رام ویربن عجب سنگھ
مولانا محمد کلیم صدیقی
سوال… آپ اپنا تعارف کرائیں؟
جواب… میرا پورا نام رام ویر بن عجب سنگھ تھا، ہم سات بھائی بہن تھے، دو کا انتقال ہو گیا، اب تین بھائی اور دو بہنیں بچی ہیں، میں کاکڑا ضلع مظفر نگر کا رہنے والا ہوں او رراشڑیہ انٹر کالج شاہ پور سے میں نے ہائی اسکول کیا ہے ، میرے والدایک شریف او ربھلے کسان ہیں، مگر ہمارا خاندان بہت دھارمک (مذہبی) ہندوخاندان ہے ، ہندوجاٹ برادری سے میرا تعلق ہے۔
سوال… اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیں؟
جواب… میرے اسلام قبول کرنے کا بھی عجیب اتفاق ہے، میرے ذہن میں تو اسلام قبول کرنے کی کوئی بات نہیں تھی اور پڑھائی چھوڑنے اور بیوی کو طلاق دینے کے بعد زندگی بالکل خراب ہو گئی تھی ، ہر وقت جنگل میں رہنے اور لوگوں کوپریشان کرنے او رنشہ کرنے کا تو میں عادی ہو چکا تھا، میرا تعلق علاقے کے بدمعاشوں سے ہو گیا تھا اور میں جانور سپلائی کرنے والوں کو راستے میں روک کر پیسے چھین کر زندگی بسرکرتا تھا ، گھر او رمحلہ والے مجھ سے بہت پریشان تھے، گھر والوں نے عاجز آکر مجھے گھر سے نکل جانے کو کہا، مگر میں نے گھر سے نکلنے سے منع کر دیا اور ٹیوب ویل لگا کر کھیتی کرنے کا فیصلہ کیا، ہمارے کھیت کے برابر میں ایک انصاری ہیں، ان کی پرانی ٹیوب ویل بند پڑی تھی ، میں نے اس کو صحیح کرنے میں رات دن محنت کی ، بالآخر وہ صحیح ہو گئی ، میں نے موٹر او رپنکھا ادھار لیے اور چوری سے لائٹ کے کنکشن کر لیے، لیکن ٹیوب ویل نے پانی نہیں اٹھایا، میں نے اسے چلانے کی بہت کوشش کی ، ٹریکٹر سے بھی پمپ چلوایا، لیکن میں کام یاب نہ ہو سکا، بالآخر میں پنڈت کے پاس پہنچا ، اس نے ٹیوب ویل پر چڑھاوا چڑھانے کو کہا، میرے پاس کچھ نہیں تھا، آخر میرے دل میں یہ آیا کہ دیوتا بھنگ سے خوش ہوتے ہیں ، میں نے بھنگ مسل کر اس پر چڑھادی، پھر بھی پانی نہیں آیا، ایک مرتبہ رات میں برابر کے کھیت والے انصاری ( یسٰین) بھی میرے پاس ہی تھے، ہم دونوں ٹیوب ویل کے پاس مٹی پر ہی لیٹے ہوئے تھے تو یسٰین کہنے لگے کہ اگر آج اس نے پانی اٹھایا تو میں دو رکعت نماز پڑھوں گا۔ میں نے کہا تم دو کی بات کرتے ہو؟ میں چار پڑھوں گا ۔ اکثر رات کو ساڑھے دس بجے بجلی آجاتی تھی، لیکن اس رات کو بارہ بج کر پینتالیس منٹ پر لائٹ آئی ، میں نے یسٰین سے کنکشن کرنے کو کہا، وہ کہنے لگے تم ہی کر لو مجھے تو بجلی سے ڈر لگتا ہے ، میرے کنکشن کرتے ہی ٹیوب ویل نے تقریباً ڈھائی میٹر دور پانی پھینکنا شروع کر دیا اور ٹیوب ویل کے سامنے والی سڑک پر پانی گرنے لگا، احمد بھائی! ( تعجب سے کہتے ہوئے ) سوکھی مٹی ہونے کے باوجود پانی کی دھار کی رفتار سے سڑک میں تقریباً ڈیڑھ میٹر گڑھا ہو گیا۔
