کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
مشینی ذبیحہ کا حکم
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں کیلیفورنیا(California) میں مشین کے ذریعے مرغیوں کے ذبح کرنے کے چار طریقے رائج ہیں۔
(الف) مشین کے ساتھ ٹیپ ریکارڈر رکھا جاتا ہے اور ہر مرغی کے کٹنے پر ٹیپ ریکارڈر سے ”بسم الله، الله اکبر“ کی آواز آتی ہے، اس مشین کو مسلمان بندہ آن(on) کرتا ہے۔
(ب) جب مرغی مشین کی بلیڈ (Blade) سے کٹنے لگتی ہے تو وہاں موجود مسلمان شخص”بسم الله، الله اکبر“ کہتا ہے، البتہ اس کا یہ عمل صرف تسمیہ کی حد تک محدود ہوتا ہے ، ہاں اگر مرغی پوری طرح نہ کٹ پائے تو پھر یہ مسلمان شخص اس کو اپنے ہاتھ سے کاٹ لیتا ہے ، تقریباً سو مرغیوں میں سے دو ، تین مرغیوں کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا ہے ( کہ وہ پوری طرح ذبح نہیں ہو پاتی تو وہ مسلمان شخص خود ذبح کو پورا کر لیتا ہے) اس صورت میں مشین بند نہیں کی جاتی ہے بلکہ مسلسل چلتی رہتی ہے ۔
(ج) یہ مسلمان شخص ہر دفعہ ( ہر مرغی کو ذبح کرنے پر ) مشین آف، آن کرتا ہے مگر جب وہ مشین کو آف کرتا ہے تو مشین اتنی جلدی نہیں رک پاتی جس کی وجہ سے دوسری مرغی بھی کٹ جاتی ہے، جب کہ بلیڈ کی رفتار سست ہو چکی ہوتی ہے۔
(د) کہ مذکورہ صورت (ج) میں مشین کو پوری طرح روک دیا جائے اور پھر دوسری مرغی کے لیے از سرنو مشین آن کر دی جائے۔
ان تمام صورتوں میں ذبیحہ کا کیا حکم ہے ، براہ کرم مسئلہ کی وضاحت قرآن وسنت کی روشنی میں مفصل ومدلل فرماکر ثواب دراین حاصل کریں۔
جو مرغیاں ہاتھ سے ذبح ہوتی ہیں ان کی قیمت دو ڈالر فی پاؤنڈ ہے جب کہ مشینی مذبوجہ ایک ڈالر فی پاؤنڈ ہے جس کی وجہ سے اکثر عوام مشینی مذبوحہ خریدتی ہیں، ہاتھ سے ذبح شدہ مرغیاں کافی دشواری سے ملتی ہیں، جس کے لیے کافی پہلے سے آرڈر دینا پڑتا ہے، اسی وجہ سے عوام ہاتھ سے ذبح شدہ مرغیاں نہیں خریدتے ہیں۔
جواب… واضح رہے کہ قرآن کریم نے کسی جانور کا گوشت حلال ہونے کے لیے ذکاة ( ذبح) کو ضروری قرار دیا ہے، بغیر ذکاة شرعی کے ذبیحہ قطعاً حرام ہے، ذبیحہ کے حلال ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے :
1. ذبح کرنے والا مسلمان یا کتابی ( یہودی، نصرانی) ہو۔
2. جانور پہلے سے زندہ ہو۔
3. ذبح کرتے وقت تسمیہ (بسم الله، الله اکبر) پڑ ھا جائے۔
4. چار رگیں ( حلقوم، مری، ودجین) مکمل یا کم از کم تین رگیں کٹ جائیں۔
وہ امور جو ذبح کرنے میں موجب کراہت او رموجب گنا ہ ہیں، مندرجہ ذیل ہیں:
1. گلے کی رگوں کو اتنا گہرا کاٹنا کہ آخر گردن تک پہنچ جائے یا گردن بالکل علیحدہ ہو جائے۔
2. گدی کی طرف سے کاٹنا بشرطیکہ گلے کی رگیں کٹنے تک وہ زندہ رہے ورنہ اگر رگیں کٹنے سے پہلے ہی مرجائے تو یہ ذبیحہ حرام ہو گا۔
ان تینوں صورتوں میں ذبیحہ حلال تو ہو جائے گا، لیکن ایسا کرنا مکروہ وناجائز ہے۔
الف۔ صورت مسئولہ میں پہلی صورت میں ذبیحہ حرام ہے، کیوں کہ ذبح کرنے والے نے تسمیہ نہیں پڑھا اور ٹیپ ریکارڈر کے تسمیہ کا کوئی اعتبار نہیں۔
ب۔ دوسری صورت میں جب یہی مسلمان شخص مشین کابٹن آن کرتا ہے اور ہر مرغی کے ذبح ہوتے وقت تسمیہ پڑھتا جاتا ہے ، تو اگر واقعتا یہ صورت ممکن العمل ہو ، تو پھر یہ مرغیاں حلال ہوں گی ، لیکن جب کوئی مرغی صحیح ذبح نہیں ہوتی اور یہ مسلمان شخص اسے ہاتھ سے ذبح کرتا ہے تو اس دوران مشین چوں کہ چلتی رہتی ہے ، اس لیے جو مرغیاں اس دورانیے میں بغیر تسمیہ کے ذبح ہوں گی وہ حرام ہوں گی اور پھر یہ تمیز بھی مشکل ہو گی کہ کتنی مرغیاں اس دورانیے میں ذبح ہوئیں اور وہ کون کون سی ہیں ، اس لیے اس صورت سے اجتناب بہترہے۔
