Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1432ھ

ہ رسالہ

4 - 19
***
احسان “ اور ہماری زندگی
مولانا محمد خالد غازی پوری
ڈاکٹر محمد عبدالحئی صاحب عارفی  زمانہ کی ان درخشاں شخصیتوں میں سے تھے جو عمر بھر شہرت ، جاہ و منصب اور نام ونمود سے دامن بچا کر زندگی گزارتے ہیں ، لیکن ان کی سیرت وکردار کی خوش بو خود بخود دلوں کو کھینچتی اور ماحول کو معطر کرتی ہے ، وہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے تربیت یافتہ اور تصوف وسلوک میں ان کے خلیفہ مجاز تھے ، چناں چہ لوگ اپنے اعمال واخلاق کی اصلاح کے لیے ان سے رجوع کرتے اور ان کی ہدایات وارشادات سے فیض یاب ہوتے تھے ، ایک مرتبہ ایک صاحب ڈاکٹر صاحب  کے پاس حاضر ہوئے او راپنا حال بیان کرتے ہوئے کہنے لگے کہ الحمدلله! مجھے احسان کا درجہ حاصل ہو گیا، ( ”احسان“ ایک اصطلاح ہے ، جس کی تشریح حدیث جبرئیل میں یہ کی گئی ہے کہ الله تعالیٰ کی عبادت اس دھیان کے ساتھ کی جائے جیسے عبادت کرنے والا الله تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے ، یا کم از کم اس دھیان کے ساتھ کہ الله تعالیٰ اسے دیکھ رہے ہیں) ان صاحب کا مطلب یہ تھا کہ عبادت کی ادائیگی کے دوران بحمد الله مجھے یہ دھیان حاصل ہو گیا ہے ، جسے حدیث کی اصطلاح میں ”احسان“ کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے جواب میں انہیں مبارک باد دی اور فرمایا کہ ”احسان“ واقعی بڑی نعمت ہے ، جس کے حاصل ہونے پر شکر ادا کرنا چاہیے ، لیکن میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں کہ احسان کا یہ درجہ صرف نماز ہی میں حاصل ہوا ہے یا جب آپ اپنی بیوی بچوں سے یا دوست احباب سے کوئی معاملہ کرتے ہیں اس وقت بھی یہ دھیان باقی رہتا ہے ؟ اس پر وہ صاحب کہنے لگے کہ ہم نے تو یہی سنا تھا کہ احسان کا تعلق نماز اور دوسری عبادتوں کے ساتھ ہے ، لہٰذا میں نے تو اس کی مشق نماز ہی میں کی ہے اور بفضلہ تعالیٰ نماز کی حد تک یہ مشق کام یاب رہی ہے ۔ لیکن نماز سے باہر زندگی کے عام معاملات میں کبھی احسان کی مشق کا خیال ہی نہیں آیا ، ڈاکٹر صاحب  نے فرمایا کہ میں نے اسی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے آپ سے یہ سوال کیا تھا، بے شک نماز اور دوسری عبادتوں میں یہ دھیان مطلوب ہے ، کہ الله تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں ۔ لیکن اس دھیان کی ضرورت صرف نماز ہی کے ساتھ خاص نہیں ، بلکہ زندگی کے ہر کام میں اس کی ضرورت ہے ، انسان کو لوگوں کے ساتھ زندگی گزارتے اور ان کے ساتھ مختلف معاملات انجام دیتے ہوئے بھی یہ دھیان رہنا چاہیے کہ الله تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں ، خاص طور پر میاں بیوی کا تعلق ایسا ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے دَم دَم اور لمحہ لمحہ کے ساتھی ہوتے ہیں او ران کی رفاقت میں بے شمار اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں ، بہت سی ناگواریاں بھی پیش آتی ہیں اورایسے مواقع بھی آتے ہیں جب انسان کا نفس اسے ان ناگواریوں کے جواب میں ناانصافیوں پر ابھارتا ہے ، ایسے موقع پر اس دھیان کی ضرورت کہیں زیادہ ہے کہ الله تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں ، اگر یہ احساس ایسے وقت دل میں جاگزیں نہ ہو تو عموماً اس کا نتیجہ ناانصافی او رحق تلفی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