صبح جب محلے والوں نے دیکھا کہ یہ کام یاب ہو گیا ہے تو وہ سب جمع ہو کر آئے اور ٹیوب ویل بند کرادی۔ کہنے لگے کہ اس لائٹ سے ہم تمہاری ٹیوب ویل نہیں چلنے دیں گے ، اپنی لائٹ منظور کراؤ ۔ٹیوب ویل بند ہونے کے بعد یسٰین نماز کے لیے کہنے لگے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم نے چار رکعت پڑنے کا نیم ( نذر) کیا تھا اب تمہیں پڑھنی چاہیے، کبھی ٹیوب ویل پھر خراب ہو جائے ، میں نے کہا چلو پڑھتے ہیں، ہم کبیر پور کھیت کے قریب ایک گاؤں کی مسجد میں نماز پڑھنے جارہے تھے کہ یاسین نے کہا کہ اپنی ٹیوب ویل میں وضو کریں گے ، ہم وہاں آئے، یاسین نے وضو کیا اور مجھے اچھی طرح غسل کرایا، اس کے بعد ہم نے نماز ادا کی، نماز کے بعد یاسین کہنے لگے کہ تم مسلمان ہو جاؤ ، ہم تمہاری بجلی بھی منظور کرادیں گے ، میں نے کہا مجھ سے مسلمان بھی پریشان ہیں ،وہ مجھے کہاں رکھ لیں گے؟ یاسین نے کہا کہ جب تم مسلمان ہو جاؤ گے تو تم ٹھیک ہو جاؤ گے او راگر تم ٹھیک بھی نہ ہو گے تب بھی مسلمان تمہیں رکھ لیں گے او رمسلمان نہ بھی رکھیں تو مرنے کے بعد خدا تمہیں جنت میں رکھے گا، میں نے یاسین سے کہا کہ تم مجھے ہر سولی مدرسہ میں لے چلو میں وہاں یہ معلوم کروں گا کہ مسلمان ہو جاؤں یا نہیں ؟ ہم دونوں وہاں پہنچے ،مولانا انیس صاحب سے ملاقات ہوئی، ان سے میں نے مسلمان ہونے کے بارے میں معلوم کیا ،انہوں نے کہا کہ مسلمان ایسے نہیں بنتے ،بلکہ جماعت میں جاکر نماز وغیرہ سیکھنی ہو گی، تم چلہ لگاؤ اور دلی مرکز چلے جاؤ، میں نے ان سے کہاکہ مجھے تو کچھ معلوم نہیں ،تم ہی بھیج دو ، انہوں نے مظفر نگر مرکز میں فون پر بات کی اور مظفر نگر جانے کو کہا، اس وقت میں تیار نہیں تھا، اس لیے میں نے اگلے دن جانے کا وعدہ کر لیا، جانے سے پہلے میں نے اپنی اماں کو بتایا کہ گھر والے مجھ سے بہت پریشان ہیں، اس لیے میں تو جارہاہوں او رمسلمان ہو جاؤں گا، اس نے کہا اچھا چلے جانا، لیکن کھانا تو کھالے۔ میں کھانا کھا کر اور د وگلاس دودھ پی کر راستہ میں ایک شخص سے سات سو روپے لے کر مظفرنگر پہنچا، جہاں مرکز میں مولانا موسی صاحب سے ملاقات ہوئی ، انہوں ے مجھے بتایا کہ یہاں تو کوئی جماعت نہیں جارہی ہے، تم پھلت چلے جاؤ، پھلت سے بھی جماعت جاتی ہے، میں پھلت چلا گیا، وہاں ابا الیاس سے ملاقات ہوئی ، انہوں نے شام کو حضرت سے ملوایا، حضرت نے کلمہ پڑھوایا، پھر میری زندگی کے حالات معلوم کیے، جب انہو ں نے میرے حالات سنے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ایمان واسلام اصل میں ایمان وسلامتی میں خود رہنے اور اپنے سے دوسروں کو امن وسلامتی میں رکھنے کا نام ہے ، اس لیے اب تم مسلمان ہو گئے ہو، تم اگر یہ چاہتے ہو کہ خود بھی امن وسلامتی میں رہو اور اس دنیا کے بعد ہمیشہ کی زندگی میں بھی سکون وچین او رامن وسلامتی میں رہو تو ضروری ہے کہ تم اس طرح زندگی گزارو کہ تم سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے او رہر آدمی کے لیے امن اورسلامتی کا ذریعہبنو، اس کے لیے سب سے پہلے تمہیں نشہ سے سچی توبہ کرنی ہو گی، اس لیے کہ سب سے زیادہ آدمی نشہ کی حالت میں لوگوں کو ستاتا ہے، حضرت نے مجھے سے کہا کہ تم چوہدری آدمی ہو، چوہدری لوگ بڑے بہادر ہوتے ہیں ، ایک جوان اگر کسی بات کا پکا ارادہ کر لے تو پہاڑ سے دودھ کی نہر کھود نکال سکتا ہے ، ایک جوان مرد اگر پکا ارادہ کرے تو نشہ چھوڑنا کوئی مشکل کام نہیں ، مولانا صاحب نے میرا ہاتھ پکڑا او رکہا پکا ارادہ کرو، مجھ سے وعدہ کرو کہ اب کسی طرح کا نشہ نہ کروں گا ، اب تم ایمان والے ہو اور مسلمان ہو گئے ہو ، اب تو نشہ بہت بڑا جرم ہے ، میں نے مولانا صاحب سے وعدہ کیا، احمد بھائی ! نشہ کی مجھے اتنی عادت ہو گئی تھی کہ میں سوچتا تھا، یہ عادت میرے جیون کے ساتھ ہی جائے گی ، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مجھ میں نشہ چھوڑنے کے ارادہ کی بھی ہمت ہو جائے گی مگر حضرت کے سامنے جب میں نے وعدہ کیا تو مجھے یہ نشہ چھوڑنا بالکل آسان کام لگا، شاید یہ میرے ایمان کی برکت تھی، میرے الله نے مجھے ہمت دی اور اس تجربے نے نہ صرف مجھے بہت سی برائیوں سے بچایا ،بلکہ میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ الله تعالیٰ نے انسان کو بڑی ہمت دی ہے، پکا ارادہ کرکے انسان ہر بڑے سے بڑا کام کرسکتا ہے ،اس یقین کے ساتھ میں نے نہ جانے کتنے لوگوں سے نشہ ا ور بیڑی، سگریٹ اور گٹکا چھڑا دیا، پانچ چھ لوگوں سے جوا اور سٹہ چھوڑوایا، دو لوگوں سے عورتوں کے ناجائز تعلقات چھڑوائے، بس میرے الله کا کرم ہے، مولانا صاحب نے میرٹھ بھیج کر میرا سر ٹیفکیٹ بنوایا، اتفاق سے اگلے دن پھلت سے جماعت جانی تھی، میں ان کے ساتھ چلا گیا ، وہاں نماز وغیرہ سیکھی پھر چلہ پورا کرنے کے بعد پھلت واپس آگیا، حضرت سے ملاقات ہوئی، حضرت نے پوچھا یہ زندگی اچھی ہے یا اسلام سے پہلے کی زندگی ؟ میں نے بتایا کہ حضرت مجھے تو بہت سکون ملا ہے ، ان چالیس دنوں میں نشہ تو دور کی بات ، کوئی نشہ کرنے والا بھی قریب سے نہیں گزرا اور میری صحت بھی اچھی ہو گئی ہے ، مجھے تو یہ زندگی بہت اچھی لگی، حضرت نے پوچھا اب کہاں رہنا چاہو گے ؟ میں نے کہا آپ جہاں کہیں گے ، انہوں نے میری تعلیم کے بارے میں معلوم کیا، میں نے بتا دیا، حضرت نے پوچھا پڑھا سکتے ہو؟ میں نے کہا چھوٹے بچوں کو پڑھا سکتاہوں، حضرت نے مجھے سونی پت بھیج دیا۔
