Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1432ھ

ہ رسالہ

12 - 17
مدارس اسلامیہ اور ہمارا طرز عمل
محترم صہیب احمد خان

اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدائے آفرینش ہی سے حق وباطل کے درمیان کشمکش ہے، باطل طاقتوں نے ہمیشہ اسلام کی حقیقی صورت کو مسخ کرنے کی ناہنجار کوشش کی ہے، مگر اللہ کے فرمان ﴿ان الدین عند اللہ الاسلام﴾ کے تحت وہ طاقتیں اللہ کے سامنے بے بس اور ناکام رہیں اور آفتاب اسلام آج بھی پوری آب و تاب پر ہے، کیوں کہ اسلام کی فطرت کو قدرت نے لچک دی ہے اسلام وہ پودا ہے جس کو جتنا کاٹو گے اتنا ہی ہرا ہوگا

لیکن رنج و الم اور دلی کوفت اس وقت ہوتی ہے جب غیروں کی ان ناپاک کوششوں میں مدعیان حق بھی پیش پیش نظر آتے ہیں اور اسلام کے زندہ وجاوید آشیانے میں آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان گھناؤنی حرکات کے بعد بھی اپنے آپ کو شیدائیان اسلام ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔
        وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
        کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

یہ ایک تلخ، مگر مسلمہ حقیقت ہے کہ آج ہمارے سماج ومعاشرہ میں دینی مدارس اور اہل مدارس کو حقارت آمیز نظروں سے دیکھا جاتا ہے، مدارس کے سفرا اور ذمہ داران حضرات کو قوم کے بدترین افراد شمار کیا جاتا اور ان کے ساتھ سوتیلا برتاوٴ کیا جاتا ہے، جب کہ ہندوستان کی آزادی سے لے کر اس کی نشوو نما تک مدارس اور اہل مدارس نے اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر جو کارہائے نمایاں انجام دیے شاید ان احسانات کو تاریخ کے صفحات کبھی بھی فراموش نہ کرسکیں، کسی بھی قوم کی ترقی وتعمیر میں تعلیم کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، جنگ آزادی میں اپنا گراں قدر کردار ادا کرنے کے بعد مدارس اسلامیہ نے تعلیم کے میدان میں بھی بڑے جوش وخروش کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دیا،ماشاء اللہ آزادی ہندوستان کے بعد سرزمین ہند کے جو سب سے پہلے وزیر تعلیم منتخب کیے گئے وہ ایک مولانا ہی تھے، جن کو ہندوستانی تاریخ مولانا ابو الکلام آزاد کے نام سے جانتی ہے، جو ایک دینی مدرسہ کی پیداوار تھے، جنہوں نے اپنے منصب کے لحاظ سے ہندوستانی نظام تعلیم کو عروج وارتقا کا سفر طے کرایا،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،عثمانیہ یونیورسٹی اور کشمیر یونیورسٹی جیسی عالمی شہرت یافتہ جامعات جن بزرگوں کی مرہون منت ہیں وہ سب مدارس ہی کے فارغین تھے۔
        جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی
        سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
        پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن
        یہ ہمارا چمن ہے تمہارا نہیں

افسوس ہے کہ دور حاضر میں ملک کی ترقی کے کچھ دشمن حضرات، انسانیت اور حب وطن کا درس دینے والے مدارس اسلامیہ کو دہشت گردی کا اڈاتصور کرتے ہیں، بلکہ اگر سچائی سے کام لیں تو مدارس کے قیام کا مقصد ہی ایمانداری، سچائی اور خدمت خلق کا درس دینا ہے، جب کہ دینی مدارس کے خلاف اغیار کے جھوٹے پروپیگنڈوں سے زیادہ خطرناک ملت اسلامیہ کو اسلام سے وابستہ رکھنے کا واحد ذریعہ ان دینی مدارس سے مسلمانو ں میں بڑھتی بے اعتمادی ،بلکہ بدگمانی ہے، حقیقت یہ ہے کہ ان مدارس کی طرف سے بے اعتمادی اور بد گمانی خود اسلام سے بدگمانی اور دینی تعلیم سے محرومی ہے جب کہ ”طلب العلم فریضة علی کل مسلم ومسلمة “کا واضح فارمولا ہمارے سامنے موجود ہے۔

آج مسلم معاشرہ علماء کے تعلق سے عمومی چندہ کے سلسلے میں بھی بدظن ہے، جب کہ وہ حضرات بخوبی واقف ہیں کہ مدارس کے جملہ اخراجات انہیں دردمند محسنین اور اہل خیر کے تعاون ہی پر منحصر ہیں، جس کے لیے مدارس کے سفرا حضرات رمضان کے ماہ مبارک میں روزہ رکھتے ہوئے دربدر بھٹکتے ہیں روزہ کی حالت میں جب وہ سفراء اہل خیر حضرات کے دربار میں حاضری دیتے ہیں تو انہیں حقارت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے، بسا اوقات کچھ امداد کیے بغیر اور الہی فرمان ﴿واما السائل فلاتنہر﴾ کا پاس ولحاظ نہ رکھتے ہوئے انھیں خالی ہاتھ واپس کردیا جاتا ہے، اللہ تعالی اخلاص کے ساتھ اس کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹانے کی لذت سے آشنا، خوش نصیبوں کو خدام مدارس کی قدرومنزلت سے واقفیت عطا کرتے ہیں اس کے برخلاف بخل کے مریضوں ،مہاجنو ں اور نام ونمود کے لیے خرچ کرنے کے خواہش مندوں کو ان قابل رشک خدام دین میں کمیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔دو پیسوں کے نشے میں یا مغربی پروپیگنڈہ سے متاثر بھولے بھالے مسلمانوں میں ان خدام مدارس کی عظمت کا بڑا فقدان پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے امت مسلمہ مدارس کے حقیقی فائدے سے محروم سی ہوتی جارہی ہے۔افسوس ہے کہ دینی اداروں، علمائے مدارس اور خدام مدارس کے سلسلے میں امت میں حد درجہ استخفاف اور اہانت کا معاملہ پایا جاتا ہے۔

