Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1432ھ

ہ رسالہ

8 - 17
خواہشاتِ نفسانی اور ہدایاتِ ربّانی
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی

دُعا پر ایک اشکال اور اس کا جواب
یہاں ایک اشکال جو بہ ظاہر واقع ہوتا تھا رفع ہو گیا اور اسی اشکال کی وجہ سے بعض اہلِ حال دعا کو چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ اشکال کی تقریر یہ ہے کہ جس بات کے لیے دعا کی جاتی ہے دو حال سے خالی نہیں یا تو وہ خدا تعالیٰ کی خواہش وارادہ کے موافق ہے یا مخالف ہے، اگر موافق ہے تو اس کا آپ ہی ظہور ہو جائے گا، دعا کی کیا حاجت ہے؟ او راگر مخالف ہے تو ایسی بات کی دعا کرنا گستاخی ہے۔

جواب یہ ہے کہ جس بات کا خلاف ارادہٴ حق ہونا متیقن نہ ہو، بلکہ محتمل بین الامرین ہو، اس کے لیے دعا کرنا نصوص میں مامور بہ ہے اور ماموربہ کا بجالانا خود حق تعالیٰ کی خواہش کے موافق ہے، پس دعا کرنا خلاف خواہش حق نہ ہوا، ہاں! جس امر کا خلاف خواہش حق ہونا متیقین ہو ،اس کے لیے دعا کرنا ممنوع ہے اور خلاف خواہش ہونے کے علم کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ کسی امر حرام اور ممنوع کے لیے دعا کی جائے، جس کا خلاف خواہش حق ہونا نصوص سے معلوم ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ مطلوب حرام او رممنوع تو نہیں، مگر اس کا خلاف خواہش حق ہونا دلیل صحیح سے معلوم ہو چکا ہے، جیسے کوئی اپنی نبوت کی دعا کرنے لگے۔

سوال وجواب
اب ایک سوال باقی رہا ،وہ یہ کہ جس امر کا خلاف منشا حق ہونا متیقن نہیں، جس کے لیے دعا جائز ہے، اگر اس کے لیے دعا کی گئی اور عین دعا کی حالت میں یہ احتمال ہے کہ قبول نہ ہو تو اس وقت دوسرا اشکال ہو گا، وہ یہ کہ دعا تو طلب ہے اور طلب کے وقت ایک شق کو ترجیح دے رہا ہے اور تفویض میں دونوں شقیں مساوی تھیں تو دعا وتفویض کیسے جمع ہوئے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ عارف عین دعا کی حالت میں قبول وعدم قبول دونوں پر دل سے راضی ہوتاہے، مگر طلب میں ایک کو ترجیح دینا یہ بھی رضا ہی کا اتباع ہے۔ تو اس وقت بھی در حقیقت وہ دونوں احتمال پر رضا ہی کا طالب ہے، اگر دعا قبول ہوئی تو ثواب بھی ملے گا او رمراد ظاہری بھی پوری ہو گی اور قبول نہ ہوئی تو اجرو ثواب سے خوش ہو گا او رمراد حق کے پورا ہونے پر اپنی مراد سے زیادہ خوش ہو گا #
        اگر مرادت را مذاق شکر ست
        بے مرادی نے مراد دلبر ست
ترجمہ:” اگر میری خواہش پوری ہو جائے تو شکر کا موقع ہے او راگر خواہش پوری نہ ہوئی تو بھی میری مراد بر آئی کہ محبوب کی خواہش پوری ہو گئی۔“

پس طلب ودعا اور تفویض ورضا دونوں اس طرح جمع ہوگئیں یہاں مضمون مقصود ختم ہو گیا۔

فنا فی الله کا طریقہ
اب صرف مقصود کے متعلق دو تین مختصر جملے باقی رہ گئے ہیں، وہ معروض ہیں ایک یہ کہ یہ تو معلوم ہو گیا کہ خواہش کے فنا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اب یہ بات معلوم کرنا رہ گئی کہ فانی ہونے کی کیا صورت ہے؟ اس کو مولانا فرماتے ہیں #
        با ہواؤ آرزو کم باش دوست
        چوں یضلک عن سبیل الله اوست
ترجمہ:” خواہشات نفسانی اور آرزؤوں کو کم کر وکیوں کہ یہ تمہیں الله کے راستے سے بھٹکا دیں گی۔“