ایک سال بعد سکوئی میں میری شادی ہو گئی، میری شادی الحمدلله بہت دین دار اور پڑھی لکھی نیک لڑکی سے ہوئی ،وہ لوگ سکوئی ٹانڈہ کے رہنے والے ہیں، سکوئی ٹانڈہ میں ہمارے ہندورشتہ دار بہت سے رہتے ہیں، اس خیال سے کہ کہیں وہ کوئی فتنہ فساد نہ کریں، حضرت نے میری شادی کا پروگرام کھتو لے میں میرے ساڑھو کے گھر سے بنایا، وہ لوگ لڑکی کو لے کر کھتولی آگئے، حضرت دو تین لوگوں کے ساتھ مجھے لے کر کھتولی گئے او رالحمدلله سادگی سے سنت کے مطابق نکاح اور رخصتی ہوئی، میرے والد بھی میرے ساتھ میرے نکاح میں شریک تھے، وہ بہت خوش تھے حضرت مولانا کا باربار شکریہ کرتے تھے او رکہتے تھے کہ آپ نے میرے لڑکے کو سدھار دیا، اس سے پورا علاقہ پریشان تھا اور ہم سب لوگ عاجز تھے ۔پھلت رخصتی ہوئی تو میری والدہ بھی آگئیں ،میری اہلیہ سے مل مل کر خوشی سے روئیں اور بار بار ماتھا چومتی تھیں کہ کیسی سوہنی بہو میرے مالک نے مجھے دی ہے ، میری اہلیہ نے بھی دو روز کی شادی کے باوجود میری والدہ کی خوب خدمت کی، ابتداءً اچھے گھرانے میں شادی کی وجہ سے مجھے مضبوطی ملی او رمجھے اپنے دوستوں او ررشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دینے میں بڑی قوت ملی ، میرے والد صاحب کو جب معلوم ہوا کہ مولانا صاحب نے سکوئی میں ہمارے رشتہ داروں کے فتنہ کرنے کے ڈر سے کھتولی لڑکی بلاکر شادی کی ہے ، تو انہوں نے مولانا صاحب سے کہا: مولانا صاحب! آپ مجھے پہلے خبر کرتے، ہم کسی کے گھیر میں نہیں رہتے، ان بے چاروں کو بے گھر کیا ، خود بارات لے کر سکوتی جاتا، میرے بیٹے نے کوئی جرم تو کیا نہیں ،مسلمان ہو گیا تو اچھا ہی کیا ہے ، کیا تھا کیا ہو گیا؟ میں سات جنم تک آپ کا احسان نہیں اتار سکتا،میرے گاؤں والوں نے اس کے مسلمان ہونے کے بعد پنچایت کی کہ تیرا بیٹا ادھرم ہو گیا ہے، اس پر سختی کرو۔ تو میں نے صاف کہہ دیا وہ ادھرم نہیں بلکہ دھارمک ( مذہبی) ہو گیا ہے، دھرم اپنا اپنا معاملہ ہے، میں آپ میں سے کسی کا دیا نہیں کھاتا، اگر زیادہ کرو گے تو کھیت اورگھر بیچ کر میں بھی پرسوں ہی جارہا ہوں اور بیٹے کے ساتھ میں بھی مسلمان ہو جاؤں گا، جب ایسے اوت اور بگڑے ہوئے کو مسلمان نے ایسا سدھار دیا تو مجھ میں بھی سدھار آئے گا۔ کچھ لوگ ذرا غصہ میں گالیاں دینے لگے تو میں پنچایت سے چلا آیا اورمیں نے کہا ابھی ایس پی کے یہاں جا کر رپٹ لکھواؤں گا، کچھ لوگوں نے مجھے روکا او رپھر میٹھی باتیں کرنے لگے ، ہم تیری بھلائی میں پنچایت کر رہے تھے ۔ آدمی میں ہمت ہونی چاہیے، میں جب اپنے گاؤں والوں سے نہیں ڈرا تو پھر سکوئی والوں کا کیا ڈر تھا؟ حضرت نے فرمایا، ڈرتے تو ہم بھی نہیں ، مگر شادی میں کوئی بات ہوتی تو بدمزگی آجاتی۔ اور اب میں اپنی بیوی کے ساتھ سونی پت میں رہ رہا ہوں ،میرے پڑوسی بہت اچھے ہیں ، سب لوگ پانچوں وقت کے نمازی ہیں او رمیری عزت کرتے ہیں ، مجھے ان سے بہت پیار ملا، وہ سب میرا بہت خیال رکھتے ہیں ، اصل میں جب میں سونی پت آیا تو مدرسہ والوں نے میرے لیے ایک کرایہ کے مکان کا عید گاہ کالونی میں انتظام کر دیا، سب کو معلوم تھا کہ میں نے دو مہینے پہلے اسلام قبول کیا ہے ، مجھے نماز کی پابندی او رتسبیح وغیرہ پڑھتے دیکھ کر لوگوں کو شرم آتی میں نے اپنی اہلیہ سے عورتوں میں تعلیم شروع کرائی، میں گشت وغیرہ بھی پابندی سے کراتا تھا، رفتہ رفتہ پڑوسی نماز پڑھنے لگے، بہت سے بچے میں نے مدرسے میں داخل کرائے، الحمدلله کافی لوگ نماز کی پابندی کرنے لگے ، وہ لوگ میرا بہت احترام کرتے ہیں ، میرے محلہ او رمدرسہ والے جس طرح مجھے پیار کرتے ہیں میں نے اپنے گھر والوں سے بھی ایسا پیار نہیں پایا ، یہ محض میرے الله کا کرم اورمیرے ایمان کا صدقہ ہے۔
سوال… اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کو کسی قسم کی پریشانی سے دو رچار ہونا پڑا؟
جواب… احمد بھائی، میرے حضرت نے مجھے کلمہ پڑھوایا تھا تو اس وقت مجھے سمجھایا تھا کہ اصل میں ایمان واسلام خود امن وسلامتی سے رہنے اور دوسروں کو اپنے شر سے بچا کر امن وسلامتی سے رکھنے کا نام ہے ، اسلام امن وسلامتی ہے ، بلکہ احمد بھائی! میں یہ بتانا بھول گیا کہ حضرت نے یہ فرمایا کہ امن وسلامتی ، ایمان واسلام سے نکلی ہے، ایمان واسلام کے بغیر نہ دنیا کے کسی آدمی کو خود امن وچین نصیب ہو سکتا ہے، نہ دنیا کو بغیر اسلام وایمان کے کسی سے امن وسلامتی نصیب ہو سکتی ہے ، اس پر میں نے حضرت سے کہا بھی تھا کہ ساری دنیا کے اخباروں اور ٹی وی پر جو خبریں آتی ہیں ان سے یہ لگتا ہے کہ مسلمانوں نے ساری دنیا کے چین کو برباد کر رکھا ہے اور وہ اسلام وجہاد سے پوری دنیا کو آتنک واد ( دہشت گردی) کی آگ میں جھونک رہے ہیں ، مولانا صاحب نے مجھے بتایاکہ یہ غلط پروپیگنڈہ ہے ، اسلام مخالف لوگ اسلام او رمسلمانوں کی غلط تصویر پیش کرر ہے ہیں، اس کے باوجود اسلام دنیا میں پھیل رہا ہے ، مولانا صاحب نے چاروں طرف بیٹھے دسیوں لوگوں کا مجھ سے تعارف کرایا کہ یہ سب ان ہی دنوں میں اندھیروں سے نکل کر اسلام کے سایہ رحمت میں آئے ہیں، انہوں نے قرآن پاک کی آیت پڑھ کر بتایا کہ اس آیت میں الله تعالیٰ نے کسی ایک آدمی کی ناحق جان لینے کو پوری دنیا کا قتل بتایا ہے اور قرآن نے صاف اعلان کیا ہے:
﴿ان الله لا یحب الفساد﴾ ترجمہ: بے شک الله بگاڑ کو پسند نہیں کرتا۔