اس کے بعد ڈاکٹر صاحب  نے فرمایا کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ آپ نے تمام عمر کبھی اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ طبعی غصے او رڈانٹ ڈپٹ کا معاملہ نہیں فرمایا او راس سنت پر عمل کرنے کے لیے میں نے بھی یہ مشق کی ہے کہ میں اپنے گھر والوں پر غصہ نہ اتاروں ، چناں چہ میں الله تعالیٰ کے شکر کے طور پر کہتا ہوں کہ آج مجھے اہلیہ کے ساتھ رفاقت کو (51) اکیاون سال ہو چکے ہیں لیکن اس عرصے میں الحمدلله میں نے کبھی ان سے لہجہ بدل کر بھی بات نہیں کی۔ بعد میں ایک مرتبہ کسی موقع ڈاکٹر صاحب  کی اہلیہ محترمہ نے از خود حضرت کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ تمام عمر مجھے یاد نہیں ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے ناگواری کے لہجے میں بات کی ہو اور نہ کبھی مجھے یہ یاد ہے کہ انہوں نے مجھ سے براہ راست اپنا کوئی کام کرنے کو کہا ہو ، میں خود ہی اپنے شوق سے ان کے کام کرنے کی کوشش کرتی تھی ، لیکن مجھ سے حکماً وہ نہیں کہتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب  کی مذکورہ باتیں یہ بتا رہی ہیں کہ پر مسرت او رخو ش گوار ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے تقویٰ ضروری ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ عمل ( جو ہوا میں اڑنے او رپانی پر چلنے کی کرامتوں سے ہزار درجہ اونچے درجے کی کرامت ہے ( درحقیقت اسی تقویٰ کا نتیجہ اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد کی عملی تصویر تھا کہ : ” تم میں سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہوں ۔“
بے شک قرآن کریم نے مردوں کو عورتوں پر قوام(نگراں ) قرار دیا ہے لیکن آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ارشادات او راپنے عمل سے یہ بات واضح فرمادی ہے کہ نگراں ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مرد ہر وقت عورتوں پر حکم چلایا کرے ، بیوی کے ساتھ خادمہ جیسا معاملہ کرے ، یا اسے اپنی آمریت کے شکنجے میں کس کر رکھے، حقیقت یہ ہے کہ خود قرآن کریم نے ہی ایک دوسری جگہ میاں بیوی کے رشتے کو مودت ( دوستی) اور رحمت سے تعبیر کیا ہے۔
قرآن مجید کی ایک آیت میں شوہر کے لیے بیوی کو سکون کا ذریعہ قرار دیا ہے ( الروم:21) جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میاں بیو ی کے درمیان اصل رشتہ دوستی او رمحبت کا ہے او ردونوں ایک دوسرے کے لیے سکون او رراحت کا ذریعہ ہیں، لیکن اسلام ہی کی ایک تعلیم یہ ہے کہ جب کبھی کوئی اجتماعی کام کیا جائے تو لوگوں کو چاہیے کہ وہ کسی کو اپنا امیر بنالیں تاکہ کام نظم وضبط کے ساتھ انجام پائے ، یہاں تک کہ اگر دو شخص کسی