Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1432ھ

ہ رسالہ

10 - 17
قومیتوں کی تقسیم
مفتی احسان الله شائق

عبدالکریم شہرستانی کی ” ملل ونحل“ میں ہے کہ شہر میں جب تک آبادی زیادہ نہیں تھی تو دنیا کی چار سمتوں کے اعتبار سے چار قومیں بن گئیں۔ مشرقی، مغربی، جنوبی، شمالی ان میں سے ہر ایک سمت کے لوگ اپنے آپ کو ایک قوم اور دوسروں کو دوسری قوم سمجھنے لگے او راسی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ باہمی مدد ہونے لگی اس کے بعد جب آبادی زیادہ پھیل گئی تو ہر سمت کے لوگوں میں نسبی او رخاندانی بنیادوں پر قومیت او راجتماعیت کاتصور ایک اصول بن گیا عرب کا سارا نظام اسی نسبی اور قبائلی بنیاد پر تھا۔ اسی پر جنگیں لڑی جاتی تھیں۔ بنو ہاشم ایک قوم ، بنو تمیم دوسری قوم، بنو خزاعہ تیسری قوم، ہندوستان کے ہندوں میں آج تک اونچی ذات او رنیچی ذات کی تفریق اسی طرح چل رہی ہے۔

یورپین اقوام کے دور جدید نے نہ کوئی اپنا نسب باقی رکھا نہ دنیا کے انساب کو کچھ سمجھا۔ جب دنیا میں ان کا عروج ہوا۔ تو نسبی اور قبائلی قومیتیں اور تقسیمیں ختم کرکے پہلی مرتبہ علاقائی ، صوبائی، وطنی او رلسانی بنیادوں پر انسانیت کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے الگ الگ قومیں کھڑی کر دی گئیں اور آج یہی سکہ تقریباً ساری دنیا میں چل رہا ہے ۔ یہاں تک کہ یہ جادو مسلمانوں میں بھی چل گیا۔ عربی ، ترکی ، عراقی ، سندھی تقسیمیں ہی نہیں بلکہ ان میں بھی تقسیم در تقسیم ہو کر مصری، شامی، حجازی، نجدی، پنجابی، پٹھان، بنگالی، سندھی ، ہندی، مہاجر، سرائیکی، بلوچ وغیرہ۔ الگ الگ قوم بن گئی۔ حکومت کے سب کاروبار انہیں بنیادوں پر چلائے گئے یہاں تک یہ صوبائی عصبیت ان کے رگ وپے میں سرایت کر گئی ہر صوبہ کے لوگوں کا باہمی تناصر اور تعاون اسی بنیاد پر ہونے لگا۔

قومیت او راجتماعیت کے لیے قرآنی تعلیم
قرآن کریم نے انسان کو پھر بھولا ہوا سبق یاد دلایا کہ سورہٴ نساء کے شروع کی آیات میں یہ واضح کر دیا کہ تم سب انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہو:﴿یٰایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منھا زوجھا وبث منھما رجالا کثیرا ونساء﴾․ (النساء:1)

لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی اول) اس سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے کثرت سے مردوعورت ( پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیے۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اسی کی تشریح کرتے ہوئے حجة الوداع کے موقع پر اعلان کر دیا کہ کسی عربی کو عمجی پر یا عجمی کو عربی پر یا کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ اور فضیلت کا مدار صرف تقویٰ اور اطاعت خداوندی پر ہے:” قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم لا فضل لعربی علی عجمی․ ولا لعجمی علی عربی ولا لابیض علی اسود ولا اسود علی ابیض الا بالتقویٰ․“ (رواہ احمد فی مسندہ)