قرآن کو ماننے والے آتنک وادی نہیں ہو سکتے، اسلام رحمت اور امن کا مذہب ہے ، مولانا صاحب نے کہا کہ ہم لوگ تو پشتوں سے مسلمان ہیں، اس لیے پرانے مسلمان صرف نام کے او ررسمی مسلمان ہیں ، جب کسی جسم میں خون خراب ہو جائے تو زندگی کو معمول پر لانے او رصحت کو ٹھیک کرنے کے لیے نئے خون کی ضرورت ہوتی ہے ، اس دنیا کی امن وسلامتی کے لیے نئے خون کی، یعنی سوچ سمجھ کر قرآن مجید کے اسلام قبول کرنے والے نو مسلموں کی ضرورت ہے، اس لیے آپ لوگوں پر زیادہ ذمہ داری ہے اور الله کا شکر ہے نئے لوگ یہ کام کر رہے ہیں ، انہوں نے بتایا کہ عراق اور سعودی عرب میں مسلمانوں کو قتل کرنے اور ان سے لڑنے والے امریکی فوجی مسلمان ہو رہے ہیں او ران فوجیوں کا اسلام کیسا ہوتا ہے اس کے کچھ قصے سنائے۔
میں یہ بتا رہا تھا کہ الله کا شکر ہے کہ میں نے اسلام میں امن وسلامتی پائی ، میں اسلام سے پہلے گھر کے سایہ سے محروم تھا، لوگوں کو ستاتا ، جنگلوں میں رہنا لڑنا، مارنا دھاڑنا، میرا کام تھا او رمسلمان ہونے کے بعد دنیا کے جس گھر میں جاتا ہوں ، مجھے پیار ملتا ہے ، لوگ میرا اکرام کرتے ہیں ، شاید میں ایسا مسلمان ہوں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے کوئی پریشانی نہیں جھیلی، میرے ہندوخاندان کی طرف سے میری مخالفت کی بجائے میری عزت ہوئی، اب وہ میری بات کو عزت سے سنتے ہیں، مجھ سے مشکل معاملات میں مشورہ لیتے ہیں ، میرے الله نے مجھ بگڑے کو کیسے سنوار دیا میں جان بھی دے دوں تو اس کا شکر ادا نہیں کر سکتا، الله کا شکر ہے، مجھے کسی قسم کی پریشانی سے دو چار ہونا نہیں پڑا، کیوں کہ میری تربیت اچھے عالموں کے سپرد رہی ہے ، اسلام لانے کے بعد میں نے جو اطمینان وسکون حاصل کیا ہے اس کے بارے میں تو میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، الله تعالیٰ نے میرے لیے نعمتوں کے دروازے کھول رکھے ہیں، میں نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میری اتنی اچھی زندگی ہو جائے گی ، میں دعا کرتا ہوں کہ الله ہر مسلمان کو میری جیسی زندگی عطا فرمائے۔
سوال… آپ کی اپنے والدین سے ملاقات ہے ؟ آپ نے کبھی ان کو دعوت نہیں دی؟
جواب… الحمدلله میں او رمیری اہلیہ دونوں گھر جاتے ہیں ، میری والدہ پر ان کے گھرو الوں کا دباؤ ہے، ورنہ وہ اندر سے مسلمان ہو گئی ہیں، میں نے ایک بار ان کو کلمہ بھی پڑھوا دیا ہے، میرے ایک بھائی حضرت کے پاس آتے ہیں ، وہ حضرت سے بہت محبت کرتے ہیں ، مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید حضرت نے ان کو کلمہ پڑھوادیا ہے، اب وہ مندر بالکل نہیں جاتے ان سے چھوٹا بھائی الحمدلله سونی پت آیا اور ایک بھتیجا دونوں نے اسلام قبول کر لیا، ایک چلہ میں گیا ہوا ہے، دوسرا کچھ روز کے بعد ان شاء الله جماعت میں جائے گا ، مجھے امید ہے کہ میرے بہت سے دوست بھی مسلمان ہو جائیں گے، وہ خود میرا حال دیکھ کر حضرت سے ملنے کے بڑے ( اچھک) مشتاق ہیں ، آپ بھی دعا کریں، مجھے جب بھی اپنے اسلام کا خیال آتا ہے ، مجھے اپنے سارے رشتہ دار اور دوست یاد آتے ہیں، میں بہت دل سے ان کی ہدایت کے لیے دعا کرتا ہوں۔
