Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1432ھ

ہ رسالہ

7 - 17
کوثر 	
مولانا سید مناظر احسن گیلانی

آج حال یہ ہے کہ ہر وہ شخص، جو حرف شناس اور نوشت وخواند کی تھوڑی بہت بھی صلاحیت رکھتا ہو، ہر مہینے میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں صفحات کا مطالعہ اخباروں کی شکل میں ضرور کرتا ہے ، وہ ان اخباروں میں وقت کے چھڑے ہوئے سوالوں کا جواب اور جن مشکلات میں دنیا اس وقت گھری ہوئی ہے، ان کا حل ڈھونڈتا ہے ، مگر جہاں تک تجربہ کا تعلق ہے ،جس کاجی چاہے تجربہ کرکے دیکھ لے، ان ہزاروں اور سینکڑوں صفحات کے پڑھنے والے بھی کوئی واضح جواب ان سوالوں کا اور کوئی آخری فیصلہ کن حل ان مشکلات کا اپنے اندر نہیں رکھتے، کچھ مبہم مبہم سی تشنہ، مذبذب باتیں پہلے بھی کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں۔

جو پڑھنا نہیں جانتے جیسے اِدھر اُدھر کی معلومات کی بنیاد پر کچھ صحیح کچھ غلط نتائج اپنے پاس رکھتے ہیں، میرا خیال تو یہی ہے کہ آج کل کے اخبار بینوں کا حال ان پڑھوں سے کچھ زیادہ بہتر نظر نہیں آتا۔ ہر نیا اخبار جب ان کے ہاتھوں میں آتا ہے تو اس توقع سے اس کا مطالعہ شروع کرتے ہیں کہ شاید دل کے چبھے ہوئے تمام نہیں تو بعض ہی کانٹوں کے نکالنے کی تدبیر اس میں مل جائے گی ۔ مگر ہر گزرنے والے دن کے بعد آنے والے دن کے اخبار کے ساتھ ان غریبوں کی نہ پوری ہونے والی امیدیں منتقل ہو ہو کر وابستہ ہوتی چلی جاتی ہیں ، مگر آنے والے دن کا اخبار گزرے ہوئے دنوں کے اخباروں کے مقابلے میں کسی قسم کا کوئی اضافہ علمی طور پر ان میں کرتا ہے اور نہ طمانیتاً، یہ ایک نہ ٹوٹنے والا سلسلہ ہے ، جو جاری ہے، نہ پڑھنیواے ہی اکتاتے ہیں اور نہ پڑھانے والوں کو خیال آتا ہے کہ آخر اس استسقائی مرض میں لوگوں کو وہ کب تک مبتلا رکھیں گے تاہم پڑھانے والوں کا معاشی سوال حل ہوتا ہے ، اس لیے زیادہ قابل رحم حال پڑھنے والوں کا ہے۔

بہرحال اب تو یہ رسم دنیا میں جاری ہو چکی ہے ، اور اس بُری طرح جاری ہو چکی ہے کہ اس کے سیلاب کاروکنا آدمی کے بس میں نہیں۔ تاہم اوروں سے نہیں، کم از کم ان لوگوں کے آگے تو اس مشورے کے رکھنے کا غالباً میرا حق ہے ، جنہوں نے مانا ہے کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم الله کے صادق اور سچے رسول ہیں اور خدا کی طرف منسوب کرکے قرآن کے نام سے، جو کتاب آپ نے پیش فرمائی ہے، یہ آپ کی کتاب نہیں، بلکہ خدا تعالیٰ کی کتاب اور اس کا کلام ہے ، جو ماضی کو بھی جانتا ہے او رمستقبل کو بھی ، اس کو بھی جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اور ان کو بھی جو ہمارے حسی وعقلی حدود کے ماورا ہیں، یعنی الشھادة والغیب دونوں ہی کا جاننے والا ہے اور ہر شے کے ظاہر وباطن، اندر وباہر کے واقعی حالات اور جو نتائج ان پر مرتب ہو سکتے ہیں، سب سے واقف ہے۔

