گروہی افتراق
حافظ بشیر احمد غازی آبادی
صرف دائمی زندگی اور اخروی سرور وراحت ہی کے لیے نہیں ، مادی زندگی کی فلاح وبہبود اور اسلامی تہذیب وثقافت کی حفاظت کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ مسلمان آپس میں اتحاواتفاق کے ساتھ رہیں اور نفاق وانتشار، مردم آزاری اور برادر کشی کی تباہ کاریوں سے بچیں۔ارباب فکر ونظر کا اس پر اتفاق ہے کہ گروہی افتراق اور فکری نزاع، انسانیت کی عزت وآبرو، آدمیت کے شرف وکمال، اقتصادی ومعاشی خوش حالی اور باہمی ربط وتنظیم کی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
البتہ اعتدال کے ساتھ، دیانت دارانہ اختلاف رائے بلاکسی شبہ کے، قوم کے فکر وتدبر، علم وخبر او رعدل ودیانت کا مظہر ہے ۔ زندگی کی حقیقت پسندانہ نظریات کے فروغ وارتقا کے لیے، ذہانت آمیز تعمیری او رمفکرانہ نکتہ چینی کی اسلام صرف اجازت ہی نہیں دیتا، بلکہ ہمت افزائی کرتا ہے ۔ اس لیے کہ عسکریت وسیاست اور قوت وعظمت کی اہمیت بجا اور درست ! مگر اسلام کے نزدیک اگر اخلاق اور خوف خدا ان خوبیوں میں شامل نہیں ہیں تو وہ ساری جدوجہد فساد خیز ہے ، جس کا کبھی کوئی مفید اور کار آمد نتیجہ نہیں نکل سکتا، لہٰذا جس مشورہ میں خلوص اور فرض شناسی شامل ہو اورجس سے مخلوق خدا کی فلاح وعافیت مقصود ہو، وہ قابل قدر ہے ، مشیر،خواہ معمولی آدمی ہو یا غیر معمولی، جو لوگ مخلصانہ مشوروں کو نہیں مانتے، وہ اپنی خامیوں اور فروگزاشتوں کی اصلاح کبھی نہیں کر سکتے۔
جن لوگوں کو خدا نے سنجیدگی، احساس ذمہ داری، راست شعاری ، بلند نگاہی، سوجھ بوجھ عطا فرمائی ہے۔ وہ اہم معاملات ومسائل میں، دانش مند اور صائب الرائے حضرات سے مشورہ ضرور کرتے ہیں ، چوں کہ یہ طریقہٴ کار اختلافات ونزاعات کو کم کرنے کا بہترین او رمعقول ومتوازن ذریعہ ہے ، کاروبار زندگی میں ہر آدمی کو گوار او رناگوار معاملات سے دو چار ہونا پڑتا ہے اوراچھا آدمی وہ ہے جو ناگوار کوبرداشت کر لے ۔ اور گوارا پر معقولیت کا مظاہرہ کرے۔
جن لوگوں کے عقائد ونظریات غیر اسلامی اور ذہن مجرمانہ ہیں وہ تعصب ومنافرت کی لت میں مبتلا ہونے کے ساتھ ساتھ ، کم فہم او رکوتاہ عقل بھی ہوتے ہیں ۔ یہ مروت، شرافت او رانسانیت کے دشمن کافروں ، منکروں اورخدا کے باغیوں سے مزاحمت نہیں کرتے بلکہ مسلمانوں ہی سے گرم پیکار وبرسرجنگ رہتے ہیں اور خواہ یہ کسی بھی لباس میں آئیں۔ مقصود حقیقی ذاتی اغراض کی تکمیل او رحب دنیا ہی ہوتا ہے ، کتاب ہدایت میں ایسی گروہ بندی اور تفرقہ اندازی کی سخت ممانعت آئی ہے۔
الله رب العزت فرماتے ہیں ( ملاحظہ ہو پارہ نمبر4، رکوع نمبر2، سورہ آل عمران)
”اے ایمان والو! خدا سے ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور اسلام ہی پر مرنا اور سب مل کر خدا کی ( ہدایت کی ) رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی ( خدا کی) مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے ۔“
اسی رکوع میں آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے: اوران لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہو گئے اور واضح احکام آنے کے بعد ایک دوسرے سے (خلاف) واختلاف کرنے لگے۔“