سوال… آپ ارمغان کے ذریعہ مسلمانوں کو کچھ پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب… ہاں میں یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ اسلام کے اندر بہت سکون ہے او ربہت بڑی نعمت ہے اور جو نماز کی پابندی کر ے گا اس کو یہ سکون حاصل اور جو فارملٹی پوری کرے گا اس کے لیے کچھ نہیں ہے ، میں یہی پیغام دینا چاہوں گا کہ ہم سب مسلمان نماز کی پابند ی اور قدر کریں اور اسلام کی طرف لوگوں کو بلائیں معلوم نہیں الله تعالیٰ کس کو ذریعہ بناکر کام یابی وکام رانی کا راستہ کھول دیں ، سب سے ضروری بات یہ ہے کہ دنیا میں امن، چین اور سلامتی کے لیے ، دنیا کے لوگوں کو اسلام کے سایہ میں آنا ضروری ہے ، یہ کیسا اندھیر ہے کہ لوگ امن، شانتی اور چین، سلامتی کے مذہب کو دہشت گردی سمجھنے لگے ہیں، اس میں جہاں شیطان اور شیطانی چیلوں کا لوگوں کو اسلام اور جنت سے دور رکھنے کی سازش کا دخل ہے ، وہیں مسلمانوں کے حالات بھی ان کی مدد کرتے ہیں ، آپ علاقے کی جیلوں کو جاکر دیکھیں تو زیادہ تر قیدی مسلمان ہیں، حالاں کہ جن سنکھیا ہندوؤں کی زیادہ ہے ، جب میں ایک دوبار مظفر نگر جیل میں گیا تو وہاں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ قیدیوں میں 76 فی صد مسلمان تھے، جب کہ ہمارے ضلع میں مسلمان شاید30 یا 35 فی صد ہوں گے ، مسلمانوں کے اس اندھیرے کردار کا پردہ بس سازشی لوگوں کے سامنے اسلام سے دور رکھنے کے لیے لگا دیتے ہیں، اس سے دنیا امن سے محروم ہوتی جارہی ہے ، میری درخواست ہے کہ ہر ایمان والے کواپنا مقام سمجھنا چاہیے کہ وہ ایمان والا اور مسلمان ہے، اس لیے وہ جہاں رہے اس کو یہ خیال رہنا چاہیے کہ وہ رحمة للعالمین نبی کا امتی ہے ، اس کو اپنے آپ کو امن وسلامتی کا پیام بر سمجھنا چاہے ، کم از کم وہ جہاں رہے لوگوں کو اپنے شر سے بچائے، دوسروں کے لیے امن وسلامتی کی کوشش کرے، جب وہ دوسروں کی فکر کرے گا تو وہ خود ہر وقت ہر ایک کی ایمان پر موت کی فکر کرے گا، ہم اگر اپنے اسلام کا مطلب سمجھ لیں اور لوگوں کو السلام علیکم کا مطلب سمجھا دیں کہ اسلام نے سلام کو پھیلانے کا حکم دیا ہے تو بس اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی تصویر لوگوں کے سامنے آجائے، اس طرف بہت سوچنے کی ضرورت ہے ، اسلام کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ تم پر سلامتی ہو، چاروں طرف تم پر سلامتی ہو ۔اس کو پھیلانے کا ہمارے نبی نے حکم دیا ہے ، پھر اس دین کو ماننے والا کیسے ظالم ہو سکتا ہے ؟ کیسے آتنک وادی ہو سکتا ہے؟