اہل ایمان او راہل اسلام کے اسی طبقہ کی طرف میرے خطاب کا رخ ہے ، ان ہی سے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ نت نئے ناموں سے نکلنے والے صحائف وجرائد کے طو مار کے ساتھ ساتھ کیا یہ مناسب نہ تھا کہ کم از کم قرآن کی ان مختصر سورتوں ہی میں سے کسی ایک سورت پر غور کر لیا کرتے ، جن سے ”اکانومیکل“ یا ”کفایت شعارانہ“ نمازیں ادا ہوجاتی ہیں، اسی سلسلہ کی ایک مختصر سورة ” القریش“ کا ایک پہلو ”ہادی“ کے ذریعہ پڑھنے والوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا، آج اس سے بھی مختصر ترین سورت، جو صرف تین آیتوں پر مشتمل ہے، آپ کے آگے رکھی جاتی ہے ، یہ الکوثر کی سورة ہے، جسے عوام انا اعطیناک والی سورة بھی کہتے ہیں ، ڈھونڈئیے آج دینا میں سب سے بڑے واہم سوال کو، جو کرہٴ ارض کے اکثر علاقوں میں اودھم مچائے ہوئے ہے، اس کا جواب ان ہی تین فقروں والی سورة میں کیا مل سکتا ہے ؟ ایمان کو اگر تازہ کر لیا جائے او رمحمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی رسالت پر یقین واعتماد کو جو عہد ہر مومن کیے ہوئے ہے، اس عہد کو اور عہد کے احساس کو اگر پیدا کر لیا جائے تو میں یہ خیال کرتا ہوں کہ ضخیم مجلات اور کتابوں سے بھری ہوئی لائبریریوں میں، جو نہیں مل سکتا ہے ، ان شاء الله ان تین فقروں میں آپ کو مل جائے گا۔

اگر دل میں ایمان واسلام ہے
سمجھنے کی قرار گاہ اور جس پر ٹھہرنے کی ضرورت ہے، وہ خود ”الکوثر“ ہی کا لفظ تھا ،لیکن کیا کیجیے کہ بعض الفاظ کے ثانوی معانی اتنے مشہور ہو جاتے ہیں، دلوں اور دماغوں پر وہی کچھ اس طرح چھا جاتے ہیں کہ لفظ کی بنیاد جس حقیقت پر قائم تھی ، اس کی طرف لوگوں کا ذہن ہی منتقل نہیں ہوتا۔

ایرانی ہو یا سوڈانی، مصری ہو یا بربری، الغرض عجمی ہو یا عربی ، اس مسئلہ میں سب ہی شریک ہیں، چھوٹے بڑے، عامی وخاص، عالم وغیر عالم سب کا یہی حال ہے کہ ایک طویل عریض حوض یا نہر کو جو شفاف ٹھنڈے میٹھے پانی سے چھلک رہی ہو او راس کے کنارے کنارے ستاروں کی طرح چمکنے والے نقرئی وطلائی کٹورے جھملا رہے ہیں ، اسی منظر کو ”الکوثر“ کے لفظ کے سننے کے ساتھ ہی اپنے سامنے ہر مسلمان پاتا ہے او راس کا خیالی وجدان بے بنیاد بھی نہیں ہے ، قرآن کے بعد اسلامی معلومات کے معتبر ترین ذخیرے یعنی بخاری اور مسلم جیسی حدیث کی کتابوں میں ”الکوثر“ کے اس لفظ کی یہی شرح اس ذات اطہر صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے کی گئی ہے ، جس پر قرآن نازل ہوا تھا ،قرآنی الفاظ کی شرح کا ان سے زیادہ حق دار ظاہر ہے کہ اور کون ہو سکتا ہے ، جو قرآن کو پہنچانے کے لیے چنا گیا تھا۔

مگر کیا واقعی جنت کی اس نہر کا یہ کوئی ایسا نام ہے جسے علم کہتے ہیں، یعنی لفظ اور معنی میں کسی قسم کا معنوی تعلق جس میں نہ ہو ۔ اگر واقعہ کو مان لیا جائے کہ حقیقی صورت یہی ہے ، تو جو جانتے ہیں ، ان سے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ خلف میں نہیں، بلکہ سلف ہی میں یہ کیوں دیکھا جاتا ہے کہ اس ” الکوثر“ کی شرح مختلف دوسرے الفاظ سے کرتے ہیں ، شوکانی نے اپنے تفسیر میں علاوہ مذکورہ بالا معنی ( یعنی نہر جنت کے ) بڑے بڑے جلیل القدر علماء کی طرف چودہ اقوال منسوب کیے ہیں ، جن میں حسن بصری ،ابن کیسان، ابوبکر بن عباس وغیرہ جیسے حضرات بھی شریک ہیں ، نبوت ، قرآن، تفسیر قرآن، امت واصحاب کی کثرت ، ایثار ، اسلام، رفع ذکر، قلب کا نور ، شفاعت ، معجزات ، کلمہ توحید ، فقہ فی الدین، نماز پنج گانہ اور ان کے سوا دوسری مختلف چیزوں کو ”الکوثر“ کا مصداق لوگوں نے قرار دیا ہے ، سوچنے کی بات یہی تھی کہ صحیح حدیث میں جب براہ راست مہبط وحی صلی الله علیہ وسلم کی تفسیر موجود تھی ، تو پھر ان دوسرے معانی کی طرف لوگوں کا دھیان ہی کیوں گیا ؟ والله اعلم بالصواب۔

میرا تو خیال یہی ہے کہ بہ ظاہر یہ سارے اقوال پہلے مرحلے میں باہم مختلف معلوم ہوتے ہیں، مگر معمولی تامل سے یہ واضح ہو سکتا ہے کہ کسی ایک ”گلی“ کے یہ مختلف اجزا اور اسی کے مختلف پہلوؤں کی یہ تعبیر ہے۔

وہ امر ” کلی“ یا کل کیا ہے ؟ اس کا جواب خود ”الکوثر “ کا لفظ ہی بتا رہا ہے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہی نکتہ لوگوں کے سامنے سے اوجھل ہو گیا ، وہ سننے کے ساتھ ” الکوثر“ کے مصداق کی تلاش میں چل نکلے اور اس کو قابل توجہ نہ خیال کیا گیا کہ ” الکوثر“ کا خود یہ لفظ بھی کچھ بتا رہا ہے ؟

میرا مطلب یہ ہے کہ ” الکوثر“ عربی زبان کا لفظ ہے ، اس کا مادہ وہی ” کثرت “ ہے، جو اردو میں ” قلت“ کے مقابلہ میں مستعمل ہے ، پس کثرت کے اس عام ومشہور مفہوم کو پیش نظر رکھتے ہوئے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم، جن کو خطاب کرکے یہ بشارت سنائی گئی ہے کہ میں نے تمہیں الکوثر عطا کیا، آپ کو کوئی ایسی چیز حق تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی ہے ، جس میں ”کثرت“ اور ” بڑھا“ زیادتی کی ضمانت ہے ،” الکثرت“ کی جگہ ”الکوثر“ کے لفظ نے اس کثرت کے دائرہ کو وسیع او ربہت زیادہ وسیع کر دیا، جس کا مژدہ آپ کو دیا گیا ہے ، فوعل کا یہ وزن مادہ کی غیر معمولی فراوانی کا ترجمان ہے ، اہل لغت اسی لیے الکوثر کی تشریح کرتے ہوئے عموماً لکھتے بھی ہیں۔

اس غیر معمولی کثرت کی ضمانت کس چیز میں ہے ؟ رنگ، نسل، زبان، وطن، غرض یہ یا اسی قسم کی جن زنجیروں میں دنیا کی قومیں جکڑی ہوئی ہیں ، ان سب سے آزاد ومجرد کرکے فکر وعمل کا ایک دستور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو عطا کیا گیا ، جسے مان کر ہر رنگ ، ہر ملک ، ہر زبان ، ہر نسل کا آدمی آپ کی امت او رجماعت میں شریک ہو سکتا ہے ، ہوتا رہا ہے، ہوتا رہے گا۔

” تا آنکہ نہ باقی رہے گا روئے زمین پر کوئی گھر،خواہ خیمہ والے گھر ہوں ، یا مٹی پتھر کے گھر ہوں کہ ان میں اسلام نہ داخل ہو جائے ۔“ ( مسند احمد)

