Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1432ھ

ہ رسالہ

2 - 19
مسلمان کی شان امتیازی
	

مولانا سید ابوالحسن علی ندوی

الحمدلله رب العالمین، والصلاة والسلام علی سید المرسلین محمد وآلہ وصحبہ اجمعین، وبعد!

میرے دوستو، عزیزو! اور دور سے آئے ہوئے مہمانو! اور میرے محبوب وقابل قدر بھائیو!

پہلے تو میں آپ تمام لوگوں کو مبارک باد دیتا ہوں، خاص طور پر انہیں جو یہاں اس بڑے تبلیغ ودعوتی اجتماع کے ذمہ دار ہیں ، کارکن اور داعی ہیں کہ کتنی بڑی تعداد میں لوگ یہاں اکھٹے ہوئے، جن کا اتفاق ایک کلمہ پر ہے ، ایک عقیدہ پر ہے ، ایک مقصد پر ہے او رایک طرز پر ہے ، یہ ایسا مجمع ہے کہ جو اگر بے ادبی او رگستاخی نہ ہو تو کہوں کہ عرفات ومنیٰ کی یاد دلاتا ہے اور اس سے بڑھ کر بلیغ تشبیہ نہیں ہو سکتی کہ اس مجمع کی تشبیہ عرفات ومنیٰ سے دی جائے۔

میں کہوں گا کہ یہ کوئی اتفاقی واقعہ یا حادثہ نہیں ہے کہ اتنا بڑا مجمع جو کہ خاص مقصد لے کر جمع ہوا، ایک فکر لے کر جمع ہوا اور وہ دنیا میں انقلاب برپا کر دے ، میں تاریخ کا ایک طالب علم ہوں اور تاریخ میرا خاص موضوع رہا ہے او رپھر میں نے کئی زبانوں میں تاریخ پڑھی ہے ، انگریزی میں پڑھی ہے، اردو فارسی میں پڑھی ہے او رپڑھی ہی نہیں، لکھی بھی ہے ، میں کہتا ہوں کہ اتنا بڑا مجمع اگر ایک مقصد رکھنے والا ہو اور وہ خلوص کے ساتھ جمع ہو تو دنیا میں انقلاب آسکتا ہے۔

الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿یٰایھا الذین آمنوا ان تتقوا الله یجعل لکم فرقانا ویکفر عنکم سیاتکم ویغفرلکم والله ذوالفضل العظیم﴾․( سورہ الانفال:29)

اس آیت کریمہ پر بہت کم لوگوں نے غور کیا ہو گا، یہ ایک سنسی خیز، چونکا دینے والی ، ہلا دینے والی او رانقلاب لے آنے والی آیت ہے کہ الله تعالیٰ جو الہٰ العالمین ہے ، رب العالمین ہے ، خالق کائنات ہے ، خالق جن وبشر ہے ، کوئی چیز اس کے حکم کے بغیر پیش نہیں آسکتی سلطنتوں میں انقلاب پیدا کرنے والا ہے ، حالات میں تبدیلی لانے والا ہے ، غلام کو آزاد کرنے والا ہے اور آزاد کو غلام بنا دینے والا ہے اور وہ جو ” عالم الغیب والشھادة“ ہے ، جو قادر مطلق ہے ، جو قدیر برحق ہے، جو الہٰ برحق ہے، وہ کہتا ہے : ﴿یٰایھا الذین آمنوا ان تتقوالله﴾․

کہ اے ایمان والو! اگر تم تقویٰ اختیار کروگے…۔

یہ”تقویٰ“ کوئی معمولی لفظ نہیں ہے کہ جوکم کھائے ، سادہ رہن سہن رکھے، یا کم گو ہو ، بس کہہ دیا جائے کہ یہ متقی ہے ، غیبت نہ کرے ، چغلی نہ کھائے، جھوٹ نہ بولے تو وہ متقی ہو گیا، تقویٰ صرف اسے نہیں کہتے ، تقوی کا لفظ قرآن مجید کی اصطلاح میں بڑا جامع اور بہت وسیع لفظ ہے ، انقلاب انگیز او رکایا پلٹ دینے والا لفظ ہے ، یہاں ﴿ان تتقوا الله﴾ فرمایا گیا ہے ، یہاں ڈرنے کے لیے خوف کا لفظ نہیں استعمال کیا گیا” تقویٰ“ میں عقائد بھی آجاتے ہیں ، اعمال بھی آجاتے ہیں ، مقاصد بھی آجاتے ہیں ، طرز زندگی بھی آجاتا ہے ، اخلاقیات بھی آجاتے ہیں ، کہ الله سے ڈرنے والا، شریعت پر چلنے والا ہو ، الله ورسول کے احکام پر عمل کرنے والا ہو او رانسانیت کا بہی خواہ اور ہدایت کا داعی او رپاک باز ہو ، جس کی نگاہیں نیچی ، جس کی زبان محتاط ، جس کا قلب دنیاوی مقاصد ، لالچ سے خالی ہو اور اس کا دماغ برے منصوبوں سے پاک ہو، تو تقویٰ والی زندگی گزارنے والا یہ مسلمان جب بھی گزرے گا تو انگلیاں اٹھیں گی کہ دیکھو! یہ مسلمان جارہا ہے ، دیکھو ! الله کا بندہ جارہا ہے ، ایک امتیازی شان طاری ہو جائے گی ، آگے الله فرماتا ہے :

﴿یجعل لکم فرقاناً﴾ کہ وہ تمہارے اندر ایک شان امتیازی پیدا فرما دے گا۔

میں ”فرقان“ کا ترجمہ ”شان امتیازی“ سے کر رہا ہوں ، فرقان کا لفظ اتنا بلیغ، عمیم اور وسیع ہے کہ ارد ومیں ”فرقان“ کا ترجمہ کرنا آسان نہیں، جو لفظ قریب تر ہے وہ کہہ رہا ہوں کہ وہ تمہارے اندر شان امتیازی پیدا کر دے گا، انگلیاں اٹھیں گی ، نگاہیں بلند ہوں گی ، لوگ اشارے کریں گے ، لوگوں کی بعض اوقات نیند اڑ جائے گی ، بعض اوقات غفلت دور ہو جائے گی ، کہ دیکھو ! وہ مسلمان جارہا ہے ، وہ مسلمان گزررہا ہے ، مسلمان کیسے پارسا او رکیسے پاک باز ہوتے ہیں ، انسانیت اصل مسلمانوں میں ہے ، یہ کسی غیر محرم پر نظر نہیں اٹھاتا اور راستہ میں اگر کوئی چیز پڑی ہے ، جس سے کوئی تکلیف ہو سکتی ہے ، کسی کو ٹھوکر لگ سکتی ہے تو اس کو ہٹا دینے والا ہے ، لوگوں کو دھکا دینے والا نہیں ہے ، سہولت سے چلنے والا ہے ، وقار کے ساتھ چلنے والا ہے ، خیر خواہی اور ہمدردی کے ساتھ چلنے والا ہے ۔

یہ تھے مسلمان، جو گنے چنے کہیں پہنچ جاتے تھے تو پورے پورے معاشرے کو بدل ڈالتے تھے ، پورے پورے شہر مسلمان ہو گئے ، لوگوں کی غفلت، خواہ کتنی ہی بڑھی ہوئی ہو اور ان کے اند رکتنی ہی مال کی لالچ ہو اورجمال کی لالچ ہو ، حب مال ہو ، حب جمال ہو، کچھ ہو، لیکن الله تعالیٰ نے انسان کے اندرتاثر لینے او رتاثر دینے کا مادہ پیدا کیا ہے اور دنیا یہ جو چل رہی ہے اس میں اس کو بڑا دخل ہے ۔

ذرا مجھے صفائی سے کہنے دیجیے کہ پتہ نہیں پھر یہ موقع آئے یانہ آئے ، ایسا بڑا مجمع جو الله اور اس کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بات سننے کے لیے کہاں کہاں سے آیا ہے اور تبلیغ یااجتماع میں آیا ہے تو اس سے بہتر اورمناسب موقع اور کیا ہو گا ، دنیا میں اثر قبول کرنے کا مادہ ہے اور یہی دنیا کے باقی رہنے کا راز ہے، کہ اس وقت تک الله تبارک وتعالیٰ جو کہ خالق کائنات ہے ، وہ خوب جانتا ہے کہ ابھی انسان میں سبق لینے کی خاصیت موجود ہے اور نیک بننے ، صحیح راستے پر آنے کی خواہش ہے ، آپ جب تبلیغ کاو سیع اور عالم گیر کام کریں گے ، اصول پر چلیں گے ، جماعتیں بنائیں گے، ملک بھر میں پھریں گے اور الحمدلله! یہ کام تو اتنا پھیل چکا ہے کہ دنیا بھر میں جماعتیں جاتی ہیں اور نکلتی ہیں، آپ بھی ان شاء الله نکلیں گے، اثر ڈال کر آئیے گا، متاثر ہو کے نہیں، متاثر کرکے آئیے گا، کایا پلٹ جائے او رانقلاب آجائے۔

ایک بات صفائی سے او رکہتا ہوں، بد گمانی نہیں کرنا، لیکن مجھے ڈر لگتا ہے کہ یہ شاید نہ کہی گئی ہو کہ آپ جس ملک میں ہیں ، جس سر زمین پر رہ رہے ہیں، اس میں آپ کو ” شان امتیازی“ کے ساتھ رہنا چاہیے ، ”فرقان“ جسے کہتے ہیں، ایسی شان طاری ہونی چاہیے کہ لوگوں کے عقائد بدل جائیں ، اخلاق بدل جائیں، نگاہیں بدل جائیں ، احساسات بدل جائیں کہ مسلمان اتنی بڑی تعداد میں اس ملک میں ہوں اور وہ اثر ڈال نہ سکیں ، الله عالم الغیب والشہادة ہے اور خالق فطرت ہے، وہ فرمارہے کہ:﴿ان تتقوا الله یجعل لکم فرقاناً﴾ کہ اگر تم الله سے ڈروگے تو وہ تمہارے اندر امتیازی شان پیدا کر دے گا۔

ایسا حال طاری ہو جائے گا کہ دیکھتے ہی لوگوں کی اصلاح ہو گی اور خدا کا خوف پیدا ہونے لگ جائے گا، آج ہمارے اندر قوت تاثیر کا جو فقدان ہے ، یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ہم نے ﴿ان تتقوالله﴾ پر پورا عمل نہیں کیا ،اگر ﴿ان تتقوا الله﴾ پر عمل ہو اور ہم خدا سے ڈریں، اس کے نبی صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات پر ، ان کی لائی ہوئی شریعت پر عمل کریں اور صرف عقائد ہی نہیں ، ایمانیات ہی نہیں ، جذبات واحساسات، معاملات وتعلقات، اخلاق وکردار، ان سب میں وہ فرق ہو جائے جو تم سے مطلوب ہے ، پھر نتیجہ یہ ہو گا کہ انگلیاں اٹھیں گی ، انگلیاں ہی نہیں، قدم اٹھیں گے اور زندگی کا رخ بدل کر تمہاری طرف ہو جائے گا اور لوگوں کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا ، وہاں کی اکثریت کو اپنا سنبھالنا مشکل ہو جائے گا، ان کو تھامنامشکل ہو جائے گا کہ اسلام تیزی سے پھیلنے لگے گا، گھر گھر ، چپہ چپہ خدائے واحد کا نام لیا جائے گا اور یہ نفس پرستی ، جاہ پرستی ، دولت پرستی ، شہوت پرستی، منصب پرستی، سیاست پرستی، جس کی اس وقت وبا پھیلی ہوئی ہے، وہ وبا کم ہو جائے گی اور لوگوں کو اپنے مقاصد کو ،اپنے اغراض کو ، اپنے مفادات کو تھامنا مشکل ہو جائے گا، کہ مسلمان اگر ہیں اور وہ اسلامی سیرت پر ہیں اور اسلامی عقیدہ پر ہیں تو ان کے اثرات ایسے مرتب ہوں گے کہ سیاسی لیڈروں کو ، دانش وروں اور ادیبوں کو ، قائدین کو ، سماجی کارکنوں کو اور دوسرے لوگوں کو تھامنا او رمشکل ہو جائے گا۔

آج ایسا دیکھنے کو کیوں نہیں مل رہا ہے ؟ یہ اس لیے ہے کہ ہماری زندگی اسلامی سانچے میں ڈھلی نہیں ہے ، ہمارے عقائد بھی صحیح ہونے چاہییں ہمارے معاملات بھی صحیح ہونے چاہییں، ہمارے ”اہداف“ او رزندگی کے نشانے بھی صحیح ہونے چاہییں او رمختلف ہونے چاہییں، ممتاز ہونے چاہییں کہ یہاں راستہ میں سڑک وگلی میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے، جس سے لوگ ٹھوکر کھائیں اور پہلے تو یہاں وہ چیز پڑی ہوئی تھی ، جس سے ٹھوکر لگ سکتی تھی، وہ اب نہیں ہے ، ضرور یہاں سے کوئی مسلمان گزرا ہے ، اسی طرح کوئی مصیبت زدہ ہے او رکوئی اس کی طرف توجہ نہیں کرتا، کسی کو اس کی فکر نہیں ، اگر توجہ کی یا فکر رکھی تو وہ مسلمان نے اور لوگ کہہ اٹھیں کہ ضرور اس کے پاس سے کوئی مسلمان گزرا ہے ، مال کی محبت دوسروں کے مقابلہ ان میں بہت کم ہو ، جو بعض اندر کی کمزوریاں او رخامیاں ہوتی ہیں ، ان میں کھلا ہوا فرق ہونا چاہیے اور نفسانی خواہشات او رخود غرضی او رحرص وہوس جیسی دوسری کمزوریوں میں بھی نمایاں فرق ہونا چاہیے ، یہ کہہ دینا کافی ہو کہ یہ مسلمان ہے۔

آپ تاریخ میں پڑھیں گے تو معلوم ہو گا کہ ملک ملک میں انقلاب آگیا ہے، آپ خود خیال کیجیے ، کہاں یہ جزیرة العرب جہاں سے اسلام نکلا، کہاں یورپ میں اسپین ( اندلس) کا ملک جہاں لاکھوں کے حساب سے لوگ اسلام میں داخل ہوئے او رپھر جہاں کی زبان تک عربی ہو گئی اور پورا کا پورا ملک مسلمانوں کے ہاتھوں میں آگیا، اس طرح کہاں جزیرة العرب اور کہاں ترکی، کہاں جزیرة العرب او رکہاں الجزائر او رمغرب اقصیٰ (مراکش)، ہم نے اکثر ممالک دیکھے ہیں ، ایک اسپین (SPAIN) کے سوا کہ جہاں باقاعدہ اس کی کوشش کی گئی کہ نہ یہاں مسلمان باقی رہیں اور نہ ان کا کوئی اثر باقی رہنے دیا جائے، اس میں خود مسلمانوں کی غلطی کو بھی دخل تھا، باقی آج تک ان دوسرے ملکوں میں اسلام باقی ہے او راسپین میں بھی اسلام کے پھیلنے کی خبریں آرہی ہیں، آپ زمینی مسافت دیکھیے، زمانی مسافت دیکھیں، زبان کا فرق دیکھیں، تربیت کا فرق دیکھیں تو زمین وآسمان کا فرق ہے، لیکن پورے پورے ملک مسلمان جو ہوئے تو یہ مسلمانوں کے اخلاق کی وجہ سے ، تبلیغ ودعوت کی وجہ سے ، تربیت کی وجہ سے، عملی نمونہ پیش کرنے کی وجہ سے،حیرت ہوتی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اس ملک میں مسلمان آباد ہیں اور وہ اثر ڈال نہ سکیں، ہم تو اس مجمع کو کہتے ہیں جو بات سن رہا ہے کہ یہی کافی ہے ، ہاں! اگر سچے مسلمان بن جائیں اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے لگ جائیں۔

اسی کو الله تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿ان تتقوا الله یجعل لکم فرقاناً﴾․ کہ اگر تم تقویٰ اختیار کروگے تو وہ تمہارے اندرشان امتیازی پیدا فرمادے گا۔ اور فرماتا ہے: ﴿الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا﴾․ کہ میں تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر چکا ہوں، اور تم پر اپنی نعمت تمام کر چکا ہوں او راسلام کوتمہارے لیے بطور دین کے پسند کر چکا ہوں ۔

ایک دوسری جگہ پر الله تعالیٰ فرماتا ہے :” اے وہ لوگوں! جو ایمان لے آئے ہو! داخل ہو جاؤ اسلام میں پورے کے پورے اور شیطان کے پیچھے نہ چلو ، وہ تو تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔“

اس آیت کریمہ میں ”کافة“ فرمایا گیا ہے ، یہ بڑا جامع لفظ ہے ، اس“کافة“ میں سب آگیا ہے ، کافة عملی طور پر بھی، اعتقادی طور پر بھی، اخلاقی طور پر بھی، اجتماعی طور پر بھی ، قانونی طور پر بھی ، جو لوگ عربی زبان جانتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ”کافة“ کا کلمہ کتنا مضبوط ہے ، کتنا وسیع ہے ، کتنا حاوی ہے ، یہ حاوی اور شامل ہے ، داخل ہونے والوں پر بھی اور اس پر بھی جس میں داخل ہوا جائے ، سو فی صدی مسلمان سو فی صدی اسلام میں داخل ہو جاؤ، اس میں نہ کوئی تناسب ہے کہ ستر فی صدی مسلمان ،اسی فی صدی مسلمان، ایسا کچھ نہیں، بلکہ تمام مسلمان پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائیں ، توارث ( ترکہ کی تقسیم) ایسی ہونی چاہیے، واجبات وفرائض پورے ادا ہونے چاہییں، ماں باپ کا جو حق ہے وہ، مردوزن کا جو حق ہے وہ ، بیوی کا شوہر پر ، شوہر کا بیوی پر جو حق ہے وہ ، پڑوسی کا جو حق ہے وہ، محلہ والوں کا جو حق ہے وہ، شہریوں کا جو حق ہے وہ ، ملک والوں کا ، وطن والوں کا جو حق ہے وہ ، سب پورے اور صحیح صحیح ادا ہونے چاہییں۔

یہ الله تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اسلام میں ( الله کے سامنے سرجھکا دینے میں ) پورے کے پورے داخل ہو جاؤ اور یہ وہی فرما بھی سکتا ہے کہ وہ عالم الغیب ہے اور سب کا پیدا کرنے والا اور ہر چیز کا بنانے والا ہے اور سبھی کچھ اس کے قبضہٴ قدرت میں ہے ، جب ”ادخلوا فی السلم کافة“ فرما دیا تو بظاہرپھر ﴿ولا تتبعوا خطوات الشیٰطن﴾ کہنے کی ضرورت نہیں تھی ، لیکن اس نے ضرورت سمجھی اور وضاحت کی کہ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہونے کے ساتھ اس بات کا خیال رہے کہ شیطان کی پیروی نہ ہونے پائے ، اس کے نقش قدم پر نہ چلا جائے ، شیطان کے نقش قدم پر چلنا نہیں ہے، بلکہ تمہارے لیے اسوہٴ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہے ، الله تعالیٰ فرماتا ہے :﴿لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة لمن کان یرجوالله والیوم الآخر﴾ کہ تمہارے لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں پورا نمونہ موجود ہے ۔

بس یہاں سے یہ عہد کرکے جائیے کہ ایسی زندگی اختیار کریں گے کہ صرف گھر ہی نہیں ، پورا ماحول ، پورا معاشرہ، آس پاس کا قرب وجوار، پورا شہر ، سب کا سب متاثر ہو اور سبھی پر اثر ہو ، لوگ کہیں کہ مسلمان کی زندگی کچھ اور ہوتی ہے، جہاں لوگ گر جاتے ہیں او رجہاں لوگ ٹھوکر کھاتے ہیں ، وہاں یہ ثابت قدم رہتا ہے ، جہاں دوسرے ضمیر فروشی کرتے ہیں، وہاں یہ مسلمان بکتا نہیں اور اسے کوئی خرید نہیں سکتا، نہ حکومتیں اس کو خرید سکتی ہیں، نہ سیاسی ادارے اور نہ ہی سیاسی پارٹیاں ، نہ دولت مند اس کو خرید سکتے ہیں اور نہ کوئی حسن وجمال اور نہ ہی عزت وکمال، کوئی اسے خرید نہیں سکتا ، یہ بس ایک مرتبہ بک گئے ، ان کا پیدا کرنے والا ان کو خرید چکا، جس نے ان کو دین کی نعمتیں عطا کی ہیں ، الله تعالیٰفرماتا ہے: ﴿ان الله اشتری من المؤمنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنة﴾ کہ الله تعالیٰ نے مومنوں سے ان کے جان ومال کو خرید لیا ہے، جنت کے عوض میں ۔

اب اس کے بعد نہ کوئی طاقت، نہ کوئی منفعت او رکوئی بھی ان کو خرید نہیں سکتا، یہ کیرکٹر ہونا چاہیے مسلمان کا ، اگر آج یہ ہوتا تو پورا ملک مسلمانوں سے محبت کرنے والا ،ان کے لیے جان دینے والا او راسلام سے پورا فائدہ اٹھانے والا ہو جاتا اور جہاں کہیں ایسا ہوا اسی طرح ہوا ، کہ لوگوں نے مان لیا کہ ان کا دین سچا ہے، ان کے یہاں اصول پسندی ہے ، خدا ترسی ہے ، ان میں آخرت شناسی ہے ، حقیقت شناسی ہے اور آج جو اسلام باقی ہے ہمارے ہی ملک میں نہیں ، ساری دنیا میں جو باقی ہے ، اس میں بہت بڑا دخل اسلام کے نمونہ کو ہی ہے ، ایک فرد چلا گیا، ایک ایک کونہ میں، ہزاروں لاکھوں لوگ مسلمان ہو گئے ، دورنہ جائیے، ہندوستان ہی کو لے لیجیے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر ( راجستھان) آئے او رلاکھوں کی تعداد میں لوگ مسلمان ہوئے ۔ اسی طریقہ سے امیر کبیر سید علی ہمدانی  کشمیر گئے اور وہاں کی اکثریت نے اسلام قبول کیا، ایسے ہی کس کس کا نام لیا جائے کہ ایک دو گئے، انہوں نے کچھ لوگ تیار کیے اور پھر اسلام اس طرح پھیلنے لگا کہ گھر گھر محلہ محلہ پھیلا۔

بس ہمیں اپنی زندگی ایسی بنا لینی چاہیے کہ ﴿یجعل لکم فرقاناً﴾ والی صورت پیدا ہو جائے کہ خدا شان امتیازی پیدا کر دے گا، انگلیاں اٹھیں گی، کان کھڑے ہوں گے ، آنکھیں کھلیں گی ، اشارے ہوں گے ، اس سے بڑھ کر کہ لوگ قدموں پر گریں گے ، کہ یہ مسلمان ہے ، اس کے عقائد یہ ہیں ، اس کے احوال یہ ہیں ، اس کے اخلاق یہ ہیں اس کے جذبات یہ ہیں ، اس کے احساسات یہ ہیں ، اس کی خواہشات یہ ہیں ، اس کے معیار یہ ہیں ، یہ ہونا چاہیے ،یہ پیغام لے کر یہاں سے جائیے۔

