس لیے ہمارے ہاں بھی تعلیم بالغاں کے حلقے قائم ہونے چاہییں جہاں بڑی عمر کے ناخواندہ افراد دینی معلومات اور دنیاوی ضروریات کا علم اپنی ضرورت کے مطابق بہ سہولت حاصل کر سکیں۔
غیر مسلموں کی تعلیم
ایک اسلامی ریاست میں اسلامی نظام تعلیم کی موجودگی میں کسی غیر مسلم کو یہ اندیشہ لامحالہ ہو سکتا ہے کہ اس کی تعلیمی ضروریات کا کون کفیل ہو گا۔ لیکن یہ اندیشہ بے جا ہے۔ ایک تعلیمی نظام کیا، اسلامی ریاست کے تمام امور ہی اسلامی نظام کے تحت چلتے ہیں، مگر خود یہ نظام تمام غیر مسلموں کو ان کے مذہبی وتعلیمی معاملات میں مکمل آزادی دیتا ہے اور اس کی ضمانت خود آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے اپنے پہلے معاہدے میثاق مدینہ میں غیر مسلموں کو دی ہے ۔ اس لیے اسلامی نظام میں ان کے حقوق او رتعلیمی ضرورتوں کا خیال رکھا جانا ضروری ہے۔
تخصصات
عام تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم او رخاص موضوعات پر تخصصات (Specialization) کی اہمیت بھی مسلم ہے۔ خود قرآن حکیم نے اس کی اہمیت کی جانب توجہ دلائی ہے ۔ مثلاً فرمایا:﴿ فلولا نفر من کل فرقة منھم طائفة لیتفقھوا فی الدین﴾․
”سوکیوں نہ نکلے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ، تاکہ دین کی سمجھ پیدا کریں۔“
اس آیت میں تخصص فی الفقہ کی اہمیت بیان ہوئی ہے ۔ ایک اور مقام پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی کے لیے متخصصین کی تیاری کی تاکید ہے ۔ فرمایا:﴿ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر ویأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر﴾․
”تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے، نیکی کی دعوت دے او ربرائی سے روکے۔“
اور عہد نبوی علیٰ صاحبہ الصلوٰة میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی زیرتربیت بہت سے صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین نے مختلف مضامین میں تخصص وامتیاز حاصل کر لیا تھا، جن میں سے بعض خوش نصیب ایسے تھے جنہیں اس اختصاص کی سند خود زبان نبوت سے ملی۔ مثال کے طور پر حضرت ابی بن کعب کو قراء ت وتجوید میں اختصاص حاصل تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے بار ے میں فرمایا کہ سب سے بڑے قاری اُبی بن کعب ہیں۔ حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کو قضاة میں امتیاز حاصل تھا۔ حضرت عمر رضی الله عنہ کا قول ہے کہ ہمارے سب سے بڑے قاضی حضرت علی اور سب سے بڑے قاری ابی ہیں۔ اسی طرح علوم قرآنی میں حضرت عبدالله بن عباس خاص امتیاز کے حامل تھے۔ عکرمہ فرماتے ہیں کہ ابن عباس صحابہ میں سب سے زیادہ علم قرآن رکھتے تھے۔ علم فقہ میں حضرت عبدالله بن مسعود کو شہرت ملی۔ خود آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ فرما کر انہیں سند عطا کی کہ تم تعلیم یافتہ لڑکے ہو۔ علم الفرائض میں حضرت زین بن ثابت رضی الله عنہ ممتاز ہوئے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا قول ہے کہ ” میر ی امت میں علم فرائض سب سے زیادہ زید بن ثابت جانتے ہیں۔“ اور حلال وحرام کے علم میں معاذ بن جبل درجہ امتیاز کے حامل تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں حلال وحرام کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے شخص معاذ بن جبل ہیں۔
دور حاضر میں بھی ہمیں ان خصوصیات کو زندہ رکھتے ہوئے آج کی ضرورت کے مطابق مختلف علوم وفنون کے ماہر تیار کرنا ہوں گے۔