اس فرمان خدا وندی کے الفاظ کو غور وفکر کے ساتھ ملاحظہ فرمائیے۔ معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان سے دشمنی کا فرانہ شعار ہے اورباہمی اخلاص ومحبت ایمان کی علامت ہے ۔ سہو ونسیان لازمہٴ بشریت ہے ، اگر غلطی ہو گئی ہے تو حصول رضائے الہی کے لیے احساس ندامت کافی ہے ، لیکن کسی مسلمان کا جان بوجھ کر مسلمانوں میں فساد پھیلانا، غداری او رملت فروشی ہے۔ جو اسلام کی تباہی وبربادی کے مترادف ہے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی عادت تھی کہ کبھی آپ کسی کو برا نہیں کہتے تھے۔ اگر حضور صلی الله علیہ وسلم کی موجودگی میں کبھی لوگ کسی کو برا کہتے تو حضور کو ناگوار گزرتا اور آپ ان کو سختی کے ساتھ منع فرماتے، حد یہ ہے کہ جن لوگوں نے رسول الله کے ساتھ جان بوجھ کر زیادتیاں کیں آپ نے ان کی تحقیر وتذلیل بھی گوارا نہیں کی ۔ جب آپ کو کسی مسئلہ میں دو باتوں کااختیار دیا جاتا تو آسان کو اختیار فرماتے، بشرطِ کہ اس میں گناہ کا شائبہ نہ ہو۔ کیوں کہ گناہ کے کاموں سے آپ کو سخت نفرت تھی ! کبھی اپنے ذاتی معاملے میں انتقام نہیں لیا اور کبھی کسی مسلمان پر لعنت نہیں کی ، آپ کسی کی جائز درخواست کبھی رد نہیں فرماتے تھے ۔فاتح خبیر حضرت علی مرتضیٰ کرم الله وجہہ کا ارشاد گرامی ہے کہ ”نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کبھی کسی کو برا نہیں کہا کسی کی عیب گیری نہیں کی ، کبھی کسی کی ٹوہ میں نہیں گئے، بحث ومباحثہ سے دور رہے او ربے ضرورت اور بے مطلب بات کبھی نہیں کی۔“
ان ارشادات عالیہ سے معلوم ہوا کہ کسی مسلمان پر لعنت بھیجنا، ذلت کے ساتھ اس کا نام لینا، خامیوں کی تلاش میں اس کی ٹوہ میں لگنا۔ بحث ومباحثہ میں الجھ کر تضیع اوقات کرنا، بلاضرورت او ربے مطلب باتیں کرنا اسوہٴ حسنہ کے خلاف ہے، جو لوگ ان حرکتوں کے مرتکب ہوئے ہیں وہ یقینا اسلامی تعلیمات کے خلاف کام کرتے ہیں ۔ جس سے مسلمانوں کی رسوائی ہوتی ہے او رافتراق وانتشار کی طاقتوں کو شہ ملتی ہے، خدا مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ آپس میں نفاق مت پھیلاؤ اور اتفاق واتحاد کے ساتھ رہو، تاکہ تمہارے سلوک سے خائف ہو کر تمہارے دشمن نہ تمہیں ذلیل ورسوا کر سکیں اورنہ انفرادی اور اجتماعی طور پر تمہیں نقصان پہنچا سکیں۔
یہ نکتہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جب بد گمانی کو فروغ حاصل ہوتا ہے، تو گروہی افتراق اور فکری نزاع کو پھیلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے۔ اس لیے کہ بد گمانی میں مبتلا شخض کو اپنے مخالف کے کسی کام میں حسن نیت نظر نہیں آتا،، وہ نفرت اور دشمنی کے جذبات میں سرشار ہو کر تمام لوگوں کو اپنے ہم خیال بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، بغض وحسد اس کو صحیح بات سوچنے کی مہلت ہی نہیں دیتے، افضل الخلائق صلی الله علیہ وسلم نے اس عادت سے منع فرمایا ہے ۔ سید المرسلین کا ارشاد گرامی ہے کہ” تم بدگمانی سے بچو۔ کیوں کہ بد گمانی سب سے جھوٹی بات ہے، تم دوسروں کی ٹوہ میں نہ رہا کرو اور نہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی بے جا ہوس کرو، نہ آپس میں حسد اور بعض اور نہ ایک دوسرے سے منھ پھیرو اور اے الله کے بندو! جیسا پر وردگار عالم کا ارشاد ہے ، آپس میں بھائی بھائی ہو جاؤ۔“
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے: (ملاحظہ ہو پارہ نمبر5، رکوع نمبر2، سورہ نساء) ”اور جس چیز میں خدا نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ اس کی ہوس مت کرو۔“
خالق کائنات اورباعث تخلیق کائنات صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات سے ظاہر ہوا، کہ الله کی مصلحت یہ ہے کہ وہ بعض کو بعض پر فضیلت بخش دیتے ہیں، مسلمان کو اس کا حسد نہیں کرنا چاہیے اور نہ اس حرص وہوس کا شکار ہو کر مسلمانوں کے درمیان گروہی افتراق اور فکری نزاع پیدا کرنے کی جدوجہد کرنا چاہیے، اس ہدایت کے خلاف جو بھی مسلمان عمل کرتا ہے وہ یقینا خدا او راس کے رسول کی ناراضگی مول لیتا ہے، الله تعالیٰ اس گمراہی میں کسی مسلمان کو مبتلا نہ کرے۔
