Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1432ھ

ہ رسالہ

17 - 19
ادھوری بجلی ۔۔۔ ادھورے حکمران!
	

محترم یرید احمد نعمانی

قوم حیران وششدر ہے۔بجلی کی قیمتوں میں بے لگام اضافہ وزیادتی روزمرہ معمول کا حصہ بنتی جارہی ہے۔ہرگزرنے والی رات اورآنے والا دن اس حوالے سے کسی صاعقہٴ آسمانی سے کم نہیں۔طرفہ تماشا یہ کہ روزانہ چھ سے سات گھنٹے لوڈشیڈنگ اوربجلی کی عدم دستیابی کے باوجودیوٹلیٹی بلوں میں اضافے کی ”نوید“قوم کا مقدرہے۔ ارباب اقتدار واختیار ہمیشہ کی طرح خواب غفلت کے مزے لے رہے ہیں۔ان جاں گسل،دل سوز اورپرمشقت لمحات وحالات میں،جب کہ ایک عام ومتوسط تنخواہ دارآدمی،ملازمت پیشہ فرد اورروزکا کنواں کھودنے والے مزدور کے لیے دووقت کی روٹی ،بچوں کی تعلیم اورزیرکفالت افراد کی دیکھ بھال مشکل،ناممکن اورمحال ہورہی ہے۔ایسے میں وہ․․․․․اِن بھاری بھرکم بلوں کی بروقت ادائیگی کا انتظام بھلاکیسے اورکہاں سے کرے؟مزیدبرآں اس صورت حال پرمشیرباتدبیر شرمیلا فاروقی کا یہ مضحکہ خیز تبصرہ: ”بجلی بندہونے سے بہتر ہے مہنگی ہوجائے“قوم کے رِستے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔

فی الوقت ملک 15ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی کا شکارہے۔حکومتی سطح پر اس بحران کا حل رینٹل پاور منصوبوں میں ڈھونڈااورتلاش کیا جارہاہے۔جو بجائے خود کسی معمے سے کم نہیں۔اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت نے 9بجلی گھر کرائے پر لینے کافیصلہ کیاہے۔جن میں سے ایک کا افتتاح گزشتہ دنوں ہوچکا۔یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ متذکرہ پاورپروجیکٹ ملکی تاریخ کا گراں ترین برقی منصوبہ ہے۔جس کے بعد فی یونٹ کی لاگت 14.13روپے تک ہوجائیگی ۔واضح رہے کہ کے ،ای، ایس، سی کے باخبرحلقے یہ قیمت 20روپے فی یونٹ تک جانے کی پیش گوئی کرچکے ہیں۔اگرچہ وزیر پانی وبجلی اس امر کی یقین دہانی کراچکے ہیں کہ ”حکومت مہنگی بجلی خرید کر سستی دے گی اورقیمت میں اضافہ نہیں ہوگا۔“لیکن کیایہ حقیقت اظہر من الشمس نہیں کہ متذکرہ رعایت عوام کی جانب سے دیے جانے والے ٹیکسوں کی مرہونِ منت ہے؟جس کا بوجھ بالآخر مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام کے سر ہی پڑناہے۔

مذکورہ بالا بحران سے نمٹنے کے لیے حکومتی مشینری کس قدرفعال ومتحرک ہے؟معاملے کی اہمیت ونزاکت کااحساس بالائی سطح پر کیا رنگ وروپ لیے ہوئے ہے؟حکومت کی انتظامی چابک دستی کی حقیقی صورت حال کیاہے؟اس کا جواب اُس خبر سے بخوبی صراحت کے ساتھ مل سکتاہے ،جس کے مطابق مجوزہ10ڈیموں کے منصوبے پر 85کروڑ روپے کی خطیررقم خرچ کی جاچکی ہے۔لیکن تاحال ان کی تعمیر شروع نہ ہوسکی۔تعجب بالائے تعجب یہ کہ ایک طرف پرویز اشرف صاحب قوم کومژدہ سناتے نہیں تھکتے کہ ”سستی بجلی کے منصوبوں پرتوجہ دی جارہی ہے۔پاکستان میں 50ہزار میگاواٹ تک پن بجلی پیداکرنے کی استعداد ہے۔“تودوسری جانب عالمی خبررساں ادارے کے مطابق ”گیس اوربجلی کی لوڈشیڈنگ سے صنعتوں کو اربوں روپے نقصان کاسامنا کرناپڑرہاہے۔“ سوال یہ ہے کہ وہ کون سے پوشیدہ ونادیدہ اورغیرمرئی اقدامات ہیں جن کے ثمرات و اثرات ملکی معیشت اورصنعت وحرفت کا دیوالیہ نکلنے پر بھی ظاہر نہیں ہورہے ؟وگرنہ مندرجہ صورت حال سے تو وفاقی وزیر کی” حقیقت بیانی“ ازخودہی واضح اور بیاں ہوجاتی ہے۔

سکے کا دوسرارخ یہ ہے کہ ہماراازلی دشمن، ملک کو زرعی اعتبار سے بنجر کرنے میں مسلسل کوشاں ہے۔بھارت نہ صرف پاکستانی دریاؤں کی بندش اوران پر ناجائز اورخلاف معاہدہ ڈیم کی تعمیرات میں مصروف کارہے،بلکہ غیر آباد اوربنجر علاقوں کی آبی وزرعی ضروریات پوری کرکے منافع بخش تجارت بھی کررہاہے۔سندھ طاس واٹر کونسل کے چیئرمین حافظ ظہورالحسن ڈاہر نے کہاہے:”بھارت دریائے چناب پر 3بڑے اور16چھوٹے ڈیم مکمل کرچکاہے۔جب کہ مزید 6بڑے اور10چھوٹے ڈیمز2012تک مکمل ہوں گے۔کسی دور میں راجھستان،گجرات،مشرقی پنجاب کے تمام اضلاع بنجر علاقے تھے۔اب وہاں انقلاب آچکا ہے اوران بھارتی علاقوں میں ا س قدر اناج پیداہورہاہے کہ ایک ارب سے زیادہ آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے بعد وہ پاکستان سمیت کئی ممالک کو اناج ،پھل اورسبزیاں ایکسپورٹ کرکے قیمتی زرمبادلہ بھی کمارہاہے۔“

”عوامی“حکومت کی جانب سے عوام کے حقوق کی نگہ داشت، تحفظ اوررعایت کے بجائے، قومی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے ”مشکل“ فیصلوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔جس کا ایک بین،واضح اورکھلا ثبوت،عالمی سودخوروں سے معاہدے کے تحت ،ہرمہینے بجلی کی قیمت میں2فیصد ظالمانہ بڑھوتری کی صورت سامنے آچکاہے۔خود حکومت وقت گزشتہ 2برسوں کے دوران دوگنا بجلی مہنگی کرنے کا اقرارواعتراف کرچکی ہے۔ا س پر مستزاد یہ کہ آئی ایم ایف نے مزیدنئے قرضوں کی بلارکاوٹ وبلاتعطل فراہمی کو درج بالا اضافے کے ساتھ” نتھی “کردیاہے۔اس کا مطلب سوائے اس کے اور کیا نکالااورلیا جا سکتاہے کہ موجودہ حکومت نے ملکی معیشت ،عوامی ضروریات ،اقتصادی ترقی اورصنعتی ارتقا، عالمی سودی ویہودی اداروں کے پاس گروی اوررہن رکھ دیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ فیاض ازل نے مادروطن کو بے شمارقدرتی وسائل اورلاتعداد معدنی ذخائر سے نوازاہے۔توانائی کے موجودہ بحران سے نمٹنے اورمستقبل کی بڑھتی ہوئی صنعتی ضروریات کے پیش نظر ،اس امر کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے کہ ہم جلدازجلد نئے اوردست یاب وسائل کے استعمال کی جانب پیش قدمی کریں۔وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ نے تھر کوئلہ کے منصوبے کی تکمیل اور اس کے نتائج کومرکزکی معاونت سے مشروط کرتے ہوئے کہا ہے:”وفاق جتنا زیادہ تعاون کرے گا اتنی جلدی کوئلے سے ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا کریں گے۔“گویاگیند اب ”ایوان اقتدار“کے کورٹ میں ہے ۔ساتھ ساتھ اس امرکی وضاحت بھی ناگزیرمحسوس ہوتی ہے کہ بھارت اپنی توانائی کی کل پیداوار میں کوئلہ کا استعمال 54.5فیصدکی شرح تک کرتاہے۔

قارئین !اگراب بھی اہل منصب واختیارکی جانب سے مستقبل کی ٹھوس معاشی واقتصادی پیش بندی نہ کی گئی،موجودہ نازک اورلمحہ بہ لمحہ بگڑتی صورت حال کا بروقت ادراک و تدارک نہ کیا گیا،مفلوک الحال طبقے کا قافیہٴ زندگی یونہی تنگ کیا جاتارہا تو ذلت ونکبت ،ناکامی اوربربادی موجودہ حکمرانوں کے لیے نوشتہ ٴدیوارہے۔
Flag Counter