Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1432ھ

ہ رسالہ

6 - 17
قرآن کریم سے استفادے کی شرائط
مولانا محمد یحییٰ نعمانی

راقم سطور اعتراف کرتا ہے کہ قرآن مجید سے استفادے کی جن شرائط کا تذکرہ آئندہ صفحات میں آپ ملاحظہ فرمائیں گے ، خود اس کے اندر ان کی بڑی واضح کمی ہے ۔ میں سچ عرض کرتا ہوں کہ اس موضوع کو سامنے رکھ کر جب قرآنی آیات کوجمع کرنا شروع کیا تو بسا اوقات میں اپنے حال کو دیکھ کر کانپ کر رہ گیا۔ میں لرز اٹھا منافقین او رکفار کے اخلاق وکردار اورنفسیات کی ان بیماریوں کا تذکرہ پڑھ کر، جوان کے لیے قرآن سے استفادہ سے محرومی کا باعث بن رہے تھے۔ بلکہ ایک مرتبہ تو یہ بھی ہوا کہ میں نے اس موضوع پر کچھ لکھنے کی ہمت بھی چھوڑ دی۔ مگر پھر خیال آیا کہ ہو سکتا ہے انہی چند حرفوں سے مجھ بھی کچھ نفع پہنچ جائے اور الله کے دوسرے بندوں کو بھی کچھ فائدہ پہنچے۔

قرآن کے مقصد کا صحیح ادراک

قرآن کریم کے مطالعہ کے وقت یہ بنیادی حقیقت ضرور ذہن میں تازہ رہنی چاہیے کہ اس کا مقصد عام انسانی کتابوں کی طرح کچھ معلومات وافکار کو مرتب کرکے پیش کر دینا نہیں ہے ۔ قرآن نے کہیں اپنا تعارف یہ کہہ کر نہیں کرایا ہے کہ یہ معلومات میں اضافہ کا ذریعہ ہے ۔ بلکہ قرآن در حقیقت انسان کی راہ نمائی او راس کے لیے جینے او رمرنے کا صحیح راستہ بتانے کو اور انسانی عقل وفکر کی تربیت اوراخلاق وکردار کے تزکیہ (Purification) کو اپنا مقصد اور موضوع بتاتا ہے۔ اس نے انسان کو کیوں پیدا کیا ہے ؟ اس کے گرد جو ایک اتھاہ کائنات اپنی رنگا رنگیوں کے ساتھ متحرک ہے، اس کو کس نے اور کیوں پیدا کیا ہے؟ اس پیدا کرنے والی ذات کی کیا صفات اور احوال ہیں؟ اس کا اس کائنات او راس کے نظم وضبط سے کیا تعلق ہے ؟ اس کائنات کا انجام کیا ہے ؟ انسان کا اس کارخانہٴ عالم سے کس قسم کا تعلق ہونا چاہیے؟ وہ اس کا غلام ہے کہ مالک ، یا جواب دہ ذمے دار؟

انسان کو ان سوالات کا جواب چاہیے!!
اس کے پاس جاننے کے لیے دو ذریعے ہیں ۔ حواس ( آنکھ ناک کان ، ذائقہ اور لامسہ) اور عقل۔ مگر ان دونوں طاقتوں کے اپنے حدود ہیں ۔ آنکھ ایک خاص دوری تک دیکھتی ہے ۔ کان ایک خاص درجہ کی آواز کو ہی سن سکتا ہے …… اسی طرح بقیہ حواس اپنے اپنے حدود میں ہی کام کرتے ہیں۔ پھر ان کی غلطیاں بھی کم نہیں ۔ دن کو تارے دکھائی نہیں دیتے او رجس کا فیصلہ ہوتاہے کہ ان کاو جود ہی نہیں، مگر عقل وتجربہ بتلاتے ہیں کہ ان کا وجود ہے۔

پھر عقل بھی ایک حد تک کام کرتی ہے ۔ اس حد تک پہنچنے کے بعد خود اس کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ اپنے قدم روک لے،ورنہ اندھیرے سمندروں میں کھو جائے گی۔ جن سوالات کا تذکرہ کیا گیا، کبھی کبھی عقل نے ان کے جوابات تک رسائی کے لیے زقند ( چھلانگ) لگائی۔ مگر فضا میں ہی معلق ہو کر رہ گئی ۔ پھر اس نے جو جوابات پیش کیے، ہر آنے والی نسل کے لوگ ان کو سن سن کر ہنسا کیے۔

