مبصر کے قلم سے
ادارہ
تبصرہ کے لیے کتاب کے دو نسخے ارسال کرنا ضروری ہے۔ صرف ایک کتاب کی ترسیل پر ادارہ تبصرے سے قاصر ہے۔ تبصرے کے لیے کتابیں صرف مدیر الفاروق یا ناظم شعبہ الفاروق کو بھیجی جائیں (ادارہ)
فانی زندگی کے چند ایام
تالیف: حضرت مولانا حسن جان شہید
صفحات:154 سائز:23x36=16
ناشر: القاسم اکیڈمی ،جامعہ ابوہریرہ، خالق آباد، ضلع نوشہرہ
”فانی زندگی کے چند ایام“ کے نام سے یہ کتاب حضرت مولانا حسن جان شہید رحمة الله علیہ کی خود نوشت سوانح حیات ہے، جو ”ماہنامہ القاسم“ میں ان کی زندگی میں قسط وار شائع ہوئی تھی اور اب ”القاسم اکیڈمی“ نے اسے کتابی شکل میں شائع کیا ہے ۔ اس میں ولادت وتعلیم سے لے کرتادم تحریر حالات زندگی جامعیت اور اختصار کے ساتھ تحریر کیے گئے ہیں، تعلیمی مراحل کی تفصیل، تحریکوں اور تنظیموں کا تذکرہ، مختلف ممالک کے اسفار خصوصاً جامعہ اسلامیہ مدینہ یونیورسٹی کا تعلیمی سفر، وہاں کی ایمان افروز داستان، مشہورو معروف اساتذہ وشیوخ کا تعارف او رجمہوریہ ازبکستان کی معلومات افزاء روداد خوبصورت وسلیس انداز میں بیان کی گئی ہے۔ حضرت کے مدینہ یونیورسٹی کے تعلیمی دور میں علامہ ناصرالدین البانی بھی وہاں پڑھایا کرتے تھے اور حضرت نے بھی ان سے پڑھا ہے، نجی مجالس میں ان سے بعض موضوعات پر مباحثے اور مذاکرے بھی کیے ہیں، جن سے حضرت کے علمی رسوخ، گیرائی وگہرائی او رپختہ ومتین انداز گفت گو کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ قارئین کی دلچسپی اور افادیت کے لیے ان مباحثوں کو تبصرے میں ذکر کیا جاتا ہے۔ چنا نچہ حضرت لکھتے ہیں:
”شیخ البانی نے مجھے ایک نجی مجلس میں کہا کہ ” آپ کیوں تقلید کرتے ہیں“ تو میں نے نہایت ادب واحترام کے ساتھ عرض کیا کہ” میں عجمی شخص ہوں او رمجھے کتاب وسنت کے سمجھنے میں کسی عالم کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے تو آپ نے فرمایا کہ ” یہ تو ٹھیک ہے مگر آپ مردوں کی بجائے زندہ علماء کی طرف رجوع کیوں نہیں کرتے “ میں نے عرض کیا کہ ” تشریح او ر استنباط او رمسائل جو پرانے علماء سے نقل ہیں وہ تو کتابوں میں زندہ ہیں وہ تو مرتے نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان پرانے علماء کی دیانت، تفقہ، تقوی اور للہیت پر بعض مسائل میں اختلاف کے باوجود تمام امت کا اتفاق ہے او ر موجودہ زندہ علماء کی دیانت، تقویٰ اور للہیت پر وہ اعتماد نہیں“ تو حضرت خاموش ہو گئے۔