سفر پر جارہے ہوں تب بھی مستحن یہ قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنالیں خواہ دونوں آپس میں دوست ہی کیوں ہوں ، اب جس شخص کو بھی امیر بنایا جائے وہ ہر وقت دوسرے پر حکم چلانے کے لیے نہیں بلکہ سفر کے معاملات کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے امیر بنایا گیا ہے ، اس کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھی یا ساتھیوں کی خبر گیری کرے، سفر کا ایسا انتظام کرے جو سب کی راحت وآرام کے لیے ضروری ہو اور جب وہ یہ فرائض انجام دے تو دوسروں کا کام یہ ہے کہ وہ ان امور میں اس کی اطاعت اور اس کا تعاون کریں۔
جب اسلام نے ایک معمولی سے سفر کے لیے بھی یہ تعلیم دی ہے تو زندگی کا طویل سفر اس تعلیم سے کیسے خالی رہ سکتا تھا؟ لہٰذا جب میاں بیوی زندگی کا مشترکہ سفر شروع کر رہے ہوں تو ان میں سے شوہر کو اس سفر کا امیر یا نگراں بنایا گیا ہے ، کیوں کہ اس سفر کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے جو جسمانی قوت اور جودیگر صفات درکار ہیں وہ قدرتی طور پر مرد میں زیادہ ودیعت کی گئی ہیں، لیکن اس انتظام سے یہ حقیقت ماند نہیں پڑتی کہ دونوں کے درمیان اصل تعلق دوستی ، محبت اور رحمت کا ہے او ران میں سے کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے کے ساتھ ایک نوکر کا سا معاملہ کرے، یا شوہر اپنے امارت کے منصب کی بنیاد پر یہ سمجھے کہ بیوی اس کے ہر حکم کی تعمیل کے لیے پیدا ہوئی ہے یا اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ بیوی سے اپنی ہر جائز، ناجائز خواہش کی تکمیل کرائے بلکہ الله تعالیٰ نے مرد کو جو قوت او رجو صفات عطا کی ہیں ان کاتقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے اس منصب کو جائز حدود میں رہتے ہوئے بیوی کی دل داری میں استعمال کرے اور اس کی جائز خواہشات کو حتی الامکان پورا کرے ، اسی طرح الله تعالیٰ نے بیوی کو جو مقام بخشا ہے او راسے جو حقوق عطا کیے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی خدادا صلاحیتیں اپنے شریک زندگی کے ساتھ تعاون او راسے خوش رکھنے میں صرف کرے اگر دونوں یہ کام کر لیں تو نہ صرف یہ کہ گھردونوں کے لیے دنیوی جنت بن جاتا ہے بلکہ ان کا یہ طرز عمل مستقل عبادت کے حکم میں ہے جو آخرت کی نجات کا وسیلہ بھی ہے ، اسی لیے نکاح کے خطبہ میں تقویٰ کا حکم دیا گیا ہے او راسی لیے ڈاکٹر صاحب  نے فرمایا کہ احسان کا موقع صرف نماز ہی نہیں، بلکہ میاں بیوی کے تعلقات بھی ہیں۔
قرآن کریم کی بے شمار آیات میں سے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے نکاح کے خطبہ کے لیے خاص طور پر انہی تین آیات کا جو انتخاب فرمایا یقینا اس میں کوئی بڑی مصلحت ہو گی ، غور کیا جائے تو ان تینوں آیتوں میں جوبات مشترک طور پر کہی گئی ہے ، وہ تقویٰ کا حکم ہے ، تینوں آیتیں اسی حکم سے شروع ہو رہی ہیں،کہ تقویٰ اختیار کرو، کوئی نادان یہ کہہ سکتا ہے کہ تقویٰ کا شادی بیاہ سے کیا جوڑ ہے؟ لیکن جو شخص حالات کے نشیب وفراز او رمیاں بیوی کے تعلقات کی نزاکتوں کو جانتا ہے او رجسے ازدواجی الجھنوں کی تہہ تک پہنچنے کا تجربہ ہے وہ اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میاں بیوی کے خوش گوار تعلقات او رایک دوسرے کے حقوق کی ٹھیک ٹھیک ادائیگی کے لیے تقوی ایک لازمی شرط ہے۔