قرآن کے مطالعہ کرنے والے کے ذہن میں قرآن کی یہ حیثیت اور یہ حقیقت تازہ رہنی چاہیے کہ اس علم کا تعلق اس کی اپنی زندگی کے ہر گوشہ سے ہے ۔ اس کے سوچنے کے ڈھنگ، اس کے فکر کے انداز ، اس کی پسند ناپسند کے معیار، اس کی زندگی کی ترجیحات، حتی کہ اس کے جذبات وتمناؤں اور آرزوؤں سے ہے ۔ قرآن اس ”حیوان ناطق“ کے اندر ایک ” بندہ مومن“ پیدا کرنا چاہتا ہے۔

وحی ان ہی سوالات کا جواب پیش کرتی ہے۔ قرآن ان سوالات کا جواب ایک نورانی علم کی شکل میں دیتا ہے، جس سے دل کی اندھیری وادیاں بقعہ نور بن جاتی ہیں۔ نفسیات میں اعتدال پیدا ہوتا ہے اور اخلاق وکردار میں پاکیزگی آتی ہے۔

پھر قرآن اس علم کو اور ان حقائق کو ایک نرے علم او رخشک معلومات کی شکل میں پیش نہیں کرتا، بلکہ وہ اس کو یقین واذعان کے درجہ میں پہنچانا چاہتا ہے۔ تاکہ انسان کی زندگی کے آئینہ میں ان حقائق کی تجلی ہو۔

قرآن کا سب سے بڑا مقصد انسان کے دل کے روگوں (امراض) کا علاج ہے ۔ وہ بیماریاں جو دل کے دریچوں کو بند کرکے قبول حق کے امکانات ختم (یاکم) کر دیتی ہیں۔ جن کا روگی اپنے آپ کو صحت مند سمجھتا ہے او رکبھی اس کی عقل حق کو تسلیم بھی کرتی ہے، مگر وہ اپنے دل کے ان روگوں کی وجہ سے اس حق کے آگے جھک نہیں پاتا۔

قرآن سے استفادہ کے مختلف درجات ہیں۔ اسی طرح اس سے محرومی کے بھی الگ الگ درجے ہیں ۔ سب سے بڑی محرومی تو یہ ہے کہ انسان اس کو او راس کی دعوت کو جھٹلا دے او راس کی صحت کا ہی اقرار نہ کرے ۔ لیکن اس کے علاوہ یہ بھی قرآن سے محرومی ہے کہ انسان گو اس کی تصدیق کرے اوراس پر ایمان بھی لائے، مگر اس کے اندر اس تصدیق کے وہ اثرات ونتائج نہ پیدا ہوں جو ہونے چاہییں۔ اس دوسری قسم کی محرومی کے بے شمار درجے ہو سکتے ہیں ۔ الله بچائے۔ قرآن مجید میں جابجا قرآن سے فائدہ اٹھانے اوراس کے اثرات ونتائج کے ظہور کے لیے مخاطب کے اند رکچھ شروط لازمی قرار دی گئی ہیں۔ اسی طرح کچھ صفتوں کو قرآن کی افادیت کے ظاہر ہونے میں رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔

طلب وجستجو
قرآن کے چشمہ فیض سے فائدہ اٹھانے کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان کے اندر اس دولت کی طلب ہو، جس کو قرآن تقسیم کرتا ہے۔ وہ ہدایت وراہ نمائی کا منگتابن کر قرآن کے دربار میں حاضر ہو۔ اس کے اند راتنا شعور او راتنی بلند نظری ہو کہ وہ ہدایت وگمراہی کا فرق سمجھتا ہو اور انسانی زندگی کے لیے اس کی قیمت واہمیت کا اس کو احساس ہو۔ انسان کے اندر ہدایت کی طلب او رمقصود تک رسائی او را س کی معرفت کی پیاس جتنی زیادہ ہو گی قرآن کے چشمہٴ حیواں سے اس کو اسی قدر ملے گا۔

اگر کسی کے اندر ہدایت وراہ نمائی کی طلب نہیں۔ سچ کی راہ کی جستجو نہیں تو قرآن اس کے لیے اپنے دروازے کم ہی کھولتا ہے ۔ جس شخص کے اندر اتنا شعور نہیں کہ وہ اپنی زندگی کے لیے سچ او رحق کی راہوں کا متلاشی ہو اور جس کے اندر اتنی ہمت وعزیمت ہی نہیں کہ وہ حق و صداقت کی خاطراپنے اندر کچھ تبدیلی لائے اور اپنی مادی خواہشات کا کوئی حصہ قربان کرے، قرآن سے اس کو فائدہ ( حقیقی فائدہ) ملنے کی بہت کم امید ہے۔

﴿ویھدی إلیہ من أناب﴾․ ( رعد:27)
اور اپنی طرف اس کو ہدایت دیتا ہے جو رجوع (متوجہ) ہو۔

