Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1432ھ

ہ رسالہ

2 - 17
افراد سازی ۔۔۔۔ قرآن کی روشنی میں
مفتی عزیزالرحمان قاسمی

انسان کا وجود او راس کی بقا ایک ایسے محور کے گرد گھومتی ہے جس کو اتحاد کا نام دیا جاتا ہے ،اگر یہ محور اپنے نقطہ سے ذرا بھی ہٹ جائے تو پوری نوع انسانی میں ارتعاش کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، رفتہ رفتہ ارتعاش جھٹکے کی شکل اختیار کرکے پوری انسانیت کو مخمصہ میں ڈال دیتا ہے ، اسی سبب دنیا کی ہر اہم شخصیت نے اتحاد کو اپنا مقصد حیات بنا کر پوری زندگی یگانگت وموانست اور اخوت ومحبت کی تسبیح پڑھ کر گزار دی ہے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد جیسے مفکر نے اس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ :

”اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اتر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دے کہ سوراج24 گھنٹہ کے اند رمل سکتا ہے ، بشرطے کہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دست بردار ہو جائے تو میں سوراج سے دست بردار ہو جاؤں گا، مگر اس سے دست بردارنہ ہو ں گا، کیوں کہ اگر سوراج ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا، لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہو گا۔“

لیکن کسی رشی، منی، پیر او رفقیر نے اتحاد کا ایسا خلاصہ پیش نہیں کیا، جو لوگوں کے دلوں کو چھولے اور وہ اتحاد کی رسی کی مضبوطی سے تھام لیں۔ ہاں اسلام نے اس کے فوائد او راس کی جامعیت پر جو بحث کی ہے اس نے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنالی اور طلوع اسلام ہی کے وقت چشم فلک نے دیکھا کہ مدینہ منورہ میں انصار ومہاجرین کے درمیان یہ پیغام کس طرح نقطہ عروج پر پہنچ گیا، اسی پیغام کو آفاقی وسعت دینے کی خاطر الله تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

” الله او راس کے رسول کے فرماں برداربن کر رہو اور آپس میں نزاع نہ کرو، ورنہ پست ہمت ہو جاؤ گے او رتمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، صبر سے کام لیا کرو، یقینا الله تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔“

آیت بالا میں اس امر کی اہمیت پرجتنی تاکید فرمائی گئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، کیوں کہ قرآن کا ارشاد تمام مسلمانوں کے لیے ایک حتمی لائحہ عمل ہے ، جس کے جزو کل سے اتفاق ابدی نجات کا سبب اور حلقہٴ اسلام میں بقا کی ضمانت ہے، اسی وجہ سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اتحاد واخوت کے متعلق عجیب وغریب مثال دے کر سمجھایا ہے ، ارشاد ہے: ”مثل المؤمنین فی توادھم وتراحمھم وتعاطفھم مثل الجسد اذا اشتکی منہ عضو تساعی لہ سائر الجسد بالسھر والحمی“․

” ایمان والوں کی مثال ایک جسم کی سے ہے، جب اس کے کسی ایک عضو میں کوئی تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں اس کا شریک حال رہتا ہے۔“

ایک حدیث شریف میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”المؤمن للمؤمن کالبنیان یشد بعضھم بعضا وشبک بین اصابعہ“․

”رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر دکھاتے ہوئے فرمایا کہ مومن مومن کے لیے اسی طرح دیوار کی مانند ہے، ان میں کا ایک دوسرے کو طاقت پہنچاتا ہے۔“

اسلام نے اتحاد کی اس لڑی میں صرف مسلمانوں ہی کو نہیں پرویا، بلکہ تمام بنی آدم کو اس امر کی تاکید فرمائی ہے کہ وہ اس سائبان کے نیچے آکر قبائلی اور گروہی عناد کی تمازت سے سکون حاصل کریں او روحشت وبربریت کی کڑواہٹ سے اتحاد کوزک نہ پہنچائیں ۔چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”یاایھا الناس،کونوا عباد الله اخوانا، لا تدابروا، ولا تحاسدوا، ولا تباغضوا“․

”اے الله کے بندو! بھائی بھائی ہو جاؤ! ایک دوسرے سے پیٹھ مت پھرو او رایک دوسرے سے حسد مت کر واور ایک دوسرے سے بغض مت رکھو ۔“ ( ترمذی ،ابواب البر والصلة)

اگر دنیا آپ کی اس آواز پر اخوت کا تصور لے کر اٹھ کھڑی ہو تو موانست او رروا داری کی نئی نئی کونپلیں نکلنی شروع ہو جائیں، انسانیت کے خون کے پیاسے آدم زاد صبر وشکر کی تصویر بن جائیں اور ہر مذہب کے پرستاروں میں مذہب کی اشاعت او ردیگر مذاہب کے سقم وصحت پر غور کرنے کا موقع دست یاب ہو سکے ، مگر انسان کی فطرت آبائی مذہب کے ساتھ تصلب ہے، اسی وجہ سے مذہب اسلام کی وہ باتیں بھی اس کو زہر ہلاہل معلوم ہوتی ہیں جن میں اس دنیا کے اندر ہی نفع وضرر کی واضح بشارت موجود ہے ، جن کی موجودگی میں امن وامان او راس کے فقدان کے سبب تخریب او رنفس کشی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو سکتا ہے ، تاہم سائنس کی برق رفتار ترقی نے عناد کے سورماؤں کو اسلام کی تعلیمات کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کر دیا ہے، آج وہ اسلام کی ہزار مخالفت کے باوجود یہ کہنے پر آمادہ ہو رہے ہیں کہ اسلام ایک ایسا آفاقی مذہب ہے جو بلاواسطہ کسی عظیم طاقت کے سرچشمہ سے فیض یافتہ اور اس کی خوبیوں کا مظہر اتم ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد سلامتی کونسل کا قیام دراصل اسی ”کونوا عباد الله اخوانا“ کا درس تھا۔

دنیا کے سفاکوں نے 5 کروڑ انسانوں کو ابدی نیند سلا کر آخر میں جو پیغام دیا وہ وہی ہے جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم چودہ سو سال پہلے دنیا کے سامنے پیش فرما چکے تھے، اسی محسن انسانیت کی ہر بات اپنی جگہ ایک ایسا تسلیم شدہ آئین او رہر عمل ایسا قانون ہوتا تھا جس کی بلندی کو اتحاد کے موضوع پر لکھی گئیں سیکڑوں کتابیں بھی نہیں پہنچ سکتی ہیں۔

سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ ایک شب ایک غیر مسلم شخص آپ کا مہمان بنا، رات میں اس نے بستر پر اجابت کر دی، ڈر کی وجہ سے صبح پوپھٹتے ہی وہ حواس باختہ ہو کر بھاگ نکلا۔ اتفاق سے اس کی تلوار آپ صلی الله علیہ وسلم کے یہاں چھوٹ گئی ۔ جس پر اسے بڑا ملال تھا۔ لیکن خدمت عالی میں حاضری سے وہ شرمندہ تھا۔ چاروناچار واپس ہوا۔ تو دیکھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اس کی امانت کو لے کر خو داسے تلاش کر رہے ہیں۔ اس فاضلانہ اخلاق سے وہ حیران ہو گیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے قدموں میں عقیدت سے گر گیا، اس کے لیے اس سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم بنفس نفیس غلاظت دھور ہے ہیں، آپ کا یہ اخلاقی ظرف کا اعلیٰ نمونہ ہے کہ فدائیان صحابہ ہر آن آپ کے اشارے پر اپنی جان کا صدقہ پیش کرنے کے لیے تیار رہتے تھے ، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے کسی کو حکم نہ دے کر یہ ثابت کرنا چاہا کہ اسلام اعلیٰ اور ادنی کا امتیاز محض اس واسطہ ختم کرنا چاہتا ہے کہ یہ معاشرے کو تباہ کرنے والا ایساناسور ہے جس سے نفرت کا مادہ ہر وقت رِستا رہتا ہے۔ اس لیے اس کی جراحی وقت کا تقاضا او راسلام کی تعلیم ہے ۔

آج اسلام کی جامعیت او راہمیت کو ہر شخص محسوس کرتا ہے، اس کی خوبیاں بیان کرنے کے لیے بڑے بڑے سیمینار کیے جاتے ہیں ، جس میں حکومت تعاون کرتی ہے اور دانش ورانِ قوم اس پر مقالات لکھتے ہیں اورپڑھتے ہیں، مگر باہم اتحاد اور محبت ویگانگت کی شجر کاری کی تخم ریزی شریعت محمدی صلی الله علیہ وسلم سے پوری ہم آہنگی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی ہے ، ایسی صورت میں شجرہٴ اتحاد کی آب یاری ممکن نہیں۔

ایمان کی حلاوت ہی اتحاد کے برگ وبار کو شادابی عطا کر سکتی ہے، کیوں کہ سابقہ تاریخ ہی سے اقوام وملل کا مستقبل سنورتا اور نکھرتا ہے ۔ تاریخ قوموں کی آئندہ آنے والی نسلوں میں اسلاف کے افعال وکردار کی جوان ہمتی کی روح پھونکتی ہے ، جس کے سہارے وہ خوش آئند دنوں میں کوئی خوش نما اورر وشن مستقبل کا تاج محل تعمیر کرتی ہیں۔

آج دنیا کے تمام دانش وران کو ایک آواز ہو کر اسلام کے تاب ناک ماضی سے اپنے قلب کو منور کرنا چاہیے او ردیکھنا چاہیے کہ اسلام کے پاس اتحاد کا وہ کون سا نسخہٴ کیمیا ہے۔ جس نے مدینہ منورہ میں آباد اوس وخزرج نامی دو قبیلوں کی پشتہا پشت سے چلی آرہی دشمنی کو ختم کر دیا تھا۔

اگر عصبیت کا چشمہ اتار کر کوئی غیر مسلم تاریخ نویس بھی اس موضوع پر خامہ فرسائی کر ے گا تو اس کا قلم یہ لکھنے پر مجبور ہو گا کہ جب ان کے قلوب نور ایمان سے روشن ہوئے۔ کفر اور اعمال کفر کی سیاہی ان کے دلوں سے دھل گئی ۔ تو یہ دونوں قبیلے آپس میں شِیروشکر ہو گئے، جس کا ذکر قرآن کریم ان لفظوں میں کرتا ہے۔

”اگر آپ دنیا جہاں کی تمام دولت لٹا دیتے تب بھی ان کے دلوں میں الفت نہ پیدا کر سکتے تھے ، لیکن الله نے ان کے دلوں میں الفت پیدا فرما دی، بے شک وہ غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔“

آج غیروں پر کیا رویا جائے خود اپنوں میں ایسی تلخیاں موجود ہیں ، جن کے سبب پورا اسلامی معاشرہ بغض وحسد، کبر ونخوت او رعنادو تکبر کی آگ میں جل رہا ہے ۔ برادری تصادم کے گھن نے ہمارے معاشرہ کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے ۔ جس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اس معاشرے میں ایمان کی مٹھاس کم ہو گئی ہے ۔ جس کے لیے از سر نو اسلامی تعلیمات او راحساس ذمہ داری کی ضرورت ہے ۔ تاکہ آج کا معاشرہبھی سابقہ روایت کی طرح باہمی خوش اخلاقی کا ایک دل آویز گل دستہ نظر آنے لگے ۔ جس کی خوبیوں کو دیکھ کر دوسری قومیں از خو داسلام کی جانب پیش قدمی کریں اور اسلام اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ ان کے دلوں میں اتر کر اپنی صداقت کا کلمہ پڑھوالے ۔ کیوں کہ ایمان ایک مقناطیسی طاقت ہے جو بہت سے پردوں کے باوجود اپنی کشش دکھائے بغیر نہیں رہتا، اسی طرح اگر مؤمن کے اندر ایمانی حرارت اور مخلصانہ جذبہ پیدا ہو جائے تو حالات وواقعات کے عارضی حجابات او رماحول کی کثافت کی وقتی گردوغبار تھوڑی سی توجہ سے دور کرکے قرب ویگانگت کے بہت سے رشتے پیدا کیے جاسکتے ہیں #
        محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے
        ذرا سے بیج سے پیدا ریاض طور ہوتا ہے

ناچیز نے تقریباً پندرہ سال قبل نیپال کے بڑے مدرسہ کے سالانہ جلسہ میں توحید واتحاد کے عنوان پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ توحید اپنی پوری آب وتاب، کمال وتمام کے ساتھ جب تک امت کے قلوب میں رہی امت میں اتحاد بھی اسی کمال کے ساتھ تھا اور جب سے توحید میں نقص واختلال پیداہوا اسی وقت عمارت اتحاد کی چولیں ہلنی شروع ہو گئیں ۔ یہی بات اکابر علماء نے فرمائی، سید امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کے لفظوں میں آپ بھی پڑھیے۔

”گو ہر توحید کا رنگ جس قدر گہرا ہو گا وہ اسی قدر کھوٹ، خیانت، غرض او رنفاق سے پاک ہوں گے او روہ دل جو غرض اور نفاق سے پاک ہوں گے بے تکلف متحد بھی ہو جائیں گے ۔ لیکن جب سے مسلمانوں میں توحید کا جذبہ گھٹا تو غرضیں بڑھ گئیں اور جس قدر غرضیں بڑھیں اسی قدر دلوں میں تفاوت پیدا ہو گیا اور اسی تفاوت قلوب کا آخری نتیجہ یہ ہوا کہ اخوت او رمحبت اسلامی کے قلعے پارہ پارہ ہو گئے۔“( انسانیت موت کے دروازے پر، ص:76)
Flag Counter