دوسری نجی مجلس میں جب ہم مکتبہ نمنکانی بالمقابل باب الرحمة میں بیٹھے تھے، فرمانے لگے کہ بیس رکعات تراویح خلفاء راشدین سے نقل نہیں ہیں۔ تو میں نے عرض کیا کہ ” خلفاء راشدین کا زمانہ40ھ پر ختم ہو جاتا ہے اور امام ابوحنیفہ، امام مالک او رامام شافعی وغیرہ کا زمانہ تقریباً سن80ھ سے شروع ہو جاتا ہے اور یہ چاروں امام بیس رکعات کے قائل او رحرمین شریفین والے بھی اسی بیس پر عمل کرنے والے ہیں ۔ تو سن40ھ اور سن 80ھ کے درمیان کون سی ایسی ہستی یا حکومت گزری ہے جس نے آٹھ رکعات سے بیس کرائی۔ او رتمام عالم اسلام نے اسے بغیر چون وچرا کے قبول کرکے اس پر عمل شروع کیا، تو آپ نے فرمایا کہ یہ مجھے معلوم نہیں ” تو میں نے عرض کیا کہ یہ مقام تو خلفاء راشدین کو حاصل تھا کہ اُن کے مسائل پر عالم اسلام بلاچون وچرا متفقہ طور پر عمل پیرا ہو جاتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
”ایک دفعہ صفات متشابہہ کے سلسلے میں فرمانے لگے کہ ” ان کے معانی معروف اور معلوم ہیں اور کیفیت مجہول۔“ تو میں نے عرض کیا کہ مثلاً یدالله کا معنی مجھے معلوم نہیں، میں تو عجمی شخص ہوں، مجھے ید الانسان اور یدالحیوان کا معنی معلوم ہے، جس سے مراد ایک آلہ جارحہ ہے ، جو گوشت اور پوست اور ہڈی اور چمڑے سے مرکب ہوتا ہے، جس پر بال بھی ہوتے ہیں اور اس میں پانچ انگلیاں او رناخن بھی ہوتے ہیں۔ البتہ ہریِدِ انسان کی کیفیت دوسرے سے مختلف ہوتی ہے تو مجھے یہی معنی ”ید“ کا معلوم ہے۔ اور ید الله کا معنی معلوم نہیں تو آپ براہ کرم ”ید الله“ کا معنی بورڈ پر لکھ دیجیے، تاکہ مجھے سمجھ آئے تو وہ لکھنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صفات متشابہہ کے لغوی معانی تحت اللفظ ہم کرسکتے ہیں، لیکن اس کی تشریح اور وضاحت معانی معروفہ فی الخلق سے نہیں کرسکتے، اگر ان صفات کو معانی معروفہ کے ساتھ الله تعالیٰ کے لیے ثابت کر لیں، تو اس سے تجسیم لازم آتی ہے او رکیفیت کی جہالت سے ہم تجسیم سے نہیں نکل سکتے۔ انسانوں میں ہر شخص کی کیفیات دوسرے سے مختلف رہتی ہیں، مگر نفس جسمیت میں سب شریک ہیں۔“
کتاب کی طباعت واشاعت معیاری ہے اور القاسم اکیڈمی اس طرح کی کتابوں کی اشاعت پر آفرین کی مستحق ہے۔
برصغیر میں قرآن فہمی کا تنقیدی جائزہ
مؤلف: ڈاکٹر محمد حبیب الله قاضی
صفحات:834 سائز:23x36=16
ناشر: زمزم پبلشرز، شاہ زیب سینٹر، نزد مقدس مسجد اردو بازار کراچی
یہ کتاب مولانا ڈاکٹر محمد حبیب الله قاضی چترالی کا پی، ایچ، ڈی کا مقالہ ہے اور فن تفسیر کے تعارف ، مختلف ادوار میں اس کے ارتقاء ، تفسیر کے قدیم وجدید مناہج واسالیب اور برصغیر میں مختلف مکاتب فکر کی طرف سے لکھی جانے والی تفاسیر کے جائزے پر مشتمل ہے۔ اس میں باب قائم کرکے پہلے کسی موضوع پر گفتگو کی جاتی ہے، پھر نمبر وار حواشی وتعلیقات کو لکھا جاتا ہے او رکتاب کے آخر تک یہی سلسلہ چلتا ہے ۔ آخر میں مصادر ومراجع کی فہرست دی گئی ہے۔ جارجیا اسلامک انسٹی ٹیوٹ امریکا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حافظ عبدالغفار کتاب کے بارے میں اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”مقالہ کی ابتداء میں محترم محمد حبیب الله قاضی صاحب نے لفظ ”تفسیر“ کے لغوی اور اصطلاحی معنی کے ساتھ ساتھ لفظ” تاویل “ کو عربی لغات او راسلامی تاریخ کے ابتدائی اور بعد کے ادوار کے بڑے بڑے مفسرین کی مشہور ومعروف تفاسیر کی روشنی میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، اس کے بعد فاضل محقق نے اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر جدید دور تک کے ”تفسیری ورثہ“ کی ترقی کو پوری تفصیل سے پیش کیاہے۔ موصوف نے اسلامی علم وادب کے ” سنہری دور“ کے مفسرین کرام کے ساتھ ساتھ بیشتر مشہور ومعروف تفاسیر کا مختصراً جائزہ لیا ہے۔ اس ”تفسیری ورثہ“ کی ”تفسیر بالماثور“ تفسیر بالرائے“ تفسیر بالفقہی“ اور ”تفسیر الصوفی“ کے لحاظ سے درجہ بندی کی گئی ہے․․․․․․․
فاضل محقق نے تفسیر کے میدان میں مختلف ادوار کے مفسرین کے اپنے اپنے طریق کار او رمخصوص انداز کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے جس سے قارئین کرام کو اس حقیقت کو سمجھنے میں اچھا موقعہ ملتا ہے کہ کب ، کہاں او رکن حالات میں یہ تفاسیر قلم بند کی گئیں؟․․․․․․․
محترم حبیب الله قاضی صاحب کا مختلف تفاسیر او رمفسرین کرام پر تنقیدی تحقیق او رتجزیہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ موصوف کو موضوع پر مکمل عبور، مبینہ حقائق کا پورا علم اور جدید علم وفضل سے واقفیت حاصل ہے۔ موصوف محقق نے بیشتر نام نہاد اور جعلی مفسرین کی اغلاط، عیوب اور علمی کم مائیگی کی حقیقت سے قارئین کرام( علم تفسیر کے متلاشی حضرات) کو بڑے خوب صورت انداز میں آگاہ کیا ہے۔ موصوف نے برصغیر پاک وہند میں”تفسیر القرآن الکریم“ سے متعلق بہت سی قابل قدر تصانیف پر بھی روشنی ڈالی ہے، نیز ایک ایسی کاوش کی تکمیل کی ہے جس کی عرصہٴ دراز سے ضرورت اورکمی محسوس کی جارہی تھی۔
مقالہ کے ہر باب کے آخر میں ”حوالہ جات اور شرح“ کے حصہ نے تحقیقی کام کی قدر روقیمت اور اہمیت کو اور بڑھا دیا ہے ، مذکورہ حوالہ جات مقالہ کے علمی پہلو کے اعتبار سے ایک مضبوط اور ٹھوس بنیاد فراہم کرتے ہیں جب کہ اہم نقاط کی شرح سے تشریح طلب خیالات ، اصطلاحات، تاریخی واقعات، اہم شخصیات ، مذہبی اور نظریاتی تحاریک وغیرہ جن کا موضوع کے اصل متن میں ذکر کیا گیا ہے خوب وضاحت ہو جاتی ہے ۔“
پروف ریڈنگ او رزبان کی غلطیوں نے کتاب کے حسن تحقیق کو مجروع کیا ہوا ہے، لہٰذا آئندہ ایڈیشن میں ضرور اس کی اصلاح کرلینی چاہیے۔
کتاب کی طباعت عمدہ او رجلد بندی مضبوط ہے۔