ج۔ اس صورت میں جب مشین آف کرنے سے پوری طرح نہیں رکتی تو جو مرغی بغیر تسمیہ کے ذبح ہوتی ہے وہ حرام ہے او رجس مرغی پر تسمیہ پڑھا گیا ہو ، وہ حلال ہے ، لیکن یہاں بھی یہ تمیز مشکل ہو گی کہ کتنی مرغیاں حلال ہیں او رکتنی حرام ہیں اور کون کون سی حلال ہیں او رکون کون سی حرام ہیں۔
د۔ اس صورت میں جب ایک مرغی ذبح ہونے کے بعد مشین کو پوری طرح روک لیا جائے او رپھر نئے سرے سے تسمیہ پڑھ کر مشین کو دوبارہ آن کیا جائے ، تو یہ ذبح شدہ مرغیاں حلال ہوں گی۔
مروجہ مشینی ذبیحے میں چوں کہ اکثر وہ امور پائے جاتے ہیں، جو موجب کراہت او رموجب گناہ ہیں یعنی گردن کا علیحدہ کر دینا، یا گدی کی طرف سے کاٹنا وغیرہ۔ اس لیے سب سے بہتر صورت تو یہی ہے کہ ہاتھ سے ذبح کی ہوئی مرغیوں کو خریدا جائے اور مشینی ذبیحہ سے حتی الوسع بچنے کی کوشش کی جائے اور اگرہاتھ سے ذبح کی ہوئی مرغیاں دسیتاب نہ ہوں ، تو پھر صورت مسئولہ میں بیان کردہ چار صورتوں میں سے چوتھی صورت میں بیان کردہ طریقے پر جو مرغیاں ذبح کی جائیں، انہیں خریدا جائے۔
نوٹ: موجودہ زمانے کے اہل کتاب چوں کہ برائے نام یہودی یا عیسائی ہیں ، اکثریت ان لوگوں کی ہے جو الله تعالیٰ کے وجود کا بھی انکار کرتے ہیں ، اس لیے ا نکا ذبیحہ حلال نہ ہو گا۔
حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی شخصیات پربنائی گئی فلموں کا دیکھنا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کراس مسئلہ کے متعلق کہ:
آج کل ٹی وی کے ذریعے ایسی فلمیں ( ویڈیو، مووی وغیرہ) دکھائی جارہی ہیں جن میں مختلف انبیاء کرام علیہم الصلوٰة والسلام ( مثلاً حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام وغیرہم) کے کردار اور واقعات فلمائے گئے ہیں۔ کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ یہ فلمیں قرآنی واقعات کی عملی تفسیر ہیں ( والله اعلم بالصواب) اور ان فلموں کے ذریعے بہت آسانی سے قرآنی واقعات سمجھ میں آتے ہیں، نیز ان فلمائے گئے واقعات سے بہت سبق ملتا ہے۔
حالانکہ ان فلموں میں حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو نعوذ بالله بطور عیاش حکمران اورعاشق (حضرت یوسف علیہ السلام کو زلیخانامی عورت سے اورحضرت سلیمان علیہ السلام کو ملکہ بلقیس کے ساتھ عاشقانہ رویہ) کے ظاہر کیا گیا ہے اورحضرت جبرئیل علیہ السلام کو وحی لاتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے، نیز آج کل ان فلموں کی سی ڈیز بھی مارکیٹ میں دسیتاب ہیں۔
اب معلوم یہ کرنا ہے کہ:
ان فلموں کو دیکھنا کیسا ہے؟
ان فلموں کو بنانے والوں اور دیکھنے والوں کا کیا حکم ہے؟
ان فلموں کو دیکھنے والوں اور بنانے والوں کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟
ان فلموں کی ویڈیو سی ڈیز کی خریدوفروخت کا کیاحکم ہے؟
برائے مہربانی تفصیلاً راہ نمائی فرما کر عندالله ماجور ہوں۔
جواب…تصویر سازی قبیح، حرام اور مستوجب لعنت وغضب خداوندی ہے ، تصویر بنانے والوں کے حق میں جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ وہ قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت اور بدترین عذاب میں مبتلا ہوں گے ، نیز یہ کہ جس مکان میں تصویریں ہوں وہاں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے ، فرشتوں کو تصویر سے اس طرح نفرت ہے جس طرح کتے سے ہے ان تمام وعیدوں کے ہوتے ہوئے کسی فلم کو جائز کہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جس چیز کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ملعون فرمایا اسے کس طرح جائز ودرست کہاجاسکتا ہے؟