جن لوگوں کے اند رہدایت کی طلب ہی نہ ہو ، جو حق کی جستجو ہی نہ رکھتے ہوں او رجن کے لیے ہدایت اور راہ یابی کی دعوت میں کوئی کشش نہ ہو، ان کو قرآن سے کوئی فائدہ پہنچنے کی امید نہیں۔ قرآن نے ایسے لوگوں کو گونگا، بہرا اور قرآن کی دعوت کے سمجھنے کے ناقابل کہا ہے۔

﴿فإنک لا تسمع الموتی ولا تسمع الصم الدعاء إذاولوا مدبرین․ وما انت بھادی العمی عن ضلالتھم﴾․
تم ان لوگوں کو اپنا پیغام نہیں سنا سکتے جن کے دل مردہ ہو چکے ہیں اور نہ تم بہروں کو آواز سنا سکتے ہو اور نہ اندھوں کو راستہ دکھا سکتے ہو۔

اسی لیے قرآن کے بالکل شروع میں پڑھنے والے کے دل میں اس جذبہ کو پیدا کرنے او راس کے نفس کو ہدایت کی پیاس سے آشنا کرانے کے لیے ایک دعا کرائی گئی ہے ۔ یہ دعا اپنے معنی کی بلاغت اور دل پذیری میں قرآن کا ایک عظیم ترین معجزہ ہے۔ دعا شروع ہوتی ہے مالک الملک کی تمجید وتعظیم او رحمد وثنا سے۔ بندہ سراپا عجز ونیاز بن کر اس کے سامنے اس کی رحمت کی دہائی دیتا ہے۔ اس کی ملکوتیت اور اپنی بندگی کا اعلان واقرار کرتا ہے ۔ اور آخر کار اس کی ڈیوڑھی پر اپنی طلب کا ڈیرہ ہی ڈال دیتا ہے ﴿إیاک نعبد وإیاک نستعین﴾ یہاں آکر اس کی زبان پر دعا جاری ہوتی ہے کہ ” دکھادے ہم کو سیدھا راستہ، ان لوگوں والا راستہ جن پر تیرا فضل ہوا۔ جن پر نہ تیرا غصہ ہوا ،نہ وہ گمراہ ہوئے۔“

پھر الله تعالیٰ نے اس دعا کو بار بار دہرانا او رپڑھے جانا ہر مسلمان کے اوپر فرض کردیا۔ تاکہ ہدایت یابی کی پیاس ہر دم بھڑکتی رہے او رہمت کاشہ سوار کسی منزل پر قانع نہ ہو۔ ہدایت کی طلب پیدا کرنے کے لیے محض تلقین کا اسلوب بھی اختیار کیا جاسکتا تھا، جس میں خدائی ہدایت کی اہمیت، انسان کے لیے اس کی ضرورت بیان کی جاتی ۔ مگر جو تاثیر اور کیف آوری دعا میں او راس معجزانہ دعا میں ہے وہ اُس خشک ومنطقی اسلوب میں کہاں؟

فیضان خداوندی کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ جتنی جس کی پیاس زیادہ ہوتی ہے ساقی ازل اتنی ہی سیرابی کا انتظام کرتا ہے۔ جتنا کسی کی طرف سے ”ھل من مزید“ کی فغان مسلسل کی لے بڑھتی ہے۔ اتنا ہی ادھر سے ”ید الله ملأی سحاء اللیل والنھار“ کا معاملہ ہوتا ہے، جس کی ہمت جتنی بلند اورجس کا کاسہ گدائی جتنا بڑا ہوتا ہے اتنے ہی ادھر سے جود وسخا کے سمندر لٹائے جاتے ہیں۔

چوں کہ قرآن کی ہدایت کا فیضان سب سے زیادہ اس کے حامل رسول صلی الله علیہ وسلم پر ہوتاتھا ،اس لیے اس کے دل میں ہدایت کی طلب وپیاس سب سے زیادہ پیدا کر دی گئی، نبوت سے پہلے ہی قدرت نے اس کے دل میں ایک انجانی سی خلش ایک نامعلوم سی پیاس رکھ دی تھی، جس کو وہ غار حرا کی خلوتوں میں بجھانے کی کوشش کرتا تھا۔

یہیں سے ایک رازیہ بھی کھلتا ہے کہ اس طلب او رپیاس کے لیے ضروری ہے کہ یہ اپنے اندر ایک روحانیت کا مزاج رکھتی ہو۔ جیسا کہ آئندہ اس کا مستقل تذکرہ آئے گا۔ یہیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جو لوگ قرآن کا پیغام کسی کو سنانا چاہتے ہیں۔ یاکسی جماعت کو اس کا مخاطب بناتے ہیں، ان کے لیے لازم ہے کہ وہ سب سے پہلے ان کے اندر اتنی بلند نظری اور فکری سنجیدگی پیدا کریں کہ وہ گمراہی او رہدایت کے فرق کو سمجھیں او راپنی زندگی کو ناؤونوش سے زیادہ کسی اور مقصد کا حامل بنائیں۔ جن لوگوں کے احساس وشعور پر مادیت اور لذت اندوزی کا ایسا غلبہ ہو کہ اس کے سامنے سارے مقاصد کشش کھو دیں ایسے لوگوں کے لیے قرآن کی مسیحائی بھی بے اثر ثابت ہو گی۔

تدبر
قرآن مجید سے حقیقی استفادہ کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس کو گہرے غور وفکر اور تدبر کے ساتھ پڑھا جائے۔ قرآن معانی وحکمتوں کا بحر زخّار ہے۔ اس کی گہرائی کی اتھاہ تک پہنچنا ممکن نہیں ہے ۔ اس کے معانی تہہ در تہہ ہیں، ایک سطح کے سامنے آنے کے ساتھ اگر کسی نے یہ سمجھ کر غور وتدبر چھوڑ دیا کہ وہ اب حقیقت مقصود تک پہنچ گیا تو اس کا فہم سطحی او رتاثر ہلکا رہے گا۔اس لیے قرآن کی ایک ایک سورت او رایک ایک آیت پر لمبے غور وتدبر کی مدت گزارنی پڑے گی۔

قرآن نے اپنے نزول کا مقصد ہی یہ بتلایا ہے کہ لوگ اس مبارک کتاب کی دعوت وپیغام میں غور کریں او راس سے نصیحت حاصل کریں۔ ﴿کتاب انزلناہ الیک مبارک لیدبروا آیاتہ ولیذکر اولو الالباب﴾․

﴿أفلا یتدبرون القرآن ام علی قلوب أقفالھا﴾․ کیا یہ قرآن پر غور نہیں کرتے؟( ان کے) دلوں پر تالے لگ گئے ہیں؟

صحابہ کرام جنہوں نے قرآن کو سب سے زیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھا اور ان کے ذہن ومزاج پر قرآن کا سب سے گہرا رنگ چڑھا اس کا ایک سبب یہ تھا کہ قرآن پر برابر تدبر او رغور کرتے رہتے تھے۔ ان میں بعض لوگوں نے ایک ایک سورہ پر بلا مبالغہ سالوں ڈیرے ڈالے ہیں۔ ایک تابعی عالم ابو عبدالرحمن سلمی ہیں۔ کہتے ہیں کہ صحابہ میں سے جو لوگ قرآن کے عالم تھے وہ اپنا یہ معمول بتلاتے تھے کہ جب وہ کوئی آیت سیکھتے تھے تو اس وقت تک اس سے آگے نہیں بڑھتے تھے جب تک اس کے سارے علمی وعملی پہلوؤں کو سمجھ نہیں لیتے تھے۔ (الاتقان:176/2)

مگر ایک الم ناک حقیقت یہ ہے کہ قرآن جیسی کتاب جس نے شاید دنیا کی ساری کتابوں سے زیادہ غور وتدبر کی دعوت دی ہے اس کو پڑھنے والوں کی ایک بڑی اکثریت اس کو بغیر سمجھے، آنکھ بند کرکے پڑھنے کو کافی سمجھتی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کے محض الفاظ پڑھنے میں بھی عظیم برکتیں ہیں او راس پر بھی بڑا ثواب ہے، مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن محض اس لیے نہیں نازل ہوا تھا۔ اس کے نزول کا مقصد سوائے غوروتدبر کے کسی طرح حاصل نہیں ہو سکتا۔

افسوس کہ جو لوگ عربی زبان براہ راست سمجھتے ہیں ان میں سے بھی اچھی خاص اکثریت تلاوت کرتے وقت ذاتی طور پر گہرے تدبر کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ پھر اگر قلب پر قرآنی کیفیات کا نزول نہیں ہوتا تو کس کی خطا؟ اگر دل ایمان سے معمور نہیں ہوتے تو کس کی کمی؟ اگر فکر ونظر میں نورانیت نہیں پیدا ہوتی تو کس کا جرم؟

اسی طرح جو لوگ قرآن کی زبان نہیں سمجھ سکتے ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان کی ان کتابوں کو حرز جاں بنا لیں جو قرآنی دعوت وپیغام کی تشریح کرتی ہیں۔ یا قرآن مجید کے حلقوں میں پابندی کے ساتھ شریک ہوں۔
Flag Counter