میاں بیو ی کا رشتہ نازک ہوتا ہے اور ان دونوں کے سینے میں چھپے ہوئے جذبات او ران کی حقیقی سرشت وفطرت ایک دوسرے کے سامنے اتنی کھل کر آتی ہے کہ کسی اور کے سامنے اتنی کھل کر نہیں آسکتی، دوسروں کے سامنے ایک دوسرے کے سامنے ایک شخص اپنی بدطینتی کو ظاہری مسکراہٹوں کے پردے میں چھپا سکتا ہے اپنے اندر کے انسان پر خو ب صورت الفاظ اور مصنوعی خوش اخلاقی کا ملمع چڑھا سکتا ہے ، لیکن بیوی کے ساتھ اپنے شب وروز کے معاملات میں وہ یہ ملمع باقی نہیں رکھ سکتا، اسے اپنی ظاہر داری کے خول سے کبھی نہ کبھی باہر نکلنا ہی پڑتا ہے اور اگر اندر کا یہ انسان تقوی سے آراستہ نہ ہو تو اپنے شریک زندگی کا جینا دوبھر کر دیتا ہے۔
ایک بیوی کو اپنے شوہر سے جوتکلیفیں پہنچتی ہیں ان کا ازالہ ہمیشہ عدالت کے ذریعہ نہیں ہو سکتا، ان میں سے بے شمار تکلیفیں ایسی ہیں جو وہ عدالت تو کجا اپنے کسی قریبی رشتہ دار کے سامنے بھی بیان نہیں کرسکتی، اسی طرح ایک شوہر کو بیوی سے جو شکایتیں ہو سکتی ہیں بسا اوقات شوہر کے پاس ان کا کوئی حل نہیں ہوتا، نہ وہ کسی اور کے ذریعہ انہیں دور کرنے کا کوئی سامان کر سکتا ہے، اس قسم کی تکلیفوں اور شکایتوں کا کوئی علاج دنیا کی کوئی طاقت فراہم نہیں کر سکتی، ان کا علاج اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ دونوں کے دل میں تقویٰ ہو، یعنی وہ اس احساس کی دولت سے مالا مال ہوں کہ وہ ایک دوسرے کے لیے امانت ہیں اور اس امانت کی جواب دہی انہیں اپنے الله کے سامنے کرنی ہے ، اپنے شریک زندگی کو اپنے کسی طرز عمل سے ستا کر وہ شاید دنیا کی جواب دہی سے بچ جائیں۔ لیکن ایک دن آئے گا جب وہ الله کے سامنے کھڑے ہوں گے او رانہیں اپنی ایک ایک حق تلفی کا بھگتان بھگتنا پڑے گا، اسی احساس کا نام تقویٰ ہے اور یہی وہ چیز ہے جو انسان کے دل پر ان تنہائیوں میں بھی پہرہ بٹھاتی ہے ، جہاں اسے کوئی اور دیکھنے والا نہیں ہوتا۔
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم یہ چاہتے ہیں کہ جب دو مرد وعورت زندگی کے سفر میں ایک دوسرے کے ساتھی بنیں تو وہ روانہ ہونے سے پہلے اپنے دلوں پر یہ غیبی پہرہ بٹھالیں، تاکہ ان کی دوستی پائیدار ہو اور ان کے دل میں ایک دوسرے کی محبت محض وقتی خواہش نفسانی کی پیداوارنہ ہو، جو نئی نویلی زندگی کا جو ش ٹھنڈا ہونے کے بعد فنا ہو جائے، بلکہ وہ تقویٰ کے سایہ میں پلی ہوئی پائیدار محبت ہو، جو خود غرضی سے پاک او رایثار، وفا اور خیر خواہی کے سدا بہار جذبات سے مزین ہوتی ہے او رجسم سے گزر کر واقعی قلب وروح کی گہرائیوں تک سرایت کرجاتی ہے ، اس لیے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے نکاح کے خطبہ میں ان تین آیات کا انتخاب فرمایا جن میں سے ہر آیت تقویٰ کے حکم سے شروع ہو رہی ہے اور وہ اس کا بنیادی پیغام ہے۔

Flag Counter