Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1432ھ

ہ رسالہ

13 - 17
ایک مشہور قصے پرناقدانہ کلام
تحقیق: مولانا سرفراز خان ،متخصص فی علوم الحدیث،جامعہ فاروقیہ، کراچی

بدیہی بات ہے کہ ہرعلم وفن کااپنا ایک دائرہ اثر ہوتاہے ،جب اس کی گرم بازاری ہوتی ہے ،درس وتدریس ،تحقیق وتالیف کے سلسلے ہوتے ہیں، اس کے پڑھنے پڑھانے والوں کاماحول قائم ہوتاہے ،تولازمی طورپر اس کے اثرات بھی محسوس کیے جاتے ہیں،احادیث کی حفاظت ،نقل وحمل ،اس کے اصول وآداب،ناقلین کی پہچان وتمیزاوردیگراحوال وامورسے متعلق امت مسلمہ کے ایک بڑے علمی طبقہ نے جنمحیرالعقول فنون کی داغ بیل ڈالی تھی،علوم حدیث،اسماء الرجال اورجرح وتعدیل کے مختلف عنوانات سے بیش بہاذخیرے تیارکیے تھے ،چلتی روایت کے مطابق دوسرے بیسیوں علمی عنوانات کی طرح وہ بھی سردمہری کے شکار ہوگئے ،جن علوم وفنون کی وضع وتدوین پرامت مسلمہ کوبجاطور پرفخر کاحق حاصل تھا،اقوام عالم پرجن کارعب ودبدبہ تھا،جن بنیادی خطوط کی وجہ سے تمام اسلامی علوم وفنون اور تاریخ وثقافت محفوظ ہوگئیں،تحقیق وتنقید کے مخصوص اسلوب واندازکورواج ملا،اسی سے بے اعتنائی برتی جانے لگی،اسی کی ضرورت واہمیت کااحساس جاتارہا ! حالاں کہ زندہ قومیں کبھی ایسی چیز سے غفلت نہیں کرسکتیں جن سے ان کے امتیاز وتفاخر کوتعلق ہو،جن سے اُن کی شناخت قائم ہو۔

مذکورہ بالاگراں قدر علوم وفنون سے بے اعتنائی اوربے توجہی کی بناپرروایت بیانی میں بیسیوں کمزوریاں درآئی ہیں؛ حالاں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روایت بیانی میں غفلت اور کمزورطرز اختیارکرنے سے نہایت سختی کے ساتھ روکاتھا، کیوں کہ بنی اسرائیل کے آسمانی مذاہب کواسی افترا،کذب اورکمزور طریقہ کار نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایاتھا۔

اس زمانہ میں بھی بہت ساری ایسی روایات سننے میں آتی ہیں؛بلکہ کتابوں میں بھی نظر سے گزر جاتی ہیں، جن کا تعلق رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے نہیں ہوتا،ان کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنادرست نہیں ہوتا،محدثین نے ان کی کڑی گرفت کی ہوتی ہے ،حسب ضابطہ ان کے بیان کرنے پرپابندی عائد کی ہوتی ہے ؛ مگرغفلت اور تغافل کی وجہ سے پھربھی ان کی نسبت آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جاتی ہے ،بڑے بڑے مجمعوں میں ان کوبیان کیاجاتاہے ؛ حالاں کہ یہ معاملہ بہت سنگین ہے ،یہ نسبت اس قدر معمولی نہیں کہ کسی بھی شخص کے کہنے پراعتبارکرکے درست تسلیم کرلی جائے، ایسی روایات کو بیان کرنا، یا قیدِ تحریر میں لانے سے اجتناب کرنانہایت ضروری ہے؛ کیوں کہ اس سے دین کا حلیہ بگڑ جاتا ہے اور دین کی اصل ،صحیح تعلیمات خلط ملط ہوجاتی ہیں،ان کو معلوم کرنا ہی دشوار ہوجاتاہے۔

جب کبھی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ذاتِ اطہر کی طرف کسی قول یا فعل کی نسبت کرنی ہو تو اصولی بات یہ ہے کہ اس قول وفعل کویا توازخود تمام تر جوانب سے دیکھا جائے، اس کی سند کے راویوں کو دیکھا جائے، اس روایت کے بارے میں متقدمین اور متاخرین محدثین کی آرا کوسامنے رکھاجائے،یاپھرایسی شخصیت یاکتاب پراعتمادکرکے نسبت کی جائے جس شخصیت/کتاب کوفنی لحاظ سے اعتماد کادرجہ حاصل ہو،مشہوراصحاب فن نے اس کی شہادت دی ہو،اُس کاحوالہ دے کربیان کیاجائے ،اِس کے بغیرنسبت کرنے کی کوئی جائزصورت نہیں ۔

کوئی بھی اچھاخطیب ،مقرریااردوعربی کی تحریرحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنے میں آ خری حوالہ نہیں ہوسکتی،اصحاب فن کی شہادت کے بغیراعتماد کادرجہ نہیں پاسکتی ، فنی شہادت و اعتماد کامقام معلوم کرنے کے لیے ضروری علوم وفنون کوسردخانے کی نذرکرنے کی وجہ سے کئی غلط فہمیا ں پیداہوچکی ہیں ، اصحاب فن کی صحبتوں میں بیٹھنے سے ہی اس کابہتراِزالہ کیاجاسکتاہے ،جیسے کچھ لوگوں کو یہ خیال گزرنے لگتاہے،کہ یہ روایت توشیح المشائخ سیدنا عبد القادر جیلانی المتوفی561ھ، رحمہ اللہ تعالی، کی کتاب”غنیة الطالبین“ میں ہے، یا حجة الاسلام امام غزالی المتوفی 505ھ، رحمہ اللہ تعالی ، کی کتاب ”إحیاء علوم الدین“ یافقیہ ابو اللیث سمرقندی373ھ، رحمہ اللہ تعالی ، کی کتاب ”تنبیہ الغافلین“ میں ہے، یہ کیسے موضوع ہو سکتی ہے؟، اس قسم کی ایک غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے یگانہء روزگارمحقق علامہ عبد العزیز پرہاڑوی صاحب ِ”النبراس“المتوفی 1239ھ ، رحمہ اللہ تعالی ، اپنی بے نظیر کتاب ”کوثر النبی وزلال حوضہ الروی“ میں لکھتے ہیں:

کثیراً ما یقع الموضوعات في مؤلفات المشایخ العظام من المتکلمین والمفسرین والفقہاء والصوفیة الکمل کالکشاف والبیضاوي وتفسیر الإمام الزاہد والثعلبي، وکذا إحیاء العلوم للإمام حجة الإسلام الغزالي وعین المنتخب منہ، وکذا شرعة الإسلام والکفایة الشعبیة․

وکذا غنیة الطالبین المنسوبة إلی سیدنا ومرشدنا الغوث الأعظم قدس سرہ لکن النسبة غیر صحیحة، وکذا کتب الأوراد المنسوبة إلی کبار الصوفیة․

بسااوقات متکلمین، مفسرین اور فقہاء کے بڑے بڑے مشائخ اسی طرح کاملین صوفیائے کرام کی کتابوں میں من گھڑت روایتیں در آتی ہیں، جیسے تفسیر کشاف، تفسیر بیضاوی، تفسیر امام زاہدی اور تفسیر ثعلبی، ایسا ہی حجة الاسلام امام غزالی ،رحمہ اللہ تعالی، کی ”إحیاء علوم الدین“ اور اس کی منتخب ”عین المنتخب“ اسی طرح”شرعة الاسلام“،” کفایہ شعبیہ“ اور ”غنیة الطالبین“ بھی، جس کی نسبت سیدناومرشدناحضرت غوث اعظم قدس سرہ کی طرف کی جاتی ہے؛مگریہ نسبت درست نہیں اورایسی ہی اوراد کی کتابیں، جو بڑے صوفیائے کرام کی طر ف منسوب ہیں، ان تمام کتابوں میں بکثرت موضوع روایتیں درآئی ہیں۔

حضرت علامہ پرہاڑوی رحمہ اللہ تعالی خود اونچے درجہ کے روحانی مقام پر فائز تھے ،سلسلہ چشتیہ میں حضرت نورمحمد مہاروی رحمہ اللہ تعالی کے خلیفہ حضرت حافظ شاہ جمال اللہ ملتانی ،رحمہ اللہ تعالی، سے ارادت وخلافت کاشرف رکھتے تھے ؛مگراس کے ساتھ وہ بلندپایہ محقق بھی تھے اورحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی بات کی نسبت کوبہت گرا ں بار سمجھتے تھے ،جس کااظہار موصوف کی تعبیرات سے ہوتاہے ،مذکو رہ بالابلندپایہ کتابوں اور اسی طرح سلف صالحین کی دوسری عظیم الشان کتابوں میں موضوع روایات در آنے کے کئی اسباب ، وجوہات ہیں ،چند ایک کوعلامہ پرہاڑوی ، رحمہ اللہ تعالی ، نے بھی بیان کیا ہے ،چناں چہ موصوف رقم طراز ہیں:

والسبب أنہ قل اشتغالہم بصناعة الحدیث، وأنہم اعتمدوا علی المشہور في الألسنة من تحسین الظن بالمسلم، وأنہم انخدعوا بالکتب الغیر المنقحة الحاویة للرطب والیابس، وأنہ لم یبلغہم وعید التہاون في روایة الحدیث، وأیضاً منہم من یعتمد علی کل ما أسند، من غیر قدح وتعدیل فی الرواة․

قال ابن حجر العسقلاني: أکثر المحدثین من سنة مائتین إلی الآن إذا ساقوا الحدیث بإسنادہ اعتقدوا أنہم برؤا من عہدتہ. انتہی.

وبالجملة إیراد الموضوعات خطأ في الاجتہاد منہم، وذا لیس مستغرباً ولا موجباً للقدح․

(موضوعات درآنے کی ایک ) وجہ یہ ہے، کہ خاص فنِ حدیث میں ان حضرات کا اشتغال کم تھا،(دوسری وجہ) یہ کہ انہوں نے مسلمان بھائی پر(حسن ظن کرنے کے شرعی قاعدہ واصول کاسہارا لے کر)ازراہ حسن ِ ظن اُن کی زبان زد روایتوں پر اعتماد کیا،(تیسری وجہ ) یہ کہ ان حضرات ِ صدق وصفا کورطب ویابس سے بھرپور غیر منقح کتابوں سے دھوکہ لگا،(چوتھی وجہ ) یہ کہ ان مشائخ تک روایتِ حدیث کے معاملہ میں تساہل سے کام لینے پر جو وعیدیں منقول ہیں نہ پہنچ سکیں، (پانچویں وجہ ) یہ کہ ان میں سے بعض حضرات کی حالت یہ تھی کہ وہ ہر اُس روایت پراعتماد کربیٹھتے جوسند کے ساتھ بیان ہوتی، اُس کے راویان میں جرح وتعدیل کی( زیادہ )ضرورت نہیں سمجھتے۔(شایداُ س بات سے دھوکہ کھاگئے جس کاذکرحافظ صاحب نے کیاہے )

حافظ ابن حجر عسقلانی ، رحمہ اللہ تعالی ، فرماتے ہیں: کہ دوسری صدی سے اب تک اکثر محدثین جب روایت کو سند کے ساتھ ذکرکر لیتے ہیں، تو وہ اپنے کو بریٴ الذمہ سمجھتے ہیں(کہ انہوں نے بیان کرنے والوں کے نام بتاکرگلوخلاصی کرلی ،عمل کرنے والاخودہی چھان بین کرلے )۔

خلاصہ کلام یہ ہے، کہ ان حضرات کااپنی کتابوں میں موضوع روایات کو لانااِن کی اجتہادی غلطی ہے (اوراجتہادی غلطی پر اللہ تعالی کی طرف سے مواخذہ نہیں ہوتا) اجتہادی غلطی ہوجاناکوئی عجیب اور ناقابل توقع بات نہیں اور نہ ہی قابل جرح وقد ح۔

علامہ پرہاڑوی ، رحمہ اللہ تعالی ، کے بیان کے مطابق یہ ایک اجتہادی غلطی ہے ،جس پر زیادہ گرفت نہیں ہوتی ؛ مگر کسی کے لیے یہ ہرگزدرست نہ ہوگا کہ وہ ثابت شدہ اجتہادی خطا کی اتباع وتقلید کرنے لگ جائے ،مذکورہ وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے،کہ ِان روایات کا موضوع ہونا ان کے علم میں نہیں ہو گا۔

اکابرعلمائے دیوبند جمہوراہلسنت والجماعت کے ترجمان تھے، انہوں نے کسی موڑپر ان کی روش سے ہٹ کرکوئی راستہ قبول نہ کیا،موضوعات کے حوالے سے ان کا موقف علمی اور تحقیقی ہے ،وہ بات بات پرضعیف وموضوع کی رٹ نہیں لگاتے پھرتے ،نہ ہی بزرگوں کی شطحیات کوقابل تقلید وعمل سمجھتے ہیں،دلیل سے بات کرتے ہیں اورجمہورعلمائے امت کے طرزواندازپر مدلل بات کوپسندکرتے ہیں،قبول کرتے ہیں،جب کبھی کسی روایت کاموضوع ہونا ثابت ہوچکااوراصولی طورپراس کوقبول کرناچاہیے تھا،انہوں نے تسلیم کرنے میں دیر نہ کی ،حکیم الامہ حضرت علامہ تھانوی رحمہ اللہ تعالی نے زبان زدعوام وخواص کئی روایات پراپنی آخری کتاب ”بوادر النوادر“ میں ناقدانہ کلام کیا ہے۔

بہرحال دوسرے پختہ کارمحدثین کی تصریح کے بعد کسی موضوع روایت کو بعض بزرگوں کے محض عمل کی بناپرسہارا نہیں دیاجاسکتا،جب کہ خود اُن بزرگوں کے طرزعمل میں مذکورہ بالاکئی توجیہات ہوسکتی ہیں ،ہمارے زمانہ میں چونکہ علوم حدیث کے فنی تقاضوں سے بے گانگی اوراجنبیت کافی بڑھ گئی ہے ؛اس لیے تنبیہ کیے بغیر کوئی ایسی روایت بیان کرنایاقید تحریر میں لانادرست نہ ہوگا، جس کے لیے قابل اعتمادفنی سہارا موجود نہ ہو؛کیوں کہ اب سننے والوں یاپڑھنے والوں سے یہ توقع رکھناکوئی معنی نہیں رکھتاکہ وہ خودسے تحقیق کرلیں گے۔

علامہ پرہاڑوی، رحمہ اللہ تعالی ، ان لوگوں کی روش پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں، جو فنی لحاظ سے اپنی جہالت کااقرارکرنے کے بجائے پختہ کار محدثین ہی کی رائے سے روگردانی کرنے لگتے ہیں۔

والعجب من الجاہلین بعلم الحدیث یتعصبون علی المحدثین في ذلک، ویستوجبون الوعید العظیم الواردة علی روایة الحدیث الموضوع بعد ما أوضحنا لہم الحق من الباطل، ولا یخلصون عن تقلید الآباء، ﴿وإذا قیل لہم اتبعوا ماأنزل اللہ قالوا بل نتبع ما ألفینا علیہ آبائنا أو لو کان آبائہم لا یعقلون شیئاً ولا یہتدون﴾․

ان لوگوں کی روش پر تعجب ہے، جو علومِ حدیث سے بالکل ناواقف ہیں ،(اس کے باوجود حدیث کے معاملہ میں محدثین کاسہارالینے کے بجائے) ان کے ساتھ تعصب کارویہ رکھتے ہیں،( جس کااثریہ ہے) کہ وہ موضوع روایات بیان کرنے میں مبتلا ہوتے ہیں ،اس کی وجہ سے احادیث نبویہ میں وارد بہت بڑی وعید کے مستحق بن جاتے ہیں؛ حالاں کہ ہم نے حق وباطل کوالگ الگ سمجھادیاہے ، اس کے بعدبھی یہ اپنے (جاہل) آبا واجداد کے غلط طرزعمل کی پیروی کرنے سے چھٹکارہ نہیں پاتے،(ایسے ہی لوگوں کی ایک نوع کے بارے میں ارشادربانی ہے )اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم لوگ اللہ تعالی کے نازل کیے ہوئے احکامات کی پیروی کرو، تو یہ لوگ جواب میں کہنے لگتے ہیں: نہیں، بلکہ ہم تو اس رسم ورواج کی پیروی کریں گے،جس پر ہم نے اپنے آباوٴ اجداد کو دیکھا تھا،(یہ لوگ ایساکرنے پربضد ہیں) اگر چہ ان کے آباوٴ اجداد کچھ نہ سمجھتے تھے اور نہ ہی راہ راست پرتھے۔

روایات کاایک بڑا ذخیرہ ہے جوآج بھی زبان زدعوام وخواص ہے، جس کے بارے میں محدثین نے تصریح کردی ہے ،کہ اس کوبیان کرنے سے اجتناب کیاجائے ؛ مگرکسی فنی دلیل کاسہارا لیے بغیر اسے بیان کیاجاتاہے ، قید تحریر میں لایاجاتاہے،جوحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہایت موٴکد تعلیم وتنبیہ کے سراسر خلاف ہے ۔ ہرزمانے میں اصحاب ِ فن نے اس حوالے سے اپنی خدمات پیش کی ہیں اور موضوع،من گھڑت روایات کی نشان دہی کرکے امت مسلمہ کوخبردار کیاہے ،ہندوستان کے اکابر علماء بھی اس میدان میں اترکراپناحصہ ڈال چکے ہیں،گیارویں صدی ہجری کے محدث علامہ محمد طاہرپٹنی صاحب ِ”تذکرة الموضوعات“ اور ”قانون الموضوعات“ اسی طرح تیرویں صدی ہجری کے علامہ عبدالعزیزپرہاڑوی متوفی 1239 ھ صاحبِ ”کوثرالنبی وزلال حوضہ الروی“اورعلامہ جعفرسندھی بوبکانی ایسے ہی علامہ عبد الحی لکھنوی متوفی 1304ھ سرزمینِ ہند وسند کی ان نام ور شخصیات میں سے ہیں،جنہوں نے اِس ضرورت کاشدت سے احساس کرتے ہوئے موضوع ومن گھڑت روایات کی اپنے طور سے نشان دہی کی کوشش کی اور ان سے اجتناب اختیارکرنے کی صدابلند کی۔

مختلف ادوار میں گوناگوں مقاصد کے تحت ایسی روایتیں پھیلائی جاتی رہی ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں تھی ،کبھی دشمنان دین، اسلام اور مسلمانوں کی شان وشوکت ،رعب ودبدبہ ،قوت وسیادت کودیکھ کراور اپنے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے غیر معمولی تعلق ،محبت کوجان کردلی کینہ ،بغض کااظہارکرنے کے لیے بے سروپا باتیں مشہور کرنے لگتے،کبھی کوئی دل دردمندرکھنے والاسادہ لوح لوگوں کی بے رغبتی اورسستی کومحسوس کرکے اپنی طرف سے ترغیب وترہیب کے جملے حدیث نبوی کہ کربیان کرتا،یہ خیال کرکے کہ وہ لوگوں کوبھلائی کی دعوت دے رہاہے ،اس طرح دوسرے لوگ ان کی دین داری، وضع قطع سے متاثر ہوکران کے اعتمادپر وہ روایتیں بیان کرنے لگ جاتے،کبھی کسی صحیح روایت کاحلیہ بگڑ کرایک نئی خودساختہ روایت کی شکل میں بدل جاتا،کبھی کسی کاکلام کسی اور کی طرف منسوب ہوجاتا،اس طرح کی اوربھی شکلیں ،صورتیں تھیں،جن کے لبادے میں موضوعات ومن گھڑت روایات کاسلسلہ چل رہاتھا؛مگرامت مسلمہ اِس امتحان ،آزمائش میں ناکام نہ ہوئی،بنی اسرائیل کی طرح وہ باتیں دین کاحصہ قراردے کر مطمئن نہ ہوئی ؛ بلکہ ایک ایک کرکے وضاع وکذاب لوگوں کاپتہ لگوایا،ان کی روایات کونشان زد کیا،دشمنوں کووہ کیاموقع دیتے جنہوں نے اپنوں کوبھی معا ف نہ کیا،ان کی معمولی معمولی غلطی ، کوتاہی ،بشری لغزشوں کوچلتاکرنے نہیں دیا؛ کیوں کہ معاملہ بڑا سنگین تھا،ذمہ داری بہت بڑی تھی، نبوی تاکید بڑی سخت تھی۔

چناں چہ ایک قصہ زبان زد عوام وخواص ہے،جس میں دور رسالت کے اندر ایک نوجوان کی حالت نزع کاذکرہے،والدہ کی نافرمانی کی وجہ سے وہ کلمہ کی تلقین کاجواب نہیں دے رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوخبر دی گئی، والدہ کوکہلوا بھیجا،جب والدہ نے رضاکااظہار کیا، تونوجوان نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین کاجواب دیا،اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی خوشی اور مسرت کااظہارفرمایا،اس قصہ کومختلف طرزوانداز سے بیان کیاجاتاہے، اس کے ساتھ حسب عادت حاشیے بھی لگائے جاتے ہیں۔

یہ قصہ زمانہ قدیم سے چلاآرہاہے ،اس کی روایت مختلف کتابوں میں موجود ہے ، امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی نے سند کے ساتھ اپنی کتاب”شعب الایمان “ میں اس کی روایت ذکر کی ہے،موصوف بیان کرتے ہیں۔

أخبرنا أبو عبد اللہ الحافظ، نا أبو عمر محمد بن عبدالواحد الزاہد، صاحب ثعلب ببغداد، نا موسی بن سہل الموسی، نا یزید بن ہارون، أنا فائد بن عبد الرحمن، قال: سمعت عبد اللہ بن أبي أوفی، قال: جاء رجل إلی النبي صلی الله علیہ وسلم، فقال: یا رسول اللہ! إن ہہنا غلاماً قد احتضر یقال لہ: قل لا إلہ إلا اللہ، فلا یستطیع أن یقولہا، قال: ألیس: قد کان یقولہا في حیاتہ؟ قالوا: بلی، قال: فما منعہ منہا عند موتہ؟

قال: فنہض رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، ونہضنا معہ حتی أتی الغلام، فقال یا غلام! قل: لا إلہ إلا اللہ، قال: لا أستطیع أن أقولہا، قال: ولم؟ قال: لعقوقي والدتي، قال: أحیة ہي؟ قال: نعم ، قال: أرسلوا إلیہا، فأرسلوا إلیہا، فجاء ت، فقال لہا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: ابنک ہو؟ قالت: نعم، قال: أرأیتِ لو أن ناراً أججت، فقیل لکِ: إن لم تشفعي لہ فقذ فناہ في ہذہ النار، قالت: إذن کنت أشفع لہ، قال: فأشہدي اللہ، وأشہدینا معک بأنکِ قد رضیتِ، قالت: قد رضیتُ عن ابني، قال: یا غلام! قل: لا إلہ إلا اللہ، فقال: لا إلہ إلا اللہ، فقال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: الحمد اللہ الذي أنقذہ من النار․

ترجمہ:امام بیہقی فرماتے ہیں، ہم سے ابوعمر محمدبن عبد الواحد نے۔ جوصاحب ثعلب سے مشہور ہیں۔بغدادمیں روایت بیان کی ،انہوں نے کہاکہ ہم سے موسی بن سہل الموسی نے روایت بیان کی ،انہوں نے کہاکہ ہم سے یزید بن ہارون نے یہ روایت بیان کی ،انہوں نے کہاکہ ہم سے فائد بن عبد الرحمن نے روایت بیان کی ، انہوں نے کہاکہ میں نے حضرت عبد اللہ بن اوفی کو فرماتے ہوئے سناکہ ایک شخص حضرت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا،عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! یہاں ایک نوجوان قریب المرگ ہے، اس کو کلمہ” لا الہ إلا اللہ“ کہنے کی تلقین کی جاتی ہے، لیکن وہ کہہ نہیں سکتا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہ اپنی زندگی میں یہ کلمہ پڑھتانہیں تھا؟ لوگوں نے عرض کیا کہ وہ تو پڑھتا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ(جب وہ زندگی میں پڑھتا تھا) توموت کے وقت کس چیز نے اس کوکلمہ پڑھنے سے روک دیا؟

راوی کہتے ہیں ، کہ(یہ سن کر) آپ صلی الله علیہ وسلم اٹھے ، ہم بھی ساتھ ہو گئے، یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اس نوجوان کے پاس تشریف لائے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے نوجوان! کلمہ ”لا إلہ إلا اللہ“ پڑھ لے! اس نے جواب دیا :کہ میں کہنے پر قادر نہیں ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا:کیوں قادرنہیں؟اس نے عرض کیا :کہ اپنی ماں کی نافرمانی کی وجہ سے ۔

آپ ا نے دریافت فرمایا: کہ آپ کی ماں بقیدِ حیات ہے؟اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ا نے لوگوں سے ارشاد فرمایاکہ ان کی طرف کہلا بھیجو،(تاکہ وہ آجائیں) لوگوں نے ان کو بلا بھیجا، اس کی والدہ آگئی، آپ ا نے ان سے پوچھا:یہ آپ کا بیٹا ہے؟ اس نے جواب دیا :جی ہاں۔

آپ انے ارشاد فرمایا: آپ بتا دیجئے، اگر آگ جلا کر بھڑکا دی جائے،پھر آپ سے کہا جائے کہ اگر آپ اپنے بیٹے کے لیے سفارش نہیں کریں گی ،تو ہم اس کو آگ میں ڈال دیں گے؟ ماں نے کہا: کہ اس وقت میں ضرور سفارش کروں گی، آپ ا نے ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالی کو گواہ بنائیے اور ہم سب کو بھی کہ آپ اس سے راضی ہوگئیں؟ انہوں نے کہا کہ میں اپنے بیٹے سے راضی ہوں۔

آپ انے اس نوجوان سے فرمایا: اے نوجوان! کلمہ لا إلہ إلا اللہ پڑھ لے،اس نے کلمہ پڑھ لیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ تمام تعریفیں اس پاک ذات کے لیے ہیں جس نے اس نوجوان کو آگ سے بچا لیا۔

حدیث کی تخریج مصادر ومراجع سے
یہ روایت”زوائد مسند أحمد بن حنبل“ میں اختصار کے ساتھ مذکور ہے،جس کی تفصیل آرہی ہے ، اسی طرح حافظ عقیلی رحمہ اللہ تعالی نے ”کتاب الضعفاء الکبیر“ میں،علامہ ابوبکر احمد دینوری الما لکی نے ”المجالسة وجواہر العلم “ میں ،محدث بیہقی نے ”شعب الایمان “ اور”دلائل النبوة“ میں موٴرخ ابن عساکردمشقی نے ”تاریخ دمشق “ میں موٴرخ قزوینی نے ”التدوین فی أخبارقزوین “ میں،خرائطی نے ”مساوئ الاخلاق“ میں اورعلامہ ابن جوزی نے ”کتاب الموضوعات“میں،حافظ منذری نے ”الترغیب والترہیب“ میں،حافظ ہیثمی نے”مجمع الزوائد“ میں،محدث علامہ بوصیری نے”اتحاف الخیرة المہرة“ میں اس کی تخریج کی ہے، بعد کے موٴلفین نے انہی حضرات کے اعتماد پربلاسند اس روایت کواپنی کتابوں میں نقل کیاہے۔(جاری)
Flag Counter