صرف چند فکری وذہنی تغیرات کے ساتھ ہی ہر غیر اپنا بن جاتا ہے اور یہ کیا چیز ہے ؟ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا پیغام ہے ، خواہ اس کا نام اسلام رکھیے، قرآن رکھیے، الکعبہ رکھیے، الحج رکھیے، جیساکہ ان الفاظ کا ذکر بھی الکوثر کی تفسیر میں کیا گیا ہے ۔

جن بزرگوں نے الکوثر کی تشریح میں مذکورہ بالا باتیں فرمائی ہیں، ان کا یہی مطلب ہے او رجنہوں نے ہمارے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پیغام کے کسی اہم جز کا ذکر کر دیا ہے ، اسی طرح جنہوں نے صحابہ یا امت کی کثرت کو کوثر کا مصداق ٹھہرایا ہے ، ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ جس کثرت کی ضمانت لی گئی ہے اس کے ظہور کی شکل یہ ہو گی کہ طرح طرح کے لوگ آپ کی امت میں شریک ہوتے چلے جائیں گے ، پھر بھی معنوی دینی زندگی جس سے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد لوگ قیامت تک مستفید ہوتے رہیں گے ۔ دوسرے عالم میں بجائے معنویت کے محسوس قالب اختیار کرکے سامنے آجائے گی ، یہ بہتے ہوئے پانی کا قالب ہو گا، جس کا نام اس عالم میں ”الکوثر“ ہے ، محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دست مبارک سے یہاں بھی پینے والے جو کچھ پی رہے ہیں زندگی کے دوسرے دور میں وہی چیز محسوس ہیکل وقالب میں ان کے سامنے آئے گی۔

حضرت ابن عباس  خیر الامة،ترجمان القرآن سے حاکم وغیرہ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ”الکوثر کو سمجھاتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو جو خیر او ربھلائی عطا ہوئی وہی ”الکوثر“ ہے۔ ان کے شاگرد سعید بن جبیر  نے جب اس کا ذکر کیا تو پوچھنے والے نے دریافت کیا کہ عام طور پر لوگوں میں مشہور ہے کہ کوثر جنت کی ایک نہر کا نام ہے ۔ سعید نے جواب میں کہا کہ جنت کی نہر بھی تو اسی خیر اور بھلائی میں شریک ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو عطا ہوئی تھی ۔

اور اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ”الکوثر“ جنت کی کسی خاص نہر کا ذاتی نام، یعنی علم ہے اور خود اس لفظ کی لغوی ساخت پر توجہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور پچھلے زمانہ کی بات ہے ،ور نہ آپ دیکھ رہے ہیں ، کہ عہد صحابہ وتابعین میں قرآنی الفاظ کے افہام وتفہیم میں لوگوں کا نقطہ نظر کتنا عمیق ووسیع تھا۔