ارسطو کا قول ہے کہ فضیلت کے لیے صرف اس قدر جان لینا ہی کافی نہیں ہے کہ وہ کیا شے ہے؟ بلکہ اس سے زائد او رچیزوں کی بھی ضرورت ہے ، مثلاً اس کے قیام وحفاظت کے لیے ریاضت ، اس کا روز مرہ کے کاموں میں استعمال اور اسی قسم کے دوسرے وسائل واسباب کی ایجاد، تاکہ یہ سب باتیں مل کر ہم کو صاحب فضیلت اور نیکو کار بنا سکیں۔ ظاہر ہوا کہ ارتقائے انسانیت کے مقاصد عظمیٰ میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ محض فاضلانہ گفتار کوئی حیثیت نہیں رکھتی، جب کردار میں فضیلت شامل نہ ہو ، لہٰذا اس شخص کی بد کرداری میں کس کو شبہ ہو سکتا ہے ۔ جو ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لیے افتراق وانتشار اور دجل وفریب سے کام لے یہ مت فراموش کیجیے کہ ہر شخص کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ عقل مند ہو ۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ نیک چلن اورایمان دار ہو۔
جو مذہب دنیا میں جہل ونادانی او رنفاق وانتشار مٹانے کے لیے آیا ہے ، جس نے بدترین دشمنوں کو بہترین دوست بنایا، جس کا اعلان ہے کہ ”خدا مفسدوں کو دوست نہیں رکھتا۔“ او ر”فساد اس کو پسند نہیں ہے ۔“ اس مذہب کے ماننے والے لوگ اگر گمراہی، افتراق اور فکری نزاع کی لعنت میں مبتلا ہوں، تو اس کج فہمی ،کور دماغی اور سیہ بختی پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے ۔ وہ فرزندان توحید کے دشمن، جو مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑاتے ہیں۔ لباس اور وضع قطع کے لحاظ سے خو اہ کچھ بھی ہو ، بلا کسی حجت کے ننگ ملت ، ننگ دین اور ننگ وطن ہیں ۔ مسلمان ہونے کے مدعی ہونے کے باوجود ایک د وسرے کے ساتھ دھینگا مشتی اور افتراتفری، الزام تراشی، بہتان سازی، گالی، گلوچ، تحقیر وتذلیل، فقرے بازی، غنڈہ گردی اور آواز کسنا، خواہ مذہبی عقائد اور افکار میں اختلاف کی وجہ سے ہو یا سیاسی نظریات کی بنا پر ، احمقانہ وفاسقانہ مشغلہ ہے، جس کا اسلامی فکر وفلسفہ اورعلم وتدبر سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ حقیقت پسندی، اسلام دوستی او رمتانتجس کی فطرت میں شامل نہیں ہے ۔ وہ خواہ اور کچھ ہو ، مومن، متقی اور پرہیز گار ہر گز نہیں ہے، جن لوگوں کو خدا نے دیانت دار انہ اختلاف کرنے کی صلاحیت بخشی ہے ، وہ معاملہ فہم، ایمان دار اور متحمل مزاج ہوتے ہیں۔
قرآن کریم اس پر شاہد ہے کہ گروہی افتراق اور فکری نزاع مسلمانوں کی تحقیر وتذلیل او رادبار کا اہم سبب ہے۔ پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے:
”اور خدا اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے حکم پر چلو اور آپس میں نزاع پیدا نہ کرنا کہ ایسا کرو گے تو تم بزدل ہو جاؤگے اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا۔“(ملاحظہ ہو پارس نمبر10 رکوع نمبر2 سورہ انفال) تمام مسلمانوں کا یہ مذہبی فریضہ ہے کہ وسعت نظر، ٹھنڈے دل ودماغ او رعقیدت کے ساتھ اس ارشاد خدا وندی پر غور کریں۔
صاف اور واضح طور پر تاکید کی جارہی ہے کہ اگر بہادر اور اقبال مند رہنا چاہتے ہو تو آپس کے افتراق او راختلاف سے دور رہو۔ چوں کہ باہمی فساد وہ خرابی ہے جو فکروعمل ، اخلاق وعادات اور کردار واطوار کو یکساں طور پر خراب کرتی ہے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے تمام مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔ لہٰذا خدانخواستہ کسی معاملہ میں اختلاف رائے بھی ہو ، تو ایک دوسرے کو طعن وطنز کی بہ جائے ہمدردی ومحبت اور خلوص سے سمجھانے کی کوشش کرنی چا ہیے۔
یہ ایک تاریخی مشاہدہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے اشتراک واتحاد کے ساتھ اپنے قدم آگے بڑھائے، دنیا کی کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کرسکی۔
پرورد گارِ عالم تمام مسلمانوں کو اپنے نامور اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین.