Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1432ھ

ہ رسالہ

10 - 19
کپڑوں سے ٹخنوں کا ڈھانپنا
معاشرہ میں رائج غلط فہمیاں
	

محترم میر زاہد مکھیالوی

سید الانبیا، سرور عالم صلی الله علیہ وسلم نے جس طرح حیات انسانی کے مختلف شعبوں، مثلاً اٹھنے ، بیٹھنے، سونے جاگنے، کھانے پینے اور دیگر معمولاتِ زندگی کے متعلق آداب واحکام کی تعلیم دی ہے اور اپنے قول وعمل سے امت مسلمہ کی راہ نمائی فرمائی ہے کہ یہ کام حلال ہے ،یہ حرام، یہ ناجائز ہے، یہ جائز ہے، یہ کام اچھا ہے اور یہ برا ہے، وغیرہ۔ اسی طرح لباس اورکپڑے کے استعمال کے بارے میں بھی واضح ہدایات دی ہیں۔ ہم یہاں لباس کی ایک خاص نوعیت ” اسبال ازار“ کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں ۔ چوں کہ مسلم معاشر ے میں، خاص طور پر خواص کے طبقہ میں بھی اس سلسلہ میں کوتاہیاں فروغ پاتی جارہی ہیں او رافسوس مزید اس پر کہ اس کوتاہی پر خیال والتفات تک نہیں، اولاً اس مضمون کی چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔

عن ابی ھریرة قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ما اسفل من الکعبین من الازار فی النار․ ( بخاری ، ص:861، ج:2 مشکوٰة، ص:373)

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا از قسم ازار یعنی پائجامہ وغیرہ کا جو ٹخنوں سے نیچے ہو گا وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ (بخاری)

عن ابن عمر ان النبی صلی الله علیہ وسلم قال: من جر ثوبہ خُیَلاء لم ینظر الله الیہ یوم القیٰمة․ ( بخاری، ص:860، ج:2 مشکوٰة، ص:373)

حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی اپنا کپڑا استکبار اور فخر کے طور پر زیادہ نیچا کرے گا الله تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر بھی نہ اٹھائے گا۔

عن ابی سعید الخدری قال: سمعت رسول الله علیہ وسلم یقول: ازرة المومن الی انصاف ساقیہ، لا جناح علیہ فیما بینہ وبین الکعبین، وما اسفل من ذلک ففی النار․ قال ذلک ثلث مرات، ولا ینظر الله یوم القیامة الی من جر ازارہ بطرا․ ( ابوا داؤد وابن ماجہ، مشکوٰة:374)

حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے کہ مومن بندہ کے لیے ازار یعنی تہبند باندھنے کا طریقہ ( یعنی بہتر اور اولیٰ صورت) یہ ہے کہ نصف ساق تک یعنی پنڈلی کے درمیانی حصہ تک ہو اور نصف ساق اور ٹخنوں کے درمیان تک ہو تو یہ بھی گناہ نہیں یعنی جائز ہے اور جو اس سے نیچے ہو تو وہ جہنم میں ہے ( یعنی اس کا نتیجہ جہنم ہے)۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی۔ ( اس کے بعد ارشاد فرمایا) الله اس آدمی کی طرف نگاہ اٹھا کے بھی نہ دیکھے گا جو از راہِ فخر وتکبر اپنی ازار گھسیٹ کر چلے گا۔ ان حدیثوں میں فخر وغرور والا لباس استعمال کرنے والوں کو سخت وعید سنائی گئی کہ وہ قیامت کے اس دن میں جب کہ ہر بندہ اپنے رب کریم کی نگاہِ رحم وکرم کا سخت محتاج اور آرزو مند ہو گا وہ اس کی نگاہِ رحمت سے محروم رہیں گے ۔ الله رب العزت اس دن ان کو بالکل ہی نظر انداز کر دے گا او ران کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا۔ کیا ٹھکانہ ہے اس محرومی او ربدبختی کا ۔ اللھم احفظنا منہ․

حضرت ابو سعید خدری کی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن کے لیے اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ تہبند او راسی طرح پجائجامہ نصف ساق تک ہو اور ٹخنوں کے اوپر تک ہو تو یہ بھی جائز ہے، لیکن اس سے نیچے جائز نہیں، بلکہ سخت گنا ہ ہے اور اس پر جہنم کی وعید ہے۔ (معارف الحدیث، ص:290ج:2)

اس وقت لباس کے متعلق اسلامی معاشرے کی صورت حال زبوں تر ہے، عوام الناس کے طبقہ میں دنیوی تعلیم وتہذیب سے متاثر طبقہ کا تو حال ہی عجیب وغریب ہو چکا ہے کہ ان کو لباس وپوشاک میں غیروں کے ساتھ ایسی مشابہت او رموانست پختہ ہو چکی ہے کہ مسلمان وغیر مسلمان کے مابین فرق وامتیاز مشکل، بلکہ ناممکن معلوم ہوتا ہے او راس مروجہ لباس شرٹ اور پینٹ کی وضع او رہیئت ہی ایسی ہوتی ہے، جنہیں اس طرف توجہ نہیں رہتی، بلکہ اس کے گناہ ہونے کاادراک بھی نہیں ہوتا اور وہ اپنے معمول کے کپڑوں ( نصف ہاتھ کہنیوں تک شرٹ اور ٹخنوں پر لٹکی پینٹ) میں نماز پڑھ لیتے ہیں، بہرحال اس مسئلہ سے قطع نظر کہ ان لوگوں کی نماز کاکیا حکم ہے یا ان کا عمل کس درجہ کا ہے ؟ ہمیں یہاں ایک دوسرے موضوع پر عرض کرنا ہے۔ وہ یہ کہ مدار س اسلامیہ کے فضلا او رمدارس میں زیر تعلیم طلبہ کو بھی عموماً اسبال ازار کے گناہ بے لذت میں دیکھا جاتا ہے ، بلکہ بعض مدرسوں کے معلّمین اور اہل انتظام کا بھی اس میں ابتلا نظر آتا ہے کہ وہ نہ خود اس کمزوری اور کوتاہی پر متنبہ ہوتے ہیں اور نہ اپنے ماتحتوں اساتذہ اور طلبہ کی وضع قطع اور اصلاح ودرستگی کی جانب دھیان دیتے ہیں اس طرح یہ سلسلہ متعدی ہوتا جارہا ہے ا سمیں کوئی شک وشبہ نہیں کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے فرمودات وارشادات کسی خاص طبقہ کے لیے نہیں بلکہ ہر صاحب ایمان ان تعلیمات نبوی صلی الله علیہ وسلم کا براہِ راست مخاطب ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے ذاتی معمول کو اپنے عمل میں لانا ہر مسلمان کی دینی محت کا عین تقاضا بھی ہے اور خوش نصیبی کا سامان بھی ، الله رب العزت ہمیں توفیق عمل سے نوازے اور ہم لوگوں کے مردہ احساس کو بیدار فرمائے، مدارس اسلامیہ کو یقینا دینی مرکزیت او رمعتبریت حاصل ہے اور ان کے ارباب حل وعقد اور مدرسین ومتعلمین کو عام مسلمان بھی ایک نمونہ اور آئیڈیل کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ لہٰذا ہم اہل مدارس کو دینی تمام امور میں بہت محتاط او رحساس رہنے کی ضرورت ہے۔

اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آدمی کے اندر آدمیت، دینی رنگ ومزاج، شرعی اُمور میں پختگی ومضبوطی اور عظمتِ دین کسی صاحب دل بزرگ عالم دین سے وابستگی وتعلق او ران کی مومنانہ نظر سے ہی پیدا ہوتی ہے۔
جیسا کہ کہا گیا #
        نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
        دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

ابتدائی فارسی کے شعبہ میں راقم الحروف جب حضرت مفتی مہربان علی شاہ بڑوتی قدس سرہ کے مدرسہ ہرسولی میں داخل ہوا تو حضرت  کی سب سے اوّل زیارت وملاقات تھی اس وقت سے عمر کے آخری دور تک انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں حضرت کو پختگی اور تصلب کے ساتھ ہمیشہ متبع سنت پایا۔ وہ اپنے چھوٹوں اور ماتحتوں کی صرف قولی طور پر نہیں بلکہ عملی طریقہ سے بھی اصلاح فرماتے ، چناں چہ احقر نے ان کا پائجامہ کبھی اتفاقیہ بھی نصف ساق سے نیچے نہیں دیکھا، ایک دفعہ اصلاحی مجلس میں اسبال ازار کے متعلق گفتگو میں حضرت نے سنایا کہ ایک بار کسی صاحب کی موٹر سائیکل کے ذریعہ” شاہپور“ سے ”ہرسولی“ کے لیے چلا، راستہ میں ”کاکرہ“ جو خالصتاً غیر مسلموں کی بستی ہے وہاں ہماری موٹر سائیکل خراب ہو گئی وہ صاحب اس کو دیکھنے لگے میں راستہ کے کنارہ کھڑا ہو گیا ایک غیر مسلم بڑے میاں آہستہ سے میرے قریب آئے اور دبی آواز میں کہنے لگے کہ اجی اگر برانہ مانو تو ایک بات معلوم کر لوں؟ یہ اپنا پاجامہ آپ نے اتنا اوپر کیوں چڑھایا ہوا ہے کیا بات ہے؟ وہ چوں کہ غیر مسلم تھے انہیں کیا خبر شریعت وسنت کی، میں نے ان کی سمجھ کے حساب سے انہیں جواب دیا کہ زیادہ نیچے رکھنے سے کپڑے گندے ہو جاتے ہیں، ان کپڑوں میں نماز بھی پڑھنی ہے ، یہ بات ان کو سمجھ میں آگئی۔ اپنی یہ آپ بیتی سنا کر حضرت نے فرمایا آدمی میں جب پختگی اور مضبوطی ہوتی ہے تو اس کے لیے کوئی چیز بھی رکاوٹ نہیں بنتی۔ یہ اپنے اندر کا روگ ہوتا ہے کہ آدمی سمجھتا ہے کہ لوگ میرا لباس دیکھ کر کیا کہیں گے؟ کبھی میرا مذاق بنالیں، حقیقت یہ ہے کہ جب انسان اپنے کسی بھی معاملہ میں سچا اورمخلص ہوتا ہے تو کوئی اسے کچھ نہیں کہتا، بلکہ سنجیدہ لوگ اسے قدر او رعزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

حضرت بڑوتی کے ایک مسترشدو مرید کا واقعہ ہے، ایک دفعہ وہ اہل بدعت کے ایک خطہ میں پہنچے، مسجد کی منتظمہ کمیٹی نے ان کا رمضان میں قرآن کریم سنانا طے کر دیا، ان مرید مولانا صاحب کو جب مصلیان مسجد نے دیکھا تو ان کا لباس خاص طور پر پائجامہ دیکھ کر قرآن کریم سنانے سے منع کر دیا کہ ان کے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوگی اور ان کے اونچے پائجامہ سے یہ دیوبندی معلوم ہوتے ہیں ۔ غرض انہوں نے بریلویت کے ماحول میں اپنے لباس میں نہ کوئی تبدیلی کی، نہ مرعوب ہوئے، بلکہ اپنی وضع پر برقرارہے ، یہاں تک کہ الله رب العزت نے ان کے وہاں کے قیام کو باعثِ اصلاح بنایا۔

بہر کیف مدارس کے بعض نو فارغ فضلاء میں یہ بھی ایک المیہ ہے کہ وہ درس نظامی سے فراغت کرکے خود کو ہر چیز سے فارغ سمجھ لیتے ہیں، اپنے کسی مربی ومصلح سے نہ وابستگی ہوتی ہے نہ اپنی اصلاح وتربیت کا کبھی خیال آتا ہے اوربغیر کسی تدریب وتمرین ،تدریسی سلسلہ یا دیگر شغل میں مصروف ہو جاتے ہیں، جس کا ایک مضر پہلو یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ دینی رنگ چوں کہ پختہ نہیں ہوتا لہٰذا وہ ماحول کے مطابق اپنے کو ڈھال لیتے ہیں اور اس میں اس حد تک تجاوز ہو جاتا ہے کہ صرف ظاہری وضع قطع ڈاڑھی اور لباس ہی نہیں بدلتے، بلکہ عقائد ونظریات اور سوچ وفکر تک ان فضلا کی متاثرو مغلوب ہوتے دیکھا گیا ہے کہ جنہوں نے ایک مدت اپنے اساتذہ کی صحبت او رمدرسہ کی چہار دیواری میں گزاری ہے وہ اس فانی دنیا کی خاطر اپنے اکابر کا مسلک ومشرب تبدیل کرنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے او ربلاجھجک غیروں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے اس کی اصلی وجہ تربیت کا نہ ہونا ہے۔

الحاصل ہمار ی ان معروضات کا مقصد یہی ہے کہ طلبہ کی ظاہری وضع قطع کو قطعاً نظر انداز نہ کیا جائے، بلکہ بطور خاص اہل مدارس کو اس پر توجہ دینے کی ضررت ہے کہ داخل شدہ طلبہ کی صرف بوقت داخلہ ہی نہیں، بلکہ سال کے دوران بھی ماہ بماہ نگرانی کی جائے۔

اللھم وفقنا لما تحب وترضی․
Flag Counter