بہرحال میری غرض اس طول وطویل بیان سے صرف اس قدر ہے کہ ”الکوثر“ کے مطلب کو سمجھنے کے لیے اس لفظ کے مادہ یعنی ”کثرت“ کا سہارا بھی چاہیے کہ لیا جائے، اس طریقہ سے ان پر واضح ہو گا کہ منجملہ دوسری باتوں کے جمہوریت کے اس عہد کا سب سے زیادہپیچیدہ ” معمہ“ ممکن ہے کہ اس کی روشنی میں اتنا پیچیدہ ان کو نہ محسوس ہو ۔ میرا مقصد یہ ہے کہ ”حکومت“ کے ادارے کو جس ضرورت نے ایجاد کیا تھا، یعنی بے زوروکو زور والوں کے جور وتعدی سے بچا یا جائے، ناتوانوں کو تونگروں کی چیرہ دسیتوں سے محفوظ رکھنے کی یہی تدبیر سمجھ میں آئی ، جس کا نام حکومت ہے، ہر حکومت پر ،ہر زمانے میں پہلی ذمہ داری یہی عائد ہوتی ہے، مگر مستثنیات کو چھوڑ کر جمہوریت کے اس دور میں یہی نہیں کہ حکومت کی ہی بنیادی روح ہی صرف نکل گئی ہے، بلکہ برعکس اس کے جمہوری حکومت کمزوروں پر زور والوں کی دست درازیوں کا آلہ اور ذریعہ بنی ہوئی ہے ، قانون کا بنانا، قانون کا نافذ کرنا، یہ اور اسی قسم کے سارے حکومتی اقتدارات کی باگ ڈور جمہوری حکومت رکھنے والے ممالک میں اس جماعت کے ہاتھوں میں آجاتی ہے ، جو عددی قوت کی برتری کی مالک ہوتی ہے ، عددی قوت کے اس مصنوعی زور وطاقت سے جو طبقہ اتفاقاً محروم ہوتا ہے وہ ابھی کچھ نہیں کرسکتا ، اسی کا نام اکثریت ( مجاریٹی) واقلیت (منیارٹی) کا مسئلہ بنا ہوا ہے ، ہر وہ ملک جہاں جمہوری طرز کی حکومت قائم ہے ، اس کا سب سے بڑا اہم سوال یہی مسئلہ بنا ہوا ہے ، کیوں کہ اکثریت واقلیت کی یہ تقسیم کسی خاص قسم کے اختلاف کے ساتھ وابستہ نہیں ہے ، نسل ہو ، زبان ہو ، رنگ ہو، دین ہو ، دھرم ہو، یا کسی قسم کے معاشی یا سیاسی نظریہ کا اختلاف ہو ، ہر ایک کے لحاظ سے یہ دونوں قسمیں قدرتی طور پر تقریباً ہر آبادی میں پیدا ہو جاتی ہیں ، جس کی وجہ ہے کہ ظاہر وباطن، اندر او رباہر کے اعتبار سے ملک کے آبادکاروں کا کسی ایک نقطہ پر جمع ہو جانا عقلی احتمال تو ہو سکتا ہے ، مگر واقعہ کی دنیا میں اس کا آج تک مشاہدہ ممکن نہ ہوا۔ بیسیوں اتفاقی نقاط کے ساتھ بالآخر اختلاف کا نقطہ ہر اجتماعی زندگی میں پیدا ہی ہو جاتا ہے اور یہی قدرتی اختلاف اکثریت واقلیت کے اس معمہ کو جمہوری حکومتوں کے سامنے لے آتا ہے ، آبادکاروں میں کسی قسم کا اختلاف ہی باقی نہ رہے ، یا اختلاف کی صورت میں ہر طبقے کے افراد کی تعداد مساوی اور برابر ہو، واقعات کے لحاظ سے چوں کہ ان دونوں باتوں کا تجربہ ہوا، نہ ہو سکتا ہے ، نتیجہ یہ ہے کہ جمہوری حکومت میں اکثریت کی قوت رکھنے والوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے ، تاکہ اس قوت سے ملک کے آبادکاروں کا جوطبقہ محروم ہو اس کے ساتھ جو جی میں آئے کریں اور یہی میں کہنا چاہتا تھا کہ بے کسوں کی پشت پناہی ، کمزوروں کی دست گیری ، جو حکومت کی قدرتی ذمہ داری ہے ، اپنی اس ذمہ داری کی تکمیل سے ہر جمہور ی حکومت، خواہ کسی ملک میں قائم ہو، اپنے آپ کو معذور پارہی ہے۔

جمہوری حکومت کا یہی وہ ” معمہ“ ہے جو کسی طرح حل نہیں ہو رہا ہے اور جب تک یہ حل نہ ہو جمہوری نوعیت کی ان حکومتوں کو صحیح معنوں میں حکومت قرار دینا مشکل ہے، فکرونظر سے زندگی کی مشکلات کے حل کرنے والے اس میں شک نہیں ، کہ جمہوری حکومت کی اس عجیب وغریب پیچیدگی اور ژولیدگی کے سلجھانے میں مشغول ہیں ، اس کا حل ان کی سمجھ میں کیا آیا ہے یا کیا آئے گا، اس کو ان ہی کی حد تک محدود کرتے ہوئے اس وقت قرآن کی روشنی میں چاہنے والی اُمت کے سامنے صرف ان نتائج کو پیش کرنا چاہتا ہوں، جو قرآن کی اسی مختصر ترین سورت سے معلوم ہوتے ہیں ۔

کاش! نمازوں میں بار بار دہرائی جانے والی اسی سورت کے پیش کردہ پہلوؤں پر ہی لوگ غور کرتے تو دل ودماغ کی بیسیوں بے چینیوں سے وہ نجات پاسکتے ہیں، جیسا کہ معلوم ہے کہ کل تین آیتوں یا فقروں پر یہ سورة مشتمل ہے ، جو عربی نہیں جانتے ان کے لیے ان تین فقروں کا لفظی ترجمہ پہلے کر دیتا ہوں ۔

”قطعاً ہم نے عطا کیا ہے تمہیں ۔”الکوثر“۔

یہ پہلے فقرے کا ترجمہ ہوا۔ (الکوثر کا جو مطلب ہے وہ بیان ہو چکا)

” پس نماز پڑھ اپنے رب کے لیے اور نحر کر“۔ یہ دوسرے فقرے کا ترجمہ ہے ”نحر“ کا مطلب ابھی آرہا ہے۔

”قطعاً تمہارا بدخواہ”ابتر“ ہے۔

یہ تیسرے فقرے کا ترجمہ ہوا، اس میں ”ابتر“ کا لفظ خاص طور پر قابل توجہ ہے ، ان ہی تین آیتوں پر یہ سورة ختم ہو گئی ہے۔

ظاہر ہے کہ ان تین فقروں میں سے پہلے او رتیسرے فقرے کی حیثیت گویا ایک ایسے وثیقہ کی ہے ، جس کی تعمیل کی ذمہ داری بندوں پر نہیں ، بلکہ قرآن کے ناز ل کرنے والے قادر علی الاطلاق نے خود اپنے اوپر لی ہے، البتہ درمیانی فقرہ﴿فصل لربک وانحر﴾ اس میں گو خطاب کا رخ بہ ظاہر مہبط وحی یعنی خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف ہے، لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ جب تک دوسری دلیل سے یہ ثابت نہ ہو کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارک کے ساتھ قرآن کا کوئی حکم خصوصیت رکھتا ہے اس وقت تک یہی سمجھا جاتا ہے اور یہی سمجھنا چاہیے کہ پیغمبر کے اس خطاب میں آپ کی ساری اُمت شریک ہے۔

مطلب یہی ہوا کہ ہمارے سپرد یہ دو کام یعنی صلوٰة او رنحر کیے گئے ہیں ، صلوٰة یعنی نماز کا مطلب تو ظاہرہی ہے، باقی نحر، سو لغت میں ” اونٹ کے ذبح کرنے کی یہ تعبیر ہے “ لفظی ترجمہ تو یہ ہوا کہ اونٹ کو ذبح کر۔ مگر جیسا کہ علامہ شوکانی نے عربی زبان کے اس عام محاورے کی طرف اشارہ کیا ہے جو عموماً اس ملک میں مروج تھا ، یعنی قدروقیمت کی آخری انتہائی کیفیت کو ظاہر کرنے کے لیے عموماً وہ اونٹ کا ذکر کیا کرتے تھے ، یہ کہنا کسی کو ہوتا کہ اس سے زیادہ قیمتی شے اور نہیں ہو سکتی تو کہتے کہ سرخ اونٹوں سے بھی یہ زیادہ بہتر ہے، حدیثوں میں بھی عربی زبان کے اس عام محاورہ کو ہم پاتے ہیں ۔