مزید اس وقت کچھ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھتا ، جماعت تبلیغ کے جو اصول ہیں ، بنیادی نکات ہیں، اس پر بھی کچھ کہنا نہیں کہ اس پر بہت کہا جاچکا ہے او رجو رہ گیا ہو گا وہ بھی کہہ دیا جائے گا، ہم نے وہیں سے سیکھا ہے ، آپ بھی وہیں سے سیکھ رہے ہیں ، لیکن یہ بات کبھی نہ بھولیے گا، بلکہ اس کو اپنی گرہ میں باندھ لیجیے ، کہ آپ کی زندگی میں ایک امتیاز ہونا چاہیے ، ایک کھلا ہوا فرق ہونا چاہیے ، جس کے لیے قرآن حکیم کے لفظ سے بڑھ کر کوئی دوسرا بلیغ لفظ ہو ہی نہیں سکتا ، وہ ہے فرقان کہ آپ کی زندگی میں ایک فرقان ہوناچاہیے ، جو دیکھے کہے کہ یہ مسلمان ہے ، یہ مسلمان کا کام نہیں ، صد ہا نہیں،ہزارہا واقعات ہیں تاریخ میں ، کہ مسلمانوں نے وہ کیا جو کوئی نہیں کر سکتا تھا کہ ایسی بھی کوئی قربانی ہو سکتی ہے، ایسی بھی کوئی ہمت کرسکتا ہے ، ایسا بھی کوئی ایثار کر سکتا ہے ، لیکن مسلمان نے کیا ، تاریخ میں سب موجود ہے، یہ ریکارڈ ہے جوہسٹری(تاریخ) میں محفوظ ہے ، مسلمانوں کے مابہ الامتیاز، بلکہ ممتاز او رمعیار طرز عمل سے لوگ ہزار ہا ہزار کی تعداد میں مسلمان ہوئے ہیں ، تاریخ میں آپ پڑھیں ، مسلمان نے فتح پانے کے باوجود کیسے رحم کا سلوک کیا، کیسی انسانی ہمدردی کامظاہرہ کیا ، کہ لوگ جو ق درجوق مسلمان ہونا شروع ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ ہم کو مسلمان کر لیجیے ، جو لڑنے آئے تھے ،وہ قدموں پر گرے او راسلام قبول کیا۔

یہاں مجھے صرف یہی کہناہے اور اسی پر بات ختم کرنی ہے کہ آپ یہاں سے یہ عہد وپیمان کرکے جائیے او رجانے سے پہلے یہ طے کر لیں اور تہیہ کر لیں کہ ہم کو اب اپنی زندگی ایسی بنانی ہے کہ نگاہیں اٹھیں ، انگلیاں اٹھیں، بلکہ قدم اٹھیں کہ ان کی طرف چلو ، ان سے سیکھو او ران سے فائدہ اٹھاؤ، تب جا کر ان شاء الله یہ رویہ ہمارا ہر طرح سے انقلاب انگیز ہو گا، ہر طرح سے مبارک ہو گا ، وہ یوں بھی مبارک ہے او رنہایت مبارک ہے ، یہ معمولی بات نہیں ہے کہ الله کے نام پر اور دین کی دعوت پر اتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو جائیں، ہم اس پر الله کا شکر ادا کرتے ہیں اور فخر کرتے ہیں ، ہمارے بزرگوں کی روح خوش ہور ہی ہو گی کہ آج یہاں اتنا بڑا اجتماع ہو رہا ہے، لیکن اس کے ساتھ اس کی بڑی ضرورت ہے کہ آپ کی زندگیوں میں انقلاب آئے اور یہ انقلاب لازم نہ ہو، بلکہ متعدی ہو کہ دیکھ کرکے لوگ متاثر ہوں، عقائد کے اعتبار سے بھی ، اخلاق کے اعتبار سے بھی ، اعمال کے اعتبار سے بھی ، معاملات کے اعتبار سے بھی ، ارادوں کے اعتبار سے بھی او رکوششوں کے اعتبار سے بھی اور ہر طرح سے آپ کی زندگی سب کے لیے مشعل راہ بنے اور دعوت اسلام کا کام دے ، مقناطیس کا کام دے اور مقناطیس کی حیثیت ہی کیا ہے ؟ اگر وہ لوہے کو کھینچ سکتا ہے تو کیا مسلمان کسی قوم کو ، کسی آبادی کو کھینچ نہیں سکتا، سیکڑوں مقناطیس ایک مسلمان کے ایمان پر فدا ہیں ، اگر مسلمان میں اتنی طاقت نہیں، ان میں مقناطیسیت نہیں تو ہونی چاہیے، مقناطیسیت بھی ضروری ہے ، جاذبیت ہونی چاہیے، الله ہمیں اور آپ کو توفیق دے ۔ آمین۔
Flag Counter