تباہی کا راستہ
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی
اب سے 63 برس قبل یکم جولائی1948ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ مالیاتی امور میں اسٹیٹ بینک، پاکستان کی خود مختاری کی علامت ہے۔ اس کے کچھ ماہ بعد انہوں نے یاد دلایا تھا کہ برصغیر میں مسلمانوں کی حاکمیت کا خاتمہ اس لیے ہو گیا تھا کہ وہ اپنے وسائل سے زیادہ خرچ کرنے اور قرضے لینے کی لت میں مبتلاہو گئے تھے۔ بدقسمتی سے آج یہی خرابیاں مغلوں کے دور سے کہیں زیادہ خود وطن عزیز میں سرایت کر گئی ہیں۔ نتیجتاً ہم معاشی وسیاسی آزادی بھی کھوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہماری معاشی ، سیاسی، داخلی اور خارجہ پالیسیاں بھی بیرونی اشاروں پر وضع کی جارہی ہیں ۔ گزشتہ چند برسوں سے ہر چوتھے روز امریکا ایک ڈرون حملہ پاکستان پر کرتا رہا ہے، جس سے ہمارے اقتدار اعلیٰ پر ضرب پڑتی ہے ۔ یکم جولائی 2001ء سے 30 جون2011ء تک پاکستان نے5143 ارب روپے کے بجٹ خسارے کا سامنا کیا، یعنی اتنی خطیر رقم اپنی آمدنی سے زائد خرچ کی ۔ اسی مدت میں پاکستان کے داخلی قرضوں میں 4430 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ پاکستان کا بجٹ خسارہ بنیادی طور پر ٹیکس کی چوری او رکرپشن کی پیداوار ہے۔ گزشتہ مالی سال میں استعداد سے تقریباً1900 ارب روپے ٹیکسوں کی مد میں کم وصول کیے گئے جس کا کچھ بوجھ جنرل سیلز ٹیکس کی اونچی شرح اور بجلی، گیس اور پیٹرول کے اونچے نرخوں کی شکل میں19 کروڑ عوام کو منتقل کر دیا گیا۔ ایک طرف ملی بھگت سے بڑے پیمانے پر ٹیکسوں کی چوری ہو رہی ہے او ردوسری طرف نہ تو پارلیمنٹ طاقت ور طبقوں پر ٹیکس عائد کرنے کے لیے تیار ہے او رنہ ہی حکومتٹیکسوں کامنصفانہ نظام وضع کرنے میں سنجیدہ۔ اسی پر بس نہیں ، کرپشن ، بد انتظامی او رنااہلی وغیرہ کی وجہ سے قومی خزانے کو 1200 ارب روپے سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے ۔ پاکستان گذشتہ کئی دہائیوں سے اشیائے تعیش سمیت بہت سی غیر ضروری درآمدات کرتا رہا ہے، جو کہیقیناً چادرسے زیادہ پیر پھیلانے کے مترادف ہے۔ یکم جولائی2001 سے30 جون2011ء تک پاکستان کے تجارتی خسارے کا حجم 104 ارب ڈالر رہا۔ ہم گذشتہ کئیبرسوں سے کہتے رہے ہیں کہ وڈیرہ شاہی کلچر پر مبنی پالیسیوں اور امریکی ایجنڈے کے تحت وضع کی گئی پالیسیوں سے ایسا نظر آتا ہے کہ حکومتیں جان بوجھ کر معیشت کو تباہی کی طرف لے جاتی رہی ہیں، تاکہ دہشت گردی کی جنگ میں امریکی احکامات بجالانے کا جواز پیدا کیا جاسکے۔ گزشتہ ماہ منصوبہ بندی کمیشن نے کہا کہ ترقیاتی اخراجات میں کمی کرنے سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔یعنی معیشت کی زبوں حالی میں حکومت کا بھی کردار ہے، کیوں کہ گذشتہ کئی برسوں سے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی جاتی رہی ہے ۔ این ایف سی ایوارڈ اور18 ویں ترمیم کے بعد یہ غیر حقیقت پسندانہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ خود مختاری تو اس وقت مل سکتی ہے جب خود وفاق او راسٹیٹ بینک کو خود مختاری حاصل ہو ۔ پاکستان کو تو حقیقی خود مختاری اس لیے حاصل نہیں ہے کہ وہ بیرونی قرضوں اور امداد پر بے تحاشہ انحصار کرتا ہے۔ 2011-12 ء کے وفاقی بجٹ میں ٹیکس ومحاصل کی مد میں 2732ارب روپے اور بیرونی ذرائع سے 414 ارب روپے کی وصولی کا تخمینہ ہے، جب کہ صوبوں کو مرکز سے1203 ارب روپے کی وصولی کی توقع ہے، مگر صوبے خود اس رقم کا 10 فیصد بھی ٹیکسوں ومحاصل کی مد میں وصول نہیں کر رہے۔ اگر صوبوں کا مرکز پر اتنا زیادہ انحصار ہے تو پھر صوبائی خود مختاری حاصل ہونے کے دعوے بے معنی ہیں ۔ صوبے زرعی شعبے اور جائیداد سیکٹر کو ٹیکس کے دائرے میں لانے سے گریزاں ہیں، تاکہ طاقت ور طبقوں کے مفادات کا تحفظ ہوتا رہے۔ صوبوں کو ٹیکسوں کی مد میں مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے 3.5 فیصد وصول کرنا ہی ہو گا ،وگرنہ نتائج کا سوچ کر خوف آتا ہے۔ اب ایک مقررہ حد (فی الوقت ساڑھے تین لاکھ روپے سالانہ) سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر مرکز اور صوبوں کو بلاکسی استثنیٰ، منصفانہ شرح سے ٹیکس نافذ او روصول کرنا ہو گا۔اس کے بغیر معیشت میں بہتر ی کی توقع کرنا خود فریبی ہو گی ۔ ٹیکس کی چوری ، کرپشن او ردہشت گردی کی جنگ کے نقصانات کو پورا کرنے اوراشیائے تعیش کی درآمدات کے لیے بے تحاشہ داخلی او ربیرونی قرضے لیتے چلے جانا تباہی کا راستہ ہے۔ ہم نے اب سے کئی برس قبل کہا تھا کہ امریکا تو اس جنگ میں خسارے میں رہے گا ہی، مگر اس کا ساتھ دینے والے ممالک بھی نقصان سے نہیں بچ سکیں گے ۔ امریکی معیشت سخت مشکلات کا شکار ہے ۔ اس جنگ سے پاکستان کی معیشت کو بھی68 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے ،جو بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ امریکا اگلے چند برسوں میں بھی اپنی معاشی مشکلات پر قابو نہیں پاسکے گا، کیوں کہ وہاں کی دونوں سیاسی پارٹیوں نے تیسری دنیا کے ملکوں کی طرح معاشی امور کو اپنے سیاسی مفادات کے تابع کر رکھا ہے اور مال دار لوگوں سے قربانی مانگنے کے بجائے اپنے غریب شہریوں کو دی جانے والی امدادی رقوم میں کٹوتی کر رہے ہیں اور حکومتی قرضوں کی حد بڑھا کر اپنی اگلی نسل کا مستقبل گروی رکھ رہے ہیں۔ امریکا دہشت گردی کی جنگ سے پاکستان کو ہونے والے نقصانات کا کسی حدتک ازالہ کرنے کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف سے ایک نیا قرضہ بھی دلوا سکتا ہے جوتباہی کا نسخہ ہو گا۔ پاکستان کو اس جنگ میں اپنے کردار کو محدود کرنا ہو گا او رایک نئی معاشی، سیاسی ، داخلہ اور خارجہ پالیسی وضع کرنا ہو گی۔
(بشکریہ روز نامہ جنگ،17 اگست، کراچی) 9