پس حاصل یہی ہوا کہ خدا کے ساتھ صلوٰة یعنی دعا پوجا پاٹ کا تعلق او رخدا کی خلقت کے ساتھ حسن سلوک کی بہتر سے بہتر ممکنہ شکلوں کو اختیار کرنا، یہ ذمہ داری تو پیغمبر اور پیغمبر کے ساتھ ان کی اُمت کے ہر فرد پر﴿فصل لربک وانحر﴾ کے الفاظ سے عائد کی ہے ، مذہب کی روح بھی دونوں باتیں ہیں، البتہ ”لربک“ کے لفظ سے اس خصوصیت پر زور دیا گیا ہے ، جو ان دونوں جزوں کی متعلق اسلام میں پائی جاتی ہے ، یعنی عبادت ودعا ( صلوٰة) ہو ، یا نحر، یعنی مخلوق خدا کے ساتھ حسن سلوک کی بہترین شکلیں۔ دونوں میں حکم دیا گیا ہے کہ رب یعنی خالق عالم تعالیٰ جل مجدہ او ران کی رضا مندی کے سوا ہمارے سامنے اور کچھ نہ ہو ، بہرحال یہ تو ہمارا کام ہے، ہمیں جو کچھ سوچنا ہے صرف اپنی ذمہ داریوں کے ان ہی دونوں شعبوں کو سوچنا ہے۔

باقی پہلے اور آخری فقروں کے ذریعہ جن امور کی ذمہ داری قرآن کے نازل کرنے والے خدائے قدیر نے لی ہے، ہم نے جس کی تعبیر آسمانی وثیقے سے کی ہے، یہ کیا ہے ؟ پہلے فقرے میں سمجھنے کی چیز ” الکوثر“ کا لفظ تھا، سو معلوم ہو چکا کہ غیر معمولی کثرت کی ضمانت جس چیز میں پوشیدہ ہو اسی کا قرآنی نام ”الکوثر“ ہے، خدا نے خبر دی ہے کہ ” الکوثر“ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو عطا کیاگیا ہے، جس وقت الکوثر سے سر فرازی کی اطلاع دی گئی تھی جاننے والے جانتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ساتھ دینے والوں کی تعداد بہ مشکل انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی ، کیوں کہ یہ سورت جیسا کہ عام علماء کا خیال ہے ، مکہ میں نازل ہوئی، مگر آج تیرہ سو سال سے دیکھا جارہا ہے کہ جن کی تعداد انگلیوں پر بھی بہ مشکل گنی جاسکتی تھی ، وہ بڑھے اور بڑھتے چلے گئے، بڑھتے جارہے ہیں ، یہاں تک کہ ہزار ، لاکھ ، کروڑ، سے گزر کر ان کی عددیت ارب سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ خدا اپنی اس ذمہ داری کو مسلسل پوری کرتا چلا آرہا ہے۔

رہا دوسرا وثیقہ، یعنی سورة کی آخری آیت تو جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا، اس وثیقہ میں دریافت طلب لفظ ”الابتر“ کا ہے ، ارباب تفسیر نے لکھا ہے ۔

”جس کی آئندہ نسل باقی نہ رہے۔“

”جس کی یاد اس کے مرنے کے بعد باقی نہ رہے ۔“

الغرض یہ یا اسی قسم کے الفاظ میں الابتر کے لفظ کا مطلب بیان کیا گیا ہے ، حاصل جس کا یہی ہوا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بدخواہ کے متعلق خدا نے اس کی ذمہ داری لی ہے ، کہ ان کو اور ان کی آئندہ نسلوں کو قدرت ختم کر دے گی ۔

الغرض آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے متعلق ”الکوثریت“ یعنی آپ کے ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ، غیر معمولی اضافہ اور آپ کے بدخواہوں کی ابتریت یعنی بالآخر ان کا بے نام ونشان ہو جانا، ان دونوں باتوں کی ذمہ داری قدرت نے خود اپنے ذمہ لے لی ہے ، چاہے تو کہہ سکتے ہیں کہ قدرت کی طرف سے یہ دونوں وثیقے عطا کیے گئے ہیں، ایسے وثیقے، جو محکم، منصوص اور ایسے الفاظ پر مشتمل ہیں جن کی تعمیل وتکمیل کے متعلق ہلکا ساشبہ بھی آدمی کو، او رکچھرہنے دے یا نہ رہنے دے، مگر وہ مسلمان تو باقی نہیں رہ سکتا کہ قطعی الدلالة، قطعی الثبوت بعض محکم غیر مؤول کے متعلق یہ شبہ ہو گا۔

اور چوں کہ یہ دونوں ذمہ داریاں خدا کی ہیں، خدا ہی نے گویا ان ذمہ داریوں کی تکمیل کا عہد کیا ہے، اس لیے ہمارے سوچنے کی بات یہ ہے بھی نہیں کہ خدا کی بات کو خدا ہی کے سپرد کر دیا جائے ، اس لیے میں کہتا ہوں کہ سورة الکوثر کے اول وآخر کے دونوں فقروں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ ہماری توجہ کا مستحق درمیان والا فقرہ ہے، یعنی ہمارے سپرد بھی دو کام کیے گئے ہیں کہ سب سے ٹوٹ کر صرف اپنے رب اور خالق پروردگار کے آگے گڑ گڑاتے اور تلملاتے رہیں یہی صلوٰة کا مطلب ہے اور خدا کی مخلوق کے ساتھ بہتر سے بہتر، جو نیک سلوک ممکن ہو ،اس کو انجام دیے چلے جائیں ہم پر ان ہی دونوں باتوں کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ مگر کیا کیجیے جو خدا نہیں، بلکہ بندے ہیں ،وہی ان باتوں کو سوچ سوچ کر گھل رہے ہیں ، جن کی نہ ذمہ داری ان پر عائد کی گئی ہے او راسی لیے نہ ان کے سوچنے کی یہ باتیں کسی حیثیت سے مستحق ہیں او ربرعکس اس کے جو ذمہ داریاں ہم بندوں کے سپرد کی گئی ہیں ، ہم نے ان کو گویا خدا کے سپرد کر کھا ہے ، آخر نماز کے چوروں او رمرض بخل کے بیماروں سے اس قسم کی جو باتیں سنی جاتی ہیں کہ خدا غفور رحیم ہے، وہ ہمیں بخش دے گا، یہ تو نمازوں سے بے تعلق ہو کر جینے والے کہتے ہیں ، غریب، مصیبت زدہ بندوں کی خبر خود ان کا پیدا کرنے والا لے گا، ہم اپنا مال ان پر کیوں خرچ کریں؟ یہ یا اسی قسم کی باتیں بخل کے بیماروں سے عموماً سنی جاتی ہیں۔

حالاں کہ فصل کے سرے پر آپ ف کے جس حرف کو پاتے ہیں کیا یہ صرف بھرتی کے لیے صل پر داخل کیا گیا ہے، حالاں کہ میری سمجھمیں تو یہی آتا ہے کہ خدائی ذمہ داریوں کی تکمیل کے آرزومندوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ جس حد تک اپنی متعلقہ ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں سرگرمیوں سے کام لیں گے اس حد تک وہ پائیں گے کہ خدائی ذمہ داریاں بھی پوری ہو رہی ہیں۔

سچ پوچھیے تواسی ایک ف میں جسے فصل کے شروع میں آپ پارہے ہیں ، اسی میں سب کچھ چھپا ہوا ہے”کوثریت“ اور ” ابتریت“ کی رفتار کی تیزی وسستی اسی کے ساتھ وابستہ ہے ، جس زمانے میں ان دونوں آسمانی وثیقوں کی تعمیلی رفتار بجلی اور برق سے بھی زیادہ تیز تھی تو اس کی بھی وجہ وہی تھی کہ جس صلوٰة ونحر کے ہم ذمہ دار ٹھہرائے گئے تھے، پوری طاقت کے ساتھ ہم اپنی ان ذمہ داریوں کی تکمیل میں مصروف تھے، جوں جوں ان کی تعمیل میں سستی اور غفلت سے ہم کام لیں گے، دیکھا گیا”کوثریت“ و”ابتریت“ کی رفتار بھی دھیمی پڑتی چلی گئی۔

سورة الکوثر کی تین آیتوں میں سے درمیانی آیت کی تعمیل وتکمیل میں جتنا زیادہ انہماک دکھایا جائے گا ف کا تفریعی وتربیتی حرف بتا رہا ہے کہ اوّل وآخر کے دونوں فقروں کی تفسیر بھی مسلمانوں کے سامنے ہوتی چلی جائے گی ، ف کے اس حرف کا یہی مفاد ہے اور یہی میرا مطلب تھا، کہ سارا راز اورسِر صرف اس ایک حرف میں پوشیدہ ہے ، جسے صل کے سرے پر ہم پاتے ہیں۔
Flag Counter