اور فرمایا:”إنما المؤمنون أخوة“ کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق بھائیوں کی طرح ہونا چاہیے قرآن کے اس اعلان نے حبشہ کے کالے بھجنگ کو سرخ ترکی اور روم کی عجم کی نچلی ذات کے انسان کو عرب کے قریشی اور ہاشمی کا بھائی بنا دیا قومیت اور برادری اس بنیاد پر قائم کی کہ الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو ماننے والے ایک قوم اور نہ ماننے والے دوسری قوم ، یعنی اسلام آنے کے بعد دنیا میں صرف دو قومیں رہ گئیں ۔ جس نے بھی کلمہ پڑھ لیا۔ ” لا الہ الا الله محمد رسول الله“ وہ دوسرے کلمہ گو مسلمان کابھائی بن گیا۔ چاہے دنیا کے کسی بھی علاقہ کار ہنے والا ہو کوئی بھی زبان بولتا ہو او رجس نے یہ کلمہ نہیں پڑھا۔ الله تعالیٰ او راس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا دشمن ہے کافر ہے وہ دوسری قوم ہے: ”الکفر ملة واحدة“ تمام کفار ایک قوم ہیں ۔یہی وہ بنیاد تھی جس نے ابوجہل اورابولہب کے خاندانی رشتوں کو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم سے توڑ دیا او ربلال حبشی اور صہیب رومی، سلمان فارسی کا رشتہ جوڑ دیا #
        حسن زبصرہ بلال زحبشہ صہیب از روم
        زخاک مکہ ابوجہل این چہ بو العجبی ست

حتی کہ قرآن کریم نے اعلان کر دیا:﴿ ھو الذی خلقکم فمنکم کافر ومنکم مؤمن﴾․

یعنی الله تعالیٰ نے تم سب کو پیدا کیا پھر تم دو حصوں میں بٹ گئے۔ کچھ کافر ہو گئے۔ کچھ مؤمن اُحد، حنین، احزاب کے معرکوں میں اسی قرآنی تقسیم کا عملی مظاہرہ ہوا کہ نسبی بھائی جب الله تعالیٰ اور اس کے رسول ا کی اطاعت سے باہر ہوا تو مسلمان بھائی کا رشتہ اخوت اور تعاون اس سے کٹ گیا اور وہ اس کی تلوار کی زد میں آگیا نسبی بھائی تلوار لے کر مقابلہ کے لیے آیا تو اسلامی بھائی امداد کے لیے پہنچا۔ غزوہٴ بدر، احد اورخندق کے واقعات اس پر شاہد ہیں ۔ قرآن حکیم نے باہمی تعاون وتناصر کا یہی معقول اور صحیح اصول بتلایا ہے:﴿وتعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان﴾․( المائدة:2)

اور ( دیکھو) نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو او رگناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو ۔

خلاصہ یہ ہے کہ نیکی اور خدا ترسی پر تعاون کرو۔ بدی اور ظلم پر تعاون مت کرو۔ غور کا مقام ہے کہ قرآن کریم نے یہ عنوان بھی اختیار نہیں فرمایا کہ مسلمان بھائی کے ساتھ تعاون کرو ۔ غیروں کے ساتھ نہ کرو ۔ بلکہ مسلمانوں کے ساتھ تعاون کرنے کی جو اصلی بنیاد ہے یعنی نیکی او رخدا ترسی اسی کو تعاون کرنے کی بنیاد قرار دیا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسلمان بھائی بھی اگر حق کے خلاف یا ظلم وجور کی طرف چل رہا ہو تو ناحق اور ظلم پر اس کی مدد نہ کرو ۔ بلکہ اس کی کوشش کرو کہ ظلم وستم سے اس کو باز رکھو ۔ اس کا ہاتھ پکڑ لو ۔ درحقیقت یہی اس کی صحیح امداد ہے تاکہ ظلم وجور سے اس کی دنیا وآخرت تباہ نہ ہو۔

صحیح بخاری میں حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”انصر اخاک ظالما کان أو مظلوما“ یعنی اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم، صحابہٴ کرام جو قرآنی تعلیم میں رنگے جاچکے تھے ، انہوں نے حیرت سے پوچھاکہ یا رسول الله صلی الله علیہ وسلم مظلوم بھائی کی مدد تو ہم سمجھ گئے مگر ظالم کی امداد کا کیا مطلب ہے ؟ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اس کو ظلم سے روکو یہی اس کی امداد ہے۔

حاصل یہ نکلا کہ قرآن کریم نے نیکی اور خدا ترسی کو اصل معیار بنایا اسی پر مسلم قومیت کی تعمیر کھڑی کی۔ اس پر تعاون وتناصر کی دعوت دی اس کے بالمقابل گناہ ظلم وزیادتی او ربدی کو سخت جرم قرار دیا اور اس پر تعاون کرنے سے روکا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بھی قومی عصبیت سے روکا او راس کی سخت مذمت فرمائی اس پر جہنم کی وعیدیں سنائیں۔
Flag Counter