پھر انبیاء کرام علیہم السلام جو الله تعالیٰ کے برگزیدہ ، مقرب ومعزز بندے ہیں ، جنہیں الله تبارک وتعالیٰ نے نبوت ورسالت کے عظیم الشان منصب سے سر فراز فرمایا، ایسی مقدس ومعظم شخصیات کی پاکیزہ روحانی زندگیوں کو فلمانا او راس نجس میں ملوث کرنا ان کی توہین ہے ، پھر اس سے بڑھ کر بھی کوئی جسارت ہو سکتی ہے کہ ان کی حقیقی سیرت وکردار کو مسخ کیا جائے اور معاذ الله ان کو عیاش وعشاق ظاہر کیا جائے جو ان پر بہت بڑا افتراء وبہتان ہے، سبحنک ھذا بھتان عظیم۔
پھر ان مقدس شخصیات کو اس طرح ظاہر کرکے علی الاعلان اس کی تشہیر کرنا ان کا استہزاء وتمسخر او رمذاق اڑانا ہے او ران کی ذوات قدسیہ کو لہو ولعب او رتفریح وتماشے کے لیے استعمال کرنا ہے جو موجب کفر ولعنت خداوندی ہے او رایک ایسا گھناؤنا جرم ہے جس کا خمیازہ او رانجام بد مجرمین کو بہر کیف بھگتنا پڑے گا۔
ستم بالائے ستم یہ کہ بعض لوگوں کی طرف سے اسے قرآن کی عملی تفسیر کہاجارہا ہے، کتنے افسوس کی بات ہے ! اور کتنی بڑی گستاخی وبے ادبی ہے کہ جو چیزسرتاپانجس او رحرام ہے ، جس کی ایجاد ہی گندگی، فحاشی وعریانی پھیلانے کے لیے کی گئی اور جس کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ملعون فرمایا اسے قرآن کی تفسیر کہا جائے ، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن کی تفسیر نہیں بلکہ تحقیر وتوہین ہے۔
جس طرح فلم بنانا اور دکھانا حرام ہے اسی طرح اس کا دیکھنا بھی حرام ہے۔
پھر مذکورہ فلم او راس جیسی دیگر فلمیں دیکھنے سے ایمان کا سالم ومحفوظ رہنا مشکل ہے کیوں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بارے میں دل میں کسی ایسے خیال کا آنا بھی ایمان واسلام کے لیے خطرناک ہے ، لہٰذا ہر مسلمان کا اس سے بچنا واجب وضروری ہے او ردوسروں کو بچنے کی تلقین کرنا اس کی مذہبی ذمہ داری ہے۔
باقی سوالات کے مرحلہ وار جوابات مندرجہ ذیل ہیں:
حرام ہے،۔ تشریح کے ضمن میں گزر چکا ہے جائز نہیں۔
ایز ی لوڈ کرانا جائز ہے یا نہیں؟
سوال…کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایزی لوڈ کروانا جائز ہے کہ نہیں؟ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ سود ہے کیوں کہ ہم دکاندار کو 100 روپے دیتے ہیں جس کے بدلے وہ کم پیسے ہمارے نمبر پر بھیجتا ہے، کیا یہ بات درست ہے؟ دلائل کے ساتھ مفصل جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
جواب…واضح رہے کہ سود کے تحقق کے لیے بدلین کا متحد الجنس والقدر یا نقد رقم میں سے ہونا ضروری ہے ، اگر بدلین مختلف الجنس والقدر ہوں یا نقد رقم نہ ہو تو اس صورت میں کمی بیشی جائز ہے۔
موبائل کمپنیاں نقدر قم کے بدلے منفعت (ایئر ٹائم) فراہم کرتی ہیں، خواہ وہ کارڈ کی صورت میں ہو یا ایزی لوڈ کی صورت میں، ان دونوں میں کمپنی مقررہ ٹیکس کاٹنے کے بعد بقیہ رقم کی منعفت صارف کو مہیا کرتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ کارڈ کی صورت میں صارف براہ راست کمپنی سے منفعت خریدتا ہے او رایزی لوڈ کی صورت میں دکاندار پہلے سے خریدی ہوئی منفعت اپنا کمیشن لے کر صارف کی طرف منتقل کرتا ہے۔
دونوں صورتوں (کارڈ اور ایزی لوڈ) میں چوں کہ نقد رقم کے بدلے نقد رقم نہیں ملتی بلکہ منفعت ملتی ہے ، لہٰذا دونوں صورتیں جائز ہیں۔