حاصل یہ ہوا کہ ہویٰ کے فانی ہونے کی صورت یہ ہے کہ اس کا اتباع نہ کرے، اس سے وہ مضمحل ہو جائے گا، اضمحلال فنا ہے، پھر اس کی مقاومت آسان ہوجائے گی ،اس کا کسی قدر بیان اثناءِ وعظ بھی ہو چکا ہے، اس سے ” ہواؤ آرزو“ کے فنا کرنے کا حاصل تو معلوم ہو گیا، آگے اس کے طریقہ کا بیان ہے #
        ایں ہوا راہ نشکند اندر جہاں
        ہیچ چیزے جز کہ سایہ ہمرہاں
ترجمہ:” خواہشات نفسانی کو کم کرنے کی کوئی صورت نہیں، سوائے اس کے کہ راہ سلوک میں کوئی ہم سفر راہ نما ساتھ ہو۔“

یعنی خواہش نفسانی کا شکستہ کرنے والا رفیق، طریق کے سوا کوئی نہیں، آگے رفیقِ طریق کی تعیین فرماتے ہیں #
        نفس نتواں کشت الا ظل پیر
        دامن آں نفس کش را سخت گیر
ترجمہ:” نفس کی قوت کو توڑنے والا سوائے شیخِ طریقت کے کوئی نہیں، جب میسر آجائے اس کے دامن کو سختی سے پکڑ لو۔“

یہ ہے وہ رفیقِ طریق یعنی شیخِ کامل پس فانی بننے کی صورت ہے کہ شیخِ کامل کا دامن پکڑ لو۔

بیعت ضروری نہیں کام کرنا ضروری ہے
مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ کسی کے مرید ہی ہو جاؤ۔ اس معاملہ میں بہت لوگ بڑی غلطی میں پڑے ہوئے ہیں ۔ لوگ بعیت کو ضروری یعنی شرط اور کافی یعنی علت سمجھتے ہیں کام نہیں کرتے یا بدوں بیعت کام کو نافع نہیں سمجھتے۔ پس خوب سمجھ لو کہ شیخ کا اتباع ضروری ہے، بیعت ہونا ضرور ی نہیں، یعنی اس پر اصرار نہ کرو کہ بیعت ہی ہو تو کام کروں گا ۔ بس کام کرنا چاہیے اور شیخ سے کام لینا چاہیے۔

مشائخ کا فرضِ منصبی
اب کام کی تفصیل بھی سن لو! شیخ کے تو دو کام ہیں، ایک اصلاح، ایک ذکر کی تعلیم ۔او ران میں بھی اصل کام اصلاح ہی ہے، ذکر اس کی اعانت وبرکت کے لیے ہے، باقی اصلاح کیا چیز ہے؟! سو وہ نفس کو پاک کرنا ہے ذمائم سے، یعنی تربیت باطنی کرنا ،مگر اس کی اعانت کے لیے شیخ ذکر الله کی تعلیم کرتا ہے یوں آدمی اصلاح کی خود بھی تدبیر کر سکتا ہے، مگر شیخ کی تعلیم میں غیبی برکت ہوتی ہے۔ باقی نِرا وظیفہ بدوں اصلاح کے مطلق کافی نہیں ہے، اس خیال کی بھی اصلاح ضروری ہے، بہت لوگ اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ کہ نرا وظیفہ ہی اصلاح کے لیے کافی ہے، حالاں کہ اصلاح کی حقیقت ہی ہویٰ کا نفس سے نکلنا ہے اگر ہویٰ نفس کے اندر ہے تو فرمائیے نِرا وظیفہ کیسے کافی ہو گا؟! یہ کام تو شیخ کا تھا۔

مریدین کی ذمہ داری
اور مرید کا اصل کام ہے اتباع او راتباع کی تکمیل کے لیے دوسرا کام ہے شیخ کو حالات کی اطلاع۔ پس میں خلاصہ اور عطر تصوف کا بتلائے دیتا ہوں کہ اصل مقصود ہویٰ کو ہدیٰ کے تابع کرنا ہے اور یہ جب ہو گا کہ نفس سے ہوا نکل جائے ، یعنی ہوائے نفس مغلوب ہو جائے اور یہ بات شیخ کے واسطہ سے حاصل ہو جاتی ہے، پس یہ ہے خلاصہ۔