ملک کا ایک بڑ ا تعلیم یافتہ طبقہ مدارس کے قیام کے سلسلے میں بھی بدظن ہے اور مدارس اسلامیہ کوعلما ء کے مالی وسائل اور معاش کا ذریعہ بتاتا ہے سفرا ئے مدارس کی بڑھتی تعداد سے عاجز نظر آتا ہے جب کہ مدارس اسلامیہ کی اتنی بڑی تعداد ہو جانے کے باوجود بھی اس ملک کے پانچ فیصد حصے میں بھی مسلمانوں کی بنیادی دینی تعلیم کی ضرورت پوری نہیں ہوپاتی ۔اس کے باوجود بھی مسلمانوں میں مدارس کے قیام کی فکر کے بجائے مدارس کی زیادتی ایک عیب اور برائی نظر آتی ہے، بنیادی دینی تعلیم کی ضرورت محسوس کرنے والے کچھ دردمند مسلمان بھی یہ خیال رکھتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں دینی مدارس کی ضرورت نہیں ہے ان دانشور حضرات کو خود محاسبہ کرنا چاہیے کہ آج مدارس اسلامیہ سے کتنے علماء فارغ ہوتے ہیں جن کی ایک لمبی تعدادحکومتی اسکولوں میں استاذ دینیات متعین کی جاتی ہے، پھر ائمہ مساجد بھی وہی علماء بنتے ہیں اس کے علاوہ مدارس اسلامیہ کو بھی ایک بڑی تعداد کی ضرورت پیش ہوتی ہے جو درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ کی اہم ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں اس کے باوجود آج ہندوپاک کے کتنے علاقے، بلکہ صوبے ایسے ہیں جہاں کے مسلمان نہ تو قرآن کی تعلیم سے واقف ہیں اور نہ ہی شریعت اسلامیہ کے دیگر ضروری امور سے،ان کے دلوں کو اگر کوئی ایمان کی دولت سے ما لا مال کرے گا تو یہی علماء ہوں گے جن کے بارے میں خود مولائے حقیقی اعلان کر رہے ہیں ﴿ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینہون عن المنکر واولئک ہم المفلحون﴾․

جن فرشتہ صفت انسانوں کو اللہ رب العزت نے فلاح اور کام یابی کی ضمانت دی ہے وہ یہی علماء ہیں، اس کے باوجو د مدارس کی وقعت اور اہمیت کا اندازہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کے تعلیمی معیار پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے ہو تا ہے، آج دینی مدارس میں صرف وہ طلباء داخل کیے جاتے ہیں جو مالی لحاظ سے بالکل کمزور ہوتے ہیں ،دوسرے وہ طلباء جو اسکولوں اور کالجوں میں فیل ہوجاتے ہیں یا پھر جو آخری درجے میں شریر ہوتے ہیں، افسوس ہے کہ اللہ کے نبی اکے فرمان ”العلماء ورثة الانبیاء“ کے تحت آپ نے جس لڑکے کو نبی کا نائب اور قوم کا امام بنانے کا انتخاب کیا ہے وہ نہایت خام مال ہے، جس کی بازار میں کوئی قیمت نہیں ہے، اس کے برعکس جو لڑکا ذہین اور ہونہار ہے اسے عصری علوم کے لیے چنا ہے، جس سے اس کی دنیا تو یقینا سنور جائے گی مگر میدان محشر میں کف افسوس ملنا ہوگا۔

اس لیے ضرورت ہے کہ مسلم قوم کا اپنی آئندہ نسلوں کو اسلام پر باقی رکھنے کے لیے اور ان کو دینی ،فکری، بلکہ کلی ارتداد سے بچائے رکھنے کا اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ کم از کم ٹھوس بنیادوں پر ان کی ابتدائی دینی تعلیم کا نظم کیا جائے ،یہ گمان کہ دینی تعلیم سے محروم رہ کر آئندہ نسلیں اسلام پر باقی رہ سکیں گی خیال عبث ہے۔ بلکہ دینی تعلیم سے محروم بچوں کے ارتدادکا خطرہ یقینی ہے، اس لحاظ سے ہندوستان میں دینی اداروں کی حیثیت بڑی اہمیت کی حامل ہے، مدارس اسلامیہ کو بے فیض سمجھنے کے ساتھ مدارس اور اہل مدارس کے سلسلے میں مسلمانوں میں، جو استخفاف، بلکہ اہانت کا جذبہ پایا جاتا ہے، یہ ملت، خصوصا آئندہ نسلوں کے ایمان سے کھلواڑ ہے اور اس ناسو ر کے علاج کی ذمہ داری خود انہیں علماء پر ہے کہ وہ مدارس کی ضرورت وافادیت کا احساس دلاکر ملت اسلامیہ کی ذہن سازی کریں، حقائق کی روشنی میں ان کو اس بات کو باور کرانا ہوگا کہ ہماری دنیا و آخرت بنانے میں ان مدارس کا کیا کردار رہا ہے؟ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ علمائے اسلام اور اہل مدارس کوعوام کی ا ن ناشائستہ حرکتوں اور ذلت آمیز تنقیدوں سے ناامیدی کے بجائے تقویت ملے، تاکہ حق کا عروج ہو اور باطل دم توڑ دے ۔
Flag Counter