مطالعہ مواعظ وکتب قائم مقام شیخ ہیں
دوسرا جملہ یہ کہ اگر کسی کو شیخ کامل نہ ملے تو وہ یہ تدبیر کرے کہ مشائخ کے ملفوظات واحوال کا مطالعہ کرے او رکتابوں سے فنائے نفس کا طریقہ معلوم کرکے عمل کرے، مگر شیخ کی تلاش میں برابر رہے، کیوں کہ کتابوں کے مطالعہ سے شیخ کے برابر نفع نہیں ہو سکتا، پس جس کو شیخ میسر ہو وہ تو ایسا ہے جیسے طبیب سے علاج کرانے والا۔ او رجس کو نہ ملے وہ خود کتابوں میں تدابیر دیکھ کر ایسا علاج شروع کر دے جس میں خطرہ نہ ہو، لیکن ایسا نفع تھوڑا ہی گا، جیسا طبیب سے رجوع کرنے والے کو ہوتا ہے۔ غرض مشائخ کا فرضِ منصبی نفس کی اصلاح ہے یعنی دواعی ذمیمہ کا مغلوب ہوجانا اور جیسے طلب ظاہر میں امراض جسم کے مغلوب کرنے کی تدابیر ہیں اور یہی معنی ہیں صحت کے گو د واعی مرض کے یعنی اخلاط وغیرہ بدن کے اندر باقی رہتے ہیں، مگر اعتدال کے سبب مضر اثر نہیں کرتے ۔اسی طرح طب باطن میں امراض نفس کے مغلوب کرنے کی ایسی تدابیر ہیں جن کے استعمال سے دواعی ذمیمہ کا اضمحلال ہو جاتا ہے ۔ شیخ یہی تدابیر بتلاتا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتا اور یہ تدابیر تم خود بھی اپنے مطالعہ سے معلوم کر سکتے تھے، مگر تمہارا معلوم کرنا ویسا ہی ہو گا جیسا غیر طبیب کتب طب سے طریق علاج معلوم کرتا ہے اور دونوں کا فرق ظاہر ہے۔

حاصلِ تدابیر
او ران مجموعی تدابیر کا حاصل یہ ہے کہ اول تو علم شریعت حاصل کرے، تاکہ افعال واخلاق کا بھلا اور بُرا ہونا معلوم ہو کہ یہ چیز بُری ہے او ریہ اچھی ہے۔ پھر جو بُری خواہش نفس کے اندر پیدا ہو اس کے مقتضا پر عمل نہ کرے اگر پھر خواہش پیدا ہو پھر ایسا ہی کرے، چند روز میں تقاضا جاتا رہے گا اور یہ زوال تقاضا ہر شخص کی استعداد کے موافق مختلف طور پر ہو گا ( مثلاً کسی کو تین بار اس پر عمل کرنے میں نفع ہو گا ،کسی کو زیادہ میں، کسی کو کم میں ) اگر کچھ مدت تک ایسا کیا جائے تو مقاومت نفس آسان ہوجائے گی، یہ طریقہ دونوں شقوں کے ساتھ میں نے اس لیے بیان کر دیا کہ بعض دفعہ شیخ کامل نہیں ملتا تواس صورت میں طالب کو کیا کرنا چاہیے؟ پس وہ یہ دو کام کرے، ایک تحصیل علوم، دوسرے ہوائے مذموم میں نفس کی مخالفت، مگر یہ لازم ہے کہ شیخ کی تلاش میں رہے۔

شیخِ کامل کی علامتیں
تیسرا جملہ یہ کہ یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ شیخ کامل کسے کہتے ہیں؟ پس سنیے کہ شیخ کامل کی سات علامتیں ہیں۔

ایک علامت یہ ہے کہ اس کو علم دین بقدر ضرورت حاصل ہو ۔ ایک یہ کہ علمائے حق سے اُس کو مناسبت ہو ۔ ایک یہ کہ جتنا علم رکھتا ہو اس پر عمل کا اہتمام ہو۔ چوتھے اس کی صحبت میں یہ برکت ہو کہ روز بروز دنیا سے دل سرد ہونے لگے او رحق تعالیٰ سے محبت بڑھنے لگے ۔ پانچویں دقیق علامت ہے وہ یہ کہ اہل علم او راہل فہم کی توجہ اس کی طرف زیادہ ہو یعنی علما اور صلحا کا میلان اس کی طرف زیادہ ہو،ا مرا او رعوام الناس کا میلان زیادہ نہ ہو چھٹے یہ کہ وہ کسی شیخ کامل کا مجاز ہو، یعنی کسی مشہور بزرگ نے اس کو بیعت وتلقین وغیرہ کی اجازت دی ہو۔ ساتویں یہ کہ اس کے اصحاب میں زیادہ کی حالت اچھی ہو ۔ یعنی اس کے ہاتھ سے لوگوں کو شفا حاصل ہوتی ہو اور طریق باطن میں شفا اسی کا نام ہے کہ اپنی حالت شریعت کے موافق ہو جائے، مولانا ان ہی شرائط کا خلاصہ فرماتے ہیں #
        کار مرداں روشنی وگرمی ست
        کار دوناں حیلہٴ وبے شرمی ست
روشنی سے مراد معرفت ہے او ر گرمی سے مراد محبت ہے، یعنی شیخ کامل وہ ہے جسے معرفت بھی حاصل ہو اور صحبت بھی۔ ایک مقام پر مصنوعی پیروں کے بارے میں فرماتے ہیں #
        اے بسا ابلیس آدم روے ہست
        پس بہر دستے نباید داددست
ترجمہ:” کبھی کبھی شیاطین بھی مشائخ کی شکل بنا لیتے ہیں، پس ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے سے بچو۔“

شیخ کے حقوق
اور جب شیخ کامل مل جائے تو اس کے حقوق کے متعلق فرماتے ہیں #
        نفس نتواں کشت الا ظل پیر
        دامن آں نفس کش را سخت گیر

اسی کو شیخ فرید عطار رحمة الله علیہ فرماتے ہیں #
        در ارادت باش صادق اے فرید
        تا بیابی گنج عرفاں را کلید
        بے رفیقے ہر کہ شد در راہ عشق
        عمر بگذشت ونشد آگاہ عشق
ترجمہ:” اے فرید! واردات کے لیے کسی پیر صادق کا ہاتھ تھام لو کہ وہ تمہیں علم وعرفان کے خزانوں کی چابیاں تھما دے۔ بغیرراہ نما کے جس نے بھی اس راہِ عشق میں قدم رکھا عمر گزر گئی، لیکن وہ اسرارِ عشق سے آگاہ نہ ہوا۔“

اور شیخ کے او ربھی حقوق ہیں، جن کا حاصل یہ ہے کہ اس کا جی برا نہ کرے ،اس کی کوشش کرے کہ اس کا دل میلانہ ہو، یہاں تک کہ اگر وہ ادب وتعظیم سے خوش ہو تو اس کی تعظیم کرے اور جو تعظیم نہ کرنے سے خوش ہو تو تعظیم نہ کرے، یہ نہ ہو کہ اپنی مرضی کے موافق عمل کرے اور شیخ کی مرضی کا اتباع نہ کرے، یہ حاصل ہے اتباعِ شیخ کا۔

خلاصہ وعظ
خلاصہ تمام بیان کا یہ ہے کہ اتباع ہویٰ کو ترک او راتباع ہدی کو لازم کرنا چاہیے ۔ یہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے او راسی سے اصلاح ہو سکتی ہے، بدوں اس کے منزل مقصود تک پہنچنا سخت دشوار ہے اور یہ سمجھ لیجیے کہ بدوں کیے ہوئے کوئی کام نہیں ہوتا، اس لیے کام کرنا او رہمت سے کام لینا چاہیے، اس ہمت میں ہماری حالت یہ ہے کہ دنیوی امور میں تو جان لڑا دیتے ہیں اور دنیوی مقاصد کے حاصل کرنے میں عمریں ختم کر دیتے ہیں، مگر دین کے بارے میں دیکھا جاتا ہے کہ عام طور سے قصد ہی نہیں کرتے، بس یہ چاہتے ہیں کہ گھر بیٹھے بٹھائے دین مل جائے، کچھ کرنا نہ پڑے ۔ تو سمجھ لو کہ بدوں سعی کے کچھ نہیں ہوتا، عادة الله یوں ہی جاری ہے ۔ اب میں بیان کو ختم کرتا ہوں۔

دعا کیجیے کہ خدا تعالیٰ عمل کی توفیق مرحمت فرمائیں۔ آمین
Flag Counter